نبی پاکﷺ کی محبت کا فیضان

جس قوم کے دل میں ہر شے سے بڑھ کر یہ تین محبتیں محبتِ الٰہی محبتِ رسول اور محبتِ جہاد ہوں گی دنیا و آخرت میں وہی کامیاب وسرخروہو گا۔اور اگر دیگر اشیا کی محبت غالب آگئی تو پھر ذلت و رسوائی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ایک مقام پر نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک میری ذات اس کے لیے اپنے مال اولاد اپنی جان و مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے۔سب سے زیادہ محبت انسان کو اپنی ذات سے ہوتی ہے۔مگر اس فرمان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اگر کامل ایمان چاہتے ہو تو اﷲ اور اس کے رسول ﷺسے اپنی ذات سے بھی بڑھ کر محبت کرو۔چونکہ مسلمان کے لیے اﷲ اور اس کے رسول کی محبت سب سے بڑھ کر عظیم اور قیمتی متاع وسرمایہ ہے۔اس امت کو یہ تعلیم دی اگر چاہتے ہو کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ رہے ہو۔اور دنیاوآخرت کی زندگی بہتر چاہتے ہو تو اولاد کی تربیت کرتے وقت اسے جو نصابِ زندگی دو وہ نبی پاک ﷺ کی محبت ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا اپنی اولاد کو تین چیزیں سیکھاؤاپنے پیارے آقاﷺسے محبت،اہلِ بیت سے محبت اور قرآن کا پڑھنا۔محبتِ رسول کی تعلیم بچوں کو دینا اہم فریضہ ہے۔کیونکہ محبت ہی ہے۔جو آپﷺ کی شریعت مبارکہ پر عمل کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔جب تک مسلمانوں نے اولاد کی تربیت اس نہج پر کی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔اور جب سے یہ رشتہ محبت رسولﷺکمزور ہوا اُمت زوال کا شکار ہو گئی۔ان کے جو غلام تھے۔خلق کے پیشوا رہے ان سے پھرے جہاں پھرا آئی کمی وقار میں ۔آپﷺ کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش پائی جاتی تھی۔جو دوست دشمن سبھی کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔بے شک جناب رسول اکرمﷺ ہمارے پاس آخری دین لے کر آئے۔اور دنیا اور آخرت کی زندگانیوں کے لیے ہمارے واسطے ایک صحیح راستہ بتایا۔انسانیت کو کفروشرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے چمکنے والے نور ایمان کی طرف بندوں کے ظلم سے رب کے عدل کی طرف ایک خالق واحد کی عبادت کی طرف نکالا ہمیں آپﷺنے ایک عظیم تہذیب و تمدن والی امت بنا دیا۔بلاشبہ تہذیب اسلامی اور تاریخ میں ہمیشہ ایک عظیم تہذیب رہی جس نے ہمارے سروں کو اونچا کر دیا۔ہماری گردنیں بلند رکھیں۔اور ایک وقت ہم نے سارے عالم پر حکومت کی۔اگرچہ اس کے بعد ہم نے بہت کچھ کھویا ہم نے بہت کچھ گنوایا ہے۔مگر یہ تھوڑے سے وقت کے لیے ہے۔انشاﷲ اس کے بعد یہ مشکل ختم ہو جائے گی۔اور از سر نو مسلمانوں اسی طرح چمکے گا۔جس طرح پہلے چمکتا تھا۔رسول کریم ﷺنے تمام انسانیت کو امن وامان اور سکون وطمانیت سے ہمکنار کیا۔اور اپنے پیروں کاروں کے دلوں میں مادہ،روح ِخاک اور دین ودنیاکے درمیان صحیح توازن قائم کرنے کا شعور اجاگر کیا۔مگر شو مئی قسمت سے اب یہ توازن کھو بیٹھے ہیں کہ ظلمت اور دنیا داری کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے۔بے شک جناب رسول اﷲﷺکی محبت مومنین کے دلوں پر چھا چکی ہے۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں طوفان برپا ہو گیا ہے۔اور جب یہ غلبہ محبت اور اس کی طوفانی کیفیت اپنے عروج پر تھی توہم نے نے ہر شے پر قابو پالیا۔رحمتِ نبوی ﷺکی جھلکیوں میں سے چند جھلکیاں یہ ہیں کہ ایک عربی بارگاہ ِرسالت ﷺمیں ما نگنے کے لیے آیا۔آپﷺ نے اس کا دامن مراد بھر دیااور پھر اس سے پوچھا کہ کیا میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے؟عربی نے جواب دیا آپ نے اچھا معاملہ نہیں کیااس وقت جو مسلمان وہاں موجود تھے۔اس کی بات سن کر غضبناک ہو گئے۔اور بدو کی طرف بڑھے۔مگر اپﷺنے انہیں رک جانے کا حکم دیا۔اس کے بعد آپ اُٹھے اپنے کاشانہ مبارک میں داخل ہوئے۔اور بدو کو بلا بھیجا اور پہلے کی نسبت اسے زیادہ مال عطا کیا۔ اور پھر اس سے پوچھا کہ کیا میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی؟بولا ہاں بے شک اﷲ آپﷺ کو اپنے اہل و عیال اور خاندان والوں کی طرف سے اچھا بدلہ دے تو آپﷺ نے عربی سے فرمایا تو نے کہا سو کہامگر میرے صحابہؓ کے دلوں میں میں خلش پائی جاتی ہے۔اگر تو چاہے تو ان کے سامنے بھی وہی کچھ کہ دے جو میرے سامنے اب کہہ رہا ہے۔تاکہ تیرے خلاف جو ان کے دلوں میں ہے اس کا ازالہ ہو جائے۔بدو نے عرض کیا سرکار میں ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔جب دوسرے دن حضورﷺتشریف لائے اور صحابہؓ سے فرمایا اس بدو نے جو کہا سو کہا مگر ہم نے اس زیادہ مال دیا اب وہ راضی ہو چکا ہے۔چنانچہ بدو نے وہی کلمات صحابہؓ کے سامنے دہرا دیے جو آپﷺ کے سامنے کہے تھے۔اس پر جناب نبی اکرم ﷺنے فرمایامیری اور اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے۔جس کی ایک اونٹنی ہواور وہ بھاگ گئی ہو۔لوگوں نے اسے پکڑنے کے لیے اس کا پیچھا کیامگر اس سے وہ اور بدک گئی۔اس منظر کو دیکھ کر اونٹنی کے مالک نے کہا لوگو مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو میں تمھار ی بہ نسبت اس سے زیادہ نرمی کرنے والا ہوں۔اور اس کوزیادہ جانتا ہوں۔چنانچہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا اور اونچی جگہ سے اسے پکڑنے اور اپنی طرف لوٹانے کی کوشش کی وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا۔اونٹنی اس کے پاس آگئی۔اور کجاوا کَس کر سوار ہو گیا۔فرمایا اگر میں تمھیں اجازت دے دیتا کہ جو کچھ اس نے مجھ سے کہا ہے۔اس بنا پر تم اسے قتل کر دیتے تو وہ جہنم میں چلا جاتا۔ان کے جو غلام تھے خلق کے پیشوا رہے ان سے پھرے جہاں پھرآئی کمی وقار میں ۔اسی طرح ایک لڑکی کا واقعہ ہے۔جو آپﷺ کو اس حال میں ملی کہ وہ رورہی تھی۔رونے کا سبب یہ تھا کہ اس کے مالک نے اسے جو آٹا خریدنے کے لیے پیسے دیے تھے۔وہ انھیں گم کر بیٹھی تھی۔آپﷺنے آٹا خریدنے کے لیے اسے پیسے بھی دیے اوراس کے ساتھ اس کے مالک کے پاس بھی گئے۔اور بڑی نرمی سے اور مہربانی کے ساتھ گفتگو فرمائی جس سے متاثر ہو کر اس نے لڑکی سے نرم رویہ اختیار کیا اور اسے معاف کر دیا۔اسی انداز سے چھوٹوں کے ساتھ آپﷺکا طرزِ عمل اور ان پر رحمت وشفقت کے واقعات ہیں۔اسی سلسلہ سے ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ کیسے آپ ﷺکے نواسوں میں سے ایک نواسا جلدی سے آپﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتاہے۔جب آپﷺ سجدہ کی حالت میں ہوتے ہیں۔آپﷺاپنے سجدہ کو لمبا کر لیتے ہیں۔مگر ان کو پریشان نہیں کرتے۔اس وقت آپﷺ کی کیفیت کیا ہوتی تھی جب کہ آپ ﷺنماز پڑھ رہے تھے۔اور کسی بچے کے رونے کی آواز آپ کے کانوں میں آتی توآپﷺاپنی نماز کو مختصرکر لیتے ہیں۔اور اس آواز کی طرف چل پڑتے تھے۔تاکہ اس بچے کے پاس بھی کوئی ضرور ہونا چاہیے۔جو اس کے رونے کے عالم میں اس پر رحم کرنے والا ہو۔نبی پاکﷺ نے جس طرح ہمارئے سامنے اپنی مثال رکھی ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو اِس طرح ڈھالیں۔
Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 42388 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More