وسیلہ کیا ہے؟ مفہوم، اقسام و شرعی احکام - 2
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
وسیلے کی ناجائز صورتیں
ان مذکورہ تین صورتوں کے علاوہ وسیلہ کی تمام قسمیں غیر مشروع، ناجائز اور
بدعت ہیں۔ بعض صورتیں یہ ہیں کہ حاضر یا غائب، زندہ یا فوت شدہ کی ذات کا
وسیلہ پیش کیا جائے یا صاحب قبر کو یہ کہا جائے کہ آپ میرے حق میں دعا اور
سفارش کریں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
حیات طیبہ میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش نہیں کیا، سلف
صالحین اور ائمہ محدثین سے بھی یہ قطعاً ثابت نہیں۔ پھر وسیلے کی ان ناجائز
اور غیر مشروع صورتوں کو اپنانا، دین کیسے بن سکتا ہے؟
وسیلے کی یہ صورتیں ایک تو اس وجہ سے غیر مشروع اور ناجائز و ممنوع ہیں کہ
یہ بدعت ہیں، قرآن و حدیث میں ان کا کوئی ثبوت نہیں اور صحابہ کرام اور سلف
صالحین کا ان پر عمل نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.
’’جو آدمی کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا امر نہ ہو، وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح
مسلم : 77/2، 1877/18)
اسی سلسلے میں صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عباس کا فرمان بھی ملاحظہ
فرماتے جائیے جو امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م: 238 ھ ) نے اپنی سند
کے ساتھ بیان کیا ہے:
أخبرنا عيسی بن يونس، نا ابن جريج، عن عطاء، قال : سمعت ابن عباس يقول :
عجبا لترك الناس ھذا الإھلال، ولتكبير ھم ما بي، الا أن يكون التكبيرة
حسنا، ولكن الشيطان ياتي الإنسان من قبل الإثم، فاذا عصم منه جاءه من نحو
البر، ليدع سنة وليبتدي بدعة۔
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : لوگوں کے اس تلبیہ کو چھوڑ کر
تکبیر کہنے پر تعجب ہے۔ میرے نزدیک تکبیر اچھی چیز ہے، لیکن شیطان انسان کے
پاس گناہ کے دروازے سے آتا ہے۔ جب وہ اس داؤ سے بچ جائے تو وہ اس کے پاس
نیکی کے دروازے سے آتا ہے، تاکہ وہ سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اپنا لے۔“
(مسند اسحاق بن راھویہ : 482، وسندہ صحیح)
یاد رہے کہ امام ابن جریج رحمہ اللہ ’’مدلس ‘‘ ہیں، لیکن ان کی امام عطا بن
ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت سماع ہی پر محمول ہوتی ہے، اگرچہ وہ لفظوں میں
سماع کی تصریح نہ بھی کریں۔
وہ خود بیان کرتے ہیں:
عطاء فانا سمعته منه، وان لم أقل سمعت
’’میں نے امام عطاء بن ابی رباح سے سنا ہوتا ہے، اگرچہ میں سننے کی صراحت
نہ بھی کروں۔‘‘ (تاريخ ابن أبي خيثمة : 242/2، 247، و سنده صحيح ) لہٰذا اس
روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ والحمدللہ !
وسیلے کی ان صورتوں کے غیر مشروع اور ناجائز ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ
غلوّ پر مبنی ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
واياكم والغلو في الدين، فانما أھلك من قبلكم الغلو في الدين
”تم دین میں غلوّ کرنے سے بچے رہنا، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں
غلوّ ہی نے ہلاک کر دیا تھا۔“
(مسند الامام احمد: 215/1، سنن النسائي : 3059، سنن ابن ماجه: 3029، مسند
ابي يعلي : 2427، المستدرك علي الصحيحين للحاكم : 466/1، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن الجارود (م : 473 ھ) ، امام ابن حبان (م : 3871 ھ) ،
امام ابن خزیمہ (م : 2867 ھ) نے ’’صحیح ‘‘ اور امام حاکم نے اس کو امام
بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح ‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی
موافقت بھی کی ہے۔
ہر بدعت کا منشاء دین میں غلوّ ہوتا ہے۔ غلوّ سے مراد یہ ہے کہ عبادات میں
شریعت كي بيان کردہ حدود و قیود اور طریقہ ہائےکار پر اکتفا نہ کیا جائے،
بلکہ ان کی ادائیگی میں خودساختہ طریقوں کا اضافہ کر دیا جائے۔ چونکہ دین
میں غلوّ ہلاکت و بربادی کا موجب ہے، لہٰذا عبادات کو بجا لانے کے سلسلے
میں قرآن و سنت ہی پر اکتفا ضروری ہوتا ہے۔
وسیلہ اور قرآن کریم
بعض لوگ وسیلے کی ان صورتوں کے قائل و فاعل ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت
نہیں۔ دیگر گمراہ کن عقائد کے حاملین کی طرح یہ لوگ بھی اپنے ہمنواؤں کو
طفل تسلی دینے کے لیے اپنے دلائل قرآن کریم سے تراشنے کی کوشش کرتے ہیں،
حالانکہ ان کی اختیار کردہ صورتیں کتاب و سنت سے صریحاً متصادم ہیں۔ اصلاح
احوال کی خاطر ان کی طرف سے دئیے جانے والے قرآنی دلائل کا علمی اور تحقیقی
جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر ۱
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ
الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (المائدہ
35:5 )
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس
کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘
تبصرہ : باتفاقِ مفسرین اس آیت کریمہ میں وسیلے سے مراد ذاتی نیک اعمال کے
ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ بعض لوگوں کا اس سے فوت شدگان کے وسیلہ
پر دلیل لینا قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے۔ آئیے اب مفسرین کرام
کے اقوال بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں:
امام المفسرین، علامہ ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ (م
۳۱۰ھ) لکھتے ہیں:
﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ يقول : واطلبو القربة إليه بالعمل بما
يرضيه، والوسيلة : ھي الفعيلة من قول القائل : توسلت إلي فلان بكذا، بمعني
: تقربت إليه۔۔۔۔ وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أھل التاويل، ذكر من قال ذلك
: حدثنا ابن بشار، قال : ثنا أبو أحمد الزبيدي، قال : ثنا سفيان،۔۔۔ عن
منصور، عن أبي وائل : ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (المائدہ 35:5
)، قال : القربة في الأعمال۔
” ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (المائدہ 35:5 )
”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو راضی
کرنے والے اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔ وسیلہ توسل سے فعيلة کا وزن
ہے جس کا معنی ہوتا ہے: کسی چیز کے ذریعے کسی ذات کا تقرب حاصل کرنا۔۔۔
وسیلے کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کرام وہی کہتے ہیں جو کچھ ہم نے
کہہ دیا ہے۔ ان کا تذکرہ ہم یہاں (اپنی سند سے) کیے دیتے ہیں۔ ہمیں محمد بن
بشار (ثقہ،حافظ ) نے بتایا۔ انہیں ابواحمد زبیری (ثقہ،ثبت) نے اور انہیں
امام سفیان ثوری (ثقہ،حجۃ، فقیہ،عابد) نے بیان کیا، وہ منصور (ثقہ،ثبت) کے
واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ (ثقہ تابعی) امام ابووائل شقیق بن سلمہ رحمہ
اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾
(المائدہ 35:5 ) ”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال کے
ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرو۔“
نحو و لغت اور عربی ادب کے امام، معروف مفسر، علامہ زمخشری (م : ۵۳۸ ھ) اس
آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
الوسيلة : كل ما يتوسل به، أي، يتقرب من قراية أو صنيعة أو غير ذلك،
فاستعيرت لما يتوسل به إلي الله تعالىٰ، من فعل الطاعات وترك المعاصى،
وأنشد للبيد : أري الناس لا يدرون ما قدر أمرھم۔۔۔ ألاكل ذى لب إلي الله
واسل
’’وسیلہ (لغوی معنی کے اعتبار سے) ہر وہ رشتہ داری یا عمل ہے جس کے ذریعے
کسی کا قرب حاصل کیا جا سکے۔ پھر اس کا استعمال نیک اعمال کی بجا آوری اور
معاصی سے اجتناب پر ہونے لگا اور اسی کے وسیلے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا
جاتا ہے۔ لبید کے ایک شعر کا مفہوم ہے: میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنی حیثیت
کا احساس نہیں کرتے، ہر عقل مند کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔‘‘
(الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل : 628/1)
مشہور مفسر و متکلم، فلسفی و اصولی،علامہ فخرالدین رازی (م ۶۰۶ھ) فرماتے
ہیں:
وقال : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا
إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ، كأنه قيل : قد عرفتم كمال جسارة اليھود علی
المعاصي والذنوب، وبعدھم عن الطاعات التي ھي الوسائل للعبد إلي الرب، فكونو
ياأيّھاا المؤمنون ! بالضد من ذلك، وكونوا متقين عن معاصي الله، متوسلين
إلي الله بطاعات الله۔
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا
اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ
سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی مسلمانو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ
یہود معصیت و نافرمانی کے ارتکاب میں کس قدر جرأت سے کام لیتے تھے اور اللہ
تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری، جو کہ بندے کے لیے اپنے ربّ کے تقرب کا
وسیلہ ہوتا ہے، سے کتنا دور تھے۔ تم اس کے بالکل برعکس ہو جانا، اللہ کی
معصیت و نافرمانی سے بچنا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو وسیلہ بنا کر
اس کا تقرب حاصل کرتے رہنا۔“
(مفاتيح الغيب، المعروف بالتفسير الكبير : 348/11، 349)
معروف مفسر، علامہ ابوالحسن،علی بن محمد، المعروف بہ خازن (م : ۷۴۱ھ) لکھتے
ہیں:
قوله تعالىٰ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ أي خافو
الله بترك المنھيات، ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ يعني : واطلبوا
إليه القرب بطاعته والعمل بما يرضي، وانما قلنا ذلك، لأن مجامع التكاليف
محصورة في نوعين، لا ثالث لھما، أحد النوعين : ترك المنھيات، وإليه الإشارة
بقوله : ﴿اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ، والثاني : التقرب إلي الله تعالي بالطاعات،
وإليه الإشارة بقوله: ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا
اللَّـهَ﴾ ”ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو“، یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی
تمام منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ۔ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اور
اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی اس کی فرمانبرداری اور خوشنودی والے اعمال
کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔ ہم نے یہ اس لیے کہا ہے کہ تمام شرعی
پابندیاں آخر کار دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہیں۔ ایک قسم ممنوعات سے
احتراز ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے
رہو اور دوسری قسم احکامات الٰہی پر عمل کر کے اس کا تقرب حاصل کرنا ہے اور
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس کا تقرب حاصل کرو۔“
(لباب التأويل في معاني التنزيل : 38/2)
سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م : ۷۷۴ ھ) لکھتے ہیں:
وھذا الذي قاله ھولاء الأئمة، لا خلاف بين المفسرين
’’ان ائمہ دین نے جو فرمایا ہے، یہ مفسرین کرام کا اتفاقی فیصلہ ہے۔‘‘
تفسير ابن كثير 535/2))
قارئین کرام ! یہ تھے امت مسلمہ کے معروف مفسرین جن کی زبانی آپ نے اس آیت
کریمہ کی تفسیر ملاحظہ فرما لی ہے۔سب نے بالاتفاق وسیلے سے ذاتی نیک اعمال
مراد لیے ہیں۔ کسی بھی تفسیر میں اس آیت کریمہ سے دعا میں فوت شدگان کا
وسیلہ دینے کا اثبات نہیں کیا گیا۔ حیرانی تو یہ ہے کہ ہمارے جو بھائی
فروعی مسائل میں تقلید شخصی کے لازم ہونے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم
ازخود قرآن وسنت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، وہی عقیدے کے اس مسئلے میں
سب مفسرین کو ”بائی پاس“ کرتے ہوئے خود مفسر قرآن بن کر آیت مبارکہ کا ایسا
بدعی اور خود ساختہ مفہوم لیتے ہیں جو اسلاف امت میں سے کسی نے بیان نہیں
کیا۔
ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ سے دعا میں فوت شدہ نیک لوگوں کی ذات یا اعمال کا
وسیلہ پیش کرنے کا جواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا، بلکہ یہ آیت تو علی الاعلان
اس کی نفی کر رہی ہے، جیسا کہ:
علامہ فخرالدین رازی (م : ۵۴۴۔ ۶۰۶ ھ) لکھتے ہیں:
إنه تعالیٰ حكي عنھم، أنھم قالوا : ﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ
وَأَحِبَّاؤُهُ﴾ (المائدة 18:5) أي : نحن أبناء أنبياء الله، فكان افتخار
ھم بأعمال آبائھم، فقال تعالیٰ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ليكن
مفاخرتكم بأعمالكم، لا بشرف آبائكم وأسلافكم، ﴿فاتَّقُوا اللَّـهَ
وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾۔
”اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ : ﴿نَحْنُ
أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ﴾ (المائدة 18:5) ”ہم اللہ کے بیٹے اور
اس کے محبوب ہیں“، یعنی یہود و نصاریٰ اس بات پر خوش ہوتے رہتے تھے کہ وہ
انبیائے کرام کے بیٹے ہیں۔ وہ اپنے آباء و اجداد کے اعمال پر فخر کرتے تھے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایمان والو! اپنے آباء و اسلاف کے شرف پر فخر
نہ کرو، بلکہ اپنے ذاتی اعمال ہی پر نظر رکھو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس
کا قرب تلاش کرو۔“
مفاتيح الغيب : 349/11))
معلوم ہوا کہ نیک بزرگوں کی شخصیات اور اسلاف امت کے اعمال کو اپنی نجات کے
لیے وسیلہ بنانا یہود و نصاریٰ کی روش تھی جسے ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ
نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، لیکن داد دیجیے اس جرأت کی کہ بعض لوگ آج اسی
آیت کریمہ سے فوت شدہ صالحین کا توسل ثابت کر رہے ہیں۔ العیاذباللہ!
دلیل نمبر ۲
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ
الْوَسِيلَةَ﴾ (الإسراء 57:17 )
”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے
ہیں۔“
امام المفسرین، علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ (م : ۲۲۴۔ ۳۱۰ھ) اس آیت
کریمہ کی تفسیر یوں فرماتے ہیں:
يقول تعالیٰ ذكره : ھؤلاء الّذين يدعوھم ھؤلاء المشركون أرباباً
﴿يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ ، يقول : يبتعي المدعوّون
أرباباً إلي ربھم القربة والزلفة لأنّھم أھل إيمان به، والمشركون بالله
يعبدونھم من دون الله
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ( نیک ) لوگوں کو مشرکین اپنے ربّ سمجھے
بیٹھے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں، یعنی وہ نیک لوگ
اپنے ربّ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ اللہ کے ساتھ ایمان لاتے
ہیں،جبکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘
جامع البيان في تأويل القرآن : 471/17))
علامہ ابواللیث نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم سمرقندی رحمہ اللہ (م :
۳۷۳ھ) لکھتے ہیں:
﴿يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ يقول : يطلبون إلي ربھم القربة
والفضيلة والكرامة بالأعمال الصالحة
”یہ نیک لوگ اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں،یعنی وہ نیک اعمال کے
ذریعے اپنے ربّ کا قرب، اس کے ہاں فضیلت اور کرامت حاصل کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔“
(بحرالعلوم : 317/2)
معروف مفسر قرآن، حافظ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی فرماتے (م : ۶۷۱ھ)
فرماتے ہیں:
و ﴿يَبْتَغُونَ﴾ يطلبون من الله الزلفة والقربة، ويتضرعون إلي الله تعالیٰ
في طلب الجنة، وھي الوسيلة
”وہ نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے جنت کی
طلب کے لیے بڑی گریہ و زاری سے کام لیتے هیں، یہی وسیلہ ہے۔“
(الجامع لأحكام القرآن : 279/10)
علامہ ابوسعید عبداللہ بن عمر شیرازی بیضاوی (م : ۶۸۵ھ) لکھتے ہیں:
﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ
الْوَسِيلَةَ﴾ ، ھولاء الآلھة يبتغون إلي الله القرابة بالطاعة
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ
إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ ”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو
اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں“، یعنی یہ نیک لوگ اطاعت و
فرمانبرداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے
ہیں۔“
مشہور تفسیر ’’جلالین‘‘ میں اس آیت کی تفسیر یوں کی گئی ہے:
يطلبون إلي ربھم الوسيلة، القربة بالطاعة
”وہ نیک لوگ (جنہیں مشرکین اپنے معبود سمجھے بیٹھے ہیں ) اپنے ربّ کی طرف
وسیلہ بناتے ہیں، یعنی نیک اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔“
تفسير الجلالين : 372))
علامہ ابوالقاسم محمود بن عمرو زمخشری (م : ۵۳۸ھ) کی طرف سے اس آیت کی
تفسیر یہ ہے:
ضمن يبتغون الوسيلة معني يحرصون، فكانه قيل : يحرصون أيھم يكون أقرب إلى
الله، وذلك بالطاعة، وازدياد الخير والصلاح
”وسیلہ تلاش کرنے میں حرص و طمع کا معنی ہے، گویا کہ یوں کہا گیا ہے: وہ اس
حرص میں ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل ہو جائے۔ اور یہ قرب
اطاعت الٰہی اور خیر و بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے ملتا ہے۔“
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م :
۱۳۵۲ھ) کہتے ہیں:
أما وقله تعالیٰ : ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ، فذلك وإن اقتضى
ابتغاء واسطة، لكن لا حجة فيه على التوسل المعروف، بالأسماء فقط، وذھب ابن
تيمية إلي تحريمه، وأجازه صاحب الدرالمختار، ولكن لم يأت بنقل عن السلف
”فرمانِ باری تعالیٰ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ اگرچہ کسی وسیلے
کی تلاش کا متقاضی ہے لیکن اس آیت کریمہ میں ہمارے ہاں رائج ناموں کے توسل
کی کوئی دلیل نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کو حرام قرار دیتے
ہیں،جبکہ صاحب درمختار نے اسے جائز قرار دیا ہے، البتہ انہوں نے اس بارے
میں سلف سے کوئی روایت بیان نہیں کی۔“
فيض الباري : 434/3))
جناب کشمیری صاحب کو اعتراف ہے کہ متاخرین احناف کا اختیار کردہ وسیلہ سلف
سے منقول نہیں۔کسی ثقہ امام نے اس آیت کریمہ سے توسل بالاموات یا توسل
بالذوات کا نظریہ ثابت نہیں کیا۔ قرآن مجید کی وہی تفسیر و تعبیر معتبر ہے
جو سلف سے منقول ہے۔ اس کے علاوہ سب کچھ فضول ہے۔ صاحب درمختار کا سلف
صالحین کی مخالفت میں اسے جائز قرار دینا درست نہیں۔
اسلاف امت میں سے کسی نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی کسی فوت
شدہ شخصیت کا وسیلہ پیش نہیں کیا۔ لیکن آج بعض لوگ انہی کا نام لے کر اللہ
تعالیٰ کو وسیلہ پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی گنگا الٹی بہتی ہے۔
|
|