سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے
کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ
تعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :
’’اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ
کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں
۔‘‘(رعد :۱۵)
ایک اور مقام پر فرمایا :
’’کیا اْنہوں نے اﷲ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے
سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے
ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق
پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو
اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی سایہ تھا ۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک
آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافِ معمول
نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس
میں بہترین پھل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً
حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
(حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ) اِس کی روشنی میں میں نے
اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ
پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)
امام ذہبی نے تلخیص مستددک میں فرمایا : ھزا حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے
۔اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر
ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اور سیدہ صفیہ رضی اللہ
عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی
اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ
عنہا کے پاس دو اونٹ تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم
ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس
یہودیہ کو کیوں دوں؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوگئے۔
تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی
اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس
اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کو روک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ
نظر نہیں آتا۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس کا
سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں
ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اطہر نہایت
ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر
جائے۔
لا محالہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ تھا۔ اگر جسم اطہر کا سایہ
مبارک نہ تھا تو کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لباس پہنتے تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے
کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے
ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور تھے اور نور
کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ
پر قدم آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر
غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّدنا جابر رضی اللہ عنہہ
کے والد عبداﷲ رضی اللہ عنہہ غزوئہ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و
عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے
پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا
جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر
ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی
کی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ |