عیسائیت اور پاپائیت کا مکروہ چہرہ
(Muhammad Abdullah, Lahore)
عسائیت اور پاپائیت کے مکروہ چہروں کو سر بازار بے نقاب کرتی تحریر |
|
اگرہم اپنے گردوپیش میں اقوام عالم
پرنظر دوڑائیں توہمیں بہت سے مذاہب اور گروہ نظرآتے ہیں جوکسی نہ کسی سوچ
اور عقیدے کو لے کر مصروف عمل ہیں۔ان مذاہب اورگروہوں کی مقبولیت کا گراف
اوپرنیچے ہوتارہتاہے۔
اسلامک سوسائٹی آف گریٹر اوکلوہوماسٹی (ISGOC)پچھلے چندسالوں میں بڑے بڑے
مذاہب کی مقبولیت اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
4%
Judaism
63%
Buddhism
47%
Christianity
117%
Hinduism
235%
Islam
قارئین کرام! یہ گراف دنیا کے چند بڑے مذاہب کے بارے میں ہے۔ان میں سے ایک
وہ مذہب بھی ہے جو اپنے آپ کو دنیاکاسب سے بڑا مذہب کہتا ہے۔وہ ہے
عیسائیت‘جبکہ اس حالیہ گراف سے ظاہر ہوتا ہے‘ اس کی مقبولیت ہندومت سے بھی
کم ہے۔ آخر کیا وجہ ہے وہ مذہب جو کئی براعظموں پر پھیلا ہوا ہے‘ اس کی
مقبولیت کا گراف اتنا نیچے ہے؟اس بات کوسمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ان
کی فکر اور عقیدے کی حقانیت کو پرکھنا ہوگا۔عیسائیت کے ایک بڑے اورمعروف
فرقے کا عقیدہ تثلیث پر مبنی ہے۔علاوہ ازیں دوسرا عقیدہ حضرت عیسیٰu کو
اللہ کابیٹا ماننے کا ہے جو کہ باطل اورگمراہ عقیدہ ہے اوراللہ رب العزت پر
بہت بڑا بہتان ہے۔اللہ تعالیٰ اس باطل عقیدے کا قرآن مجید میں یوں ردکرتے
ہیں۔
قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدoاللَّہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ
یُوْلَدْoوَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌo(سورہ اخلاص)
”کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ
وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔“
اگرہم ان کی ناکامی کی دوسری وجہ دیکھیں تو وہ ہے سیدھے راستے سے ہٹ
جانااور اپنے مذہبی عالموں کودین میں تحریف کااختیاردے دینا جس کاذکر اللہ
تعالیٰ قرآن پاک میں ارشادفرماتے ہیں کہ:
اتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ
اللَّہِ۔(التوبہ:31)
”ان لوگوں نے اپنے عالموں کو رب بنالیاہے۔“
ان کے زوال کی تیسری بڑی وجہ ان کے رہنماؤں اورعالموں کااخلاقی زوال اوران
کاعیاش پرست ہوناہے کیونکہ جب کسی قوم کے راہنما ہی اخلاقی زوال کی حدوں
کوچھونے لگیں‘جب راہنما ہی اپنے منہج اور عقیدہ کی دھجیاں بکھیرنی شروع
کردیں اورجب یہ راہنما ہی مذہب کی ناموس کی چادر کوتارتارکرناشروع کردیں تو
پھر اس مذہب کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔کچھ یہی حشرعیسائیت کے ساتھ
اس کے راہنماؤں اورپادریوں نے کیا۔جب ہم ان پادریوں کی نجی زندگی اور حالات
کا مطالعہ کرتے ہیں توہمارے سامنے ان کا وہ مکروہ چہرہ آتاہے کہ:
راہزن شرمسار سے ہوں گے
راہبر و راہنما کا نام نہ لو
عیسائیت میں مذہبی علماء کوپادری یافادر کہتے ہیں اوربڑے پادری کوبشپ یاپوپ
کہاجاتاہے۔ عیسائیت کی اصطلاح میں پادری وہ ہوتاہے جو اپنی سیاسی اورسماجی
دنیاسے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے آپ کو گرجااور عیسائیت کی خدمت اور
تبلیغ واشاعت کے لیے وقف کردے اوراپنی بقیہ زندگی گرجے سے منسلک رہ کر ہی
گزار دے۔یہ ان کاخودساختہ قانون ہے جس کی ان کو اللہ نے کرنے کی اجازت نہیں
دی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوْہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ إِلَّا
ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا۔
(الحدید:27)
”اورانہوں نے اللہکی تلاش میں رہبانیت خود شروع کی‘ہم نے اس کوان پرعائد
نہیں کیاتھامگروہ اس کو بھی اس کے حق کے مطابق نبھا نہ سکے۔“
اورقرآن نے مزیدان کے بارے میں فرمایا کہ:
”وَکَثِیْرٌ مِنْہُمْ فَاسِقُونَ“(الحدید:27)
”کہ ان میں اکثربدکارہیں۔“
جب یہ عیسائی عالم اورپادری ترک دنیا کرکے گرجاگھروں میں پہنچے اورکلیساکی
خدمت کابیڑا اٹھایا تو وہ اپنے کیے ہوئے عہدکوپورا نہ کرسکے کہ ہم دنیاوی
معاملات میں ملوث نہیں ہوں گے‘وہ شہوت زنی اور عورت کوتصورمیں بھی نہیں
لائیں گے۔ان پادریوں کے کردار نے اس عہدکوپورا کرنے کی بجائے اس کی دھجیاں
بکھیر کررکھ دیں اوروہ واقعات کلیسا کی چار دیواری میں رونما ہوئے کہ شیطان
بھی کانوں کوہاتھ لگائے۔ ان واقعات کودیکھتے ہوئے 1431ء میں منعقد ہونے
والی بالی (Bale)مل کونسل نے قراردیاکہ:
The Clergy were all fornicators
”سب کے سب پادری گناہ گار ہیں“
اسی طرح عیسائیت کابہت بڑا رہنما گریگوری دہم لی اون(Lyons)کی دوسری کونسل
میں شریک ہونے والے پادریوں کومخاطب کرکے کہتاہے:
You are the ruin of the world
”تم دنیا کی (اخلاقی)تباہی ہو۔“
کلیساکی چاردیواری کے اندردین کے علمبرداروں کے ہاتھوں حواکی بیٹی کے ساتھ
ہونے والے ان انسانیت سوزمظالم کا رونا”تاریخ اخلاق یورپ“ کامصنف اس طرح
روتاہے۔
”اہل کلیسا میں محرمات سے مباشرت کا چلن اتنا پختہ ہے کہ پادریوں کواپنی
ماؤں بہنوں کے ساتھ رہنے سے روکنے کی خاطرباربار انتہائی سخت قوانین جاری
کرنے کی ضرورت پیش آئی۔“
دوسروں کی بہوبیٹیاں تودرکنار ان کی اپنی مائیں‘ بہنیں ان کی دست درازی سے
محفوظ نہیں ہیں اور کلیسا کی خدمت کرنے والی نوجوان لڑکیاں اورنوجوان لڑکے
بھی بیچارے عیسائیت کے ان علمبرداروں کے ڈسے ہوئے ہیں۔اس کی تازہ مثال
چندروز قبل کلیسامیں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہیں جن پرپوری دنیا میں
شور مچایا گیاہے۔حکومتوں نے جب کلیساکے ٹھیکیداروں سے جواب مانگا توان کو
معافی مانگنا پڑی اورانہی واقعات کی وجہ سے عیسائیت کے ایک فرقے کے سب سے
بڑے پوپ فرانسس نے استعفیٰ دینے کافیصلہ کرلیا۔
قارئین کرام! اس طرح کے واقعات پچھلے چند سالوں سے اس تسلسل کے ساتھ پیش
آئے کہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں 1950ء سے لے کر اب تک کیتھولک
پادریوں نے 15ہزار افراد کو زیادتی کانشانہ بنایا۔اس طرح کے واقعات دیکھ کر
اقوام متحدہ کو یہ بیان جاری کرناپڑا کہ ویٹی کن بدکردارپادریوں کامحافظ
ہے۔پادریوں کی ان بدترین اخلاقی حالت کودیکھتے ہوئے ”کیمبرج ماڈرن ہسٹری“
کی جلد10کے صفحہ 164 پرلکھاہے:
"The most hideous sewer that ever offended the eyes of a Man"
”وہ(پادری) ایسی بدترین اخلاقی بدروح تھے جوکبھی کسی انسانی آنکھ نے نہ
دیکھی ہو۔“
اسی طرح ایک اورمصنف Rationbalist- -ency(سپیشلسٹ انسائیکلوپیڈیا)میں
لکھتاہے:
”یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہ مذاہب جن کے بارے میں ہم کافی علم رکھتے
ہیں۔ہندومت‘بدھ مت‘ تاؤمت‘زرتشت یااسلام ان میں سے کوئی بھی اپنے اعلیٰ
روحانی پیشواؤں کے اخلاق اوران کے مناصب کے معاملہ میں اتنے بگاڑ اورخرابی
کامنظرپیش نہیں کرتاجتنا پاپائیت (پادریوں)کی تاریخ پیش کرتی ہے۔“
قارئین کرام!پادریوں کی بدکاری کی اتنی رپورٹیں اوراتنے واقعات ہیں کہ
ہماراقلم ان کااحاطہ نہیں کرسکتااورنہ ہی ہمارااخلاق ہمیں اجازت دیتاہے کہ
ہم ان واقعات کو نوک قلم میں لائیں۔ان مذہب کے علمبرداروں کی ان بدکاریوں
کا ان کے معاشرے پربرا اثرپڑاکہ آج عیسائیت کا پورا معاشرہ اخلاقی زوال کا
شکار ہے۔ ہم جنس پرستی اوربدکاری کے واقعات حکومت کی زیرسرپرستی رونماہورہے
ہیں اور معاشرے کی اخلاقی تباہی کاباعث بن رہے ہیں۔
”ایکسپریس“ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ جیسی بزعم خود”مہذب ترین قوم“ کے
حامل ملک میں 2005ء میں 83ہزار 6سو بچوں پرجنسی جارحیت کی گئی اوریہ وہ
تعدادہے جورپورٹ ہوئی ہے۔اسی طرح تائیوان میں سومیں سے 25 فیصد نوجوانوں نے
کم سنی میں جنسی زیادتی کانشانہ بننے کا اعتراف کیا۔
قارئین!یہ عیسائیت اورپاپائیت کامکروہ چہرہ ہے جس کی وجہ سے ان معاشروں کے
وہ لوگ جن کے دلوں میں اصلاح کی گنجائش ہے‘وہ عیسائیت اوردوسرے مذاہب
کوچھوڑ کر اسلام کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پچھلے
چندسالوں سے لے کراب تک بے انتہا مقبول ہواہے اور ان شاء اللہ وہ دن دور
نہیں جب پوری دنیاپراسلام کاپرچم لہرائے گا کیونکہ اللہ کے نبی کی حدیث ہے
کہ:
اَلْإِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلَی عَلَیْہ۔(بخاری)
”اسلام غالب ہونے کے لیے آیاہے‘مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔“
اورباطل توہے ہی دنیاسے مٹنے کے لیے:
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ
زَہُوْقًاo (الاسراء:81)
”اور کہہ دے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے والا تھا۔“ |
|