آج پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں بھی
مغرب کی اندھی تقلید رواج پا رہی ہے ہر وہ کام جسے اہل مغرب اپنے مذہبی
تہوار، موسمی تہوار یا کسی اور تہوار کے نام سے مناتے ہیں سادہ لوح مسلمان
ان کی دیکھا دیکھی لاشعوری طور پر اسے پسند کرنا اور اسے منانا شروع کر
دیتے ہیں حالانکہ اگر یہودو نصاری کی تاریخ دیکھی جائے تو یہود اﷲ کے غضب
اور غصے کے مستحق بنے اور نصاری گمراہ قرار پائے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے
سورۃ فاتحہ میں بھی فرمایا ہے۔
یہ دونوں گروہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں سے راضی نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ
مسلمان اپنا دین حق چھوڑ کر ان کے دین باطل کو قبول کر لیں۔ ان کی اس انتہا
پسندی اور اسلام دشمنی کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اس انداز میں فرمایا
ہے۔’’اورتجھ سے یہود اور نصاری ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تو ان کی
ملت کی پیروی کرے ،کہہ دیجیے اﷲ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۲۰)
۱۴ فروری کو منایا جانے والے ویلنٹائن ڈے کو محبوبوں کا خاص دن یا اسے
عاشقوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔اس کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا
ہے۔پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اواخر میں روحانی بادشاہ کلا ڈیس ثانی کے
زیر حکومت رہتا تھاکسی نافرمانی کی بدولت بادشاہ نے پادری کو جیل بھیج دیا۔
جیلر کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا۔ وہ لڑکی
ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لیے آتی تھی جب بادشاہ نے یہ
معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا۔ پادری نے آخری لمحات میں
بھی اپنی محبت کا اظہاراس انداز سے کیا کہ اپنی معشوقہ کے نام ایک کارڈ
ارسال کیا جس پر یہ عبارت تحریر کی: ’’مخلص ویلنٹائن کی طرف سے‘‘
پھر اس کو ۱۴ فروری ۲۷۰ء کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد یورپ کی بہت سی
بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈ بھیجنے کا رواج چل
پڑا۔
اس طرح کی کئی داستانیں مختلف انداز میں بیان کی جاتی ہیں تقریباً سب میں
مرکزی کردار ویلنٹائن ہی ہے ۔ جسے شہید محبت کہا جاتا تھا۔
پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی
کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہروں میں بلکہ اب تو قصبوں میں بھی
بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے پھولوں کی فروخت اور قیمت میں کئی سو گنا
اضافہ ہو جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ایک طوفان بدتمیزی بپا ہوتا ہے۔
شریف الطبع افراد کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سر عام چوکوں میں
اوباش نوجوان اپنی محبت (بلکہ اگر اسے بے حیائی کہا جائے تو زیادہ قرین
قیاس ہے )کا اظہار نوجوان لڑکیوں کو پھول پیش کر کے کرتے ہیں یاپھر سرخ رنگ
کے غبارے پیش کیے جاتے ہیں۔یہ بات توتاریخی حوالے سے ثابت شدہ ہے کہ یہ عید
محبت عیسائیوں کی طرف سے ہمارے اندر آئی ہے جو اسے ایک شہید محبت کے تہوار
کے نام سے مناتے ہیں۔
حضرت ابوسعید خدریؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایا:’’تم ضرور اپنے سے پہلوں
کے طریقے پر چلو گے جیسے بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے
حتی کہ اگر وہ کسی سانڈے کی بل میں داخل ہوئے تو تم بھی داخل ہو گے۔‘‘ہم نے
کہا: اے اﷲ کے رسولؐ! کیا یہود ونصاری (کے نقش قدم پر) آپ ؐ نے فرمایا: پھر
اور کون ہے؟۔‘‘ بخاری : ۳۴۵۶۔
ایسے لوگ جو اسلامی تعلیمات واقدار چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپناتے ہیں ان
کے متعلق رسول اﷲؐارشاد فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی قوم (کے شعار)کی مشابہت
اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے ۔‘‘أبوداود، :۴۰۳۱، حسن صحیح‘حافظ ابن
کثیرؒاس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث کفار کے اقوال وافعال ، لباس، تہوار، عبادات اور ان کے علاوہ
دیگر امور میں مشابہت اختیار کرنے پر وعید اور سخت ممانعت پر دلالت کرتی ہے
جو شریعت نے ہمارے لیے مشروع وجائز قرار نہیں دیے ہیں۔‘‘
ویلنٹائن ڈے کو منانے سے شریعت اسلامیہ کی کئی خلاف ورزی سامنی آتی ہیں
مثلا:
۱۔ نظر بازی
اﷲ تعالیٰ نے نظربازی (جو زنا کی راہ ہموار کرتی ہے) سے باز رہنے کا حکم
دیا ہے اور نبی ؐ نے بھی اس سے منع فرمایا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مقدس میں
فرماتے ہیں:
’’آپ مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اﷲ اس سے پوری
طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور مومنہ عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی
نگاہوں کو جھکا کر رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت
ظاہر نہ کریں۔‘‘
یوم محبت کے موقع پرنظر بازی بھی ہوتی ہے اور زینت کا اظہار بھی بلکہ یہ
روشن خیالی بے حیائی کی آخری حدود کو بھی چھوتی جا رہی ہے کہ اس موقع پر
زنا جیسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب بھی ہونے لگاہے۔ رسول اﷲؐنے اپنے اصحاب کی
اس انداز میں تربیت فرمائی ۔ حضرت علیؓسے فرمایا:
’’نظر کے پیچھے نظر نہ لگاؤ (یعنی دوبارہ نہ دیکھ) تیرے لیے پہلے (معاف) ہے
دوسری نہیں۔‘‘ أبوداود :۲۱۴۹، حسن
حج کے موقع پر حضرت فضلؓ نبی ؐکے پیچھے سواری پر سوار تھے خثعم قبیلے کی
ایک عورت آئی تو فضل بن عباسؓ نے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور وہ
انھیں دیکھنے لگ گئی۔ نبیؐ نے فضل کے چہرے کو دوسری طرف پھیر دیا۔ بخاری:
۱۸۵۵، مسلم: ۱۳۳۴۔
۲۔غیر محرم کے ساتھ خلوت
یوم محبت یا عید محبت کے موقع پر لڑکے اور لڑکیاں خلوت اختیار کرتے ہیں
ریسٹورنٹ وغیرہ کے کمروں کی ایڈوانس بکنگ کرتے ہیں تاکہ اپنی محبت کا اظہار
کر سکیں۔ ان کے خفیہ مناظر کو کیمرے کی آنکھ محفوظ کر لیتی ہے جوان کے لیے
ذلت ورسوائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ رسول اﷲؐ نے سچ فرمایا :
’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرتا مگر ان دونوں کے
ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘الترمذی : ۱۱۷۱، صحیح
اگر حج جیسا پاکیزہ سفر بھی ہوتو تب بھی کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت اور سفر
جائز نہیں۔ رسول اﷲؐنے فرمایا:’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ
کرے اور نہ کوئی عورت سفر کرے مگر اس کے ساتھ اس کا محرم موجود ہو۔ ایک شخص
کھڑا ہوا اس نے کہا: اے اﷲ کے رسولؐ! میں فلاں فلاں غزوہ میں حاضر تھا اور
میری بیوی حج کے لیے چلی گئی ہے توآپؐنے فرمایا:
’’جا اپنی بیوی کے ساتھ مل کر حج کر۔‘‘ بخاری: ۳۰۰۶،
۳۔محبت کی شادی
کچھ لوگ اپنی محبت کی تکمیل گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج سے کرتے ہیں جو کہ
دونوں خاندانوں کے لیے ذلت ورسوائی اور پریشانیوں کا سبب بنتی ہے۔ والدین
کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں یہ سب مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور سیکولر
سوچ کا نتیجہ ہے جبکہ اسلام ہمیشہ سے والدین اور خاندان کے احترام واکرام
کا درس دیتا ہے۔ اس فعل مکروہ کے مرتکب افراد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ رسول
اﷲؐ نے فرمایا:’’جو عورت اپنی ولیوں کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا
نکاح باطل ہے تین بار فرمایا۔‘‘أبوداود: ۲۰۸۳، صحیح
۴۔ بے حیائی اور فحاشی کا فروغ
یوم محبت اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑانے کا دن ہوتا ہے جس میں ہر وقت اسلامی
تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اسے قدیم کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا
ہے جبکہ اسلام اور اسلامی تعلیمات ہی بے حیائی وفحاشی کے سامنے بند کا کام
کرتی ہیں ایسے لوگ جو فحاشی وعریانی کو فروغ دینا چاہتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان
کے بارے میں بڑے واضح الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’بے شک جولوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے
ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اﷲ جانتا ہے اور تم
نہیں جانتے۔‘‘ (النور: ۱۹)
اسلامی تہوار
روشن خیالی سے متاثر بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تفریح ہونی چاہیے اور
جذبات کی قدر ہونی چاہیے ۔ اسلام نہ تفریح سے منع کرتا ہے اور نہ ہی جذبات
کو کچلنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اس کے لیے اسلام خود مواقع فراہم کرتا ہے
جہاں تک جذبات کی بات ہے تو ان کی تسکین کے لیے نکاح کے جائز طریقے کو
اپنانے پر زور دیتا ہے۔ رہی بات تفریح کی ایسی تفریح جو ذکر اﷲ سے غافل کر
دے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں زمانہ جاہلیت
میں مدینہ میں لوگ دو تہوار منایا کرتے تھے ۔ رسول اﷲؐنے صحابہ کرامؓسے
فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں دنوں کے بدلے تمھیں بہتر دن دیے ہیں عید الفطر اور
عید الاضحی۔‘‘ النسائی : ۱۵۵۶، صحیح
زمانہ جاہلیت میں عربوں میں جو تہوار ہوتے تھے ان میں خود شرکت کی اور نہ
ہی اپنے متبعین کو ان میں جانے اورمنانے کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اﷲ
تعالیٰ کے حکم واذن سے الگ سے دو دن مسلمانوں کی تفریح کے لیے مقرر فرما
دیے۔ اسلام خود ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو کسی دوسرے مذہب اور دین کی تقلید
کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو تحفظ امن اور عزت واحترام
اسلام اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے کوئی اور مذہب نہیں دیتا۔ اسلام ہی ہے
جو انسانی تکریم کا حق ادا کرتا ہے اسی لیے ہر وہ عمل باطل ٹھہرتا ہے جو
اسلام کے اصولوں کے منافی ہو چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن مقدس میں فرماتے ہیں:
’’تو کیا وہ اﷲ کے دین کے علاوہ کچھ اور تلاش کرتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور
زمین میں جو بھی ہے خوشی اور ناخوشی سے اسی کا فرماں بردار ہے اور وہ اسی
کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘(آل عمران: ۸۳)
اس سے آگے اﷲ تعالیٰ نے مزید یہ بات ارشاد فرمائی:’’اور جو اسلام کے علاوہ
کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت
میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ (آل عمران: ۸۵) |