جہنم کے سوداگر- پہلی قسط

جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی :وقارعلی جان
کھوپڑیوں کے مینار (پہلی قسط)
کرنل اشر بن زائن میٹنگ روم میں پہنچا تو سب لوگ اس کااستقبال کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔میں بھی میٹنگ روم میں موجود تھااور اپنے سامنے چند ضروری کاغذات کا پلندہ لئے ان کے مطالعے میں مصروف تھا۔اس نے آتے ہی سب کو گہری تیز نظروں سے گھورا اورپھر وہ اپنی مخصوص کرسی پر جاکربیٹھ گیا۔اس نے اپنے سامنے موجود ایک فائل کھولی، اس پر چند لمحے سرسری نظر ڈالی اور پھر فائل بندکرکے بولا:
"خواتین و حضرات ! جیساکہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آج سے ٹھیک ایک ہفتے بعد گیارہ ستمبرکومنگل کے روز چار طیارے مختلف لوکیشنر سے ہائی جیک ہوکر ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرائیں گے۔اس کی خفیہ مشقیں باقاعدہ کئی ماہ سے جاری تھیں اوراس کی منصوبہ بندی بہت عرصہ قبل ہوگئی تھی۔ پچھلی صدی ہماری جنگ روس کے سوشل ازم کے ساتھ لڑتے گزری جو بلآخر سویت یونین کے ٹوٹنے پر آکر ختم ہوئی اور اب اس صدی میں اسلام کوٹارگٹ کر کے تمام مسلمان ممالک کی دھجیاں اڑائی جائیں گی۔کیونکہ یہودیوں نے جو صدیوں قبل پوری دنیاپر حکومت کرنے کاخواب دیکھا تھا،اسے اب پورا کرناکاوقت آگیاہے اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام اور مسلمان ہیں۔ اسی لئے سب سے پہلے ان کا خاتمہ بہت ضروی ہوگیاہے ورنہ ماسٹر پلان پر کبھی عمل نہیں ہوسکے گا۔وہ لوگ خلافت راشدہؓ کی طرز پرآج تک کوئی حکومت نہ بنا سکے اور اب بھی اپنے لوگوں کو وہ سنہری دور یاد کرکر کے بتاتے ہیں کہ ہم کتنے عظیم تھے ۔ہماری مکہ سے لیکر فارس تک حکومت تھی مگرنادان وہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ اب ان کے پلے کچھ بھی نہیں رہا۔چلو وہ تو نہ بناسکے اب ہم انہیں بناکردکھائیں گے جس میں خلافت بھی ہوگی اور خلیفہ وقت بھی ہوگا۔ ہم لوگ ان کے مذہب میں شامل جہاد کوبنیاد بناکرخود انکے ہاتھوں انہی کاقتل عام کریں گے۔یہ لوگ بے چارے اتنے جذباتی ہیں کہ اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرکے خوش ہونگے اور کہیں گے کہ دیکھا ہم جہاد کررہے ہیں ۔ان کے لیڈرز کیسے بنیں گے یہ ہم انکو بتائیں گے ۔بے چارے مسلمان پوری دنیا سے اب تک کٹے ہوئے اور یہ اب بھی ماضی میں طارق، ٹیپو اور صلاح الدین ایوبی کے دور میں زندہ ہیں۔ان کا بس چلے تو یہ ابھی گھوڑوں پر بیٹھ کر کشمیر اور فلسطین فتح کرلیں۔ نادان یہ اب بھی نہیں جانتے کے دنیاکہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ اب بھی دو سو سال پیچھے ہیں۔یہ اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں کہ کوئی حد نہیں، ان میں ایکا نام کی کوئی چیز نہیں اور بات امت مسلمہ کی کرتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا اقوام متحدہ کے زیر اثر آگئی ،مذہب کو ہم نے ریاست سے الگ کرکے ریاستوں کی بنیاد سیکولر اور لیبریل جمہوریت پر رکھ دی ۔ اب کوئی ملک مذہب کی بنیا د پر قائم نہیں رہ سکے گا بلکہ ہم نے اسی لئے مذہب کو فرداوراسکی شخصی آزادی تک محدود کردیا ہے ۔اب ایک آزاد ریاست میں جس کو جو دل کرے گا وہ اپناعقیدہ رکھے گااور اسے اپنی مذہبی عبادات کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اقوام متحدہ کے بنیادی قوانین مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمرؓ کے دور سے لئے ہیں اور انکے ہی وضع کردا قوانین ہی دنیا بھر میں انسانی حقوق کہلاتے ہیں ،مگر ہم اسے جمہوریت کے راہنمااصول کہتے ہیں ۔مگرمسلمانوں کے لیڈرز نے انہیں ہمیشہ ماضی میں زندہ رکھااور حال سے وہ نہ آشنا ہیں، تو انکا مستقبل کیسے ہوگا آپ سب لوگ اس کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔اسی لئے ہم نے اپنا مقصد پور ا کرنے کے لئے منصوبہ بنالیا ہے اورآپ سب جانتے ہیں ہم تو سو سال آگے کی پلاننگ کرتے ہیں۔لہذا اس ٹوئن ٹاورز کو بہانہ بناکرہم ان مسلمان ممالک پر چڑھ دوڑیں گے، تمام یہودیوں کو اطلاع دے دی گئی ہے کہ اس روز کوئی بھی ان عمارتوں میں موجود نہ ہو۔حکومت کی اجازت اور منصوبے کے عین مطابق یہ تمام کام انتہائی خوش اسلوبی سے ہوگا۔میڈیا ہماری جیب میں ہے ،جو ہم کہیں گے وہ بھی ویسی ہی زبان بولے گا۔ وہ اتناجھوٹ بولے گا کہ پوری دنیا اسے سچ مان لے گی ۔اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا خونی کھیل شروع ہوجائے گا جسکا منطقی انجام اسرائیل اور صیہونی طاقتوں کی عظیم فتح کے ساتھ ہوگا۔آپ سب بھی دیکھیں گے اور میں بھی دیکھوں گا وہ دن دور نہیں جب یہ تمام باتیں سچ ثابت ہونگی۔۔۔۔جی اگر آپ لوگوں نے کچھ پوچھنا ہوتو ضرور پوچھیں؟"کرنل اشر بن زائن نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری بھڑاس نکال دی تھی اور یہ تمام اس کے حقیقی جذبات تھے وہ واقعی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔اس کاتو بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کسی طرح تمام مسلمانوں کو کچا چباجائے۔میرا دل کیا کہ اٹھ کر اس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کردوں ،مگرایساممکن نہیں تھا۔بہت سی باتیں انسان صرف سوچ سکتا ہے اور برداشت کرسکتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ کرنے کے پوزیشن میں نہیں ہوتا ۔اگر اسکی گفتگوکو دوسرے پہلوسے دیکھاجائے تواس نے مسلمانوں کی جوموجودہ حالات کی منظر کشی کی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی۔اس کی اس گفتگو سے مجھے کافی شرمندگی بھی ہوئی کہ واقعی ہم کافی ساوہ لوح واقع ہوئے ہیں اور اپنے حال سے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔تو جو قومیں اپنے موجودہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال نہیں سکتیں اس کا انجام تو بالکل دیوار کے اوپر واضح طور پر لکھا ہوا ہے اور پھر اس کے بعد کے حالات ،مشاہدات اور تجربات وہی کچھ ظاہر کرتے ہیں جس کی منظر کشی کرنل نے کی تھی۔

"کرنل صاحب یہ جتنے بھی ہائی جیکرز ہیں جن کو ہم نے اس کام کی خصوصی ٹریننگ دی ہے اگر یہ آخری لمحے پر ڈر کربھاگ گئے تو پھر کیا ہوگا۔؟"ای ہد شمون نے کہا۔
"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا،یہ اپنی طرف سے جہاد کررہے ہیں ۔ان سب لوگوں کاجہاد کے نام پر برین واش کیاگیاہے۔یہ کوئی انیس ہائی جیکرز ہیں جن میں سے پندرہ توصرف سعودی عرب کے ہیں اور اس عالمی سانحہ کے بعد ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گااور اگر کوئی قدرتی طور پر بچ گیا یا ان میں سے کسی نے بھی بھاگنے کی کوشش کی تو ہمارے اسپیشل کلرز انہیں کتوں کی موت ماردیں گے۔یہ نکتہ میرے ذہن میں بھی تھااور میں نہیں چاہتا کہ میں صدر صاحب سمیت اپنے چیف کو کسی بھی قسم کی ناکامی کی خبر دوں۔"کرنل اشر بن زائن نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"سر ان حملوں کے دوران دیگر بے گناہ امریکی بھی تو مارے جائیں گے کیا آپ نے انکو بچانے کے لئے بھی کوئی اقدامات کئے ہیں؟"میں نے تھوڑا ساکانسنے کے بعد ایک سوال کیا جسکا میں جواب پہلے سے ہی جانتا تھا۔مگر میں اسے مزید بکواس کرنے دیناچاہتاتھا،ممکن تھا وہ اپنی گفتگو میں کوئی اورراز کی بات اگل دے۔ویسے بھی اس تمام گفتگوکے بعد اس کی ذہنی کیفیت پر کسی کو بھی تھوڑا سابھی شک نہیں ہوناچاہے۔مگر اس نے جوباتیں کی تھیں وہ واقعی حقیقت پر مبنی تھیں اور انتہائی خطرناک بھی جس کا آنے والے دنوں میں مسلمانوں ،عیسائیوں اور کسی حد تک یہودیوں پر بھی بہت برا اثر پڑنے والا تھا۔
"دیکھو ڈیوڈ! میں جانتا ہوں کہ تم میرا جواب جانتے ہو مگر میں پھربھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میری طرف سے تمام امریکی بھاڑ میں جائیں مجھے انکی موت پر رتی برابر بھی دکھ نہیں ہوگا۔ویسے بھی انہوں نے کون سا ہم پہ احسان کیا ہوا ہے جو کچھ یہ اسرائیل کے ساتھ کررہے ہیں یہ لوگ مجبور ہیں ایساکرنے کوکیونکہ ان کے تمام تھنک ٹینکس اور پالیسی میکرز ہم ہی تو ہیں ۔جو قوم خود اپنی پالیسی نہیں بناسکتی ہے وہ روندھ دی جاتی ہے اور ان کا انجام بھی بالکل وہی ہوگا جو مسلمانوں کا ہورہاہے۔ ہمارا مقصد امریکی قوم کو بھی اپنا غلام بناکر رکھناہے،کیونکہ اگر اس قوم کو شعور مل گیا اور کسی دن انہیں پورا سچ پتاچل گیاتو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور مجھے خطرہ ہے کہ ہماری گریٹ گیم متاثر نہ ہوجائے اس لئے انہیں نشے کا ڈوز دیتے رہنا ہے اور آہستہ آہستہ ان کے لئے حالات مشکل سے مشکل ترین کرتے رہنے ہیں تاکہ یہ خود ہی اپنی آزادی سے دستبردار ہوجائیں ۔پھر ہم کانگریس کے ذریعے ایسے قوانین پاس کروائیں گے کہ ان کی شخصی آزادی مکمل طور پر سلب ہوجائے گی۔۔۔۔۔"
"سرآپ نے ابھی مسلمانوں کے آپس میں فرقوں میں بٹے ہونے کی بات کی تو ہم اس چیز کا کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قتل عام پر کیسے مجبور کرسکتے ہیں ؟"اس بارمایانے اپنی مترنم آواز میں سوال کیا تو سب لوگ اس کی جانب کچھ دیر کے لئے متوجہ ہوئے اور پھر کرنل کی طرف دیکھنے لگے۔
"بہت اچھاسوال ہے،ان فرقوں کی ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہر فرقے سے زیادہ افضل سمجھتے ہیں اور دوسرے فرقے کو اپنے مذہب سے ہی خار ج سمجھتے ہیں۔یعنی عصبیت کا عنصر ان میں غالب ہے اور ان لوگوں میں عقل و دانش نام کی کوئی چیز نہیں بس نری جہالت اور جذباتیت ہے۔یہ کوئی کام بھی سوچ سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ ثواب سمجھ کرکر تے ہیں۔تو ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے اور جہاد کے جذبے سے سر شار ان لوگوں کو اپنی صلاحیتیں منوانے کا پورا موقعہ ملے اور یہ اپنے رب کے پاس جلد از جلد پہنچ جائیں۔اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ان میں خود کش حملے عام کردیں گے ۔یہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو اسلام سے خارج کرکے چوکوں ،سڑکوں ،چوراہوں ،گلی ،محلوں اور بازاروں میں سرعام قتل کریں گے اور ثواب کمائیں گے۔ ہمارے ایجنٹس ان کے مکمل ٹریننگ کے ساتھ بارود اور خودکش جیکٹس بھی مہیاکریں گے۔سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہوگی کہ یہ لوگ کسی یہودی،عیسائی یاامریکی کونہیں ماریں گے بلکہ اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کا قتل عام کریں گے۔یہ لوگ نہ ہی کسی جواء خانے کو ٹارگٹ کریں اور نہ ہی رقص و سرور اور شراب کی محافل کے اندر بم پھاڑیں گے بلکہ یہ اپنی ہی مساجد،امام بارگوہوں کی حرمت پامال کریں گے ۔یہ ٹوٹل انکا جہاد ہوگا،جب یہ اسی افراتفری کے عالم میں ہونگے تو ہم اس ماحول میں انہی لوگوں کے اندر سے کسی کو خلیفہ وقت بناکر خلافت کا اعلان کرادیں گے اور یہ بے چارے صرف اپنے ہی لوگوں کی گردنیں اڑاتے رہیں گے۔جو ان میں سے خلیفہ وقت بنے گا وہ دراصل صیہونیوں کا ہی بھیجا ہوا ایجنٹ ہوگا اور اس کے بعد ہم ان کے ہاتھوں مسلمانوں کے علاوہ پوری دنیا کے لوگوں کا قتل عام کروائیں گے اور چونکے بہت سے مسلمان اس وقت اپنے آپ کو خلیفہ کا طابع سمجھیں گے تو وہ جو حکم دے گا یہ اس کوآخری حکم سمجھ کر مانیں گے۔اس طرح ہم دنیا میں نیو ورلڈآرڈر کا قیام عمل میں لائیں گے۔جس میں ملکوں کے ملک ہضم ہوجائیں گے ،ڈالر کی مارکیٹ گرا کرنئی کرنسی جاری کریں گے اور اسی سے ملتے جلتے کام ہم کریں گے تاکہ اپناآخری گول پورا کرسکیں ۔۔۔۔"
" سر اس وقت اسرائیل کی سا لمیت کو نہ صرف اس کے قریبی عرب ممالک سے خطرہ ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹمی قوت ہے اس سے جب تک اسکی ایٹمی قوت سے محروم نہیں کیاجاتاتب تک ہماری گریٹ گیم کو خطرات لاحق رہیں گے۔ "زی وی شبتائی نے کہا ۔
"ہاں تمہاری بات صحیح ہے،اس پاکستان نے سچ میں ہماری ناک میں دم کیا ہوا ہے۔کب سے اس کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اس کی سیکرٹ انٹیلی جنس ہے کہ ہر بار ہمارے راستے میں دیوار بن کے کھڑی ہوجاتی ہے۔اس قدر پسماندہ ملک ہونے کے باوجود بھی اس نے ہمیں تکنی کاناچ نچایا ہوا ہے۔وہاں کے لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات کی چیزیں مثلاً روٹی کپڑا ،مکان بھی نہیں ہیں اس کے باوجود بھی وہ ہماری لئے اس قدر مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔1998سے قبل ہم نے ڈیوڈ کو پاکستان ایک خفیہ مشن کے سلسلے میں بھیجاتھا، جس میں اسے پاکستان کے سب سے بڑے سائنسدان کو قتل کرنا تھا اور ڈیوڈ کامیاب رہا۔ اسی کے پاس پاکستان کے سارے ایٹمی راز تھے لیکن پھر بھی نہ جانے کیسے ہوگیا کہ ان پاکستانیوں نے 98میں ایٹمی دھماکے کرلئے جو انتہائی حیر ت انگیز بات ہے۔کیونکہ سارے ایٹمی پلانٹس کا وہ واحدہی کی پرسن تھا اسکے مرتے ہی سارا نظام لاک ہوجاتا،اس سائنسدان نے اپنے سارے کام میں کسی کو بھی اپنارازدار نہیں بنایاتھا ۔جس کا ہم نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔۔۔۔کیوں ڈیوڈ تم ذرا اس پر روشنی ڈالو۔۔۔۔"کرنل نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتو میں ایک بار پھر حسب سابق گلا صفاف کرتے ہوئے کہنے لگا۔
"ہاں جی کرنل صاحب آپ نے ٹھیک کہا۔میں نے اس سائنسدان کو تو آف کردیا تھا مگر پھر بھی وہ لوگ ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہوگئے واقعی انتہائی حیرت انگیز بات ہے۔۔۔"میں نے بظاہر حیرت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا لیکن دل ہی دل میں انہیں الو بنانے پر بہت مسرت کا احساس ہوا۔کیونکہ اصل کہانی تو میرے سینے میں دفن تھی، کرنل اور اسکے دیگرحواری اب تک اندھیرے میں تھے ۔
"ہاں صحیح کہایہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ لوگ اب بھی اپنے معاملات بڑے احسن طریقے سے چلارہے ہیں ۔ خیراس کا توڑ بھی ہم نے نکال لیا ہے۔اس وقت پاکستان کا حکمران ایک فوجی ہے جس کا نام جنرل عابد خان ہے اور ان فوجیوں کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ کچھ زیادہ ہی محب وطن ہوتے ہیں اور الٹا ہمیں ہی ڈبل کراس کرتے رہتے ہیں۔اسی وجہ سے ہمیں بار بار ان کے درمیان جمہوری لوگوں کو لانا پڑتاہے تاکہ کسی حد تک معاملات کنڑول میں رہیں۔ یہ فوجی بظاہر امریکہ کے ساتھی بنے رہتے ہیں مگر درپردہ یہ اپنے ملک اور اپنی فوج کو مستحکم کرتے رہتے ہیں ۔جس سے ہمیں یہی تاثر ملتاہے کہ تمام معاملات درست سمت میں جارہے ہیں مگر جب یہ اقتدار سے جاتے ہیں تو ہمیں تب پتہ چلتاکہ یہ تم ہمیں ماموں بناگئے تھے ۔اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ایک پلان وضع کرلیا ہے۔ سب سے پہلے ہم پاکستان کے موجودہ صدر جنرل عابد خان کو خود کش حملوں کے ذریعے ٹاگٹ کریں گے،مجھے پوری امید ہے کہ کوئی نہ کوئی خودکش بمبار تو نشانے پر بیٹھے گا ہی اگر ایسا نہ ہواتو دوسرے فیز میں ہم باقاعدہ ڈیوڈ کو میدان میں اتاریں گے ،جس نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیااور ہم سب اس کی صلاحیتوں کے گرویدہ ہیں ۔ وہ جاکر پاکستان کے صدر کو قتل کرآئیگا اور اس مشن میں اسکی جان بھی جاتی ہے تو چلی جائے۔لیکن اگر وہ بھی نہ کرسکا تو پھر ہم تیسرے فیزمیں پاکستان میں اتنے خودکش دھماکے کروائیں گے کہ پاکستان کی عوام تنگ آکر اپنے ہی صدر کے خلاف عوامی بغاوت کے لئے کھڑی ہوجائے گی ۔ اس کے لئے ہم میڈیا کا استعمال کریں گے تاکہ وہ لوگوں کے ذہنوں کی پوری طرح سے ذہن سازی کریں گے اور پھر ہم عام لوگوں کو کھڑا کر کے فوجی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے ۔یہی کام ہم نے باقی اسلامی ممالک میں بھی کرنا ہے لیکن پاکستان میں تو ہمیں لازمی کرنا ہوگاورنہ ہمارا ساراگیم فیل ہوجائے گا۔"
"سر جو امریکہ میں 9/11ہوگااس کو آپ پھر کیسے ڈیل کریں گے ؟اس کا الزام آپ کیسے مسلمان ممالک پر لگائیں گے اورہم کس طرح سے مسلمانوں کو اس میں ٹریپ کریں گے۔ کیا اس حوالے سے بھی ہم نے کوئی پلاننگ کی ہوئی ہے؟"
"اس کا کام بھی ہوگیاہے، تحریک الجہاد والے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کریں گے اور پھر اسی دن سے مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹیگ لگ جائے گاجو کم سے کم اس صدی میں تو نہیں دھل سکتا۔یہ لاکھ سر پیٹتے رہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور ایک مسلمان ناحق کسی کا خون نہیں بہاتے مگر جو ہونا وہ ہوکررہے گا۔ماناکہ اسلام امن کا مذہب ہے مگر جب ہم کسی کی ذہن سازی کردیتے ہیں توپھر وہ چلتاپھرتا بم بن جاتا ہے ۔اسے پھر پھٹناہی ہے اور وہ پھٹے گا۔تمام مسلمان ایک عرصہ تک مکمل طور پر کنفیوژرہیں گے کہ آخراصل میں جہاد ہوتاہے کیاہے؟احمق لوگ یہ بھی نہیں جان پائیں گے کہ اصل جہاد ،جہاد بلنفس ہوتا ہے۔ یعنی اصل جہاد تو اپنی ذات پر لاگو کیا جاتا ہے کہ بطور مسلمان مجھے ہر حرام چیز سے خود کو پاک کرنا ہے اور صر ف اپنے رب کا بندہ بن کررہناہے۔یہ اصل جہاد ہے جو اس پر عبور پالیتاہے وہ پھرآگے جاکر خالدؓ ،طارق ،ٹیپو بنتاہے۔اس طرح نہیں کہ بندوق اٹھائی، خودکش جیکٹ پہنی اور جہاں دل کیا وہاں جاکر پھٹ گئے ۔مگر اب ایساہی ہونے والا ہے،اگر ہمیں اسلام کی اتنی گہری باتوں کا پتہ ہے تو پھر ان کو تو پتہ ہوناچاہے مگر ان کے مذہبی پیشواؤں اور راہ نماؤں نے انہیں سوچنا اور سمجھنانہیں سیکھایا صرف ثواب کیسے ملتاہے وہ بتایاہے۔یہی وہ چیزہے جس کا فائدہ اٹھا کر ہم اسے ایکسپلائیٹ کریں گے اور ان کی جہالت اور جذباتیت کا فائدہ اٹھاکر انہیں انکے اپنے ہی لوگوں سے انکیکھوپڑیوں کے مینار بنوائیں گے۔ ابتک کے لئے بس اتناہی باقی پھر آئندہ شکریہ۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی کرنل اشر اپنی منحوس شکل کے ساتھ اپنی کرسی سے اٹھااور میٹنگ روم سے باہر چلاگیا۔
*********
اپنی کہانی مزید آگے بڑھانے سے قبل میں یہ بات واضح کرناچاہتاہوں کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور اسلام اور اپنے ملک سے محبت میری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔مگرانسان کو زندگی میں کچھ ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جواس کی مجبوری بن جاتے ہیں۔اگر میں وہ فیصلے نہ کرتا تو(نعوباللہ) آج پاکستان کی سلامتی شدید خطرے میں ہوتی۔صر ف میں نہیں بلکہ مجھ جیسے بہت سے خاموش ساتھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے وطن کی حفاظت کے لئے دن رات نہ صرف محنت کررہے ہیں بلکہ میری طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں ۔ان میں سے کئی دوست اب ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ساتھیوگواہ رہناوطن کا پتاپتاڈالی ڈالی بوٹا بوٹا انہیں سلام کرتی ہیں ۔انہیں ہم کبھی نہیں بھلاسکتے ۔ویسے تو ہر دور میں ہی وطن عزیز کی سلامتی کو خطرہ رہتا ہے مگر میں جس تناظر میں بات کررہاہوں وہ نائن الیون کے بعد کا دور ہے ۔جس میں پوری دنیا کی قوتیں ہاتھ دھو کر پاکستان کے پیچھے پڑ گئی تھیں ،نائن الیون بہانہ تھا، افغانستان نشانہ اور پاکستان ٹھکانہ ۔میں پاکستانی سیکرٹ ایجنٹ ہوں اور اصل میں میرا تعلق پاکستان کی سیکرٹ انٹیلی جنس سے ہے۔ میرا نام وقار علی جان ہے اور میرے والدمیجر اصغر علی جان ایک ریٹائرڈ پاکستانی فوجی افسر تھے۔آپ کے ذہن میں یقیناًیہ بات ہوگی کہ سیکریٹ ایجنٹ تو خفیہ ہوتے ہیں اور اپنی شناخت دنیا بھر سے چھپائے رکھتے ہیں تاکہ وطن کے راز وں کو چھپایاجاسکے۔ تو پھر میں اپنی یہ آپ بیتی کیوں لکھ رہاہوں ؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں،سب پہلے تو میں چاہتا ہوں کہ تمام پاکستانیوں کویہ یقین ہونا چاہے کہ جب تک اس دھرتی ماں کے بیٹے زندہ ہیں ،پاکستان کاکوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔ آپ یقین کریں میں پاکستان کا کوئی حساس نوعیت کا راز لیک نہیں کروں گا کیونکہ یہی میرااپنی دھرتی ماں کے ساتھ حلف ہے ۔میں اس کہانی کے اکثر کردار اور واقعات احتیاط سے بیان کروں گا تاکہ کسی کوبھی میری اس تحریر سے نقصان نہ ہو ۔مگر میں چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کواصل حقیقت معلوم ہو کہ دنیامیں اس وقت کیا ہورہاہے اور صیہونی طاقتیں کس طرح مسلمانوں اور پاکستان کو نقصان پہنچارہی ہیں ۔ نائن الیون کیسے ہوا اورپھر اس کے بعد ہونے والے واقعات ۔پردے میں چھپی ہوئی سازشوں کا میں چشم دید گواہ ہوں ۔ان تمام واقعات کے ماسٹرپلانز کی بلیوپرنٹس میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں ۔سازش کس طرح عمل پذیر ہوتی ہے اور پھر کس طرح اس کے پراسرار سلسلے آپس میں ملتے ہیں ۔یہ میں جانتا ہوں اور انہی مشاہدات اور تجربات کو اب قلم بند کرنے بیٹھا ہوں۔
وطن اور اسلام سے محبت مجھے والد سے ملی ۔جوبہت بہادر افسرتھے65 کی جنگ خود لڑے اور دشمن کو باقی فوجیوں اور پاکستانیوں کی مدد سے اللہ کے فضل سے دھول چٹادی تھی۔میں بچپن سے ہی تعلیم میں بہت اچھا تھا،بدقسمتی سے میٹر ک کے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری ،محنت کرتا رہا،پھر میں نے سی ایس ایس کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا اور ایک مخصوص اور خفیہ پراسس کے بعدمجھے انٹیلی جنس میں نوکری ملی ۔میرے ساتھ اور دوسرے کئی ساتھی تھے جو سی ایس ایس کرنے کے بعد میرے ساتھ ہی پاکستا ن کے خفیہ ادارے میں آئے تھے ۔اسکے لئے مجھے بہت سے پاپڑ بیلنا پڑے،منتخب ہونے کے بعد میری چار سال تک نامعلوم مقام پر جان توڑ ٹریننگ ہوتی رہی ۔وہ ٹریننگ کس نوعیت کی تھی اس پر سے میں پردہ نہیں اٹھاؤں گا۔بس اتنا سمجھ لیں کہ ہمیں عام فوجیوں سے دس گنازیادہ ٹریننگ دی گئی تھی۔ ،جس کے بعد میں فولاد بن گیاتھا۔ہمیں مرنے کاڈھنگ سیکھایاگیاتھا کہ وطن سے بڑھ کرکوئی بھی نہیں ہے نہ ہی ہمارے افسر۔اگر ہمارے افسر ہمیں پاکستان کے خلاف کوئی کام دیتے ہیں تو وہ ہم نہیں کریں گے بلکہ ہم وطن عزیز کے سامنے اور انکے خلاف ڈھال بن جائیں گے ۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات گھول کر پلادی گئی تھی کہ ہم مر تو سکتے ہیں مگر وطن کے اوپر سودے باز ی ہرگز نہیں کریں گے ۔اور اگر پاکستان کو خطرہ ہواور ہم دشمن کی قید میں ہو ں تو ہم ہر قسم کے تشد دسے گزر جائیں گے۔یہاں تک کہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ٹریننگ کی ایک اورخاص بات یہ تھی کہ ہمیں بار بار ایک فقرہ دہرانے کو کہاجاتاتھااور وہ یہ تھا کہ:
" "I am the silent solider of my motherland and I am born to Die
1997 میں مجھے ایک خاص مشن کے لئے تیار کیاگیا۔جوایک لمباعرصہ چلتارہااور اس دوران میری آنکھوں کے سامنے وہ راز کھلے جو اس قبل میں نہیں جانتا تھا۔ایک مشن کے تحت مجھے امریکہ بھیجاگیااور اس خفیہ مشن کے لئے مجھے مسلمان سے یہودی ہونا پڑا۔میری شناخت تبدیل ہوئی اور نئی شناخت کے مطابق میرا نام ڈیوڈ بن ایرون تھا۔اس شناخت کے حصول کے لئے میری کئی ماہ تک الگ سے خصوصی ٹریننگ ہوتی رہی۔مجھے یہودی مذہب کے بارے میں پوری معلومات دی گئیں اور پھر میں مسلمان سے یہودی ہوگیا۔دل سے نہیں بلکہ ظاہری طور پر۔ڈیوڈ بن ایرون امریکہ کی ایک ٹاپ سیکرٹ ایجنسی بلیک ڈائمنڈ کا خصوصی تربیت یافتہ ایجنٹ تھا۔ جوایک خاص مشن پر پاکستان آیا تھا اور اسکا مقصد پاکستان کے سب سے بڑے ایٹمی سائنس دان کو قتل کرناتھا۔بلیک ڈائمنڈ کی کئی سالوں سے ہمارے ایجنٹس ریکی کررہے تھے اسی لئے ہمیں انکی چیدہ چیدہ باتیں معلوم تھیں۔اگر وہ سائنسدان مارے جاتے تو پھرپاکستان شاید اپنے ایٹمی اثاثے نہ بچا پاتا۔میرے بہت سے قارئین کو شاید یہ پتہ نہ ہو کہ پاکستان تو کب کا ایٹمی قوت بن چکاتھا،مگر ابھی تجربے کرنا باقی تھے۔امریکہ کو اس کی بھنک پڑگئی تھی اور اسے پاکستان کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھائی تھی اس نے نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی پاکستان کی جمہوری حکومتوں کو وارننگزدی تھیں کہ اگر پاکستان باز نہ آیاتووہ پاکستان کو کھنڈر بنادیں گے۔مگر پاکستان ڈٹارہاتومجبوراًانہوں نے امریکہ کی سیکرٹ ایجنسی بلیک ڈائمنڈ کو یہ ٹاسک دیاکہ پاکستان کے سب سے بڑے سائنس ڈاکڑ شاہد عباس کوخفیہ طورپرقتل کردیاجائے۔بلیک ڈائمنڈ تنظیم کا یہودی سربراہ پہلے ہی مسلمانوں اور پاکستان سے شدید نفرت اور بغض رکھتا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسرائیلی اور کٹرصیہونی تھا،وہ مسلمانوں کا وجود پوری دنیا سے مٹا دینے کا حامی کا اور درحقیقت وہی جہنم کے سوداگروں کا ایک آلہ ء کارتھا۔
اپنے قارئین کو میں یہ بھی واضح کرتاچلوں کہ ہرصیہونی یہودی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر یہودی صیہونی ہوتاہے۔ آسان الفاظ میں صیہونیت کی تھوڑی سی وضاحت کردوں تاکہ آپ کو کہانی کے دوران کسی قسم کی دقت محسوس نہ ہو۔صیہونیت کو انگریزی زبان میں zionismکہتے ہیں۔یہ ایک تحریک کا نام ہے ،جو یہودیوں کے حقوق کے لئے 1897 میں Theodor Herzl نے شروع کی جس کا مقصد یہودیوں کی فلسطین کی زمین پر آبادی کاری تھا۔اس کے نزدیک کوئی تین ہزار سال قبل جو قوم سب سے پہلے اس سرزمین پر موجود تھی وہ یہودی ہی تھے۔اس کے بعددیگر مذاہب کے لوگ جس میں عیسائی اور مسلمان شامل ہیں آکر بسے ۔اسی لئے یہودیوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی زمین پر جاکربسیں۔اس سے قبل یہودی پوری دنیا میں دربدر پھرتے رہے مگر انہیں دنیا کے کسی خطے میں پناہ نہیں ملتی تھی۔دنیا بھر کے لوگ انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیاگیاتھا۔اس تحریک کی انتہا اس وقت ہوئی جب پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم کے دوران (1933سے1945تک)جرمنی کے ایڈلف ہٹلرنے تقریباًچھ ملین یہودیوں کا قتل عام کیا۔جس میں بعض واقعات تو انتہائی کرب ناک اور تکلیف دہ تھے ،ہٹلر نے اپنی نازی فوجیوں کے ذریعے باقاعدہ گیس چمبرز میں زہریلی گیس چھوڑ کر یہودیوں کی نسل کشی کی۔ان واقعات کو پوری دنیا کے لوگThe Holocaustکے نام سے جانتے ہیں۔ان واقعات میں یہودیوں کے مارے جانے کی تعداد میں ذرا برابر بھی شک کرنا یا اس کے اوپر ریسرچ کر نا پوری دنیا میں بین ہے جو ایسا کرتا ہے اسے سخت قوانین کے تحت جیل جاناپڑتاہے۔زائنزم کی اس تحریک میں بہت سے لیڈرز نے یہودیوں کی قیادت کی اور انہیں سنہری خواب دیکھائے ۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ زائنز م کی تحریک کے تما م لیڈرز لا دین تھے اور ان کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔وہ خدا کو نہیں مانتے تھے حالانکہ ہر یہودی خدا کو مانتاہے۔ عام یہودی انکے جذباتی نعروں میں آگئے جو پہلے سے ہی بے گھر تھے دنیا بھر سے ہجرت کر کے اسرائیل پہنچ گئے ۔ان لادین لیڈرز کا زیادہ جھکاؤ شیطان کے پجاریوں کی طرف تھا۔بلکہ یہ کہیں کہ جہنم کے سوداگروں نے زائنزم کی تحریک کو ہائی جیک کر لیا تھا تو یہ بے جا نہ ہوگااور آج دنیا بھر میںیہودی صیہونیوں کے اس خونی کھیل کی وجہ سے بدنام ہورہے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ سمیت دنیاکے اکثر ممالک کے سربراہان جہنم کے سوداگروں کے غلام ہیں ،بلکہ انہیں کٹھ پتلی کہیں تو بے جانہ ہوگا۔آج ہم دنیا میں جو تباہی دیکھ رہے ہیں ان سب کے پیچھے شیطان کے پجاری ہیں۔ اسی لئے ہرصیہونی یہودی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر یہودی صیہونی ہوتاہے ۔میری یہ وضاحت کرنا بہت ضروری تھا ،تاکہ آپ سب قارئین کو میں جو آگے پیش آنے والے واقعات بیان کروں گا اس کا بیک گراؤنڈ واضح طور پر پتہ ہو۔اسکی میں مزید وضاحت ساتھ ساتھ کرتاجاؤں گا تاکہ آپ کوسمجھنے میں دشواری نہ ہو اورتاکہ آپ سب کو واضح ہوسکے کہ درحقیقت جہنم کے سوداگر آخر ہیں کون؟
اسلام آج دنیابھرمیں جس طرح مذاق بناہوا ہے اور جس طرح جہاد کو وجہ بناکراسلام کی بنیادوں کو کھوکھلاکیاجارہاہے۔وہ بطور مسلمان مجھے بہت تکلیف دیتا ہے ،میرابس نہیں چلتاکہ میں کیاایساکروں کہ سب کچھ چھڑی گھماتے ہی ٹھیک ہوجائے۔مگر ایسا خواب میں تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت میں نہیں ۔ کیونکہ بہت سے معاملات انسا ن کے بس سے باہر ہوتے ہیں اور انسان ان سب میں باقیوں کا محتاج ہوتاہے ۔ پھر بھی میں نے جو کیا وہ کم نہیں تھا۔اسی لئے مجھے کچھ ایسے فیصلے کرناپڑے جوشاید کوئی اور نہ کرسکتا۔میں پاکستان اور اسلام کا ایجنٹ ہوں اور مرتے دم تک رہوں گا،میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں وہ چیزیں دیکھ چکاہوں جسے دیکھ کہ دل خون کے آنسوروتاہے۔ نام نہادیہودیوں کی بہت سی تنظیموں نے مل کراس دنیاکو جہنم بنانے کا مکمل منصوبہ بنایا ہواہے اور اس سب کچھ کامیں عینی شاہد ہوں۔میں نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو لٹتے ہوئے دیکھااوراب میں اس نتیجہ پر پہچا ہوں کہ آج ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہورہاہے ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔مانا کہ اس میں یہودیوں کی سازشیں بھی شامل رہی ہوں گی اور حقیقتاً ہیں بھی مگر ہم نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبریں کھودی ہیں ۔ہم خود اپنے قاتلوں کو اپنے سروں پر بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں لاتے ہیں اور جب وہ دنوں ہاتھوں سے ہماری بوٹیاں نوچتے ہیں اورہماری رگوں سے ہمارا خون چوستے ہیں تو ہم چیخنا اور چلانا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہوگئی۔ہم لٹ گئے ،ہم برباد ہوگئے،مگرکیاکبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کردیکھا؟کبھی ہم نے خود سے بھی چبھتے ہوئے سوالات کئے ؟ کیا کبھی ہم نے بطور مسلمان اپنی کوتاہیوں پر نظردوڑائی کہ ہم آج زوال کاشکار کیوں ہوئے اگرایسانہیں سوچاتوپھر اس کی وجہ کیاتھی؟آخر ہم کب تک ماضی میں جیتے رہیں گے ؟ ہم کب اپنے ماضی سے نکلیں گے ؟ آخر آج وہ عظیم سائنس دان ہماری صفوں میں کیوں نہیں پیدا ہورہے جن کی وجہ سے ہم نے سائنس کوایک پہچان دی اور سائنس کی آج ہر ترقی کے پیچھے ہم نے اس کی بنیاد یں رکھی تھیں ۔مگر اب وہ سب کہاں گیا؟ یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا کے اسی فیصد سے زیادہ سائنس دان اسرائیلی ہیں اور اگر وہ ترقی کررہے ہیں اور ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں تو ہمیں شکوہ نہیں کرناچاہے۔ کیونکہ یہی قانون کے قدرت ہے جو قوم اپنی راہ متعین کرلیتی ہے اور پھر دنیاجہاں کوتسخیر کرنے کا ایک بار ارادہ کرلیتی ہے تو خدا بھی پھر ان پر نعمتوں کو عام کردیتاہے۔مگر ان نعمتیں کو آج ہمارے پاس ہوناچاہے تھا جو بدقسمتی سے کسی اور کے پاس ہیں۔
یہ کہانی ہے ان ایمان فروشوں کی جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطراسلام اور اپنے وطن کوبیچااور بیچا تو کیا سستا بیچا انہوں نے۔ میری اس کہانی میں آپ کو وہ کردار بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی اور دوسری طرف ایسے بھی ملیں گے جنہوں نے
اپناایمان اور ضمیرسب کچھ شیطان کو بیچ دیا۔میری اس سوانح عمری میں آپ کو صیہونیوں کاوہ مکروہ چہرہ نظر آئے گاکہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔یہ داستان ہے شیطان کے پجاریوں کی جنہوں نے مسلمانوں سمیت،یہودیوں ،عیسائیوں اور دنیاجہاں کے امن پسند مذاہب کے بڑے راہنماؤں کونہ صرف خریدا بلکہ انہیں اپنے ساتھ شیطان کا پجاری بھی بنادیا۔جب ان تمام شیطانوں کا ملاپ ہواتو وہ سب کے سب جہنم کے سوداگربن گئے ۔ ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی،پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ ہی انکااصل ذریعہ
معاش بنا۔جب آپ شیطان کے پجاری بن جائیں توپھر شیطان آپ سے وہ کام لیتا جس کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے۔ان جہنم کے
سوداگروں نے دنیاجہاں کے سائنسدانوں کو اپنے ساتھ ملایا،میڈیا کو اپنا غلابنایااور دنیا بھر میں اپنی پسند کے حکمران مسلط کئے تاکہ اپنے
خفیہ ایجنڈے کو وہ آگے بڑھا سکیں۔ان کا اصل مقصد دنیا میں ایک گلوبل حکومت قائم کرناہے،ایک کرنسی ،ایک آرمی اور دنیاکی اکثر آبادی کوصفہ ہستی سے مٹانا ہے۔جب ایسے ناسور آپکے مقابلے میں ہوں تو پھر آپ کا گزارہ بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
1997میں امریکی ایجنٹ ڈیوڈ بن ایرول نے پاکستا ن آنا تھا،اسے ڈاکڑ شاہد عباس کوقتل کرنے کا مشن دیاگیاتھا۔بلیک ڈائمنڈ ایجنسی نے اسکی پلاننگ ایک سال قبل ہی کردی تھی۔مگر اب وہ اس پر عملدرآمد کررہے تھے۔۔۔۔۔۔
*********
میں میٹنگ روم سے باہر نکلاتو پیچھے سے مایا کی آواز آئی وہ مجھے پکار رہی تھی اوراسے دیکھ کر میں نے بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ پھیرلیا۔یہ مصیبت اب گلے پڑنے والی تھی اور میں ہرباراس سے بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتا تھا۔یہ عمل گزشتہ چارسالوں سے چل تھاوہ بھی ڈھیٹ تھی اور میں بھی اپنے اصولوں کا پکااسے وہ چیزنہیں مل سکتی تھی جسکا وہ مجھ سے مطالبہ کررہی تھی۔
"ہیلوڈیوڈ آج تو بہت دلکش لگ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔"اس نے اپنی مترنم آواز میں مسکراتے ہوئے کہا اور پھر میرے سامنے مصافے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔میں نے بے رخی سے مصافہ کیااور پھر جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکالنے لگا۔
"میں توہمیشہ ہی لگتاہوں صرف آج کی بات تو نہیں۔۔۔۔۔۔"میں نے اسی طرح روکھے انداز میں کہا اور پھر ایک سگریٹ اس کی طرف بڑھاکر دوسرا اپنے ہونٹوں میں دبالیا۔
"ہاں یہ بات تو ہے ،تم بہت حسین ہو دور سے ہی لوگوں کواپنے طلسم میں قید کرلیتے ہواس میں تو کوئی شک نہیں ۔لیکن جب سے تم پاکستان سے اپنا مشن مکمل کرکے لوٹے ہو بالکل بدل سے گئے ہو۔تمارے مزاج میں بہت سا روکھا پن آگیاہے ۔نہ اب شراب پیتے ہو اور نہ ہی میرے ساتھ وقت گزارتے ہو۔کیامیرے اندروہ کشش نہیں رہی جسکا تم ایک عرصے تک گرویدہ رہے ہو۔۔۔۔۔"اس نے بھی سگریٹ اپنے ہونٹے سے لگاتے ہی میرے پاس اپنا منہ کرلیامیں جلدی سے اپنا سگریٹ سلگاکراسکے سگریٹ کو آگ لگائی اور پھر فوراً لائٹر اپنی جیب میں رکھتے ہی اس سے دور ہوگیا۔ میں نے اسے کبھی بھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا جسکا وہ مجھ سے مطالبہ کرتی تھی ۔ویسے بھی یہ میری اصل شخصیت کے خلاف تھا،وہ مجھے ایک چڑیل جیسی لگتی تھی۔اسی لئے میں نظریں چراکر سائیڈ پر ہوجاتاتھا۔جاسوسوں اور سیکرٹ سروسز کی دنیا میں ایک اصطلاح " ہنی ٹریپ "کی استعمال ہوتی ہے ۔ جس میں عورتوں کوباقاعدہ ٹریننگ دے کر مرد ایجنٹوں کے پیچھے لگایاجاتاہے تاکہ وہ بھٹک کر اپنے ملک کے سارے راز اگل دے ۔مگر میری شخصیت عام مردوں سے قدرے مختلف ہے ۔میری محبت اور پیارصرف اسلام اور پاکستان ہے اسکے علاوہ میں نے زندگی میں کسی سے محبت کرنا سیکھاہی نہیں ۔مایا بلاشبہ بہت حسین تھی مگر اس کی بدقسمتی اور میر ی خوش قسمتی کہ میرے پیار کی نوعیت ہی الگ تھی۔یہ بھی ممکن تھا کہ اسے کرنل نے خاص طورپر میر ے پیچھے لگایاہو، تاکہ وہ میرے راز کرنل کو لیک کرتی پھرے،لیکن میرے سامنے وہ صرف ایک عورت تھی اور بس اس سے زیادہ۔غرور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی زندگی میں بڑابو ل بولنا چاہیے ورنہ وہ پلٹ کر خود پر آجاتا ہے۔مجھے زندگی میں کبھی عورت ٹریپ نہیں کرسکتی اور نہ ہی آج تک کسی نے کامیابی حاصل کی ہے۔خیر میں نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:
"مجھے شراب پینے سے ڈاکڑوں نے روک دیااس لئے میں نے پیناچھوڑدی ۔ویسے تم نے صحیح کہا۔۔۔ اب تم بڑھی ہوگئی ہو،جھریاں آگئی ہیں تمہارے چہرے پراور تم جانتی ہو مجھے میرے مزاج کے خلاف تم کہیں بھی نہیں لے جاسکتی ۔اس وقت میر ے کام کا وقت ہے اور میں کام کے وقت فضول گفتگو سنناگوارہ نہیں کرتا۔ ۔۔۔"وہ میری بات سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئی پھر وہ بپھرے ہوئے لہجے میں کہنے لگی ۔
"اچھا تو اب میں بڑھی ہوگئی ہوں ،حد ہے ویسے ۔تمہیں تو اب عورتوں سے بات کرنے کی تمیز بھی نہیں رہی ۔میں اتنے پیار سے تمہاری تعریف کی اور مجھے جواب کیا ملا ؟آئے بڑے خود ہوگے بڈھے کھوسٹ۔میری بلاسے جاؤ جہنم میں اب تم سے کبھی بات نہیں کروں گی ۔۔۔۔"وہ پیرپٹختی ہوئی وہاں سے غصے میں چلی گئی۔میں نے دل میں کہا "شکرہے،اللہ تمہیں اپنی بات پر قائم رہنے کی توفیق دے۔آمین"پھر میں لاپروا ہی سے مسکراتا ہوا آگے بڑھنے ہی لگا تھاکہ پیچھے سے مجھے کسی نے آکر میرے کندھے پر ہاتھ رکھاتو میں نے چونک کر پیچھے مڑکردیکھا تو بے اختیار میرا منہ کھل گیا۔سامنے کرنل کھڑا مجھے تیزنظروں سے گھوررہاتھا۔۔۔۔
*********
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56609 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More