وسیلہ (شرع)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے وہ لوگوں جو ایمان لے آئے ہو اللہ
تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو(اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) تاکہ
تم کامیاب ہو جاؤ۔(المآئدۃ:۳۵)
سورۂ بنی اسرآئیل:۵۷ میں اللہ کا ارشاد ہے :(یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ
خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیا دہ نزدیک
ہو جائے۔ وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے
ہیں،(بات بھی یہی ہے)کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے)۔ ان دونوں آیات
سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان انبیاء
وصالحین کو واسطہ بنا کر ان کی شخصیتوں، ان کے حقوق اور مقام ومرتبہ کا
وسیلہ پکڑنا جائز اور درست ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ان دونو آیتوں میں
وسیلہ سے مراد وہ نہیں جسے قبر پرست لوگ بیان کرتے ہیں( کہ فوت شدہ اشخاص
کے نام کی نذر نیاز دو اور ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ
اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت
ہے جو شرک ہے۔) بلکہ اس سے مراد نیک اعمال کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنا
ہے،
٭ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ احسن البیان میں رقم طراز ہیں:
وسیلہ کے معنی، ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا
ذریعہ ہو۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں-: (إن الوسیلة التي هي القربة
تصدق علی التقوی وعلی غیرها من خصال الخیر،التي یتقرب العباد بها إلی ربهم)
وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن
کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف وسیلہ تلاش
کرو کا مطلب ہوگا، ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس
کا قرب حاصل ہو جائے۔ اسی طرح منھیات ومحرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب
حاصل ہوتا ہے۔ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا جائے گا، اسی لیےآپ نے فرمایا
جو اذان کے بعد میرے لیے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق
ہوگا(صحیح بخاری)۔کتاب الاذان، صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ دعائے وسیلہ اذان کے
بعد پڑھنی مسنون ہے،(اللَّهُمَّ رَبَ هذِهِ الدَعْوةِ التَآمَةِ وَالصَلوةِ
الْقآئِمَةِ آتِ مُحَمَداً الْوَسِیْلَةَ وَالْفَضِیْلَةَ وابْعَثْهُ
مَقَامًا مَحْمُوداً الَذِيْ وَعَدْتَهُ)۔
اقسام وسیلہ
وسیلے کی دو قسمیں ہیں: (۱)جائز وسیلہ، اس کی تین صورتیں ہیں (۱) اللہ
عزوجل کے اسماء وصفات کا وسیلہ پکڑنا۔ (۲) اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں آیا ہے (اے
ہمارے رب ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا باآواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا
ہے کہ لوگو! اپنے رب پر ایمان لے آؤ پس ہم ایمان لائے، اے ہمارے رب ہمارے
گناہوں کو معاف کردے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کردے اور ہماری موت نیکوں
کے ساتھ کر) آل عمران : ۱۹۳ اور جیسا کہ ان تین اشخاص کے قصہ میں آیا ہے جن
کے غار کے منہ پر ایک بھاری پتھر آپڑا اور نکلنے کا راستہ بند ہوگیا تو
انہوں نے اپنے نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو اللہ نے ان کی
مصیبت دور کردی (۳)کسی نیک زندہ موجود مرد مسلم کی دعا کا وسیلہ پکڑنا۔
جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما
کے زمانے میں قحط پڑا تو صلوۃ الاستسقاء پڑھی اللہ کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے چچا عباس بن عبد المطلب کا،اور جیسا کہ یزید بن الاسود کی دعا کا
وسیلہ پکڑا اور عمر رضی اللہ عنہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے وسیلہ سے دعا کیا کرتے آپ کی وفات کے بعد آپ کے چچا عباس بن المطلب کی
دعا کا وسیلہ پکڑتے، اور اس طرح دعا کیا کرتے: اللھم انا کنا نتوسل الیک
بنبینا فتسقینا وانا نتوسل بعم نبینا فاسقنا
(۲) ناجائز وسیلہ،( یا توسل یہ ہے کہ مخلوق میں کسی کی ذات، یا حق یا عظمت
کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا، جیسا کہ کوئی کہنے والا یہ کہے
میں فلاں کے واسطہ یا اس کے حق، یا اس کی عظمت وشان کے واسطہ سے تجھ سے
سوال کرتا ہوں قطع نظر اس سے کہ جس کے واسطہ سے سوال کیا جارہا ہے وہ زندہ
ہے یا مردہ۔ اس طرح سوال کرنا بدعت ہے اور شرک کے وسیلوں میں سے ایک وسیلہ
ہے) اس کی دو صورتیں ہیں:(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی ولی
کے جاہ ومقام کے وسیلے سے اللہ سے مانگنا، یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اللہ
کے رسول کا مقام و مرتبہ عند اللہ عظیم ہے، اسی طرح نیک لوگوں کا جاہ مقام
بھی۔ لیکن صحابہ کرام جو خیر وبھلائی کے سب سے زیادہ حریص تھے، جب ان کے
زمانے میں قحط پڑا تو انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
جاہ ومقام کا وسیلہ نہیں لیا باوجودیکہ آپ کی قبر ان کے قریب موجود تھی
بلکہ انہوں نے آپ کے چچا عباس بن عبد المطلب کی دعا کا وسیلہ لیا، (۲) بندہ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی ولی کی قسم کھا کر اللہ سے
اپنی ضروت کا سوال کرے، مثلاً یہ کہے کہ اے اللہ ! میں تیرے فلاں ولی کے
وسیلے سے یا تیرے فلاں نبی کے حق کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ
جب مخلوق پر مخلوق کی قسم کھانا منع ہے تو اللہ تعالیٰ کو کسی مخلوق کی قسم
دینا بدرجہ اولی منع ہوگا۔ اور کسی بندے کا محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت
کرلینے ہی سے اس کا حق اللہ پر نہیں بن جاتا کہ، اللہ کو اس کی قسم دی
جائے۔ |