چڑیا گھر اور مصنوعی جانور!

 گزشتہ دنوں ہمارے ہاں باہر سے کچھ مہمان تشریف لائے، ان کے پہنچنے کا وقت تو سہ پہر تین بجے کا تھا تاہم جب وہ چار بجے تک بھی نہ پہنچے تو ناچار ہم نے فون کیا، معلوم ہوا کہ وہ پہنچنے ہی والے ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ پہلے چڑیا گھر جائیں، بڑے چھوٹوں کی خواہش کے پابند تھے، چنانچہ پہلے وہ چڑیا گھر گئے اور پھر ہمارے گھر آئے۔ ان دونوں گھروں میں کیا مماثلت پائی گئی؟ اس کا اندازہ تو مہمانوں نے ہی لگایا ہوگا، ہم نے ان سے اس بارے میں کچھ معلوم نہ کیا، تاہم چڑیا گھر کے بارے میں وہ خاموش نہ رہ سکے، انہوں نے چڑیا گھر کے ماحول اور جانوروں کی قلت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور چڑیا گھر کی سیر کو ناپسندیدہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہر طرف ویرانی ہے، صفائی کا بھی مناسب انتظام نہیں ہے۔ دراصل پاکستان میں چڑیا گھروں کی بھی قلت ہے، اس لئے ان میں پائے جانے والے جانوروں کی بھی کمی ہے۔ اس وقت لاہور، اسلام آباد ، کراچی اور بہاول پور میں چڑیا گھر ہیں۔ مندرجہ بالا صورت حال بہاول پور چڑیا گھر کی ہے۔

بہاولپور چڑیا گھر کا کیا بات کی جائے کہ لاہور کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں آرہی ہیں، اور تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں۔ جنگ کے کارٹونسٹ جاوید اقبال جو کہ حالات کی بھر پور عکاسی کرنے کے ہنر سے خوب آشنا ہیں نے اسی ضمن میں ایک کارٹون بنایا ہے، جس میں چڑیا گھر میں جانوروں کی قلت کی خبر ہے اور ایک ’’جانور‘‘ دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ ’جلدی کرو چڑیا گھر کُھلنے کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ دراصل یہ جانور نہیں بلکہ چڑیا گھر کے اہلکاروں نے جانوروں کی کھالیں پہن رکھی ہیں۔ ظاہر ہے کارٹون کے لئے یہ تصور تو جاوید اقبال جیسے ذہین شخص کے ذہن میں ہی آسکتا تھا، اب آگے چڑیا گھر انتظامیہ کی مرضی کہ وہ اس کی عملی جامہ پہناتے ہیں یا پھر حسبِ عادت و روایت نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر اسے مذاق تصور کیا جائے تو یقینا کچھ نہیں ہوگا، اگر عمل کے بارے میں سوچا جائے تو کئی راستے نکلتے ہیں۔ تاہم انسان کو ’’جانور‘‘ بنانے کے راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں گی، کئی مسائل کھڑے ہونگے۔ مثلاً یہ کہ انسان کچھ ہی جانوروں کا روپ دھار سکیں گے، جن میں شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ شامل ہونگے، جبکہ ان سے چھوٹے جانور ’انسان‘ کے سائز سے چھوٹے ہونگے، جن میں بھیڑیا، بلی ، لومڑی وغیرہ آسکتے ہیں۔ کچھ بڑے سائز کے جانوروں کا بھی مسئلہ ہی ہے، جن میں نیل گائے، زیبرا وغیرہ شامل ہیں، ہاں البتہ اونٹ بننے کے لئے دو افراد کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں، تاہم ٹانگیں ٹیڑھی کرنا اور بیک وقت حرکت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، جس میں بے ترتیبی کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔ پرندوں کا تو احوال ہی دوسرا ہے، ان کے لئے تو انسان خود ذاتی طور پر کچھ نہیں کرسکتا البتہ اپنی عقل کے ذریعے جانور بھی مصنوعی بنائے جاسکتے ہیں۔ سیل ڈال کر ریمورٹ سے اڑائے جاسکتے ہیں۔
 
شیر کی کھال تو مل جائے گی، اہلکار بھی تنخواہ پر رکھا جاسکتا ہے، جسے وہ پہنائی جائے گی، (ویسے الگ سے اہلکار رکھنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ چڑیا گھروں میں بہت سا عملہ ہوتا ہے، جسے کوئی کام نہیں ہوتا اور وہ فارغ ہی ہوتے ہیں) جس کارکن کو شیر کی کھال پہنائی جائے کی اس کی ڈیوٹی کافی سخت ہوگی، کیونکہ شیروں سے اٹھکیلیاں کرنا یارلوگوں کی عادت ہے، شیر اگرچہ ہر وقت پنجروں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، مگر جب وہ آرام کے لئے لیٹ جائیں تو لوگ انہیں چھیڑنے میں تاخیر نہیں کرتے۔ اگر وہ مصنوعی شیر کو مسلسل تنگ کریں گے تو یہ شیر دھاڑے گا، جس سے اس کی اصلیت ظاہر ہوسکتی ہے، یہ بھی بعید نہیں کہ کوئی ’’شیر‘‘ تنگ آمد بجنگ آمد کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے جذباتی ہو کر سیر کرنے والے پر گالیوں کی بوچھاڑ ہی کردے، جس سے چڑیا گھر انتظامیہ کا سارا پول ہی کھل جائے گا۔ خیر یہ تو لاہور کی بات ہے، یقینایہ کام لاہور والوں نے بھی کیا ہوگا، تاہم بہاول پور والوں نے یہ کام اب کیا ہے، وہ جانورجن کا وجود چڑیا گھر کے اندر سالہا سال سے نہیں اور بچے اور بڑے انہیں دیکھنے کے لئے ترس گئے ہیں، انتظامیہ نے ان کا بندوبست چڑیا گھر سے باہر ہی سڑک پر کردیا ہے، جن میں ہاتھی، زرافہ اور دیگر جانور شامل ہیں، سیر کرنے والے آئیں، باہر سے ہی جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنائیں، (کیونکہ جانور ایک ہی پوز بنا کر کھڑے ہیں، ہلیں گے نہیں) ۔ نہ ٹکٹ کا جھنجھٹ، نہ ویرانی کا طعنہ اور نہ جانوروں کی قلت کا رونا۔ شکریہ چڑیا گھر انتظامیہ!!
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472498 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.