فرد جرم

مسلط کیے گیے ایک فیصلے کا احوال بے جوڑ شادی کے نتیجے پیدا ہونے والی صورتحال کا کرب ناک انجام۔
بی بی تمہارے خلاف شہادت ہے کہ تم نے مورخہ 30/05/12 کو اپنے خاوند کو تیزاب سے جلا کر قتل کیا ؟
جی صاب!
کیوں؟
نفرت تھی مجھے اس کے وجود سے۔
نفرت شادی سے پہلے تھی یا بعد میں ہوئی۔؟
پہلے سے تھی!
تو پھر شادی کیوں کر لی ؟
میری مرضی سے نہیں ہوئی مگر کیا کرتی مجبور تھی ماں باپ پر قرض تھا اللہ دتا نے میرے ماں باپ کو پچاس ہزار دیے تھے ماں باپ نے اسکے پلے باندھ دیا!
تو جب پلے بندھ گئی تھی تو گزارہ کرتی بہت آگ لگی تھی کیا؟
کررہی تھی گزارہ مگر اس نے ظلم کے پہاڑ توڑدیے مجھ پر صاحب ہر وقت میری خوبصورتی کا طعنہ گلی سے گزرتے نامعلوم شخص سے بھی میرا تعلق جوڑنا! میں اسے صرف پانچ منٹ کے لیے اچھی لگتی وہ بھی جب. . . . . . . . . . . . . . . . . !

کہتا تھا کہ عورت کا کیا کام کہ وہ اچھی لگے .۔؟ اس دن تو اس نے حد ہی کردی کام سے آیا بولا ایک تسلے میں پانی لا جب پانی لائی تو خود کرسی پر بیٹھ کر تسلے میں پیر رکھ کر کہا میرے پیر دھو ! مینے پیر دھوے جب پیر دھل گیے کہنے لگا کہ اب اس تسلے والے گندے پانی کو پی لے۔ میرے انکار پر بہت مارا بس میں نے فیصلہ کرلیا بازار سے تیزاب اور نیند کی گولیاں لائی اگلےدن چاے میں گولیاں ڈال کر پلا دیں جب وہ مدہوش ہوا تو اسکے ہاتھ پاوں چارپائی سے باندھے اور سر سے لے کر پاوں تک تیزاب انڈیل دیا اف کیا سرور تھا اس کی چیخ وپکار میں وہ جتنا چیختا مجھے اندر اک سکون سا محسوس ہورہا تھا۔

اچھا؟ تو جب تم نے اسے ماردینے کا ارادہ کرہی لیا تھا اور وہ بے بس بھی تھا تو پیٹ میں چاقو مار کے قصہ ختم کردیتیں تیزاب ہی کیوں؟
صاب تم نہیں سمجھو گے مجھے جرم قبول ہے وہ پرسکون تھی
فیصل قریشی
About the Author: فیصل قریشی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.