صبح بچوں کو رخصت کرتے ہوئے دادا جان نے
کہا ’’جب تم لوگ واپس آؤ گے تو تمہیں ایک زبردست سرپرائز ملے گا ‘‘
وین آ چکی تھی وہ اسکول روانہ ہوئے مگر تمام وقت سوچتے رہے کہ وہ کیا
سرپرائز ہو گا؟واپسی میں وہ تینوں بہن بھائی ایک ہی سیٹ پر بیٹھتے ہیں انہو
ں نے کہا
’’ ضرور ہمارے لئے کار خرید کر ڈرائیور رکھنے والے ہیں دادا جان ! ‘‘
’’نہیں !!‘‘ امجد نے انکار کیا
’’ کار کیوں خریدیں گے اچھی بھلی وین آ رہی ہے ایسی فضول خرچی نہیں کر سکتے
وہ!‘‘
’’ پھر شاید وہ لان میں ہمارے کھیلنے کے لئے ریکٹ کا انتظام کر رہے ہوں گے
تاکہ رات میں یا صبح صبح ہم تینوں کھیل سکیں اس طرح ہماری ورزش بھی ہو جائے
گی ‘‘
’’ جی بھائی جان ! ‘‘ حمنیٰ نے خوش ہو کر کہا ’’․․․․پھر تو میں بھی کھیلوں
گی اور آپ لوگ نہیں کھیلے تو میں اپنی کلاس فیلوز کو بلوا لوں گی‘‘
’’ہر گز نہیں ! تم صرف ہمارے ساتھ کھیلو گی وہ رنگ برنگی لڑکیاں ہمارے گھر
نہیں آئیں گی ‘‘ اسود نے فوراً کہا حمنی بیچاری منہ بسور کر رہ گئی۔
اتنے میں گھر آ گیا جیسے ہی وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئے دادی جان ایک کرسی پر
بڑا سا گتے کا بورڈ پکڑے بیٹھی تھیں جس پر لکھا تھا۔
’’ اﷲ کے نام سے سوئمنگ پول کا کام شروع ہو گیا ہے جس میں میرے بچے پھولوں
کی طرح تیرتے ہوئے نظر آئیں گے ․․․‘‘
دادی جان کے آس پاس سے مزدور کدال او رپھاوڑے لے کر اندر لان کی طرف جا رہے
تھے۔وہ تینوں اندر کی طرف بھاگے لان میں دادا جان کھڑے تھے اور ایک صاحب
زمین کو ناپ تول رہے تھے اور کسی سفید سے پاؤڈر سے نشانی کی لکیر ڈالتے جا
رہے تھے
’’ دادا جان زندہ باد، دادی جان زندہ باد‘‘ پھر دادی جان بھی وہیں آ گئیں
بچو ں کی حوشی دیکھ کر دونوں مسکرانے لگے۔
کھانے کی میز پر دادی جان نے کہا ’’ امجد، اسود !! تم دونوں اپنی بہن کو
تیرنا سکھاؤ گے ابھی چھوٹی ہے جلدی سیکھ لے گی‘‘
جی ضرور انہو ں نے فوراً حامی بھر لی خوشی اتنی زیادہ تھی کہ وہ حمنی کو
تنگ کرنا بھی بھول گئے۔
امجد کے دوست کی کزن کی شادی تھی ان کی دوستی بچپن سے تھی کئی دن سے وہ اس
کے سر ہو رہا تھا کہ اپنے گھر سے اجازت لے لو ورنہ میں تمہیں اغوا کر کے لے
جاؤں گا میرا مطلب ہے بغیر اجازت لے جاؤں گا کیونکہ میں تمہارے دادا کے
کھیت میں پرندے اڑاؤں گا؟
’’تم مجھے ایسا سمجھتے ہو ویسے بھی میرا اپنے رشتہ داروں سے کوئی خاص لگاؤ
نہیں ہے وہ تو میں اپنی امی کے اصرار پر جا رہا ہوں ابا جان کی طبیعت ٹھیک
نہیں ہے امی نہیں جا سکتی ہیں تبھی سارا زور مجھ پر دے رہی ہیں۔
’’اچھا بابا لیتا ہو ں اجازت کیسے جائیں گے پلین سے؟ نہیں بھئی ایرو پلین
سے نہیں ٹرین سے جائیں گے میں ایک دفعہ گیا تھا اپنے ننھیال بڑا مزا آتا ہے
مزے سے جھولا جھولتے ہوئے پہنچ گئے لاہور!‘‘
’’اور اب کہاں جانا ہے؟ ‘‘ ’’اب ہمیں جانا ہے آزاد کشمیر، مظفر آباد‘‘
ارے پہلے کیوں نہیں بتایا پھر تو میں ضرور چلوں گا سنا ہے بڑی خوبصورت جگہ
ہے ہاں بہت خوبصورت ہے مگر سردی ذرا زیادہ پڑتی ہے گرم کپڑے رکھ لینا اب
میں بھی تیاری پکڑتا ہوں پہلے تو تمہارے انکار کی وجہ سے دل ہی نہیں چاہ
رہا تھا۔
ہزاروں نصیحتوں اور اپنا خیال رکھنے کی تاکید کے ساتھ اجازت ملی دادا جان
نے اپنے ایک دو جاننے والوں کے ایڈریس اور فون نمبر بھی دیئے کہ کوئی مسئلہ
ہو تو ان سے رابطہ کر لینا وہ تمہاری مدد کریں گے۔
رات دس بجے سٹی اسٹیشن سے سوار ہوئے نو بجے کھانا کھایا جو صفدر کی امی اور
امجد کی دادای نے ساتھ کر دیا تھا کھانا بہت زیادہ تھا ایک دو مسافروں کو
دینے کے بعد بھی بچ رہا جسے
انہو ں نے دوبارہ ٹفن میں بند کر کے رکھ دیا۔ایک برتھ ریزوو کرالی تھی جس
پر وہ دونوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے حیدرآباد اسٹیشن سے ایک مسافر چڑھا اور
آکر کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا باتیں کرنے کے دوران امجد کبھی
کبھی اس پر نظر بھی ڈال رہا تھا وہ کچھ بے چین سا لگتا تھا بار بار پہلو
بدل رہا تھا کبھی دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دبا لیتا۔
صفدر باتیں کرتے کرتے سونے لگا تو امجد نے کہا میں ذرا ٹہل لگا لوں تم آرام
سے پوری سیٹ پر نیند اور جھولے کا مزا لے لو اس نے مسکرا کر کروٹ لے لی۔ اب
امجد نے مسافر کے سامنے والی چھوٹی سیٹ جو کھڑکی کے ساتھ تھی وہ پکڑ لی اور
غیر محسوس انداز میں اس کا جائزہ لینے لگا۔
کپڑے تو مناسب ہی تھے مگر کچھ میلے تھے گلے میں مفلر تھا آنکھوں پر نظر کا
چشمہ او رہاتھ میں گھڑی تھی ایک چھوٹا سا بیگ پاؤں کے پاس رکھا تھا وہ بار
بار کلائی پر بندھی گھڑی میں دیکھتا اور ایک گہری سانس لیتا چہرے پر انتظار
والی کیفیت کے بجائے وحشت تھی عمر تقریباً26سال ہو گی
’’ یا تو یہ کوئی جرم کر کے آ رہا ہے یا جرم کرنے والا ہے دونوں باتوں میں
سے کوئی ایک ضرور ہے‘‘امجد نے یونہی اونگھنے کی اداکاری کی مگر اس کی حرکات
کا جائزہ بھی لیتا رہا۔
اسے آنکھیں بند کئے دیکھ کر اس شخص نے اپنی گھڑی اتاری پھر چشمہ اتارا اور
جیب سے شناختی کارڈ نکال کر ایک رومال میں باندھا اور بیگ کے اوپر رکھ دیا۔
امجد اور زیادہ چوکنا ہو کر بیٹھ گیا آنکھیں بدستور بند تھیں گاڑی اپنی
پوری افتاد سے بھاگی جا رہی تھی۔ پہلے اس نے دائیں بائیں دیکھا امجدنے
خراٹے لینے شروع کر دیئے وہ اٹھا اور تیزی سے بوگی کے دروازے کی طرف چل دیا
امجد بھی فوراً دبے پاؤں اس کے پیچھے چلا اس کا وہم یقین میں بدل گیا یہ
شخص ضرور کوئی غلط کام کرنے جا رہا ہے۔
دوسرے منٹ دروازہ کا ہینڈل گھومنے کی آواز آئی وہ دروازہ کھول کر دہلیز پر
کھڑا تھا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بس چھلانگ لگانے کو تیار تھا۔
امجد اس پر عقاب کی طرح جھپٹا اور اس کی کمر اپنے دونوں بازؤں میں کس کر
فوراً ہی دروازے سے دور ہٹ گیا لات مار کر دروازہ بند کیا وہ اس کے بازوؤں
میں مچل رہا تھا
’’ چھوڑو مجھے چھوڑ دو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں !! ‘‘ آواز میں غصہ تھا
نفرت تھی امجد نے اس کے جواب میں کہا۔
’’ چپ کرو زیادہ ہچر مچر کی تو ابھی ریلوے پولیس کو بلا کراس کے حوالے کر
دوں گا پھر جیل میں سڑتے رہنا ہاں کر دو پولیس کے حوالے جیل میں کم از کم
روٹی تو ملے گی․․․‘‘ امجد کے لہجے کی سختی فوراً ہی نرمی میں بدل گئی
’’اچھا اچھا میرے بھائی کر لینا خودکشی بھی بہت موقعے ملیں گے پہلے میری
کچھ باتیں سن لو! ‘‘
ہمدردانہ روئیے نے اس کی مزاحمت بھی کمزور کر دی تھی دونوں اپنی سیٹ پر آ
کر بیٹھ گئے سب سے پہلے رات کا بچا ہوا کھانا ٹفن سے نکال کر اس کے سامنے
رکھا
’’ لو کھاؤ اور بالکل تکلف نہ کرنا ‘‘ اس نے ایک پلیٹ میں دو پراٹھے اور دو
شامی کباب رکھ کر اس کی گود میں رکھ دیئے۔
وہ فوراً ہی کھانے پر ٹوٹ پڑا بڑے بڑے نوالے لے کر جلدی جلدی منہ چلانے لگا
کھانے کے دوران امجد اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتا رہا پانی پی کر جب اس
کے ہوش ٹھکانے آئے تو صرف اتنا پوچھا ’’ آپ کا نام کیا ہے بھائی؟‘‘
’’میرا نام انور ہے محمد انور ! ہونہہ دیکھو تو نام انور اور زندگی دیکھو
تو اندھیروں سے بھری ہوئی ․․․․‘‘یہ کہتے کہتے اس کا لہجہ بوجھل ہونے لگا
روٹی کا خمار چڑھ رہا تھا بے تحاشہ نیند آ رہی تھی۔
’’اب آپ ایسا کریں اوپر والی برتھ پر جا کر آرام سے سو جائیں باتیں بعد میں
ہوتی رہیں گی آج سے آپ ہمارے مہمان ہیں اور میزبان کی اجازت کے بغیر واپسی
کا نہیں سوچنا چاہئے۔․․․․․․․․․․اور بھائی صفدر نیچے آ جاؤ ! ‘‘ صفدر فوراً
اٹھ بیٹھا ’’ کیا بات ہے خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہاں سب خیریت ہے یہ ہمارے دوست انور ذرا تھکے ہوئے ہیں سخت نیند بھی آ
رہی ہے انہیں جی بھر کر سو لینے دو ! ‘‘ امجد نے جواب دیا۔
صفدر کے نیچے آتے ہی امجد نے انور کو اشارہ کیا اوپر برتھ پر جانے کا اور
وہ فوراً ہی چل دیا نیند سے اس کی آنکھیں بند ہو ئی جا رہی تھیں نہ جانے بے
چار اکب سے بھوکا اور جاگا ہوا تھا امجد کواس پر بے تحاشہ رحم آیا۔
’’ہاں اب بولو یہ راتوں رات کون سا دوست مل گیا کہاں سے دریافت کیا ہے؟‘‘
’’دوستی کرنے میں دیر لگتی ہے بس بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، پیاسے کو پانی
پلاؤ، زخمی کو اسپتال پہنچاؤ اور مریض کی تیمار داری کرو پھر دوستی پکی
․․․‘‘ امجد نے جواب دیا۔
’’ ٹھیک کہتے ہو ذرا سی دلداری اور چند میٹھے بول سے ہم دوسروں کا دل خرید
سکتے ہیں یہ تو میں بھی مانتا ہوں! ‘‘
’’ ہاں قصہ کیا ہے؟ مجھے بھی تو کچھ بتاؤ ․․․․․! ‘‘ وہ تجسس میں اس کے قریب
ہوا۔ساری بات سن کر صفدر حیرت سے اسے تکنے لگا۔
’’ تم نے ؟ تم نے اسے قابو کر لیا یہ اتنا لمبا چوڑا آدمی بڑی بات ہے بھئی!
‘‘
’’نہیں مقصد بڑا ہے میرے دوست تم نے سنا ہو گا ایک انسان کی جان بچانا پوری
انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے او رپھر تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ میں
کراٹے میں بلیک بیلٹ ہولڈر ہوں اگر تجربہ کرنا چاہتے ہو تو ابھی تمہیں اٹھا
کر پٹخ سکتا ہوں ایک دوہڈیاں ٹوٹ جائیں تو مجھ سے گلہ نہ کرنا۔‘‘
’’ نہ بابا نہ صفدر نے کانوں کو ہاتھ لگائے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا کہ تم
بلیک بیلٹ ہولڈر ہو! ‘‘
’’ اچھا مذاق چھوڑو یہ بتاؤ ں کہ اب کرنا کیا ہے؟ ‘‘
’’ کرنا یہ ہے کہ جب یہ حضرت سو کر اٹھیں گے تو سب سے پہلے ان کے والدین
بہن بھائی کے بارے میں پوچھیں گے اگر والدین زندہ ہیں تو سب سے پہلے ان کی
خیریت کی اطلاع دیں گے․․․․‘‘
’’اور آگے کا پلان یہ ہے کہ یہ ہمارے ساتھ شادی میں جائیں گے بطور مہمان
رہیں گے تاکہ ساتھ رہنے سے یہ ہم پر اعتماد کرنے لگیں اور ہم ان پر پھر
واپس جانے کے بعدمیں دادا جان سے ان کا تعارف کراؤں گا اور مشورہ لوں
گا․․․․‘‘
ادھر گھر میں سوئمنگ پول کا کام تیزی سے جاری تھا اسود نے جب ندیم کو بتایا
تو وہ خوشی سے اچھل پڑا ’’ تمہیں تیرنے کا بہت شوق ہے ندیم؟ اسود نے پوچھا
’’شوق تو ہے مگر ضرورت بھی بہت ہے تم دیکھتے نہیں ہو آج کل پاکستان میں بھی
سیلاب بہت آنے لگے ہیں بارش شروع اور سیلاب کی خبریں آنے لگتی ہیں کبھی
پشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور کبھی پانی اپنا رخ بدل کر گاؤں، دیہاتوں کی جانب چل
پڑتا ہے ایسے میں اگر امدادی ٹیموں کے ساتھ ہم بھی شامل ہو جائے تو بہت سے
لوگوں کی جان اور مال بچ سکتے ہیں آخر ہر تیراک پر پاکستانی بھائی ، بہنوں،
بچوں، بزرگوں کا حق تو بنتا ہے ‘‘
’’ بہت خوب، بہت خوب! اسود نے تالی بجائی ’’․․․․․․تم تو پورا پروگرام طے
کئے بیٹھے ہو! ‘‘
’’․․․․تو اور کیا کوئی کام بھی بغیر منصوبہ بندی کے نہیں ہوتا اگر ایسے ہی
اٹھ کر چل پڑے کامیابی کے امکانات آدھے سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے
ابھی بارشو ں میں کچھ مہینے باقی ہیں جب تک تم پلاننگ کر لو! ‘‘
’’تمہارے بغیر نہیں کروں گا تمہارے بھائی جان اور تم سے مشورہ کرنا ضروری
ہے․․․․‘‘
حمنیٰ لاؤنج میں بیٹھی مالی بابا کے بھانجے خورشید کو پڑھا رہی تھی امجد نے
اپنی غیر حاضری میں پڑھانے کی ذمہ داری حمنیٰ کو دی تھی۔
’’ باجی ہمارے علاقے میں سرکس لگی ہے بہت لوگ جاتے ہیں دیکھنے! ‘‘
’’تم نے دیکھی ہے؟ حمنی ٰنے سوال کیا۔ ’’ کہاں باجی اسکا ٹکٹ بیس روپے ہے
میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ‘‘ خورشید نے منہ بسورا
’’ اچھا تم اپنے ماما سے اجازت لے لو پیسوں کا انتظام میں کروا دوں گی ’’
سچ باجی؟ ‘‘
’’ہاں بالکل مگر وہاں جا کر جمناسٹک کا پروگرام غور سے دیکھنا! ‘‘
وہ کیا ہوتا ہے باجی؟ بھئی چند لوگ اپنے کمالات دکھاتے ہیں قلابازی کھانا،
لمبی لمبی چھلانگیں لگانا، تنی ہوئی رسی پر چلنا اور اپنا توازن قائم رکھنا
سب سے زیادہ کمال تو وہ ہوتا ہے جس میں تین پائپ جوڑ کر اسٹینڈ بنایا جاتا
ہے دو پائپ کھڑے کر کے اور ایک پائپ فٹ کرتے ہیں فنکار دوسرے سے دوڑتے ہوئے
آتا ہے اور پائپ پکڑ کر اوپر نیچے تیزی سے چکر لگاتا ہے اسے جمناسٹک کہتے
ہیں۔‘‘
’’اچھا پھر اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے۔ بہت سے فائدے ہیں یوں سمجھو زلزلہ ہو،
بمباری ہو ، عمارتیں گر رہی ہوں، اونچی چھتوں سے لٹکے ہوئے ہوں جمناسٹک
سیکھا ہوا بندہ پھرتی سے اونچائی گہرائی سب تک آسانی سے پہنچتا ہے اور
لوگوں کی جان بچاتا ہے ‘‘ حمنیٰ نے کہا۔
’’پھر تو یہ بہت نیکی کا کام ہے پھر یہ سرکس والے ٹکٹ کے پیسے کیوں لیتے
ہیں نیکی کے بدلے میں پیسہ لینے سے تو ثواب کم ہو جاتی ہے‘‘
’’ ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو مگر کچھ لوگ ایسے بھی تو ہونے چاہئیں جو صرف اﷲ
کو راضی کرنے کے لئے یہ کام سیکھیں اور لوگوں کی جان بچائیں۔‘‘
’’ باجی میں سیکھوں گا سیکھ سکتا ہوں نہ ؟ ہاں ہاں کیں نہیں مگر پڑھائی کا
حرج نہ ہو سب سے پہلے پڑھائی پھر کچھ اور․․․․․‘‘
حمنیٰ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سے دادی جان اس کے پیچھے کھڑی خاموشی سے
باتیں سن رہی تھیں۔حمنیٰ کی بات ختم ہوتے ہی انہو ں نے زور سے کہا ۔
’’ ارے مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا میری گڑیا اتنی بڑی ہو گئی اور کتنی سمجھ
دار ہو گئی ہے ․․․‘‘‘ حمنی نے شرما کر سر جھکا لیا۔
خورشید نے بھی سر نیچے کر لیا اور مسکرانے لگا۔
’’․․․․ادھر آؤ ادھر میرے پاس حمنی خورشید دونوں میرے پاس آؤ!! دادی جان
آغوش وا کئے دونوں بازو کھولے کھڑی تھیں۔ استانی صاحبہ اور شاگرد صاحب
دونوں دوڑ کر ان کی بانہوں میں سما گئے ان کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی۔وجاہت
کا بھی دو دن پہلے فون آیا تھا کہہ رہا تھا نشانے بازی کی مشق کر رہا ہوں ۔
اﷲ ان سب کو سلامت رکھے ان کے دل سے دعا نکلی۔اب امجد وجاہت کی طرف سے
بالکل مطمئن تھا دادا جان نے تقریباً ساری ذمہ داری جو لے لی تھی۔اسود نے
بہترین کارکردگی دکھائی تیراکی میں مہارت حاصل کر لی ایک دن دادا جان
سوئمنگ کلب چلے گئے اور سر سے ملاقات کی اسود کا نام لیتے ہی سر خوش ہو کر
بولے۔
’’ارے اسود تو ماسٹر ہے ماسٹر سوئمنگ کا ایسا ہی رہا تو میری جگہ لے لے گا
اب ہم تو ڈھلتی عمر میں ہیں صاحب نئے خون کی ویسے بھی ضرورت ہے آپ کو
ایڈوانس مبارک باد دیتا ہوں میں۔ جی بہت شکریہ آپ جیسے استاد ہو تو بچوں نے
ترقی تو کرنا ہی ہے۔
دو مہینے گزرے تھے اس بات کو کہ ایک دن وہ اپنے کلاس فیلو کے ساتھ اس کے
گھر جا رہا تھا وہ کسی مضافاتی بستی میں رہتا تھا جہاں کچے پکے مکان بنے
ہوئے تھے اس نے رات کو ہی دادا جان سے اجاز ت لے لی وہ بیچارہ ندیم حساب
میں کمزور تھا۔ کبھی کبھی اسود سے مدد لے لیا کرتا تھا جیسے ہی وہ بستی میں
داخل ہوئے تودیکھا کہ ایک پکے گھر کا گیٹ کھلا ہوا ہے اور لوگ دوڑ دوڑ کر
اس طرف جا رہے ہیں یہ دونوں بھی تیزی سے وہاں پہنچے اور پوچھا۔
’’․․․․کیا ہوا خیریت تو ہے؟
کسی نے جواب دیا ’’ بیٹاابھی ابھی ایک بچہ جو دو سال کا ہے پانی کے ٹینک
میں گر گیا اس کی بہن سامنے ہی کھڑی تھی وہ چلائی تو پتہ چلا ورنہ سب
ڈھونڈتے ہی رہتے․․․‘‘
یہ سنتے ہی اسودنے بیگ ندیم کو تھمایا اور فوراً پانی میں اتر گیا ٹینک
بھرا ہوا تھا اور بچہ تہہ میں گرا ہوا تھا ایک منٹ میں اس نے بچہ کو اٹھایا
اور دوسرے منٹ میں وہ ٹینک سے باہر تھا بچہ کی ماں وہیں کھڑی تھی اور تڑپ
تڑپ کر میرا بچہ میرا بچہ چلا رہی تھی۔اسود نے بچہ کو پیٹ کے بل لٹایا اور
مخصوص طریقے سے دبا کر ناک اور منہ سے پانی نکالا بچہ کی سانس بحال ہوتے ہی
اس نے کہا۔
’’آنٹی اﷲ کا شکر ہے بچہ بالکل ٹھیک ہے آپ گرم دودھ میں تھورا سا شہد ملا
کر پلائیں اور سلا دیں ‘‘ یہ نسخے اس نے اپنی دادی جان سے سیکھے تھے وہ
کہتی تھیں کسی بھی صدمے یا کمزوری میں شہد فوری طاقت بحال کرتا ہے۔بچے کی
ماں نے اپنے لعل کو کلیجے سے لگایا اور اندر چلی گئیں مگر دادی نے آنچل
پھیلا کو جو دعائیں دینا شروع کیں تو اسود شرمندہ ہونے لگا اور ندیم سے کہا
’’ آؤ چلتے ہیں ہاں ہاں چلو تمہارے کپڑے پورے پانی سے بھیگے ہوئے ہیں میرے
کپڑے پہن لینا ‘‘
اتنے میں ایک بزرگ آگے بڑھے اور کہنے لگے بچو تم تو فرشتہ بن کر آ گئے ورنہ
ا س محلے میں چند سال پہلے ایسا ہی واقعہ ہو چکا ہے وہ بچے چا ر سال کا تھا
اسی طرح ٹینک فل بھرا ہوا تھا سارا محلہ ان کے گھر پر جمع تھا اتنے سارے
لڑکے بھی موجود تھے مگر پانی کے اندر تہہ میں کیسے جاتے تیرنا جو نہیں آتا
تھا آخر ون فاؤ کو فون کیا وہ روانہ تو ہو گئے مگر ٹریفک میں پھنس گئے
فاصلہ بھی بہت تھا جب پہنچے تو دیر ہو چکی تھی بچہ نکالا مگر مردہ حالت میں
اس بچے کا آج تک افسوس ہے۔
’’بس انکل صبر کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ‘‘ ’’ ارے بیٹا میں نے تمہیں
باتوں میں لگا لیا جاؤ جاؤ گھر جا کر کپڑے بدلو اﷲ تمہاری عمر دراز کرے‘‘
ندیم کے گھر اس کے کپڑے پہن کر اپنے کپڑے سکھائے استری کر کے پہنے اور اپنے
گھر واپس پہنچا دل میں ایک انہونی خوشی رہ رہ کے ہمک رہی تھی یہ وہی خوشی
تھی جو نیک دل لوگ نیکی کرنے کے بعد محسوس کرتے ہیں۔
دوسرے دن کلاس میں ندیم نے کہا ’’اسود میں بھی تیراک بننا چاہتا ہوں مجھے
بتاؤ تم نے کہاں سے سیکھی ہے؟ ‘‘
’’ میں نے جہاں سے سیکھی ہے وہاں چارجز بہت زیادہ ہیں اچھا! ندیم کے لہجے
میں مایوسی تھی تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے والدین پہلے بھی بڑی مشکل سے فیس
دیتے ہیں صرف اچھی تعلیم کے لئے اب یہ اضافی خرچ تو ناممکن ہے مگر کل جس
طرح تمہیں دعائیں مل رہی تھیں میرا بھی دل چاہ رہا ہے میں بھی اسی طرح
دعائیں سمیٹوں! ‘‘
’’خیال تو نیک ہے مگر تم سمجھتے ہو صرف ڈوبتے ہوؤں کو بچانا ہی نیکی ہے
نہیں نیکی تو کسی بھی طرح کہیں بھی کی جا سکتی ہے‘․․․․‘‘
’’ وہ کیسے؟ ‘‘ ندیم نے انتہائی شوق سے پوچھا۔
’’ وہ ایسے کہ اسکول سے آنے کے بعد ہوم ورک کر کے چار بچے ذرا پنے بس اسٹاپ
تک جاؤ راستے میں کانٹا پڑا ہو تو اسے راستے سے اٹھا کر ایک طرف ڈال دو
کہیں کیلے کا چھلکا دیکھو تو اسے ہٹا دو تاکہ کوئی پھسل کر اپنی ٹانگ نہ
تڑوا بیٹھے کوئی خاتون سامان کے وزنی تھیلے لے کر چل رہی ہو تو بڑے ادب سے
ان کا بوجھ اٹھا کر ان کے گھر تک پہنچا دو کسی بزرگ کو بس میں کھڑا دیکھو
تو اپنی سیٹ ان کو دے دو وغیرہ وغیرہ یہ سب نیکیاں ہی تو ہیں جن کا بہترین
اجر ملے گا جس وقت گھر میں ہوتے ہو اپنی امی جان کی مدد کرو گھر میں بھی
کئی کام ایسے ہوتے ہیں جو لڑکے بھی کر سکتے امی جان کپڑے دھو رہی ہیں تو تم
دھلے ہوئے کپڑوں کو رسی پر پھیلا دو جب سوکھ جائیں تو اتار کر استری کی
ٹیبل پر رکھ دو اور اگر استری بھی کر دو تو سوچو ماں کے دل سے کیسی دعا
نکلے گی اور ماں کی دعا تو کبھی رد نہیں ہوتی ہمیشہ قبول ہوتی ہے‘‘
’’ یہ سب تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں یا پھر معلوم ہی نہیں تھا مگر یا ر
اسود تمہیں کیسے معلوم یہ سب؟ ‘‘ ندیم نے حیرت سے کہا۔
’’ میرے دادا اور دادی اﷲ ان کو سلامت رکھے ۔! ’’ آمین ! ‘‘ ندیم نے بڑے
خلوص سے کہا اتنے میں اگلا پیریڈ شروع ہو گیا اور وہ کلاس میں چلے گئے۔
چھٹی کے وقت اسود نے ندیم کو کہا
’’ تم اطمینان رکھو میں تمہاری تیراکی کے شوق کو پورا کرنے کے لئے انتظام
کروں گا مگر اس میں کچھ ٹائم لگے گا تب تک جو میں نے بتایا ہے وہ کرو اپنے
وقت کو ضائع نہ کرو جو وقت کو ضائع کرتے ہیں وقت انہیں ضائع کر دیتا
ہے․․․․‘‘
اسکول وین گھر کی طرف آئی تو امجد نے دیکھا سامنے والے بنگلے کی کیاری پر
ان کے مالی بابا بیٹھے ہیں ساتھ میں ایک بچہ بھی بیٹھا ہے دونوں ہی پریشان
لگ رہے تھے امجد یہ کہتا ہوا اتر گیا کہ ’’ اسود تم دادی جان کو بتا دینا
کہ میں سامنے ہو کر ابھی آتا ہوں․․․‘‘
وین سے صرف اسود کو اتر کر آتے دیکھ کر دادی جان نے فوراً پوچھا ’’ارے امجد
کہاں ہے؟ ‘‘
’’ وہ دادی جان ذرا سامنے والے مالی بابا سے مذاکرات کر رہے ہیں ابھی آ
جائیں گے! ‘‘
’’ السلام علیکم مالی بابا خیریت ہے آپ دونوں باہر کیوں بیٹھے ہیں؟ ‘‘
’’ وعلیکم السلام بیٹا شاید گھر والوں کو اچانک کہیں جانا پڑ گیا ہے گھر
بند کر کے چلے گئے دو دن پہلے چوکیدار بھی گاؤں چلا گیا ہے۔‘‘
’’ اب دیکھو نا میں اور میرا بھانجا اتنی دور سے پیدل آئے گرمی سخت ہے پیاس
سے برا حال ہے ٹھیک چلے جاتے ہیں ہم گھر جا کر ہی پانی پئیں گے ‘‘
’’ نہیں نہیں بابا پانی کا کوئی مسئلہ نہیں میں ابھی منگواتا ہوں گھر سے
․․․․‘‘ اس نے سیل فون پر اصغر بابا کو کہا
’’ ایک جگ ٹھنڈا پانی اور دو گلاس لے کر سامنے والے گھر پر آ جاؤ! پھر وہ
خود بھی اسی کیاری کی منڈیر پر بابا کے ساتھ بیٹھ گیا۔فوراً ہی پانی آ گیا
پانی پی کر دونوں کے حواس بحال ہوئے اصغر بابا کو واپس جانے کا اشارہ کیا
اور پھر سے ان کی طرف متوجہ ہوا۔
’’ آپ فکر نہ کریں آ جائیں گے چند روز میں آپ شام میں ٹھنڈے وقت آ کر معلوم
کر لیا کریں! ‘‘
’’ ہاں ایسا ہی کروں گا بیٹا! ‘‘
پھر وہ بچے کی طرف متوجہ ہوا۔ہاں بھئی آپ کا نام کیا ہے منے میاں؟
میرا نام خورشید ہے جی۔ اچھا بڑا اچھا نام ہے آپ کا خورشید سورج کو کہتے
ہیں جو ساری دنیا میں روشنی پھلاتا ہے اگر آپ کو معلوم نہیں تھا تو آج
معلوم ہوگیانا؟
جی معلوم ہوگیا بچے نے بڑی متانت سے جواب دیا۔بابا ! آپ اس کو ساتھ کیوں
لاتے ہیں یہ بچارہ یہاں بور ہوتا ہوگا۔‘‘
’’ کیا کروں ہم اسکول تو بھیج نہیں سکتے سارا دن مارا مارا پھرتا ہے اس لئے
ساتھ ہی لے آتا ہوں۔‘‘
’’ چلو پھر تم میرے دوست بن جاؤ روز آتے تو ہو میں تم کو دو چار الفاظ سبق
دے دیا کرو گا اور تمہاری بوریت دور کرنے کے لئے کوئی اچھی سی ترکیب بھی
بتاؤں گا
’’ ارے بیٹا آپ کہاں اس بکھیڑے میں پڑرہے ہیں بابا نے کہا۔
نہیں بابایہ بکھیڑا نہیں ہے میرا شوق ہے میرے فرصت کے وقت کا صحیح استعمال
ہے اچھا میں چلتا ہوں ہاں بھئی ماسٹر خورشید ہاتھ ملاؤ دوستی کا بچے نے
خوشی خوشی ہاتھ ملایا مالی بابا مسکرا بھی رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں
آنسو بھی جھلملا رہے تھے خدا جانے یہ آنسو خوشی کے تھے یا اپنی بے بسی
کے!!!
پھر یوں ہوا کہ امجد کی دوستی خورشید سے بڑھتی گئی وہ ہمیشہ اس کو ماسٹر
خورشید کہہ کر بلاتا تھا۔ ایک دن خورشید نے کہا آپ مجھے ماسٹر خورشید کیوں
کہتے ہو کیا میں اسکول کا ماسٹر بنوں گا؟
امجد مسکرایا اور کہاہاں بھئی کیوں نہیں اسی طرح شوق سے پڑھتے رہے تو ایک
دن ماسٹر بھی بن جاؤ گے۔
’’ سچ؟ ‘‘ وہ بڑا حیران تھا اپنی بھوری بڑی بڑی آنکھیں کھولے امجد کو دیکھ
رہاتھا۔
’’دوست ارادہ پکا ہو اور نیت اﷲ کو خوش کرنے کی ہو تو اﷲ مدد کرتا ہے تم
ایک ایماندار محبت کرنے والے ادب تمیز سکھانے والے استاد بنو گے اور اپنی
تعلیم کے ذریعے پتھر جیسے بچوں کو ہیرا بناؤ گے خوشبو دینے والے پھول بناؤ
گے روشنی پھیلانے والے چراغ بناؤ گے۔تمہارا نام بھی تو خورشید ہے نا یعنی
سورج جو ساری دنیا میں روشنی پھیلاتا ہے۔
سن رہے ہیں ماما جی امجد بھائی مجھے اسکول کا ماسٹر بنائیں گے اس لئے مجھے
ماسٹر خورشید کہتے ہیں
’’ ہاں سن رہا ہوں اﷲ تم کو اور امجد بیٹے کواس مقصد میں کامیاب کرے ‘‘
مالی بابا نے دعا دی۔ ’’ آمین ! ‘‘ مجد نے بڑے خلوص سے کہا۔
قدرت راستے کھول رہی تھی راہیں سجھا رہی تھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
نیت خالص ہو اور ارادہ مضبوط ہو اور انسان اپنی بساط بھر کام کرتا رہے تو
اسے غیب سے اشارے ملتے ہیں اور ثواب تو اس وقت سے ملنے لگتا ہے جب ارادہ
کیا جاتا ہے اور جب عمل کرنے لگیں تو جس قدر خلوص سے کیا جائے اجر و ثواب
بڑھتا رہتا ہے۔
اتوار کے دن سب مل کر بیٹھے تو دادی جان نے کہا۔
’’ اسود تمہارے کلاس فیلو ندیم کا فون آیا بہت ہی خاص بات بتائی اس نے ! ‘‘
یہ کہہ کر دادی مسکرانے لگیں ۔ ’’ کیسی بات دادی جان ! ‘‘ اسود نے حیران ہو
کر پوچھا۔
’’ وہ کہہ رہا تھا کہ تم نے ایک بچے کی جان بچائی ایک منٹ لگائے بغیر پانی
میں اتر گئے اور یہ کہ بچے کی دادی جھولی پھیلا کر تمہیں دعائیں دے رہی
تھیں‘‘
’’ او دادی جان یہ ندیم بھی بس!اور اسود نے آنکھیں جھکالیں ۔ ’’ تم نے مجھے
کیوں نہیں بتایا کوئی وجہ ہے اس کی؟ ‘‘ سوال کیا گیا۔
’’ وہ دادی جان آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ نیکی کی تشہیر نہیں کرتے چرچا
نہیں کرتے اجر میں ثواب میں کمی آ جاتی ہے دکھاوے کا رنگ شامل ہو جاتا ہے
‘‘
’’ او میرے بھولے بچے! سب کے سامنے لوگوں کے سامنے بے شک تذکرہ نہ کرو مگر
اپنے گھر والوں بھائی، بہن ، والدین سے تو کہہ سکتے ہو تاکہ وہ تمہاری خوشی
میں شریک بھی ہوں اور حوصلہ افزائی بھی کریں بہرحال مجھے بہت خوشی ہوئی بہت
ہی زیادہ کہ میرے بچے میدانِ عمل میں قدم رکھ چکے اور آپ کا کیا خیال ہے
مجھے کم خوشی ہوئی جب آپ کی دادی جان نے مجھے بتایا مجھے لگا کہ جیسے میری
بوئی ہوئی فصل پک کر تیار ہو نے کو ہے اﷲ کی رحمت سے اس میں بھرپور پھل
آئیں گے اور خلقِ خدا کو فائدہ ہو گا ‘‘
دادا جان نے کہا۔
’’ ان شاء اﷲ! ‘‘ حمنیٰ نے بڑے زور سے کہا۔سب مسکرانے لگے۔ اگلے ہی لمحہ
حمنی نے روٹھے ہوئے انداز میں کہا۔
’’ مجھے توکچھ بھی سکھایا جا رہا ہے بس اتنا ہی کہ آہستہ چلو آہستہ بولو سر
سے دوپٹہ پھیلا کر لو بال کھلے نہ رکھو حمنی بیٹی تمہاری نگاہ نیچی اور
گفتگو دھیمی ہونی چاہئے۔ دادی جان
ہر وقت یہی تاکید کرتی ہیں اب تو یہ ساری باتیں زبانی یاد ہو گئی ہیں مجھے
‘‘
حمنیٰ منی! ایسا کرو یہ ساری باتیں لکھ کر رکھ لو بھولنے کی بھی تو عادت ہے
تمہیں ‘‘ امجد نے شرارتی انداز میں کہا
’’ دیکھئے دادی جان مجھے بھلکڑ کہہ رہے ہیں بھائی جان! ‘‘
’’ نہیں بھئی بھلکڑ ہوتی تو فائنل ٹیسٹ میں 91نمبر کیسے لیتی 100میں سے؟‘‘
’’ اچھا !!! ‘‘سب نے ایک ساتھ کہا
’’ تو کیا خیال ہے دادا جان شام میں مس حمنیٰ کو چھوٹی سی پارٹی دے دیں
اسود نے کہا۔
’’ دیکھا چھوٹے بھائی جان ہمیشہ میرے لئے فائدہ سوچتے ہیں اور بڑے والے تو
صرف میری خامیاں گنواتے رہتے ہیں ذرا بھی پیار نہیں ہے ‘‘
بڑے بھائی کو حمنٰی نے مصنوعی ناراضی دکھائی۔
’’ تم کیاجانو گڑیا مجھے تم سے کتنا پیاراور دلار ہے یہ اور بات ہے کہ تم
غصے میں بہت ہی پیاری لگتی ہو بالکل کٹ کھنی بلی کی طرح ہے نا؟‘‘
’’ ہاں بلی کا بھائی کیا ہوا؟ میں بتاؤں اسود نے فوراً پوچھا ’’ بھائی جان
بلی کا بھائی بلا۔‘‘
’’ ہاں بالکل ٹھیک صرف بلا نہیں باگڑ بلا جس سے سب ڈرتے ہیں حمنیٰ نے جملہ
مکمل کیا اور سب کے سب ہنسنے لگے
’’ چلو جی عصر کی اذان ختم ہو گئی تم لوگ نماز پڑھ کر آؤ میں اچھی سی چائے
کے ساتھ ریفریشمنٹ منگواتی ہوں۔ دادی جان نے کہا
جاری ہے |