جوگ آس

اور شاید اس سے ایک غلطی ہوئی کہ وہ اسے مٹھی میں دبا کر ساتھ لے آیا……نہ سر سے اچھالا نہ پاوں سے مسلا اور ہریالی کے سارے ٹھکانے جو اس کے اندر پیوند تھے وہ چتا کی لکڑیوں کی طرح سلگنے لگے۔اور اس کے گھر کی روشنیاں کم سے کم ہوتی گئیں کہ آخری وقت اسے دیواریں ٹٹول کر چلنا پڑا یہ سب تین دن بعد ہوا اور تین د ن پہلے دیواریں ٹٹولتے ہی وہ اس دہلی دروازے سے پار ہوا ۔جن گلیوں میں وہ گھس آیا تھا ان میں بہت اندھیرہ تھا یا اسے ہی زیادہ روشنیوں میں رہنے کی عادت ہو چکی تھی کہ وہ ایک دیوار کا سہار ا لے کر بھی لڑکھڑاگیا اور یہ تیس سا ل بعد ہوا ……
یہ راز بہت بعد میں کھلا کہ یہ بھی کوئی راز ہی تھا۔
وہ آیا وہ آئی…… اور بس……اگرچہ بعد کے دنوں میں اس قصے کو نت نئے اندازوں سے سنایا گیا جیسے کہ کوئی لوک کتھا……جو ہر زبان پر پہنچ کر اس زبان والے کی من مرضی کی ہو جاتی ہے۔
پہلی بار اس نے مان کو محرابی چوکھٹے میں کھڑے دیکھا اور اسے لگا راجپوتوں کی کوئی کنیز دم بھر کے لیے سورج کو اپنا نظارہ کر وا رہی ہے۔وہ اس کی ایسی فیاضانہ ادا پردم بخود رہ گیا۔
یہ کون ہے؟ اس نے ساتھ چلتے پھوپھی زاد طیب سے پوچھا
یہ ؟ مان دیدی ہیں۔
مان بھی اور دیدی بھی؟ ہیں کون ۔کس چچی ،پھوپھی، خالہ، ممانی کی اولادیوں دلیرانہ پروان چڑھی ہے کہ یوں تصویر کی طرح محراب میں جڑی ہے۔ایسی جرات سے کسی بانکے کو کھڑے نہیں دیکھا کجا بانکی ۔میں یہ تنتنا سہن نہیں پا رہا۔
کوئی گناہ کر رہی ہیں کیا؟ طیب نے دانت نکالے
گناہ کروا رہی ہیں ……
آپ کو تو عادت ہے ہر لڑکی کے لیے گناہ سر پر لینے کی……
تمہیں عادت ہے میرے سارے گناہ یا درکھنے کی ……
مشکل سے پانچ دن نہیں ہوئے آپ کو یہاں آئے ہوئے اور دو عددخطوط میں آپ کے تکیے کے غلاف سے بر آمد کر چکا ہو ں اور ایک چھت کی ممٹی سے۔معاف کیجیے گا ریشمی رومال کی آخری سطر میں نے بندہ نفس سے مجبو ر ہو کر پڑھ لی تھی ۔لگتا ہے محترمہ کے ابا حضورمشاعروں میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں اور پھر گھر آکر محفل جمانے کے شوقین ہیں۔اور میری ذہانت پر داد و تحسین عنایت فرمائیے میں نے ان کے چوبارے سے جھانکتی ساری نسوانی بیلوں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ یہی ہے وہ گھر جہاں سے مشاعرانہ رومال کا نزول ہوا ہے۔ بجا فرمایا نا میں نے؟
ــ’’تم ذرا خاموش رہو……‘‘طیب کی آواز بار بار اسے الجھا رہی تھی۔
و ہ چوکھٹے سے ہٹی ستون کے ساتھ بل کھانے لگی اور اس بار نظر کرم اس نے آسمان کی اور کی اور اسے ایسے دیکھنے لگی جیسے وہاں سے کسی خاص مہمان کی آمد متوقع ہو۔ یعنی اسے زمین والوں سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔عالی نے آہ بھری کہ یہ کیسی نا انصافی ہے۔
اور پھر جب وہ وہاں سے ہٹی تو اسے اندازہ ہوا کہ و ہ کتنی روشنی اپنے اندر سموئے وہاں کھڑی تھی۔یہ اندازہ بہت بعد میں بھی ہوا کہ وہ کیا کچھ لیے ہوئے تھی۔کھڑی تھی ، بیٹھی تھی، چلتی تھی، رکتی تھی، روک لیتی تھی اور ان سب کے ساتھ قائم رہتی تھی لیکن بہت کچھ تو ہلا ڈالتی تھی نا۔
شادی کا گھر تھا لاکھ پردے کا اہتمام ہوا کرتا لیکن آمنا سامنا ایسے تو ہو ہی جاتا کہ معلوم پڑتا بانکے بھی آئے ہیں اور بانکیاں بھی۔سجیلے بھی ہیں اور سجلیاں بھی۔بانکی سجیلی وہ ڈھیر سارے کپڑے لپیٹے کبھی کسی بالکنی میں کھڑی دکھتی، کبھی کسی ستون سے لپٹی ملتی اور کبھی دالانوں سے فرشی سلام لیتی پائی جاتی۔اور وہ اتنا فارغ تھا کہ سارے مامووں ،چچاوؤں ،چھوٹے بڑے ہر طرح کے اباؤں کی گھوریوں کو نظر انداز کرتاان مندروں کی گھنیٹاں بجایا کرتاجن میں درشن کو وہ میسر ہوتی۔
لیکن ایسے نہیں کہ نظریں چار ہو جائیں۔بس کسی نہ کسی کی اوٹ سے سے۔چھچوں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر وہ اسے ان ستونوں ، احاطوں، دالانو ں میں صنف نازک کے جلوس میں علمبرار بنے دیکھتا۔جہاں گھیرداروں کی جان پڑتال ہو رہی ہوتی، کناریاں ٹنگ رہی ہیں اور ہرے بھرے پتے سل پٹے پر رگڑ رگڑ منہ پر لیپے جا رہے ہوتے۔وہ کبھی آنکھ اُٹھا کراوپر دیکھ لیتی اور پھر اس کے ہونٹوں کے کنارے ایسے وا ہوتے جیسے کہتی ہو۔’’ اچھا جناب تو ایسے باز نہیں آئیں گے۔‘‘ اور کسی خالہ ، پھوپھی ،بے جی کو روک کر اُوپر کی اور اشارے کرتی جانے کیا کیا بتاتی توو ہ دانت پر دانت جماتا دبک جاتا اور اس کے قہقوں پر جی جان سے چڑجاتا اور من ہی من کہہ اٹھتا
’’ اچھا جنابہ تو ایسے باز نہیں آئیں گی آپ بھی۔‘‘
یہ کون ہے؟ طیب پھر سے پیچھے کھڑا دانت نکال رہا تھا اوروہ اس بار سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
کسی اور سے کیوں نہیں پوچھ لیتے……بلکہ انھی سیــــ۔طیب کی ہنسی معنی خیز تھی
تمہیں کس دن کے لیے تیل پلایا ہے۔
لیکن یہ چراغ آپ کے ہاں کے تیل سے نہیں جلے گا ……
کیوں ؟ اسے انکاری کی ساری ہی توجیہات بہت بری لگتیں تھیں ۔
یہ تھالی اور سندور کی پرجاتی سے ہیں ۔پھوپھی اماں ان کی ماتا کی سہیلی ہیں خاص دہلی سے لے کر آئی ہیں آپا رقیہ کی شادی کے لیے۔دیکھ لیجیے بھائی صاحب!یہ ہندوستان نہیں جس کے ٹکڑے کر کے آپ کے ہاتھ آپ کا حصہ تھما دیا جائے گا۔
ــ’’کم بخت منہ سے خرافات ہی نکالناــ‘‘ بڑے چچا کا گزر ہوا قریب سے تو طیب کی با ت سے بھڑک اٹھے
کیوں ہو ں گے ٹکڑے……چل آ تیرے کروں ٹکرے……
بڑے چچا کانگرس کے حمایتی تھی۔مزاج اتنا بگڑا کہ طیب کو حلوائی کے ساتھ سامان اٹھوانے میں لگا دیا جو بے چارا پھوپھی اور پھوپھیریوں کے دوپٹے رنگوانے جاتے سو سو بہانے بناتا تھا کہ ہم سے نہیں ہوتا اتا کام۔
سفید اونچی دیواروں سے رنگین آنچل ٹکرایا کرتے تو دم بھر کو اسے لگتا کہ اڑتا ہوا یہ آنچل اس کے ہاتھ آیا کہ آیا۔
بالائی منزل میں موجود بلکہ قید مردانے میں دم سادھکی ہو جاتی جب نت نئے راگ ڈھولک پر گائے جاتے۔آگرے کے پھوپھا حقہ گڑ گڑاتے گاو تکیے کو سہارا بنائے ذرا کی ذرا چونکے۔
یہ کون گا رہا ہے ۔؟سرگوشی کی طیب کے کان میں مبادا کوئی یہ جان نہ لے کہ وہ ایسے کان لگا کر سن رہے ہیں۔
ٍ ’’وہی جن کے لیے آپ کہتے ہیں گھٹی میں ناچ گانا چاٹتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تبھی۔‘‘
حقے گڑ گڑاتے، پان چباتے، حیدر آبادی چٹکلے چھوڑتے مردانے کے سب مرد سو جاتے تو وہ چپکے سے ابا سے نظر بچا کرجو آنکھیں تو موند لیتے پھر بھی اُوں آں کرتے رہتے اُوپر چھت پر آجاتا اور نیچے چلمن پوش دالانوں کو جو انگھیٹیوں سے دہک رہی ہوتیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ۔ جو دکھائی دیتاوہ سنائی نہ دیتا۔وہ نیچے آتا سنتا اور پھر دیکھنے کے لیے اوپر پہنچ جاتا۔
یہ ٹھمری ہے ……گیت …… کہ بھجن……
وہ سنتا جاتا، سوچتا جاتا۔پھر دبے پاوں نیچے آتا اور سوچتا کہ سب تو ڈھولک گرد بیٹھی ہیں کہیں سے کسی کونے میں گھس جائے اور دیکھے کہ قریب سے دیکھنا کیسا ہے۔
تم سوئے نہیں ابھی تلک؟ کوئی نا کوئی بوا ، چچی، ماسی سر نکال پوچھتی۔
یہ ماسیاں ،چچیاں ، بوائیں اتنی زیادہ کیوں ہوتی ہیں۔ہوتی بھی ہیں تو جلد سوتی کیوں نہیں۔بلیوں کی طرح کہیں سے بھی میاوں کر دیتی ہیں۔
’’کان میں دردہے ۔تیل لینے آیا ہوں۔اماں جی کہاں ہیں؟
اماں تو سو گئی تمہاری۔کان میں درد ہے تو بچے ہو کیا جو تیل ڈالوں گے……جاؤ جا کر سو جاؤ۔
’’درد میں نیند کسے آتی ہے……درد دینے والوں کو ہی آتی ہو گی……سہنے والوں کو تو نہیں ……‘‘اس نے ذرا سر کو اٹھا کر کہا کہ کوئی تو سن لے
اور سن لیا گیا کہ چلمن کے پار ڈھولک پر تھاپ رک گئی ۔گانے والی کی آواز بھی۔
’’کون دکھیارا راگ الاپ رہا ہے موسی؟‘‘ڈھیروں کپڑوں میں لپٹی نے ڈھیروں کانچ سے سجے ہاتھ کو جسے آج ہی مہندی سے رنگا تھا اِدھر موسی کی طرف اٹھا کر پوچھا۔
گیت گانے والیاں کیا گیت ہی بولتی ہیں؟ چلمن سے اس نے اس کی مسکراتی آنکھوں کو دیکھ کر سوچا۔
باقی لڑکیاں ہنسی سے دہری ہونے لگیں اور اس کو اس کی جرات پر داد دینے لگیں۔
’’اب کیا تیل کے لیے بھی وائسراے کے پاس جاویں اور کہوویں ۔‘‘ وہ بوا سے چڑ گیا۔
ٹھہروں لاتی ہوں پر کہے دے رہی ہوں دوبارہ کان میں درد لے کر نہ آنا۔ تین دن سے یہ درد لیے تمہیں آتے اور جاتے دیکھ رہے ہیں بابو۔تمہار ی اماں کے کان میں بات ڈال دی ہے ۔ اب ذرا صبری سے رہو۔کل پوچھا تو کہہ رہی تھیں ابھی نہیں کروں گی اس کی ، کام وام تو کوئی کرتا نہیں۔
بوا نے ایسا کوئی چٹکلہ تو نہیں چھوڑا تھا لیکن ڈھولکی کی ساری پلٹن ہنس ہنس کر ادھ موئی ہو گئی۔
اگلے دن ناشتہ ملا، کھانا ملا، نہانے کا سامان اور اعلا ن ملا کہ تیل ماچس رکھوا دی گئی ہے کمرے میں ۔راتوں کو نیچے آنے کی زحمت نہ کیجئے۔ٹھنڈ لگ گئی تو ہم سے تیمارداری نہ ہو گی۔
ہونہہ اسے کیا ضرورت تھی نیچے آنے کی ۔ اتنا تو اب اس نے کر ہی لیا تھا کہ تین اطراف کی چھت کو گھوم پھر کر اس نے وہ سارے کونے تلا ش لیے تھے جہاں سے گیت بولنے والی دکھائی دیتی تھی۔سنہری دھوپ میں جھولا جھولنے والی ،پان کی گلوری دکھا بنا کھانے والی ،سر نیہوڑے پیروں کے ناخنوں پر مہندی لگانے والی،کسی ریشمی جھلمل کو سر پر اوڑھتی ہوئی اور سر اٹھا کر چھت کے کسی کونے کی درز کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اور پھر ’’ اچھا بچو!تو یہ آپ ہیں ۔‘‘ آنکھوں میں سمو کر بھر بھر اچھالنے والی۔
٭ ٭ ٭
اوپر کہیں سے کچھ آ کر گرا۔تنتنا کر اس نے سر اٹھایا اور گندی سندی دیواروں، کھڑکیوں ، چھجوں کو گھو ر کر رہ گیا لیکن کچھ بھی قابل ثبوت نہ ملا کہ کس نے سر نکال کر یہ حرکت کی ۔کراہیت سے وہ جل بھن گیا۔یہ تھوک تھا جو اس کی پیشانی پر پڑا تھا۔رومال سے پیشانی رگڑتے اس کے اندر ابال آیا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔اب تک تو اس نے کبھی رتی برابر بھی یہ کوشش نہیں کی تھی کہ ٹوٹے بکھرے قافلوں کی صورت ہجرت پر نکلے خاندان کو پا لے۔وہ رنگین بربتوں کا دلداہ تھا باسی پن سے اسے اکتاہٹ ہوتی تھی۔اماں ابا ہجرت سے دغا کرتے بہت جلداپنی روحیں لیے اس پار جا پہنچے اور ہجرت سے باغی ہوئے۔پھر یہاں آئے ہی کیوں تھے۔چند بار اسے خطوط ملے کہ میں تمہارا فلاں ابن فلاں ہوں اور تم میرے فلاں ابن فلاں لگتے ہو۔
’’تو میں کیا کروں‘‘۔وہ خط کو کہیں بھی اچھال دیتا۔
جو حویلی اس نے ان دنوں اپنے نام الاٹ کروا لی تھی وہ اسے ہوٹل بنانے میں مصروف تھا ۔اب وہ اس کی دیکھ ریکھ کرتا یا ان فلاں ابن فلانوں کی۔ویسے بھی پرانا دستور جو بھی ہوا کرئے وہ تو نیا دستور رقم کر رہا تھا۔
کیسا خوبصورت دستور رہا ہے شادی کے گھر آنگن میں مہینوں پہلے قافلوں کے اترنے کا۔علی گڑھ سے کچھ اور مہمان آ رہے تھے۔مردانے کو ذرا خالی کروایا گیا اور لڑکیاں آئیں بستر اور جانے کیا کیا اٹھا کر اُوپر رکھنے۔ وہ عین وقت پر پردے کے پیچھے کمال مہارت سے چھپ گیا ۔اوپر سے نیچے جھانکتے پہلے ہی تارڑ گیا تھا کہ بانکیوں کی آمد اُوپر متوقع ہے۔
اور پھر جب صاف ششیوں کی لالٹینیں رکھ دی گئیں۔ا نگھٹیوں کی پرانی راکھ کو کوئلوں سے بدل دیا گیا اورطاقوں کو چراغوں سے سجا دیا گیا تو وہ یہاں وہاں اپنے ڈھیروں کپڑوں کو اپنے ساتھ گھسٹیتی گلاب پاش سے فضاء کو معطر کرتی نیچے جاتے جاتے رہ گئی ۔باقی سب جا چکی تھیں ایک اسی کا کام رہ گیا تھا ۔
وہ اوٹ سے نکل آیا اور وہ گلاب پاشی کرتی ایڑی کے بل گھومتی اس کے سینے سے آ لگی……
’’اوئی ما ں ‘‘ اس کے منہ میں ہی رہ گیا۔دہن وا ہوا اور آنکھوں نے پہچان سمے کچھ یوں کہا۔’’ اچھا بچو ! تو یہ آپ ہیں۔‘‘
’’کیوں نا ہوتا‘‘ اس نے لفظ لفظ کہا ۔آواز سے کہا کہ یاد تھا وہ کس تفاخر کو لیے پہلی بار کھڑی پائی گئی تھی۔
تفاخرانہ ہی اس کے ہونٹ کچھ کہنے پر مائل ہوئے لیکن پھر آخر کا ر وہ ان پر تبسم لے آئی……
’’مجھے عالی جاہ کہتے ہیں۔‘‘ــاس نے ہاتھ اٹھا کر پیشانی تک لے جا کر کہا۔کتنی ہی بار سوتے جاگتے یہ دہرا چکا تھا۔
نام سن کر گلاب پاش کو اس نے اس کے شانوں کے کنارے سے پرے لہرایااور پھر گلاب پاش کو دونوں ہتھییلوں میں سمو کر ہاتھ جوڑ لیے ذرا ساپیچھے ہوئی ، ذرا سا جھکی اور کہا۔
’’پرنام مجھے مانیکاکہتے ہیں……مان بھی کہا جاتا ہے……پرنام کہتی ہوں ……چرن چھوانے کی اوشکتا تو نہیں ہو گی ۔‘‘
آنکھوں کی کمانوں کو اس نے ایسے اُٹھایا مانو جیسے اس کی حالت کا نظارہ کرنے کو اس کا دل مچلا جاتا رہا ہو اور وہ بھی اس کی مشق کرتی رہی ہو کہ جو درزیں ڈھونڈ ڈھانڈ تانکا جھانکی کرتا ہے وہ جب پرنام کو جواب پائے گا تو کیسے مچل کر تڑپ جائے گا۔ اور ایسا ہوا بھی لیکن پھروہ اس کے چونک کر اد ھ موا ہو جانے پرآن کے آن دل شکستہ سی ہو گئی۔
’’مانیکا‘‘عالی جاہ نے ایسے صدمے سے کراہ کر کہا جیسے اس کی روح کے باغات کو لوبان کی دھونی دی جا نے لگی ہواور اس اطلاع نے اسے رقص بسمل کی سزا سنائی ہو۔
مانیکا نے زمین سے چھوتی اپنی چولی، چنرکو اٹھانے کی زحمت کیے بناء ان سے الجھتے ہی بھاگ جانا چاہ اور وہ یہ کر گئی۔لیکن صدمے کا اثر کچھ ساتھ لے گئی کچھ چھوڑ گئی۔
سلام اور پرنام میں ربط گلاب پاش کی موجودگی میں بھی پنپ نہ سکا۔
رات نئے مہمانوں نے جم کر ڈھولک بجائی اور پھر بھی رات سونی رہی۔ نہ ملن کے گیت جاگے نہ ارمان آہ بنے۔
رات میں بن باس پنپنے لگا۔
وہ پھر نیچے آیا۔
’’تیل تیلی رکھوا دی ہے تمھارے کمر ے میں ــ‘‘ بوا شاید ہنسیں تھیں‘کانوں کے بالے جھومنے لگے۔
’’سر میں درد ہے کچھ کیجیے……‘‘
اب سر کو کیا ہوا؟اورکیا کروں میں ۔جاو اپنی اماں سے کہو وہ وہاں محفل جمی ہے ان کی ۔اور سنو بابو پہلے سلام کر لینا سب بڑوں کو یہاں سب کو تم سے شکایت ہے کہ تم ٹھیک سے آپ جناب نہیں کرتے۔
’’کہیں تو پیر بھی چھو آؤں ؟‘‘
اس نے سر اٹھا کر دیکھا اماں پتا نہیں کس کس کے ساتھ لمبی باتوں کے سفر پر نکلی تھیں۔وہ ایک نظر ادھر دیکھ کر اوپر آگیا۔
’’چرن چھوانے کی اوشکتا تو نہیں ہو گی۔‘‘رات بھر یہی منتر اسے بہلاتا رہا اور دالانوں ، بالکنیوں کے کونے بدلتے د ن میں وہ اس منتر کو آنکھوں سے پھونکتا رہا۔نیچے وہ خود کو چھپاتی رہی ، نہ مسکرائی اٹھلائی، نہ چنر میں نہ چولی میں،نہ جھلملا کر نہ اترا کا۔
’’دن میں آس پنپنے لگی۔‘‘
شام کو لالٹین اٹھانے اور نئی رکھنے آئی۔مرد سب احاطے میں تھے قوالی شروع ہونے والی تھی۔طیب کو اس نے چوکیداری پر لگایا تھا۔ اور وہ مرا جا رہا تھا سیٹی مارنے کے لیے اس سے کہ پہلے انھیں ہی گردن سے پکڑ کر مار دیا جائے۔وہ چھت پر آگیا جہاں سے بالائی منزل یہ سامنے ہی دکھائی پڑتی تھی۔
ململ کے کپڑے سے اس نے کھڑے کھڑے چند لالٹینوں کے شیشے اندر سے صاف کیے اور ان میں تیل ڈالتے انھیں روشن کرتی رہی۔
شام گہری ہونے کو تھی اور روشنیوں کا سامان کر دیا گیا تھا۔
آٹھ د س لڑکیاں اتے سے کام کے لیے جانے کیوں دیری کر رہی تھیں۔ہنسی ٹھٹولے کے لیے کیا یہی جگہ اور وقت ملا تھا۔اب بوا کہاں ہیں خبر کیوں نہیں لیتیں کہ لڑکیاں رنگین جھلمل اوڑھینیاں اوڑھے ، نینوں میں کاجل بیٹھاے مردانے میں صرف تیل بدلتے وقت کا اتنا زیاع کر رہی ہیں۔
ٍٍ بہت دیر گزری بوا جاگ ہی گئیں اور ان کی للکار پر کچھ جھٹ پٹ نیچے بھاگ گئیں۔کچھ نے کانوں میں تیل ڈال لیا اور للکار کو نظر انداز کر دیا۔اتنا ہی کافی تھا وہ مردانہ چال کی آواز پیدا کرتا نیچے اترا تو جو بچی تھیں وہ بھی کھسک گئیں۔وہ لالٹین کی لاٹ کو بلاوجہ ٹھیک کرنے لگی۔ تو اب وہ آہٹ پہچان گئی تھی۔اس کا انداز دلربانہ تھا اور محبوبانہ بھی۔لیکن ایسا نہیں کہ کچھ طے پا جائے یا وہ کچھ طے کر بھی لے گی ۔اسے یاد تھا کہ سندور ریکھا کہ عین نیچے بندیا چمک رہی ہے۔
’’روشنی ہو گی یا نہیں……کیسا دل کوآلینے والا اندھیرہ چھایا ہے ۔میں ایسے اندھیرے میں کیسے جیوں بھلا اب۔ــ‘‘ عالی جاہ نے با ت کی……ساری بات کہہ دی ……
سوال کے جواب کے لیے وہ ذرا ٹھہری اور رخ موڑے بناء سلائی روشن کی اور پھر پھونک مار کر بھجا دی……اور ا س نے تو داستا ن ہی کہہ دی۔
جس چاہ اور طمطراق سے وہ نیچے آیا تھا اور کئی گھنٹوں سے اوپر ٹہل رہا تھا وہ سب پہلی رات کی سہاگن کی بیوگی کے جوگ میں لپٹ گئے۔طیب نے سیٹی ماری……نہ بھی مارتا تو اسے جانا ہی تھا……لیکن وہ رک گیا اس سے سہن نہیں ہو رہا تھا۔
پھر اندھیرہ ہی؟……مان؟ اس کی پشت کو دیکھتے جس پر اس کے بال جوگی کی من سادھنا چاپ کرنے کو تھے دیکھتے ہوئے کچھ کہا کچھ بتایا……
اور ایسے ہوا کہ رخ کو اس نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھااور جو بندیا دو نینوں کے ییچ چوکیدار بنی گڑی تھی وہ کسی کام کی نہ رہی سار ا
مان سمان ، جاہ و جلال کی نظر ہو گیا……کچھ وقت نہ لگا اور دوسری سلائی روشن ہوئی اورتازہ تازہ صاف کی لالٹین روشن ہوگئی۔
طیب سیٹیاں مار مار کر ہلکان ہو گیا اور ایک نہ دو کتنے ہی مہمان مردانے کی طرف آئے۔وہ اس کا ہاتھ کھینچ کر سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر لے گیا اوردُور سے آتی قوالی کی آواز نے نہ معلوم کیسا سماں باندھا کہ اس کے ہاتھ کی روشن لالٹین کی گواہی میں دو دلوں نے یکساں ہال کھیلا……
اور’’دو ‘‘کا ہندسہ تہمت ذدہ ہے۔
٭ ٭ ٭
وہ دو گڈیا ں رکھ کر لایا تھا جیب میں ۔وہ یہ طیب کو دے دے گا۔مہینہ پہلے دُور کے کوئی رشتے دار اسے ڈھونڈتے ڈھانٹتے اپنا کوئی کام نکلوانے اس کے پاس آئے تو باتوں باتوں میں طیب کاذکر نکل آیا ۔
’’ ایک ٹانگ سے اپاہج ہو گیا تھا ہجرت میں۔پہلے تو کئی کئی د ن کا فاقہ رہتا تھا اب بیوی اور بچیوں نے کچھ سلائی بُنائی کا کام شروع کیا ہے تو روٹی میسر ہے۔دیوانی بہن اورتین بچیوں کے ساتھ غربت جھیل رہا ہے۔‘‘
صغری دیوانی ہو گئی۔ اسے ننھی صغری یاد آئی اور پھر وہ سارے کام چھوڑ کر طیب کی طرف آنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔ایک طیب ہی تھا جسے اس نے تھوڑا بہت تلاشنے کی کوشش کی تھی۔
گلیاں جتنی تنگ ہوتی جا رہی تھیں اتنی ہی مدفن اور تعفن زدہ ثابت ہوتی جا رہی تھیں۔دور سے بینڈ باجے کی آواز آرہی تھی جو قریب آتی گئی۔ گلی تنگ ہوگئی اور جب تک بارات آگے نہیں نکل گئی وہ پھنس کر کھڑا رہا۔شادی والے گھر کے آگے سے گزرا تو ایک نظر گھر کے اندر بھی ڈال لی۔
شادی کے گھر میں دن ایسے پھسلے جیسے آسمان سے مینہ پھسلتا ہے ، دھن دھنا دھن ۔ شراروں میں لپٹی لڑکیاں گیت مالا بن گئیں۔منکے پر منکہ گر ا اور زندگی کی سیج پر ایک مالا پرو گیا……مان اور عالی کی یک جوڑ مالا۔
وہ دہلی سے تھی اور وہ بھی سارے راستے ماپ آیا تھا۔ کتنے ہی ملنے والے ، دُور کے نزدیک کے ، سگے ، سوتیلے وہاں رہتے تھے ۔ہاں بس اسے ذرا ڈھیٹ ہونا پڑا کہ جب یہ نوبت آجاتی کہ بس ہاتھ پکڑ کرنکالنے کی نوبت رہ جاتی تو وہ واپس حیدر آبا دآجاتا۔ ابا سے دو جوتے کھاتا او ر سو جھوٹ سچ بولتا کہ کہاں تھا اور کیا کرتا رہا۔
دو سگائیاں اس نے تڑوا دی تھیں۔ ایک موزی بیمار ی کا ڈھونگ رچا کر اور ایک بے شرم بن کر لڑکے سے خود کہہ کر۔گھر والوں کو بھنک نہیں تھی کہ وجہ کیا ہے ۔ورنہ روز مندر جاتی کی اگر وہ ذرا رکھوالی کرتے تو جان جاتے کہ مندر کے نام پر کون سی پوجا ہو رہی ہے۔مندر کے بہانے زیادہ ہو جاتے تو وہ عالی کی دُور کی خالہ زاد جو اس کی سہیلی بھی تھی کی طرف آجاتی اور اس کا برقع لے کر نکل جاتی۔ عذرا کو اس نے خبر نہیں ہونے دی تھی۔ویسے و ہ اس کی سانس بھانس کے سنگ سنگ تھی لیکن عالی جاہ کے مقام سے وہ پردہ نہیں اٹھا سکی۔اسے پہلی بار یہ دھڑکا لگا کہ یہاں عذرا کی محبت مات کھا جائے گی۔وہم حقیت میں نہ بدل جائے اس نے آزمائش سے دُور ہی رکھا۔اور پھر عالیجاہ بھی یہی چاہتا تھا۔
دونوں پرانے قلعوں میں بیگم اور صاحب بن کر گھومتے رہتے۔بازارو ں سے گھر دار بن کر خریداری کرتے ۔باغوں سے اپنے باغیچوں کے لیے پھول توڑتے۔وہ چولیوں اور ساڑھیوں میں اس کی پسند کے رنگ لیتی اور مانگ نکال کر اس کے نام کا ان دیکھا سندور بھرتی اور اس کے نا م پر پرت رکھنے لگی۔سب یوں ہی ہونے دیا گیا۔
سب گھر ایک جیسے تھے ۔وہ تین بارغلط جگہ دستک دے چکا تھا۔اسے اشتعال آیا کہ وہ آخر یہاں آیا ہی کیوں ہے۔کیا کر لے گا اب وہ طیب سے مل کر۔ کیا ضرورت تھی اتنا جذباتی ہونے کی۔اس نے چاہا کہ وہ واپس پلٹ جائے لیکن پھر بھی وہ آگے بڑھتا رہا کہ اس مجمعے سے بمشکل جگہ بنا کر گزرا جو آپس میں گھتم گھتا ہو رہے تھے اور اچھا خاصا فساد برپا کر رکھا تھا۔
فسادات کی خبریں جو دور دور تھیں وہ نزدیک تر آتی گئیں۔جو کل تک اس شہر اور اس گلی تک کی با ت تھی اب وہ ساتھ والی گلی اور ساتھ والے گھروں تک آگئی۔مرنے والوں کی خبریں دال سبزی کے بھاو کی طرح عام ہو گئیں۔
جو خط ٹوٹی پھوٹی اردو میں لکھے جاتے وہ اس تک پہنچ ہی نہ پائے۔لیکن چند ایک خط جو اس نے طیب کے ذریعے عالی تک پہنچائے جو عذرا کے یہاں اپنا خاندان لے کر آچکے تھے وہ تو اسے ضرور ملے ہوں گے۔وہ آس اور امید سے زیادہ پراتھنا جوڑے بیٹھی تھی۔ گھر والوں کو اس نے الوادعی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا تھا ۔ ماتا کو وہ بار بار چومتی تھی اور گاہے نگاہے ہاتھ جوڑ جوڑ شما مانگا کرتی۔
عالی اپنا خاندان سرحد پار کروا آیا تھا اور دوسری بار پھر اس پار آگیا تھا۔وہ بناء کسی کو بتائے آیا تھا ورنہ اماں کبھی نہ آنے دیتی۔پاکستان کیمپ میں چند دنوں کے قیام سے وہ تارڑ گیا تھا کہ نئے نئے بنے اس ملک میں اب پیسے والے ہی انسان کہلائیں گے۔خود کو انسانوں میں شمار کروانے وہ اس پوٹلی کو لینے واپس آیا جو وہ آبائی گھر کی زمین میں دبا آئے تھے۔
واپسی میں کیمپ میں بوسیدہ کپڑوں میں وہ نظر آئی تو وہ ہولے ہولے اس کی شکل کو اکھٹا کر سکا۔
’’عالی‘‘ وہ اس کا نام یاد کرنے کی کوشش میں نہیں بھی تھا تو بھی وہ اس سے لپٹ گئی اور اسے سب یاد کروادیا۔
’’مان……تم یہاں……‘‘ اسے اتنا سا جملہ بولنے میں کافی دقت ہوئی۔اس کے حواس یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ اس کے سامنے وہی ہے۔
’’ہاں…… میں تمہارے گھر بھی گئی تھی وہاں اور لوگ آ گئے ہیں……مجھے پتا تھا تم ضرور آؤ گے۔‘‘
’’تم گھر سے بھاگ آئی ہو؟‘‘
نہیں بھاگی تو نہیں ……سدھار آئی ہوں……کتنی منت کی تمھاری کہ مت جانا……جانا تو مجھے لے کر جانا……عذرا کا پیغام ملا کہ تم پاکستان پہنچ چکے ہو۔ میں جانتی تھی تم مجھے لینے ضرور آؤ گے۔
مجھے تمہارا کوئی خط نہیں ملا……
کیسے ملتا……لیکن تم آئے بھی نہیں لینے……میں یہاں آگئی……تم نہ آتے تو پاکستان آجاتی ……
تم پاکستان جا رہی ہو؟مان تمہاری جاتی نے چچا قدوس کو زندہ جلا ……
ہے رام……میں دیکھ رہی ہوں سب ……
اب سب الگ ہو گیا ہے مان……
اسی لیے تو آئی ہوں کہ ہم الگ نہ ہوں……
ہمارا دین دھرم تو الگ ہے ……
دھرم……دھرم کی بات پہلے تو نہیں کی……
میں سب یہاں چھوڑے جا رہا ہوں……کچھ نہیں لے کر جانا مجھے یہاں سے……
تم بھی تو یہاں کے ہی ہو……پھر خود کو کیوں لے جا رہے ہو ……
تمہاری وہاں کوئی جگہ نہیں ہو گی مان……میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا……
میں کسی زمین پر رہنے نہیں جا رہی……تمہارے ہوتے ایسا کیسے کروں گی……
تم یہاں آئی ہی کیوں؟کچھ نہیں سوچا کیا؟
سوچا ! تمہیں سوچا……تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو……
میں تمہیں تکلیف سے بچانا چاہتا ہوں……
تمہارے ساتھ میں کس تکلیف میں ہو سکتی ہوں ؟یاد کرو رقیہ کی شادی میں تم نے کہا تھا’’موت کی حقیقت تم پر میری جدائی سے کھلے گی۔‘‘ میں تم پر یہ حقیقت نہیں کھول سکتی عالی۔
وہ خاموش رہا……
’’کہو تو میں لوٹ جاوں…… ‘‘ یہ کہتے اس کی آواز میں مردہ پرندے کی چہکار تھی تو بھی وہ ساری کی ساری اس سے لپٹ گئی کہ وہ کہے لوٹ جاو تو وہ د م توڑ دے اور اُسی میں لوٹ جائے۔
اور ایسے پر آشوب وقت میں، کیمپ کے خون آشام اندھیرے میں ، ہجر تی قافلے کے مسافر نے اپنے اندر غیرت کو امڈتے محسوس کیا اوروہ یہ گوارا نہ کر سکا کہ جو گھر سے خود ہی سدھار آئی ہے اسے یہ بتا دے کہ وہ اس کے لیے نجمہ تھی، حلیمہ تھی، اختر تھی، مہر النساء تھی۔ محبت اس کی خصلت تھی بس۔ وہ تو پہلے دن سے ہی جانتا تھا کہ وہ مانیکا ہے۔پوجا کی تھالی اور سندور کی پرجاتی سے۔اور خصلتوں کوبرجاتیوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔
زخمیوں کے کراہنے کی آواز آرہی تھی۔مائیں مر گئیں تھیں ان کے شیر خوار دُودھ کے لیے تڑپ رہے تھے۔تیرہ چودہ سال کی دو لڑکیاں سر پر ہاتھ رکھے ہچکیاں لے رہی تھیں۔ایک کپکپاتاجھکی کمرکا بوڑھا کیمپ میں رینگ رینگ کر چلتے غفور غفور کی صدائیں لگا رہا تھا۔
پھر بھی وہ خود کو نیچا دکھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ایک عورت کو کیونکر کہہ دیتا کہ اس نے سب سچ بولا تھا جو اب جھوٹ ہو گیا ہے۔جاو لوٹ جاو۔ ہمارا تمہارا بس یہیں تک کا یارانہ تھا ۔اپنی حقیقی ذات کے اہرام کو کیونکر ایک عورت کے سامنے ملیا میٹ کر دیتا۔
یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے۔‘‘خاموشی نے عجیب کام کیا اس کی چہکار لوٹ آئی اس سب پر بھی کہ ذرا فاصلے پر ایک جوان دیہاتن بیوہ اپنے بال نوچ نوچ بین کر رہی تھی ۔
’’دیکھو میرے کپڑے کیسے تار تار ہو گئے ہیں ۔شرم آ تی ہے اب تو۔ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ۔‘‘
’’اماں کے زیور ۔‘‘
’’اماں جی کے زیور۔ ایسا ویسا اتنا کچھ دیکھ لیا ہے۔ لاو کچھ اچھا بھی دیکھ لیں۔ــ‘‘
وہ تھیلے میں سے پوٹلی کھول کر دیکھنے لگی۔شاہدہ، رخسانہ کے لیے زیور الگ کردئیے۔چھوٹے آزاد اوربڑے اقبال کی دلہنو ں کے لیے بھی
’’اور یہ میرے ہوئے۔‘‘عالی جاہ کی دلہن کے لیے بھی ۔پھر یوں مسکرانے لگی جیسے اس کی ساس نے اسے شگن چڑھایا ہو۔
’’دیکھو عالی برا نہ مانو تو ان میں کوئی ایک زیور مجھے پہنا دو۔میرا دل لرزتا ہے یوں یہ اچھا شگون ہو جائے گا۔ماتا جی کہتی ہیں شگن لیکھ کو چڑھاو ا ہے مانو پھر تو لیکھ بھی نہیں بدلتے۔لجا کرتے ہیں ۔‘‘
اس نے ناک کی بالی کو کان کے سوراخ میں پرو دیا اور وہ ایسے خوش ہوگئی جیسے اس کی مانگ میں سندور بھر دیا گیا۔
’’میری آتما کو اب قرا رہے عالی۔میں کیسے کیسے نہیں ڈرتی تھی لیکن اب قرار ہے۔‘‘
اس قرار کو لیے وہ گہری نیند سو گئی تو وہ پوٹلی کو اس کے پہلو سے نکال کر چلا آیا۔کہ جاو بس لوٹ جاؤ۔
بوسیدہ درواز ے پر جھولتی زنگ آلود زنجیر کو اس نے اخلاقاََ بجایا ورنہ دروازہ وا تھا اور کٹا پھٹا پردہ چور کو بھی کان لپیٹ کر پلٹ جانے کا سندیسہ دے رہا تھا۔
؂ ’’آجایئے ــ ‘‘ مردانہ آواز جو اس نے پہچان لی طیب کی تھی وہ اندر چلا گیا۔اس کی آنکھیں قبل از وقت نم ہو گئیں اورسینہ طیب کو بھینچ لینے کے لیے بے تاب ہو گیا۔
اندر جاتے ہی روشنی اور کم ہو گئی اور یکدم اُسے دیوا ر کا سہار ا لینا پڑا۔
طیب اتنا سرد ملا جیسے خون اس کی رگوں میں ہمالیہ سے بہہ کر آتا ہو۔ اُسے حیرت ہوئی۔پھر خیال آیا کہ نوٹوں کی جو گڈیاں اس کی جیب میں موجود ہیں وہ شاید اسے تھوڑا گرم کر دیں۔جو بھی تھا اسے دھچکا لگا۔ اس کی بیوی اور تینوں بچیاں اسے بس ٹکر ٹکر د یکھتی رہیں جیسے وہ کسی جنگل کا وحشی ہو۔اسے کوفت ہوئی لیکن چھپا گیا۔
’’تم نے کبھی مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی طیب؟ ‘‘یہ سوال وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا اور پوچھ لیا۔
’’کیوں نہیں، اور تم ملے بھی۔ ایک خط بھی لکھا ، کبھی کوئی جواب نہیں آیا سوچا پتا ٹھیک نہیں ہو گا۔‘‘اس نے پتا ٹھیک نہیں ہو گا ایسے کہا جیسے گھر کے پتے کی بات نہ کر رہا ہو۔
’’خط ! ‘‘و ہ چونک گیا۔ وہ فلاں ابن فلاں کے خطوط سے اتنا عاجز تھا کہ اپنے سیکٹریری کو کہہ رکھا تھا ایسے ہر خط کو پھاڑ کر پھینک دیا کریں میرا وقت برباد نہ کیا کریں۔
’’مجھے تمہار ا کوئی خط نہیں ملا۔اگر ملتا تو میں بہت پہلے تم سے ملنے چلا آتا۔‘‘
طیب خاموش رہااور اس کی بیوی بھی خاموش رہی، اس کی تینوں بیٹیا ں بھی۔ اتنی خاموشی میں بھی کوئی تو بولتا رہا۔
اسے طیب کے ایسے غیر جذباتی پن نے صدمہ دیا اور جیب سے نوٹوں کی گڈیاں نکالنے کا ارادہ اس نے ترک کر دیا۔اسے معمولی ہی سہی لیکن دُکھ ہوا کہ کیسے طیب جو اُسے آپ کہا کرتا تھا اب تم پر آگیا ہے۔
صغری کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ دیوانی ہو گئی ہے۔تم نے اس کا علاج نہیں کروایا؟اس نے طنزا کہا۔ وہ اس کی غربت کا مذاق اڑانے پر آگیا تھا۔
صغری! طیب چونکا جیسے اس کا دل مٹھی میں آگیا۔
’’میری صغری!اس نے تو میرے ہاتھوں میں دم توڑا تھا۔‘‘
تو پھر بانوہے؟ اب کی بار وہ پھونچکا رہ گیا
’’بانوتو کیمپ میں ہی اماں ابا کے دکھ میں چل بسی تھی۔ ‘‘
کچھ وقت ایسے ہی سرک گیا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا جانے کے لیے اور ابھی وہ دروازے تک پہنچے ہی والا تھا کہ طیب کی نفرین آواز اُس تک آئی۔
تم جا رہے ہو؟
وہ اچھپنے سے اسے پلٹ کر دیکھنے لگا۔
’’تو پھر تم یہاں کرنے کیا آئے تھے؟
’’تم سے ملنے ‘‘ وہ پھنکار کر بولا
’’مجھ سے ملنے۔‘‘طیب ا س سے زیادہ پھنکارا۔
اور اس سے نہیں؟جس ڈیوڑھی میں وہ کھڑا تھا ، لنگڑتے ہوئے طیب نے آگے بڑھ کر اس میں سے نکلتے ایک چھوٹے اندرکو دھنسے ہو ئے دروازے کو ہاتھ بڑھا کر کھول دیا۔
اندر اندھیرہ تھا …… بہت اندھیرہ……کیوں کہ کوئی جلی ہوئی تیلیوں کو ماچس میں سے نکال نکال کر بجھی ہوئی لالٹین کو روشن کر رہا تھا۔جس میں تیل تھا نہ لاٹ……
یہ مجھے پاکستان کے کیمپ میں ملی تھیں۔ریڈیو سے ان کے شوہر عالی جاہ کے نام کے اعلانات ہر پندرہ منٹ بعد ہوتے تھے۔ہندوستان خط لکھے کہ آکر لے جائیں انہیں لیکن و ہ صرف ان کی جلی ہوئی ہڈیاں لینے پر بضد رہے کہ گنگا میں بہا دیں۔اب آئے ہو تو اسے آزاد کر دو یا اس کی ہڈیاں اس کے پرکھوں کو بھجوا دو آگ لگانے کی تو اب ویسے ہی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
طیب نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹی سی چابی نکلالی جو اس زنجیر کی تھی جو اس کے پیر میں پڑے تالے کی تھی۔
اندھیر ہ اتنا بڑھ گیا کہ اس نے طیب کو تھام لیا اور چابی کہیں نیچے گر گئی۔
’’محبت جو خصلت ہوا کرتی ہے وہ قسمت نہیں ہوتی۔ نا اس کی نا اُ س کی ۔‘‘
وہ آگے بڑھا اوران ہڈیوں کو دیکھنے لگا جنہیں اب آ گ کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ وہ ویسے ہی جل رہی تھیں۔
جلتی جیتا میں ہاتھ بڑھا کر اس نے شگن کو اس کے کان سے نو چ ڈالا ۔لیکھ اب بدل جائیں گے۔چڑھاوا لوٹ لیا ۔
وہ بنا پلٹے اتنی تیز ی سے اندر کو دھنستے اس گھر سے نکلا جس میں پانچ لوگ اسے نفرین نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ رک جاتا تو دھنس جاتا۔
تین دن بعد طیب کا پہلا اور آخری تار ملا۔’’ مجھے معلوم ہوتا کہ اُس بالی کو اتارنے سے و ہ آزاد ہو جائیں گی تو یہ کام کر چکا ہوتا ۔‘‘
اور تین دن بعد وہ راکھ میں وہ ہڈیاں چننے لگا جو ہر روز اس کے اندر ٹھہروں ٹھہر پنپ جاتی تھیں۔
٭ ٭ ٭
ختم شد۔
سب تعریفیں اس ذات کے لیے جو قابلیت بھی دیتا اور کامیابی بھی۔
Sumaira Hameed
About the Author: Sumaira Hameed Read More Articles by Sumaira Hameed: 5 Articles with 6801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.