لغات واصطلاحات(٣)
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
|
سوال:میری ہمشیرہ کا نام
‘‘وَسّانہ’’ہے،تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی ترجمہ نہیں مل سکا،اس لفظ
کی تحقیق کیا ہے؟ (مفتی عبدالمقتدر میمن، کراچی)۔
جواب:‘‘وَسَّانہ’’ کا ترجمہ اضداد میں سے ہے،بہت اونگھنے والی اوربہت جاگنے
والی،یہ دونوں اس کاترجمہ ہے،یہ بابِ سَمِعَ سے وَسِنَ یَوسَنُ وسناً
وسِنَۃً سے صیغۂ مبالغہ ہے،آیۃ الکرسی میں لفظ سِنَۃٌ( اللهُ لاَ إِلَهَ
إلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ/اللہ
ہی ہے،کوئی خدا نہیں،مگر وہی ہے (جو ہمیشہ سے )زندہ،قائم دائم ہے،اسے اونگ
آتی ہے نہ نیند۔سورۂ بقرہ،آیت 255) کا تعلق بھی اسی مادّہ‘‘وسنٌ’’ سے
ہے،وَسِنَ المُستَیقِظُ کا معنی ہے،جاگنے والا اونگھنے لگا،مُستَیقِظ جاگنے
والا،وَسِنَ النَّائِمُ کاترجمہ ہے،سونے والا جاگ گیا، النائِم:سونے
والا،یہ کلمہ کبھی کبھی بے ہوش ہونے کے معنی میں بھی مستعمل ہوتاہے۔
‘‘الوَسنُ’’ج اوسان:حاجت،ضرورت،خواب،کہتے ہیں،اس کے اوسان خطا ہوگئے، یعنی
اس کے خواب بکھر گئے،پیپلز پارٹی سندھ کے سابق وزیر منظور وسّان بھی خوابوں
کے حوالے سےاپنے نام کے اثرات کی بدولت خاصے مشہور ہوگئے تھے،کیونکہ اونگھ
اونگھ کر وہ خواب دیکھتے رہتے تھے۔
اسی طرح کے نام رکھنے چاہیئیں
سوال:ہم سب ساتھی ایک ہی ادارے میں کام کرتے ہیں،کچھ دن پہلے ہمارے یہاں
ناموں کے معانی وتراجم پر گرماگرم بحث ہوئی،ہر کوئی اپنے نام کو بہترین نام
کہلانے کی کوشش میں تھا،اس دوران روزنامۂ جنگ میں نامو ں کی اصلاح کے
متعلق ایک سلسلۂ مضامین دیکھنے کو ملا،ہم سب نے فیصلہ کیا کہ ایمیل کے
ذریعے یہ سارےنام جنگ کو بھیجیں، یوں بطور تھرڈ پارٹی آپ ہمارے ناموں کا
الگ الگ مطلب بیان کردیں گے،اس طرح تمام دوستوں کو اطمینان ہوجائے گا۔
علی،اُمیمہ،دُعاء،حسین،عندلیب،سُندس،سُنبل،افرائم۔ حسان۔ (اسلام آباد)۔
جواب:(علی)صیغہ صفتِ مشبہ ہے،یہ بابِ نَصَرَ، سَمِعَ سے کثیر الاستعمال
ہے،بابِ ضَرَبَ سے شاذونادرمستعمل ہوتا ہے،شروع میں بغیر الف لام
کےسیدناعلی بن ابی طالب کرَّم اللہ وجہَہ کا نامِ نامی اسمِ گرامی ہے،بلند
وبالا،عزتمند وقدرمند،فاتح وغالب اور طاقتورومضبوط کے معنی میں
ہے،(العَلِی) الف لام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ننانوے حسین ناموں میں سے ایک
نام ہے،جو اسی کے ساتھ خاص ہے،بغیر الف لام کسی کا بھی نام رکھ سکتے
ہیں،حضرت علی کی طرف نسبت کرکے تبرُّکاً اور مندرجہ بالا معانی سے تفاؤلاً،
کسی شے،جگہ یامکان کے لئے استعمال ہو،تو اونچائی کے معنی میں ہے،بکسر
العین(عِلِّی/عِلّیین)ہو،توبہت اونچی جگہ کو کہتے ہیں،تعالی کامعنی ہے
بلنداور تعلِّی کا معنی تکبرہے،عُلَیّان بھی ایک نام ہے۔
(اُمیمہ)یہ اُمٌّ/ماں کی تصغیر ہے،جس کا معنی ہے چھوٹی سی ماں۔ مضبوط پتھر
کو بھی کہتے ہیں،بعض محققین کے ہاں اُمٌّ کی تصغیر اُمَیہۃٌ ہے،لیکن حقیقت
یہ ہے اُمَیمۃٌ بھی أُمٌّ کی تصغیرہے۔اس نام کی خاتون عام بچوں سے پیار بہت
کرتی ہے،اس کی اپنی اولاد ہی اس کی زندگی ہوتی ہے،گھریلوزیادہ اور باہر کم
جاتی ہے،قصے کہانیاں پڑھنا اس کا بہترین مشغلہ ہوتاہے۔اِمامت اوراِمامۃٌ سے
اگر اس کی تصغیر مان لی جائے،تو پھر اس کا معنی ہے، سب سےآگے،حضرت امیمہ
بنت خلفؓ مشہور صحابیہ ہے،ان کے شوہرحضرت خالد بن سعیدؓ بھی صحابی
ہیں،دونوں نے پہلے حبشہ اوربعد میں مدینہ منورہ دو ہجرتیں کی تھیں۔
(دُعاء)کیاہی خوبصورت نام ہے،پُکار کے معنی میں ہے،وہ کلمات جسکے ذریعے
اللہ تعالی سے دعاءمانگی جاتی ہے،اس نام کی بچّی بہت حساس ہوتی ہے،گہرے
رنگوں کو زیادہ پسند کرتی ہے،بہت جلد روجاتی ہے،لیکن بہت جلدخوش ہوکر ہنس
بھی جاتی ہے،قرآن کریم میں لفظ دعاء وارد ہواہے {رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ
دُعَاءِ} ،اردو میں یہ اسی معنی میں مشہور ومعروف ہے، اسلام میں دعاء اللہ
پاک سے مانگنے کو کہتے ہیں،اس عمل کو حدیث مٰیں عبادت کا مغز قرار
دیاگیاہے، عبادت ہونے کی وجہ سے اللہ کے سوا کسی اور سے دعاء ج اَدعِیَۃٌ
ممنوع ہے۔دعاء کو عربی میں دعوۃٌ ج دَعَوَاتٌ بھی کہاجاتاہے۔
(حُسین/husain) یہ حَسَنٌ کا اسمِ مصغَّرہے،یعنی بہترین،حَسین وجمیل
اوراونچاپہاڑ، حضرتِ حسینؓ کی وجہ سے یہ نام مسلمانوں میں بہت محبوب
ہے،معنی میں بھی اچھا نام ہے،الف لام کے ساتھ الحسین اور بغیر الف لام کے
صرف حسین دونوں طرح مستعمل ہے،حضرتِ حسن/hasan اور حضرتِ حسین دونوں کو
حَسَنَین کہاجاتا ہے،حُسین نامی شخص ہمیشہ محبوب رہتاہے،اپنے اہداف کے حصول
کے لئے جان پر کھیل سکتا ہے،حساس وپُرلطف اور انتہائی بہادرہوتاہے۔
(عندَلیب،بروزنِ زَنجَبِیل)بلبل،ج عَنادل۔ موسمِ بہار کا ایک چھوٹاسا پرندہ
جس کی خوبصورت آواز مشہوراور ضرب المثل ہے۔
(سُندُس) باریک ریشمی کپڑا،اِستَبرَق:موٹا ریشمی کپڑا،سندس اچھا نام
ہےقرآنِ کریم میں بھی مذکور ہے۔
(سُنبُل)گیہوں کاخوشہ،بالی،کونپل،یہ اسم جنس ہے،واحد اور جمع دونوں کےلئے
برابر استعمال ہوتاہے،اس کاواحد سُنبُلَۃٌ اور جمع سُنبُلات قرآن کریم میں
ہے۔ سندس اور سنبل ہر لحاظ سے اچھے نام ہیں۔
(افرام،افرایم،افرائم)یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے،تہ درتہ میوہ جات اورپھل
دار اس کا ترجمہ ہے،حضرتِ یوسف علیہ السلام کے صاحبزادے کا نام ہے،جس کی
پیدائش مصر میں ہوئی تھی،ان کی والدہ کانام اَسنات تھا،انہی کے نام سے
فلسطین میں ایک علاقے کانام افرام پڑگیاہے،جس کو جبل افرام بھی کہتے
ہیں۔(حسّان/hassaan)یہ حُسن سے ہے،صیغۂ مبالغہ ہے،بہت زیادہ حَسین،صفات
میں حَسَن،حُسین،مُحسِن اور حسّان سب یکساں اور قریب المعانی ہیں۔
سوال:دارالاسلام اور دارالکفر،دارالامن اور الحرب میں کیا فرق ہے؟(مشتاق
احمد طاہر،پنڈی)۔
جواب:دار الاسلام حقیقی کی تعریف:جہاں دستوری طور پر اسلامی قوانین اور
اسلامی احکام نافذ ہوں، اور اس ملک کے قائدین وحکام مسلمان ہوں،مثلاً:
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ۔
دار الاسلام حکمی:جہاں مسلمانوں کو، شعائرِ اسلام پر عمل کی اجازت ہو اور
وہاں کے قائدین اورحکومتی کارندے مسلمان ہوں،یہ دارالمسلمین کہلاتے ہیں۔
داراالکفر حقیقی:جہاں پر زمام حکومت غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہو،وہاں کا
دستورِ اساسی بھی انہیں کا ہو، اور مسلمانوں کو شعائر اسلام بجالانے کا
قطعاً حق نہ ہو، بلکہ حکومت مسلمانوں کو ہلاک کرنے اورنقصان پہنچانے کے
درپے ہو،اس کو دارالحرب بھی کہاجاتاہے، مثلاً :اسرائیل ۔
دارالکفر حکمی: جہاں حکومت تو غیرمسلموں کی ہو، دستور بھی ان کا ہو، مگر
مسلمانوں کو اپنے شعائر کے بجا لانے کی اجازت ہو، مثلاً :بعض یورپی ، بعض
ایشیائی اوربعض افریقی ممالک،اس کو دارالامن،دارالعہداوردارالحیاد(غیر
جانبدار) بھی کہا جاتا ہے۔
دارالحرب:جہاں حکومت مسلمانوں کے ساتھ اندرونی یا بیرونی طورپربرسرِپیکار
ہو، ان کے مال واملاک، اور ان کی جان کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے
ہو، اور وہاں اسلامی دعوت کو ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس ملک کو
دارالحرب،دارالکفر، دارالشرک، دارالمخالفین بھی کہا جاسکتا ہے ۔
دارالامن والعہد:حکومت تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہو، مگر وہ مسلمانوں
کے ساتھ امن کا معاہدہ کر چکی ہو، تو پھر اسے ”دارالامن یا دارالکفر الآمنہ
یا دارالعہد یا دار الکفر المعہودة“ کہا جائیگا۔
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہوگا کہ دارالاسلام اور دارالکفر قرآن و حدیث
میں صراحتاً مذکور نہیں، لہٰذا ”دار“ کی یہ تقسیم منصوص نہیں ہے، بل کہ
مجتہد فیہ ہے، لہٰذا اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، جیسے فقہاء متقدمین تقسیم
ثنائی کے قائل تھے، اور ان میں امام شافعی رحمة الله عليه ثلاثی کے قائل
تھے، یعنی ان کے یہاں دار کی تین قسمیں ہیں: (۱) دارالاسلام (۲) دارالکفر،
اور (۳)العہد یا دارالہدنة یا دارالصلح۔ایک دار البُغاۃ یا دارالفُسّاق بھی
ہوتاہے،جہاں باغیوں،گمراہوں یافُسّااق وفُجّار کی حکومت ہو۔
موجودہ دور میں اسلام کے پھیلنے کی وجہ سے پوری دنیا دارالمسلمین بن گئی
ہے، علامہ اقبال مرحوم نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
چین وعرب ہمارا،ہندوستاں ہمارا۔۔ مسلم ہیں ہم،وطن ہے ساراجہاں ہمارا |
|