عشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتا ہے

عشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتا ہے(تحریر:محمد جبران) راوی :واجد خان
مجازی عشق سے عشق حقیقی تک کاسفر۔۔۔۔۔!
میں کلاس سے باہر نکلاتو مجھے ایک نورانی چہرے نے اپنی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کردیا۔پھر تو جیسے لمحے صدیوں میں بدل گئے،وقت نے اپنی چال روک لی۔وہ ایک حسین خواب کا جھونکاتھا جو سر تاپامیرے وجود کو جھنجھوڑ گیا۔وہ میرے سامنے سے گزر رہے تھے اور جوں ہی وہ گزرے مجھے تو جیسے ہوش آگیا،وہ پروفیسرقاسم جلیل صاحب تھے کیمسٹری کے پروفیسر۔گزشتہ پانچ سالوں میں انکی سیاہ داڑھی اب سفید ہوگئی تھی اور انکی شخصیت میں اس قدرے نکھار آچکاتھا کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتاتھا۔وہ اپنی مخصوص شلوارقمیض میں انتہائی پروقار انداز میں نظریں جھکائے چلے جارہے تھے۔میں نے ایک پل کے لئے اپنی آنکھوں میں انگلیاں گھوماتے ہوئے خوب تسلی کی کہ واقعی وہ پروفیسر جلیل صاحب ہی تھے یا کوئی اور مگر جب تسلی ہوگئی تو میں تیر کی طرح انکی جانب لپکا۔ان کی چال انتہائی دھیمی اور متواز ن تھی ،چہرے پر نظر کا چشمہ ان کی انکی شخصیت کو مزید شان والا کررہی تھی۔ وہاں کافی رش تھا سو انکے بالکل پیچھے لگ کر میں آہستہ آہستہ انکے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور جب وہ درسگاہ کی عمارت سے نکل کر باہر گارڈن میں داخل ہوئے تو میں ایک دم سے انکے سامنے آگیا:
"جناب میں واجد خان آپ کاپراناشاگرد جس کی شفقت اور دعاؤں سے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔آپ نے مجھے میٹرک اور ایف ایس سی میں پڑھایا ہے اور میں آپ کی کلاس کا ٹاپر رہ چکاہوں ۔۔۔۔۔۔"انہوں نے ایک دم سے میری جانب دیکھا اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ عود آئی ۔انکی آنکھوں میں شناسائی کی چمک ابھری اور انہوں نے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ مجھے مصافہ کے لئے ہاتھ بڑھادیا۔جبکہ میں توایک الگ ہی دنیا میں کھویاہواتھا،مجھے انکی آنکھوں کے سحر نے بری طرح سے جکڑا ہواتھا۔کچھ دیر تو مجھے بالکل ہوش نہیں رہاپھر اچانک میں نے بوکھلاتے ہوئے انکے ہاتھ میں اپناہاتھ دے دیاتو انہوں نے آگے بڑھ کر میرے کندھے کو بھر پور انداز میں دباتے ہوئے کہا:
"کیسے ہو جوان بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی دل کو بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔کیاکررہے ہو آج کل۔۔۔"
"بس جی اسی درسگاہ میں ہوں اور کوشش ہے کہ اگلے سال ایم فل کے پیپرز دے کر ہی نکلوں۔سر یقین کریں مجھے آپ سے مل کربہت خوشی ہورہی ہے آپ اتنے عرصے بعد ملے میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے نہ جانے قسمت نے ہمیں ایک دوسرے سے کیوں دور کردیاتھا۔پھر اسی قسمت نے ہمیں پھر سے ملوادیاہے۔ وہ چار برس میری زندگی کے سب سے عظیم دن تھے ،جتنامیں نے آپکی صحبت میں رہ کرسیکھاتھاوہ اس کے بعد کبھی بھی نہیں سیکھ سکا۔میری آنکھیں تو نہ جانے کب سے پیاسی تھیں آپ کے دیدار کوآج آپ ملے مجھے تو گویاپورا جہاں مل گیا۔سر آپ کہاں تھے ایک دم سے آپ کا نمبر بھی بند ہوگیا،میں نے بڑی کوششیں کیں کہ آپ کو تلاش کروں مگر آپ شاید لاہور چھوڑ کر ہی کہیں چلے گئے تھے۔یاغالباً آپ گوشہ نشینی میں چلے گئے ہوں،مجھے کچھ واضح بات سمجھ نہیں آئی تھی اور پھر خود کو میں نے قسمت کے حوالے کردیاتھاکہ جب وہ چاہے گی تو آپ سے ملاقات ہوجائے ۔اب اس نے جیسے چاہاویسے ہوگیا۔میں اس پر اپنے رب کا جتناشکریہ ادا کروں وہ کم ہے مجھ پر میرے رب نے ایک بار پھر کرم کردیا کہ مجھے آ پ مل گئے ۔مجھے بہت مسرت ہورہی ہے دل کے جذبے اور احساسات میں آپ کو کھل کر بیان نہ کرسکوں البتہ اتنا ضرور بتادیتاہوں کہ آپ کو رب نے کسی خاص مقصد کے تحت مجھ سے پھر ملوایاہے اور اب کی بار میں آپ کو کھونانہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میرے دل میں اور بھی بہت کچھ تھاایسے حسین جذبے تھے جو اندر ہی اندر مچل رہے تھے انہیں شاید میں زبان پر لانے سے کترارہاتھا۔بولتے بولتے ایک دم سے میر ی زبان رک گئی ۔اب ہمارے درمیان خاموشی تھی جو مجھے بری طرح سے کاٹ رہی تھی، وہ مسکرارہے تھے مگر زبان سے کچھ ادا نہیں کررہے تھے ،ان کی خاموشی بہت پراسرار ہوتی جارہی تھی۔مگر وہ پرسکون تھے مجھے یاد ہے پانچ چھ سال قبل وہ کافی غصے کے تیزتھے کوئی بھی انکی طبیعت کے خلاف بات کرتاتھاتووہ بہت جلد ہی جلال میں آجاتے تھے ۔مگر اب میں انکی طبیعت میں بہت سکون محسوس کررہاتھااس میں وہ جوش و جذبہ نہیں تھا جو پہلے ہوتاتھا۔ انہیں شاید جو منزل پہلے نہیں ملی تھی وہ اب مل گئی تھی تبھی انکے چہرے پر بہت سکون تھا مگر وہ چیز کیاتھی جسکی تلاش کے لئے وہ پانچ چھ سال تک غائب ہوگئے تھے ۔ آخر وہ اضطراب کیاتھاجو انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دے رہاتھا۔بے شک پروفیسر صاحب شروع سے ہی پانچ وقت کے نمازی تھے اور ہمیں بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے تھے ۔مگر وہ صرف نماز نہیں ہوسکتی تھے جس نے انہیں مکمل تبدیل کردیاتھا۔پروفیسر صاحب کو کیمسٹری کے علم سے عشق تھاانہوں نے اپنی کوٹھی میں بھی زیرزمین لیبارٹری بنارکھی تھی وہ چاہتے تھے کہ دنیامیں کیمسٹری کے سب کے سے بڑے پروفیسربن جائیں ۔ انہیں کیمسٹری سے عشق تھاجو رفتہ رفتہ جنون اور دیوانگی میں بدل گیاتھا۔آپ جب کیمسٹری لیب میں ہوتے تو اتنے محو ہوجاتے تھے کہ پھر ان کو اس سے باہر نکال پانا ناممکن ہوجاتاتھا اور جو انہیں نکالتا تھایاانہیں کسی بھی قسم کا ڈسٹرب کر نے کی تھوڑی سی بھی کوشش کرتاتھاتو آپ جلال میں آجاتے تھے۔سارا غصہ اسی پر نکال لیتے تھے۔میں انہی کی صحبت میں رہ کر کیمیاء کو سیکھااور آج اسی مضمون میں ایم فل کررہاتھا۔مگر جو کچھ میں نے ان سے سیکھاتھاوہ آج تک مجھے کوئی نہیں سیکھاسکاتھا۔انکے جنون میں میں بھی رنگاگیاتھا،اب ایم فل ہونے کو آئی تھی مگر مجھے ان جیسا پروفیسر زندگی میں نہیں ملاتھا۔وہ جب بھی مجھے سمجھاتے تھے تو انکے بال آئن سٹائن کی طرح بکھرے ہوئے ہوتے انہیں اپناہوش نہیں ہوتاتھا۔اس اثناء میں وہ کیمسٹری کے ساتھ رقص کررہے ہوتے تھے ان کی جو کیفیت
ہو تی تھی اسے بیان نہیں کیاجاسکتاتھا۔وہ کیمسٹری کواپنی محبوبہ کہتے تھے اور اسکے عشق میں انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی ۔یہ ایک عاشق اور ایک محبوب کا ملاپ تھاجسے زمانے بھر میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتاتھااور اس عشق میں انہوں نے پاگل ہوکر دنیابھر کر چکر لگایاایک ایک میوزم ایک ایک درسگاہ ایک ایک سے بڑھ کر ایک پروفیسر، وہ کیاتھا جو انہوں نے چھوڑا ہو ۔کیمسٹری کے عشق میں انہوں نے سب کچھ چاٹ ڈالا تھا مگر پھر بھی انہیں وہ سکون میسر نہیں تھا،وہ اکثر ایک شعر کہاکرتے تھے جو میری رگوں میں سنسنی پھیلادیتاتھا۔وہ شعرکہتے ہوئے اکثر جھوم جایاکرتے تھے:
ؔ عشق انساں کو قلندر بوعلی کرتاہے
عشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتاہے
وہ کچھ دیر یوں ہی مسکراتے رہے پھر مجھ سے گویاہوئے:
"واجد بیٹا یہ انسان توایک حقیرتنکاہوتاہے اپنی مرضی سے ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتا۔یہ سب اوپر والے کے کھیل ہیں اور اس کے کھیل نرالے ہوتے ہیں وہ جو کرتاہے خوب کرتاہے۔" انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہااور ساتھ میں آسمان کی طرف اشارہ بھی کردیا۔میں صر ف انکی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اور انکے انتہائی پروقار ہونٹوں کو ہلتے ہوئے دیکھتارہا۔پھر ایک دم سے مجھے ہوش آیاتو میں نے سر سے کہاسر اگر آپ بر انہ منائیں تو آپ سے ایک نشست ہو جائے ۔میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے دل کی پیاس بجھانا چاہتاہوں ،اب تو ایسالگتا ہے کہ میں صدیوں سے پیاسا ہوں اور میری پیاس آپ ہی بجھاسکتے ہیں ۔کیایہ ممکن ہوسکتاہے ؟یاآپ اگر مصروف ہیں تو مجھے پلیزوہ وقت دیں جب آپ فری ہوں ۔مجھے سکون صرف آپکے ساتھ بیٹھنے میں ہی محسوس ہوگا،میری روح کو مزید نہ تڑپائیں سر ۔۔۔۔۔"میں نے ایکد م سے سر جھکاتے ہوئے کہا تو انہوں نے مجھے آگے بڑھ کر گلے سے لگالیا۔انکاوجود جب میرے بدن سے ٹکرایاتو میرا بدن تھر تھر کانپنے لگا۔مجھے توسمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیاہوگیاہے ۔میں اپنی کیفیت بیان کرنے سے قاسر تھااور اب بھی ہوں۔سمجھ نہیں آئی کہ میری روح تک کانپ گئی ،پھر وہ مجھ سے الگ ہوئے اور انہوں میرے دونوں کندھوں کو تھام کر کہا:
"کیاہوا جوان ؟ ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نظریں جھکائے انکے الفاظ کو معنی پہنانے کوشش کررہاتھا کہ وہ پھر گویاہوئے ۔
"آؤ میرے ساتھ میں چاہتا ہوں کہ تم آج مجھے کسی رکشے پربٹھادو۔تمہاری خواہش آج تو پوری نہیں ہوسکتی مجھے اس نے یاد کیا ہے سو مجھے جاناہوگا۔البتہ جب بھی ہماری اگلی ملاقات ہوگی تو وہ بھرپور ہوگی،میراوعدہ رہالیکن ابھی مجھے جاناہے۔اس وقت تک کے لئے تمہیں انتظار کرناہوگا۔۔۔۔۔۔۔"ہمارے آس پاس بہت سے لوگ گزر رہے تھے مگر ہم سب سے بے نیاز اپنی ہی دنیامیں مگن تھے۔ہمیں کسی کی پراہ نہیں تھی کہ کون آرہاہے اور کون جارہاہے۔مگر انکے آخری فقرے نے مجھے تھوڑی پریشانی میں مبتلا کردیانہ جانے وہ کہاں جارہے تھے اور پھر وہ اب کی بار غائب ہوئے تو پھر یہ انتظار کتناطویل ہوگا۔بے شک دنیاکا سب سے مشکل کام انتظارہے اور اس انتظار میں لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں ۔مجھے اس سے کئی دفعہ خوف بھی آتاہے کہ یہ اپنی وسعت میں کتنالامتناہی ہے۔مگر کیاکہاجاسکتاتھامیرے استاد نے جو کہہ دیاوہ بات حرف آخر تھی ۔لہذا میں نے خاموشی سے حامی بھری اور کہنے لگا:
"سر آپ نے تو مجھے عجیب امتحان میں ڈال دیا ہے اور آپکی بات ٹالی نہیں جاسکتی سو آپ نے جو کہہ دیاوہ میں ماننے کے لئے تیار آپکی بات پر تو میں انکار نہیں کرسکتا۔اس دعا کے ساتھ کہ ہمار ی ملاقات جلد ہی ہوگی،پر نہ جانے آپ میرے صبر کا امتحان اور کتنالیں گے۔مجھے آپ کاانتظار کتنے روز کرناہوگاپر اگر آپ برا نہ منائیں تو میں آپ کو اپنی بائیک پر ڈراپ کردوں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے اپنے دل کے تمام جذبات کی ترجمانی الفاظ کی شکل میں کردی ۔پتہ نہیں میں ان کو قائل کر پاؤں یانہیں پر شکوہ تو کر ہی سکتاتھا ناں سو کردیاپھر میں خاموشی سے کسی امید کی آس میں انکے چہرے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے الفاظ کو سننے لگا۔انہوں نے اپنے نورانی چہرے ہلکی سے مسکراہٹ سجائے اور کہنے لگے۔
"انتظار کرو بیٹاکیونکہ یہ اسی کا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ مجھے رکشے پر بٹھاکر آؤ۔۔۔۔" یہ کہتے ہی وہ میرے آگے چلنے لگے اور میں انکے پیچھے پیچھے چلنے لگا پھر ہم درسگاہ کادروازہ کراس کرکے ہم لوگ باہر آئے تو سڑک پر آکر میں نے انہیں رکشہ روک کردیا اور پھر وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے میں انہیں تب تک دیکھتارہاجب تک وہ میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے ۔میری آنکھوں میں پانی آگیا۔۔۔۔۔پھر میں نے اپنے قدم بوجھل دل کے ساتھ بڑھائے اور میں درسگاہ کے ایک اور دروازے میں داخل ہوگیا جہاں پر بائیکس کی پارکنگ تھی وہاں سے میں نے بائیک لی اور پھر افسردہ دل کے ساتھ اپنے گھر کی طر ف راونہ ہوگیا۔

********
وہ دن تھااور پھر رات ہوگئی مجھے گھر آکر ایک پل چین نصیب نہیں ہورہاتھا۔نہ نیند آتی تھی نہ دل میں کسی اور کا خیال آتا تھا،میں نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایاتھا امی چیختی رہ گئیں مگر میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے سونے کا بہانہ کرلیٹ گیا۔نیند بھی تو مجھ سے روٹھ گئی تھی نہ آخر پروفیسرپانچ چھ سال کہاں رہے تھے اور اب اچانک یونیورسٹی کیسے آگئے کیاوہ صر ف مجھ سے ملنے آئے تھے یا انکو کوئی کام تھا۔پتہ نہیں کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے تھے اور بولاتھا کہ اب اگلی ملاقات بھرپور ہوگی ۔نہ جانے وہ کیسے ہوگی نہ انہوں نے کوئی ملاقات کی جگہ متعین کی تھی اور نہ انہوں نے کچھ بولاتھا۔پھر امی کو شکل دیکھانے کی غر ض سے میں شام کے سودے لے آیاتھا مگر پھر آکر کمرے میں لیٹ گیا۔امی یا ابو سے اپنے دل کی حالت بیان نہیں کرسکتاتھا پتانہیں وہ میری بات کاکیامطلب لیتے ۔سو چپ رہناہی مناسب سمجھارات کو دوست کی کال آئی تو وہ بھی میں نے اٹنڈ نہیں کی تھی ۔ رات ہوتے ہی میں چھت پر چڑھ گیااور دور چاند کو اپنی طرح اداس پایا۔وہ بھی کسی کی یاد میں دکھی معلوم ہوتاتھامیں اس کو تھوڑی دیر تکتاتو آنکھیں تھک جاتیں پھر اپنی آنکھیں نیچے کرلیتا۔نہ جانے یہ عمل کتنی دیر رہاتاروں بھرا آسمان اور ہر طر ف پر اسرار خاموشی میرے وجود کو بر ی طرح سے کاٹ رہی تھی۔اس خاموشی میں ایک عجیب سا خوف چھپاہواتھامیرا جسم پھر سے کانپنے لگا۔مجھے ایک پل سکون نہیں تھا میں رونے لگا اور اپنے رب سے گڑگڑا کر فریاد کرنے لگاکہ ایک اللہ تو اس ناچیز سے کیوں امتحان لے رہاہے آخر وہ کیا چیز ہے جو مجھ پر آشکارہ کرناچاہ رہاہے۔میں نے وہ رات تاروں کے سائے میں اپنے آپ سے الجھتے ہوئے گزار دی ۔میں اندر ہی اندر اپنے آپ سے جنگ کررہاتھااور اپنے آپ کو اس قابل بنانے کی کوشش کر رہاتھا کہ مجھے اب ایسے ہی جیناہی اور ایسے ہی وقت گزارناہے۔

********
وقت گزرتا گیااور اب میں کوئی بھی کام دل سے نہیں کرتاتھاکسی مشین کے مانند درسگاہ جانااور پھر وہاں سے واپس آنااور پھر اسی انداز میں سارے کام کرنا اور کسی بھی کام میں دل نہ لگنامیرمعمول بن گیا۔اس کا احساس میرے گھر والوں کوبھی ہوا مگراس کا اعلاج انکے پاس نہیں تھاسو انہوں نے مجھے ڈاکڑکے پاس چیک اپ کرانے کے لیے بھیج دیا۔ان کے پلے بھی کچھ نہ پڑ اتو انہوں نے چندد وائیں لکھ کر اپنی جان چھڑائی اور پھر رفتہ رفتہ میں نے اپنی حالت خود ہی بہتر کرلی اور میں اپنی نارمل روٹین لائف میں آگیا۔مگر میری شخصیت میں پھر بھی خلاء تھا جو کوئی پر نہیں کر سکتاتھا۔وہ سال پورا ہوا اور میں تھیسس کے لئے کام کرنے لگااس مقصد کی تحقیق کے لئے مجھے پشاور یونیورسٹی جاناپڑااور اس وقت میری حیرت کی انتہانہ رہی جب میں نے پروفیسرصاحب کو ایک پبلک پارک میں دیکھ لیااور پھر میں نے کے قریب چلاگیا۔انکی نورانیت میں مزید اضافہ ہوگیاتھا۔انکے چہرے پر مزید نکھار آگیاتھامجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور میرے پاس آکر مجھے انہوں نے سینے سے لگالیا۔میرے اندر ایک آنسوؤں کا ایک سمندر جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا۔وہ اب ابل کر باہر آگیاتھاآج پھر اتنابڑاانتظار تھاجو ختم ہواتھا۔ہم دونوں نہ جانے کتنی دیر تک یوں ہی ایک دوسری کی دلوں کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے رہے ۔پھر ایک دوسرے سے جدا ہوے تو وہ مسکرارہے تھے۔میں ان کی مسکراہٹ دیکھ کر اپنادکھ بیٹھ گیااور پھر ان کے طرف دیکھ کر خود ہی دل بہل گیااور میں بھی مسکرادیا۔مگر زبان تھی کہ خاموش تھی اس میں سے لفظ ادا نہیں ہورہے تھے۔انہوں نے میرا ہاتھ تھامااور پھر مجھے پارک سے نکالتے ہوئے درختوں کے پاس لے گئے اور کہنے لگے :
"آج سے بیس پچیس سال قبل میں کیمسٹری کا دیوانہ ہوتاتھا،میری زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھااور وہ تھا کہ دنیاکا سب سے بڑا کیمیادان بننا۔میں نے اس کی خاطر دنیابھر کے چکر لگائے اپنے عشق کی تسکین کی خاطر میں نے کیاکیانہیں کیا۔میں نے دنیا کی ہر لائبریری کا رخ کیادنیاجہاں کے کیمیادانوں سے ملامگر مجھے ابھی اور جانناتھا۔میری دل میں کوئی سکون اور چین نہیں تھی پھر میں نے سوچاکہ کیوناں رب کے دروازے پے جایاجائے مجھے سکون شاید اس در سے مل جائے شاید میں سکون پاجاؤں ۔سو میں لاہور میں ایک دوست کے مشورے پر ایک مسجد میں چلاگیا۔جہاں پر بتایاگیاتھا کہ ایک مشہور بزرگ شخصیت شاہ بابا آتے ہیں انکے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔میں بھی مسجد میں چلاگیا۔عصر کی نماز کے بعد جمعرات کے روز انکاکلام سننے بہت سے لوگ آئے تھے ۔ابھی انکاکلام شروع ہواتھاکہ وہ ایک دم سے جلال میں آئے انہوں نے مجھے گھور کردیکھااور پھر مجھے کہنے لگے
"بدبخت تو کیالینے آیاہے۔۔۔۔تیرے لئے میرے محفل میں کوئی جگہ نہیں نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے اٹھاکر باہر پھنک دو۔۔۔۔۔۔" اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مجھے انکے مریدوں بازوؤں سے اٹھایااور مسجد کے باہر پھنک دیامیں بہت حیران اور پریشان تھاکہ مجھ سے کیاغلطی سرزد ہوگئی۔یہ حرکت مجھے بالکل نہ بھائی تھی ،مجھے بہت تکلیف کااحساس ہوا۔اتنی بے عزتی اگر میری کسی اور جگہ ہوئی ہوتی تو شاید میں وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادیتا۔پوری انتظامیہ کوہی ادھیڑکررکھ دیتا،میری شان میں یہ گھستاخی میں کبھی بھی برداشت نہ کرسکتاتھا۔اس ملک کا سب سے بڑ ا کیمسٹری کا پروفیسرتھاکوئی معمولی بات نہ تھی۔ مگر مسجد کو خداکا گھرجان وہاں سے تو واپس چلاگیا۔پھر اگلے دن میں نے اپناسارا غصہ اپنے دوست کے اوپر نکال دیا۔اسکی ایسی مٹی پلیدکی کی اس کی سات نسلیں یاد رکھیں گی۔ پر وہ میرادوست تھااور میرے غصے اور اناسے خوب واقف تھا۔چپ چاپ میراساراغصہ برداشت کرتارہاپھر گویاہوا:
"پہلے تو میں معذرت چاہتاہوں کہ تمہارے ساتھ یہ رویہ ہوامگرمیں اپنی بات پر قائم ہوں کہ اگر تمہاری تقدیر بدلنی ہے تو وہ شاہ بابا ہی وہ شخصیت ہیں تمہیں وہ راستہ دکھائیں گے اور وہی ہی ہیں تمہارے اندر موجود اس حالت سے نکلنے کا ہی طریقہ بتائیں گے ۔اگر تم نے کچھ پاناہے تو چپ چاپ انکے اس رویے کو برداشت کرو تم اپنی تقدیر پالوگے۔۔۔۔۔"میں اس کی باتیں بڑی دیرتک سنتارہاوہ مجھے قائل کرتارہا۔شاید میں اس کی باتیں کبھی نہ سنتااور نہ ہی مانتااگر وہ مجھے یہ یقین نہ دلادیتاکہ یہیں تمہارے مسئلے کا حل ہے تم انکی شاگردی میں بیٹھواور انکے روئیے کو برداشت کرو۔خیراس کے سمجھے بجھانے پر میں اگلی جمعرات پھر انکے پاس چلاگیا۔جمعرات کے بعد انکاکلام شروع ہواتومغرب قریب آگئی اور پھر وہ مغرب کی نماز پڑھاکر جانے لگے تو میں انکے پاس سائل بن کر آگیا۔میں نے ان سے وقت مانگاتو وہ مجھے بری طرح سے جھڑکتے ہوئے سائیڈ پر کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے ۔میں پھر حیران وپریشان اور غصے کی ملی جلی کیفیات سے انکو جاتاہوا دیکھتارہاکہ آخر ان کا رویہ میرے ساتھ ایساکیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک دل کیاکہ آگے بڑھ کر انکو آج اپنی تذلیل کرنے کاپوراجواب دے ہی دوں اور پھر یہاں پر کبھی واپس نہ آؤں ۔ مگر پھر مسجد کے تقدس کا خیال آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر اپنے غصے کو پیتاہوااگلے دن پھر دوست کے پاس آپہنچااس کے پھر اپناساراغصہ اتادیاتو وہ تحمل سے ساری گفتگو سننے لگااور پھر گویاہوا:
"تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہورہاہے وہ ایک خاص مقصد کے تحت ہورہاہے۔ اگر تم وہ برداشت کرلو تویقین کرو تمہارے لئے نعمتوں کے باغات کھل جائیں گے۔میرا مشورہ یہی ہے کہ اپنی" میں " کو مارکر اپناسرڈال کر وہیں پڑے اور پھر دیکھوکہ کیاہوتاہے۔شاہ باباکو سرڈالنے والی ادا بہت پسند ہے ۔لیکن اگر میں یہ کہوں کہ سرڈالنااور اپنے اندر اپنی "میں"کو ختم کرناہی سب سے بڑا جہاد ہے اور یہ خداکو بہت پسندتو تمہیں یہ بات بری نہیں منانی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مجھے پھر سمجھاتارہااور اس کی باتوں کا اثر یہ ہوا کہ میرے اندر ایک نئی تبدیلی آناشروع ہوگئی۔میں نے زندگی میں پہلی بار سوچاکہ واقعی میں کچھ نہیں ہوں۔اور مجھے اپنے اندر سے اپنی اناکوختم کرناہوگا،جب تک میں اپنے خول میں رہاتو میں کچھ نہیں پاسکوں گا۔لیکن یہ بہت مشکل تھامیری شخصیت بہت عرصہ کی تپسیا کے بعد بنی گئی تھی۔جس پر حالات کا جبر کاتھا۔میری سوچ میں یہ آگئی تھی کہ میرے پاس زیادہ علم ہے اور میں بہت زیادہ جانتاہوں۔اس کو اپنی شخصیت سے نکالنابہت مشکل تھا مگر نکالناتو تھااگر میں ایسانہ کرتاتو شاہ بابا سے مجھے کچھ بھی نہ مل سکتاتھاْبلکہ حقیقت تھی کہ پہلی دو ملاقاتوں میں میں زندگی کی وہ حقیقت جان گیاتھاوہ اس سے قبل نہیں جانتاتھا۔اگلے جمعرات میں پھر اسی محفل کا حصہ بن گیا۔اس بار انکے کلام کے بعد جب سب لوگ اٹھ گئے تو وہ خود میرے پاس آئے اس بار انکا رویہ انتہائی نرم تھا مجھے مخاطب ہوکر کہنے لگے:
"بیٹارب سے کچھ مانگناہے تو اس کی بارگاہ میں اپنی ذات کو ماردیناہوتاہے۔پس یہی عمل خداکو بہت پسند ہے اور اگر خدا کے قریب آنا چاہتے ہوتو تزکیہ نفس کرو اپنے نفس کی نفسانی خواہشات کو مارد دو۔اپنی ذات کو ختم کردو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس پھر اگر تم نے وہ کردیا جو خدا کو پسند ہے تو پھر تمہاری اس خواہش کو پور اکردے گا جس خواہش کے لئے تم یہاں پر آئے ہو۔۔۔۔"انہوں نے کندھاتھپتپایااور پھر وہ وہاں چل دئیے۔۔۔۔اور میر ی زندگی کا ایک نیاسفر شروع ہوگیا۔۔۔۔۔۔میں اپنے اندر تحمل بردباری لے آیا۔۔۔۔۔۔۔مجھے خدا کے قریب ہوناتھاتاکہ مجھے کیمیاء کا علم اس کی انتہاتک مل جائے۔۔۔۔۔۔
********
پھر یہ سفر چل نکلامیں ہر جمعرات انکی خدمت میں پیش ہوجاتااور وہ میری تربیت کرتے رہتے ۔۔۔۔۔دن گزرتے رہے اور پھر ایک دفعہ ایک بہت ہی پراسرار سلسلہ شروع ہوگیاانہوں نے مجھے خطوط دے کر روانہ کرناشروع کردیا۔جس کی وضاحت میں بالکل نہیں کرسکوں گا۔ وہ ایک بند خط ہوتا جو وہ مجھے دیتے اور اور کہتے کہ یہ میں ملتان جاکر ایک پان شاپ پر موجود کسی کامران صاحب کو دے دوں ۔مگر مجھے وہ خط کھول کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسر ا چکر میرا کراچی لگااور کلفٹن کے علاقے میں ایک بہت بڑا بدمعاش تھا مجھے اس سے ملکر وہ خط دیناتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر تیسرے خط کی بار ی آئی تو انہوں نے مجھے اندرون سندھ سانگھڑ بھیج دیا۔۔۔۔۔۔ چوتھاخط کچھ عرصے کے بعد مجھے کوئٹہ لیکر جاناتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تمام خطوط کو ئی بارہ کی تعداد میں تھے اور جو تمام سفر میں نے کئے اس میں انتہائی پراسرار بات یہ تھی کہ کسی ایک سفر کا کرایہ بھی میں نے ادا نہیں کیااور نہ ہی شاہ بابا نے دیا۔ بلکہ شاہ بابا نے بتایا کہ یہ تمام سفر اللہ کے ہیں اور وہی ہی تمہارا خرچ ادا کرے اور ہوا بھی ایسے ہی۔ مجھ سے آج تک جب بھی بس میں یا ٹرین میں کرایامانگاجاتا تو میرے ساتھ والا مسافر میرا کرایہ خود ہی بھر دیتاتھااور باز اوقات تو ایسابھی ہوا کہ مجھ سے کرایہ مانگا بھی نہیں کیا۔۔۔۔جب بھی میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے مجھے مسکرا کر ٹال دیا۔۔۔۔۔۔۔البتہ مجھے ایک بار یہ کہاکہ
"بیٹا یہ رب کے کام ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی جانتاہے ہم تو بس نہ چیز ہیں ۔ممکن ہے کبھی تمہیں اس کی وجہ سمجھ آجائے۔۔۔۔۔۔۔"
اور میں بس سوچتاہی رہ جاتاتھا۔وقت گذرتاگیااور میرے وجود میں خدا کی محبت امر ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔میری سوچ بھی تبدیل ہوگئی اور میں نے زندگی کے بار ے میں نئے زاویوں سے سوچناشروع کردیا۔رفتہ رفتہ میں کیمسٹری سے دور اور خدا کے پاس ہوتاچلاگیا۔۔۔۔۔۔وقت گذرتاگیااور پھر میں شاہ بابا کے زیرسایہ ارتقاء کے نئے مراحل طے کرتاگیا۔اور پھر وہ وقت آیاجب انہوں نے مجھے بلوچستان کے پہاڑوں پر جانے کا حکم دیااور کہاکہ تمہیں خدا کانیاحکم وہاں پر ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب تمہاری کیمسٹری کے چار سال پورے ہوچکے تھے اور پھر میں اچانک اپنے نئے سفر پر روانہ ہوگیا۔اب یہ تمہارے اس سوال کا جواب کہ میں اچانک کہاں غائب ہوگیاتھا۔۔۔۔۔میں نے اپنے سفر کاارادہ کیااور پھر میں بلوچستان کے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جگہ کا تعین اس لئے نہیں کروں گاکہ مجھے وہ جگہ راز میں رکھنے کاحکم ہے۔۔۔۔۔۔میں کوئی تین دن کے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچاتو مجھے وہاں پر شاہ باباملے اور اس وقت میر ے لئے حیرت کی انتہانہ رہی کہ انہوں نے مسکراتے ہوئے میرااستقبال کیا۔مجھے حیرت اس لئے ہوئی کیونکہ انہوں نے کہیں اور جاناتھااور وہ اتنے جلدی اپنی ہی بتائی ہوئی جگہ پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔۔انہوں نے مجھے حیران پریشان دیکھاتو خاموشی کے ساتھ بالکل ویساہی ایک لفافہ تھمامادیاجو میں اس سے قبل بارہ دفعہ مختلف لوگوں کے تھماماچکاتھا۔اس دن واقعی میری حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب وہ لفافہ میں نے کھول کردیکھاتو اس پر ایک ایسی تحریر لکھی تھی جسے پڑھ میں بے اختیار روتے ہوئے شاہ باباکے گلے لگ گیا۔جانتے ہو اس میں کیالکھاتھا؟؟؟؟"میں نے تجسس سے نفی میں سر ہلایااور پھر انہوں نے کہا:
"تمہاری مراد آج پوری ہوگیا،خدا کو تمہاری تپسیاپسند آئی بولو کیامانگتے ہو؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کا پیار۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیمسٹری کی انتہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کیمسٹری چاہتے ہوتو جاؤ�آج کے بعد دنیابھر میں تمہیں ایک نامور کیمیاء دان کے طور پر جاناجائے گا۔۔۔۔تم جس کیمیائی عمل میں ہاتھ ڈالوگے وہ سونابن جائے گی۔۔۔۔۔بولو کیاچاہتے ہو۔۔۔۔؟"پھر جانتے ہو میں نے کیاچنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرے لئے خدا اور اس کی محبت بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پروفیسر نے کہااور میں انکے الفاظ پر غور کرنے لگا۔۔۔۔۔میری زندگی میں ایک بار پھر وقت تھم گیاتھا۔میں پروفیسر صاحب کو اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت سے سوالات کے جوابا ت مل تو گئے تھے مگر کچھ نئے سوالات نے جنم لے لیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقت نے ایک بار پھر پروفیسرصاحب اور مجھے ملادیاتھا اور میں بہت دور خلاء میں کسی اور دنیامیں ناجانے کیاسوچ رہاتھاوہاں تک میری سوچ نہ پہنچ سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے لب پر بس ایک ہی مصرعہ تھاعشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتاہے۔۔۔۔۔۔!!!
(******)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61298 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More