تحقیق : فطرتِ انسانی اور وقت کی ضرورت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
تحقیق کے حوالے سے ایک تحریر۔ تحقیق کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے، اور جامعہ سندھ میں ہونے والی ایک تحقیق کا حال |
|
(جامعہ سندھ جامشورا کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی کے حتمی سیمینار کے حوالے سے)
(روزنامہ ’جناح‘ اسلام آباد، لاہور ، کراچی اور کشمیر 3فروری 2016ء میں
شائع ہوا)
فطرت انسانی ابتدائے آفرینش سے اشیاء کی حقیقت معلوم کرنے کی متقاضی رہی ہے۔
تجسس وتحقیق کا یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ اگر ہم بنظر غائر اس امر پر غور کریں
کہ وجہ تخلیق انسان کیا ہے تو یہ امرواضح ہوگا کہ مشیٔت ایزدی کا تقاضہ یہ
ہے کہ تعقل و تفکر کو انسان اپنا رہبر بنائے۔ قرآن کریم کی سورۃ الجاثیۃ
(۴۵)، آیت ۱۳ ، پارہ الیہ یردُّ ۲۵ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ
مَّا فِی السَمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُط اِنَّ فِی
ذٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْ مٍ تَّتَفَکَّرُوْنَ ں ترجمہ :’’اور مسخر کیا
تمہارے لیے تمام تر جو کچھ زمین و آسمان میں ہے۔ بیشک جو لوگ غور کرتے ہیں
ان کے لیے اس میں (قدرتِ خدا کی) نشانیاں ہیں‘‘۔ غرض کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان
کو دعوت فکر دی اور ساتھ ہی فکر کو لا محدود قرار دیا اور حکم دیا کہ ہر شہ
جو کہ زمین پر ہے اور آسمان پر قابل غور ہے۔ پھر یہ بھی ارشاد ہو اکہ یہ
تمام اشیاء مسخر ہیں تاکہ انسان وسائل کی کمی کا شکوہ نہ کرسکے۔ اﷲ تعالیٰ
نے قرآن مجید کی سورۃ النحل (۱۶) ، آیت ۱۲(پارہ رُبَمَا۔۴ ۱)میں ارشاد
فرمایا کہ’’وسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَلا وَالشَّمْسَ
وَالْقَمَرَ ط وَالنُّجُوْ مُ مُسَخَّرٰ تُٗ ٰ بِاَمْرِہٖ ط اِ نَّ فِیْ ذٰ
لِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْ مٍ یَّعِقِلُوْنَ ں ترجمہ:اور اسی نے رات اور دن کو
تمہارے لیے کام میں لگایا اور سورج اور چاند کو بھی اور تارے اُس کے حکم کے
تابع ہیں ۔ اس بات میں عقل و دانش والوں کے لیے یقینا نشانیاں ہیں‘‘۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ اسلام نے رھبانیت یعنی ترک دنیا کو قطعی طور پر غلط
قراردیا ہے۔ ہمیں اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ہے اور زندگی کے حقائق سے
گریز نہیں کرنا، ہمیں آفتاب کی تمازت ، ہوا کے سردوگرم جھونکوں ،سورج کی
تمازت اور چاند کی چاندنی کہکشاں کے جگمگاتے ستاروں ، لہلہاتے کھیتوں،
میوؤں اور پھلوں سے لدے درختوں، باغیچوں میں مہکتی کلیوں، خوشبو لٹاتے
پھولوں، زمین کی گردش، سمندرکی بھپری ہوئی موجوں، برف پوش اور قوس وقزح کے
رنگوں میں فطرت کے حقائق معلوم کرنا ہیں، یہی تحقیق ہے، جستجو ہے اور غور و
فکر ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے اور تحقیق و جستجو کی فطری
صلاحیت سے نوازا ہے۔ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہنا بھی انسان کی
فطرت میں شامل ہے۔ تحقیق ، جستجو، کھوج لگانا، تفکر ابتداء ہی سے انسانی
عادتوں میں سے ایک قدیم روایت چلی آرہی ہے۔ جب ہم کسی بھی موضوع پر کوئی
مضمون لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں یا کسی موضوع پر کوئی مقالہ تحریرکرنے کا
ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے بہتر سے بہتر مواد تلاش کرنے کی پوری کوشش
کرتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم تحقیق کے عمل ، تحقیق کے
اصولوں اور تحقیق کے فن اور طریقہ کار سے بھی پوری طرح آگاہ ہوں، بصورت
دیگر ہم مضمون یا مقالہ تو لکھ تو لیں گے لیکن وہ مضمون یا مقالہ متعین
اصولوں اور معیار کے مطابق نہیں ہوگا۔
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں اصلیت معلوم کرنا، دریافت کرنا،
کھوج لگانا، تفتیش کرنا، حقیقت کو ثابت کرنا ، نیا مواد سامنے لانا۔ اصطلاح
میں تحقیق کے معنی ہیں کہ کسی تعلیمی، علمی موضوع کے بارے میں اس طرح تحقیق
کرنا، جستجو کرنا یا کھوج لگانا کہ اس کی حقیقی اور اصل شکل اس طرح واضح
ہوجائے کہ کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے۔ گویا سچائی کی تلاش کا نام تحقیق
ہے ۔سید جمیل احمد رضوی نے اعداد و شمار کو مرتب کرنے کو تحقیق کہا ہے ۔
انہوں نے مالک رام کے حوالہ سے تحقیق کی وضاحت اس طرح کی کہ ’’تحقیق عربی
زبان کا لفظ ہے اس کا مادہ ہے ح۔ق۔ق، جس کے معنی ہیں کھرے کھوٹے کی چھان
بین یا بات کی تصدیق کرنا۔ دوسرے الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ
ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے، حق کو باطل سے
الگ کریں‘‘ ۔ انگریزی لفظ ریسرچ کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔انگریزی لفظ
ریسرچ دو لفظوں کا مخفف ہے یعنی ری (re)بمعنی’ دوبارہ‘(again)یا نیا۔ جب کہ
لفظ سرچ(search) فعل (verb) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کے معنی ہیں
’نذدیک سے اور احتیاط سے معائینہ کرنا،جانچنا یا ٹیسٹ کرنا اور کوشش کرنا،
کھوج لگانا، تفتیش کرنا، تجسس کرنا، تفکر کرنا، چھان بین کرنا، اس طرح سے
جیسے ایک سرجن جب زخم کی گہرائی معلوم کرنے کے لیے تیز دھاری آلہ سے زخم کو
کریدتا ہے تو وہ زخم کی طح تک پہنچنے کی پوری کوشش کرتا ہے اس بات کی پرواہ
کیے بغیر کے مریض کو کس قدر تکلیف ہوگی ۔ہفت زبانی لُغت کے مطابق لفظ ریسرچ
کے لیے اردو، سندھی اور کشمیری میں لفظ ’تحقیق‘، بلوچی میں ’کھونج‘، پشتو
میں ’لٹون‘ اور پنجابی میں ’کھوج‘ استعمال ہوتا ہے۔
تحقیق کی کوئی ایک تعر یف ایسی بیان نہیں کی جاسکتی جو دنیا میں کی جانے
والی تحقیقات پر پورا اتر تی ہو۔ تحقیق کی وضاحت ماہرین نے اپنے اپنے انداز
سے بیا ن کی ہے۔ کتاب ’’اصول تحقیق‘‘کے مصنف عبد الحمید خان عباسی کے مطابق
’’کسی تعلیمی مسئلہ (موضوع) کے بارے میں ایسے اسلوب سے کھوج لگانا کہ اس کی
اصلی شکل ، خواہ معلوم ہو یا غیر معلوم، اس طرح نمایاں ہوجائے کہ کسی قسم
کا ابہام نہ رہے ‘‘ تحقیق کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر احسان اﷲ نے اپنی تصنیف
’’تعلیمی تحقیق اور اس کے اصول و مبادی‘‘ میں تحقیق کو سائنسی طریقہ کار کو
اپناتے ہوئے تعلیمی مسائل کے حل تلاش کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے انہوں نے
واضع کیا کہ ــ’’ تحقیق محنت مشقت، طلب، تفتیش اور باغور جانچ پڑتال کے عمل
کا ناہے اور اس عمل کا تعلق ہر اس مسئلہ سے ہے جو انسانی زندگی اور اس کے
روز مرہ معمول سے متعلق ہے‘‘۔ ڈاکٹر متین خان کے مطابق ہر دور اور ہر زمانہ
کا محقق اپنے اپنے طو ر پر تحقیق کرتا رہا ہے۔فلسفی اور سائنسداں ابن سینا۔
ابن خلدون، ڈارون، نیوٹن اور آدم اسمتھ تحقیق کا اپنا انداز رکھتے تھے۔
ڈارون کے مطابق ’ تحقیق ‘تلاش و جستجو کی امتیازی خصو صیت ہے‘‘ انہوں نے
تحقیق کے بارے میں ڈارون کی یہ رائے بھی تحریر کی کہ ’’کام میں باقاعدگی
اور اس سے محبت تحقیق کے لیے لازمی جذو ہے‘‘۔ مغربی مفکر پال (Paul) اور
کرافورڈ(Crwford)کے مطابق ’’تحقیق غیر مکشف حقائق کی ایک منظم و مرطوط تلاش
ہے۔ ایک انداز کار جس کے ذریعے لوگ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور کوشا
رہتے ہیں کہ انسانی جہل و ناواقفیت کی سرحدیں پیچھے دھیکیل دیں‘‘۔ کرافورڈ
کے مطابق ’’تحقیق ایسے مسائل کے مطالعہ کا ایک طریقہ ہے جن کے نتائج کا
استخراج ، جزوی طور یا کلی طور پر ، حقائق سے کیا جاتا ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی تحقیق پر عمل پیرا ہوئے بغیر ممکن نہیں، جس قوم نے اس
میدان میں جس قدر جدوجہد کی اسے اتنی ہی ترقی و عروج حاصل ہوا۔ تحقیق
انسانی زندگی کے تمام تر شعبوں میں بہتر سے بہتر کی راہ دکھاتی ہے۔ معاشرہ
میں زندگی بسر کرنے والے جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تحقیق
انہیں مسائل اور مشکلات کا حل نکالنے کی عملی قوت رکھتی ہے۔ یہ مسائل اور
مشکلات معاشرتی، سیاسی، تعلیمی، سائنسی، تجارتی، حکومتی منصوبہ بندی سے
متعلق بھی ہوسکتے ہیں۔تحقیق کسی بھی ایس موضوع پر جس پر مواد پہلے سموجود
ہو، اس پر لکھا جاچکا ہویا کسی بھی موضوع پر مختلف انداز سے اظہار خیال
کردینا تحقیق نہیں بلکہ تحقیق نام ہے نئی دریافت ، نئی ایجاد کا ۔ تحقیق کے
مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تحقیق نام ہے معلومات کی جمع
آوری(collecting)کا، معطیات کا تجزیہ (Analyzing) کا، وضاحت
(interpreting)کا، اور تحقیق نام ہے اہم سوالوں کے جوابات تلاش کرنے
کا۔لیکن، مکمل اور ایک کامیاب تحقیق کے نتیجے تک پہنچنے کے لیے ایک مخصوص
طریقہ کار اور مخصوص مراحل پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے ۔ جہاں تک ممکن ہو
تحقیق کے عمل کے دوران ضبط کی پابندی(be controlled)، regorous) ، باقاعدگی
ہو (systematic)، درست (validity)، اور تصدیق شدہ ہو (verifiable) ،
تجرباتی (Empirical) ، اور تنقیدی(critical) ہو۔
تحقیق کے حوالے سے مجھے 29 جنوری 2016ء کوجامعہ سندھ کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی مقابلے کے آخری سیمینار میں بطور ایکسپرٹ
شریک ہونے کا موقع ملا۔ جامعہ سندھ جامشورو میں تحقیق کا عمل باقاعدگی اور
منظم طریقے سے ایچ ای سی کی تمام تر طریقہ کار کے مطابق جاری ہے۔ میں اس سے
قبل دیگر جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا داخلی ممتحن اور وائیوا کنڈٹ
کرتا رہا ہوں ، پی ایچ ڈی مقالے سے سیمینار میں ایکسپرٹ کی حیثیت سے شرکت
پہلا تجربہ تھا۔ جامعہ سندھ کی پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ احمد شیخ جو سابق پی وی
سی بھی رہ چکی ہیں اس مقالے کی نگراں سپروئیزر جب کہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز
احمد پٹھان پرو وائس چانسلر جامعہ سندھ اس تحقیق کے معاون سپر وائیزر
ہیں۔مقالہ نگار محمد اختر رند کے مقالہ کا عنوان Library Marketing in
Sindh: application and impact of marketing on library and information
services in public sector University libraries of Jamshoro ہے۔ یہ ایک
نیا اور منفرد عنوان ہے ۔ جامعہ سندھ کے سینٹ ہال میں پی ایچ ڈی اسکا لر
اختر رند نے تحقیق کے بارے میں پریزینٹیشن دی۔ پروفیسر ڈاکٹر نور محمد
جمالی پی وی سی لاڑکانہ کیمپس جامعہ سندھ نے سیمینار کو چیرٔ کیا، راقم کے
علاوہ پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ احمد شیخ، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر
ڈاکٹرنگینہ پروین، پروفیسر ڈاکٹر اقبال حسین قاضی، پروفیسر غلام حسین
خاصخیلی، پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد میمن، میڈیا اینڈ کمیونیٹی کے پروفیسر
سومرو محمد صدیق، پاکستان اسٹڈی سینٹر کی ڈائیریکٹر ،ریسرچ اسکالر شجاع
محمد ، ذاہد حسین چنا، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے استاد عارف
بھٹی، پروفیسر شیریں گل سومرو ، طلبہ و طالبات بھی موجود تھے۔ محقق کی
پریزنٹیشن کے بعد سوال جواب ہوئے جس میں محقق نے اپنے موقف کا اچھے انداز
سے دفاع کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر جمالی، پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ شیخ کے علاوہ راقم
نے تحقیق اور پریزینٹیشن کے حوالے اظہار خیال کیا ۔ سیمینار کے عمل کو
دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ جامعہ سندھ میں تحقیق کے بنیادی لوازم و ضروریات
کے عمل پر سختی سے عمل حقیقی تحقیق کا باعث ہورہا ہے۔ جامعات کی سطح پر
تحقیق وقت کی ضرورت ہے۔ |
|