بارہ مئی دو ہزار سات جب اس ملک
کے سب سے بڑے شہر میں ایک ہی دن میں پچاس لاشیں گرا دی گئیں۔ ان لوگوں کا
قصور کیا تھا؟ان لوگوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جمہوری طریقے سے اپنا
احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک آمر کے خلاف اٹھ کھڑے
ہونے والے چیف جسٹس کا استقبال کریں اور یہ بتا دیں کہ وہ آمریت کو نا پسند
کرتے ہیں لیکن وہ آمر ہی کیا جو عوام کو ان کا جمہوری حق دیدے۔ اور جب چیف
جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی میں آنے کا پروگرام
بنایا تو جنرل مشرف نے انکو سبق سکھانے کا پروگرام بنایا اور اس مقصد کے
لئے ایک دہشت گرد گروہ کو شہہ دی۔ ویسے یہ اس گروپ کی اپنی بھی بقا کا
مسئلہ تھا کہ اگر کراچی سے لاکھوں لوگ چیف جسٹس کے استقبال کے لئے نکل آتے
تو کراچی کے مینڈیٹ کا پول کھل جاتا، پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر کے لاکھوں
ووٹ حاصل کرنے والوں کے ووٹوں کی قلعی کھل جاتی اس لئے اس دفعہ پولنگ
اسٹیشن کے بجائے پورے شہر کو یرغمال بنایا گیا اور مخالفین کو سبق سکھانے
کے لئے ایک ہی دن میں پچاس سے زائد لاشوں کو تحفہ قوم کو دیا گیا۔
اس حادثے میں متاثر ہونے والوں میں پی پی پی۔ اے این پی اور جماعت اسلامی
کے لوگ شامل تھے،( اگرچہ متحدہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے کارکنان بھی ہلاک ہوئے
ہیں لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے لاوارث لاشوں پر قبضہ کر
کے ان پر اپنے کارکن ہونے کا دعویٰ کیا) اس وقت پی پی پی اور اے این پی
اقتدار میں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسی دہشت گرد گروہ کے ساتھ شریک
اقتدار ہیں جو کہ اس سانحے کا ذمہ دار ہیں۔ اس لئے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ
بارہ مئی کے سانحے کے ذمہ داران کو سزا سنائیں گے بالکل بچکانہ سوچ ہوگی۔
بارہ مئی دو ہزار سات تو پورے پاکستان کو یاد ہے لیکن کیا کسی کو بارہ مئی
دو ہزار چار بھی یاد ہے؟ جی بارہ مئی دو ہزار چار کو بھی اسی گروہ نے شہر
میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بارہ مئی دو
ہزار سات کو پی پی اور اے این پی کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں اور بارہ مئی دو
ہزار چار کو صرف جماعت اسلامی کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ بارہ مئی دوہزار
چار کو شہر میں کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن منعقد ہوئے اور اس میں جماعت
اسلامی نے بھی حصہ لیا تھا۔ اور مخالفین نے جماعت اسلامی کو سبق سکھانے کے
لئے ایک دن میں اس کے نو کارکن قتل کئے۔ شاہ ولایت اسکول گلبرگ میں جماعت
اسلامی کے لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی اور ان کے لوگوں کو پولنگ
اسٹیشنوں پر یرغمال بنایا گیا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس
میں مرد و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔
غریب آباد میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی اور یہاں بھی پولنگ اسٹیشن پر قبضہ
کر کے جماعت اسلامی کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔راقم خود لیات
آباد نمبر چار کے اسکول میں بطور پولنگ ایجنٹ موجود تھا اور وہاں کی
صورتحال یہ تھی کہ جب ہم لوگوں نے جعلی ووٹ بھگتانے کی ان کی کوششوں کو
ناکام بنایا تو انہوں نے تین بجے کے بعد بڑی کاروائی کا منصوبہ بنایا اور
ہم جس جعلی ووٹر کو بھی واپس کرتے وہ ہمارے سامنے ہی اس کو کہتے کہ “کوئی
بات نہیں تین بجے کے بعد آنا ہم دیکھ لیں گے“ ظہر کے وقت جب میں نماز اور
کھانے کے لئے پولنگ اسٹیشن سے نکلنے لگا تو میں نے دیکھا کہ اسکول میں جگہ
جگہ ان کے لوگ کھڑے تھے اور وہ یہی باتیں کررہے تھے “یہ جماعت والے ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی کام نہیں کرنے دے رہے لیکن تین بجے کے بعد ہم ان کو
دیکھ لیں گے“ نماز کے بعد مجھے کہا گیا کہ پولنگ اسٹیشن میں تو آپ کی جگہ
پولنگ ایجنٹ موجود ہے آپ باہر پولنگ کیمپ پر موجود رہیں۔ میں جب پولنگ کیمپ
میں رکا تو مجھے وہاں کی صورتحال کشیدہ نظر آئی اور یہ ماحول تھا کہ متحدہ
کے کارکنان موٹر سائیکلوں پر سوار آتے تھے ہمارے کیمپ پر کھڑے ہوکر فحش
گالیاں دیتے اور نعرے لگاتے لیکن ہم صبر و سکون کے ساتھ اپنے کام میں مصروف
رہے اسی کشمکش میں پانج بج گئے اور پولنگ اسٹیشن کے گیٹ بند کردئے گئے۔ جب
گیٹ بند کئے گئے تو اچانک ایک جانب سے متحدہ کے کارکنان سوزوکیوں میں کئی
لوگوں کو بھر کر لائے اور پولنگ اسٹیشن کے دروازے کھلوانے کی کوشش کی،
ہمارے لوگوں نے پولیس سے کہا کہ جناب جو لوگ پانج بجے تک پولنگ کے لئے آئے
تھے ان کو ہم نے پولنگ اسٹیشن میں بھیج دیا ہے اب گیٹ نہیں کھلے گا۔ اس بات
پر صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور متحدہ کے کارکنوں نے جن کی تعداد کم و
بیش دیڑھ سو کے قریب تھی جماعت کے لوگوں پر دھاوا بول دیا اور گیٹ پر موجود
جماعت کے لوگوں کو شدید زدو کوب کیا جس سے ایک ساتھی ہلاک ہوگئے۔ گیٹ
کھلوانے کے بعد اس گروہ نے پولنگ کیمپ کا رخ کیا اور جماعت کے پولنگ کیمپ
پر موجود لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور براہ راست فائرنگ کی گئی۔
راقم اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بمشکل تمام پتلی پتلی گلیوں سے نکل کر بھاگا
اور اپنی جان بچائی۔ اس دن جماعت اسلامی کے نو لوگوں کو قتل کیا گیا۔ ان
میں لائنز ایریا کے ایک کونسلر بھی شامل ہیں جو کہ گھر میں موجود تھے اور
ان کو گھر سے باہر بلا کر سر پر گولی ماری گئی۔
بارہ مئی دو ہزار چار کا واقعہ میڈیا میں جگہ نہ بنا سکا کیوں اس میں کسی
سیکولر جماعت کے بجائے جماعت اسلامی کے لوگوں کو مارا گیا تھا لیکن اگر
بارہ مئی دو ہزار چار کے قاتلوں کو گرفتار کیا جاتا تو بارہ مئی دو ہزار
سات کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اور اگر بارہ مئی دو ہزار سات کے قاتلوں کو
گرفتار کیا جاتا تو پھر نو اپریل کا سانحہ نہ ہوتا اب بھی اگر یہ قاتل
گرفتار نہ ہوئے تو پھر ملک میں مزید خونریزی ہوگی اور قاتلوں کی حوصلہ
افزائی ہوگی۔ اس لئے ضرروت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں از
خود نوٹس لیکر سانحہ بارہ مئی دو ہزار چار اور بارہ مئی دو ہزار سات کے ذمہ
داران کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ویسے ایک بات تو ہے بارہ مئی دو ہزار چار
کے بعد بارہ مئی کی تاریخ جماعت اسلامی کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی تھی
اور مکافات عمل کے تحت اب بارہ مئی کی تاریخ متحدہ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب
بن گئی ہے اب متحدہ کچھ بھی کرے وہ بارہ مئی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی۔ |