تو کون ؟؟ ....... میں خوامخواہ

ھمارے معاشرے کا ایک المیہ دوسروں کی ٹوہ میں رہنا ،انکی ذاتی زندگی میں بے جا دخل دینا ،صرف اپنے زبان کے چسکے کے لیے دوسروں کے مسایل اچھالنا اور انکی زندگی کو تکلیف دہ بنانا ! یہ المیہ انفرادی سطح سے ترقی کرتا ہوا اب ہماری اجتماعی زندگیوں پر غالب آگیا ہے ہم ایک جستجو پالنے والی سوسایٹی بن چکے ہیں جو بجاۓ اپنے گریبان میں جھانکنے کے دوسرے کے گریبان کو پھاڑنے کی فکر میں رہتی ہے ہم دوسروں کی بہتری کر کے معاشرتی ترقی کرنے کی بجاۓ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ایک پسماندہ سوسایٹی پروان چڑھا رہے ہیں
"سنیے! آپ وہی ہیں نا جنکی پھوپھو کو پچھلے سال طلاق ہوگئی تھی " میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور منہ سے صرف ایک ہی لفظ نکلا " جی ؟ " حالانکہ لفظ " جی " میں استفسار تھا کہ محترمہ ہمسائی صا حبہ یہ تعارف کا طریقہ کس ملک کی ایجاد ہے مگر وہ کیونکہ پہلے ہی " باخبر " ذرا ئع سے تمام معلومات اکھٹی کر چکی تھیں لہذا میری" جی" کو وہ میرا "اعتراف گناہ " سمجھیں! " ہاۓ ! سنا ہے سال بھر ہی ہوا تھا، اتنی دیر سے کیوں شادی کی ؟" . " دیر سے " ؟ میں نے پوچھنا چاہا کہ وہ کس صدی سے ہمارے خاندان کی جاسوسی کر رہی ہیں . " ہاں نا ، دیر ہی ہوئی ، کیونکہ آپکی پھوپھو ہیں اور آپکی عمر بھی کافی لگ رہی ہے ، ویسے آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟ ایک ڈیڑھ سال گزرگیا تو پھرکوئی نہیں پوچھے گا " . میں کونسا سوال ہوں جو کسی نے پوچھنا ہے ؟ میں نے بھی بدتمیزی کر ہی ڈالی ( کافی دیر نہیں ہوگئی انکے ڈرونز کا مقابلہ کرتے ، اب بس ) لیکن شاید انہیں اس بات سے زیادہ غرض تھی کہ اپنے بارود کو تیلی دیکھا کر اوجڑی کیمپ بنا ڈالیں ! میزایل اڑ ، اڑ کر دوسروں کو زخمی کریں تو انکے دل کو اطمینان نصیب ہو . " کوئی نوکری وغیرہ بھی کرتی ہو ، بہت پڑھ لینے والی لڑکیوں کا یہی مسلہ رہتا ہے" فی الحال تو سب سے بڑا مسلہ آپ ہیں جونان سٹاپ ٹرین کی طرح چلتی ھی جارہی ہیں شاید کسی ایکسیڈنٹ سے ھی آپکو بریک ملے گی ، میں نے یہ سب دل ھی دل میں کہا ! نیت تو یہی تھی کہ یہ سب جملے انکے گوش گزار کر دوں اور یہ بھی کہ جب بولیں تو دوسرے کے دلی جذبات کا نہیں تو کم از کم چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ تو کر لیا کریں مگر میری تمیز اور برداشت انکو " شے " دے رہی تھی یہ تھیں پاکستانی معاشرے کا ایک "نارمل " سا کردار جو ہرمحلے ہر گلی ، ہر تعلیمی اور دفتری ادارے میں نہ صرف پایا جاتا ہےبلکہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.انکی پرورش ایک خاص "درجہ حرارت "میں ہوتی ہے جہاں "اسٹیرو ٹایپنگ " کے جراثیم پھلتے پھولتے ہیں انہی جراثیم نے ایسی خواتین ؤ حضرات کے ذہن پر مکمل قابو پایا ہوا ہے وہ نہ صرف اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنی ذہنی سطح سے دیکھتے ہیں بلکہ اگر کوئی مختلف طبا ئع کے افراد ان جراثیم شدہ افراد سے ٹکرا جائیں تو یہ زبردستی ان افراد کو اپنی سطح پر گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں .

حقیقت یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں آج دنیا وہ نہیں رہی جو آج سے 25 سال پہلے تھی ٹیکنولوجی نے لوگوں کی صورتیں تک تبدیل کر دی ہیں آج تو آپ صبح اپنی طو طے سی ناک لے کر کاسمیٹک سرجری کی کسی "دکان " میں جائیں پیسے ہاتھ میں رکھیں اور شام کو ستواں ناک لے کر گھر واپس آجائیں ، جی مجھے معلوم ہے میں مبا لغه آرائی سے کام لے رہی ہوں لیکن یہ بھی دور حاضر کی ایک سوغات ہے سو جہاں سچ نایاب ،مبالغہ آرائی اور جھوٹ آسان نرخوں پر دستیاب ہوں وہاں معاشرے میں "خوامخواہ " نسل کے لوگ بافراط پاۓ جاتے ہیں جیسی محترمہ کا میں ذکر کر چکی ہوں ویسی خواتین آپکو اندرون ملک کے علاوہ بیرون پاکستان بھی دستیاب ہیں گو کہ پاکستان سے باہر قدم رکھتے ھی وہ دوسروں پر سوالات کے ڈرونز کے ساتھ ساتھ اپنی "شیخیوں "کے میزایل بھی داغتی رہتی ہیں ایسی خواتین کے حساب کتاب سے وہ "کامیاب ترین " مخلوق ہوتی ہیں انہیں اس "کامیاب زندگی "کے سارے گر آتے ہیں جوانکے بقول "نارمل " زندگی ہے یعنی 26 سال کا شوہر 18 سال کی بیوی اور دو بچے ؟ زندگی نہ ہوئی پی ٹی وی پر آنے والا 70 کی دہائی کا کوئی اشتہار ہوگیا !اسکے علاوہ جو بھی اس "اشتہار نما " زندگی سے دائیں بائیں ہوا وہ "ا بنارمل " کے زمرے میں آتا ہے اور اسپردر اندازی کرتے ہوۓ ڈرونز پھینکنا ہمارے معاشرے میں آج یعنی سن 2016 تک حلال ہے -

کسی کی اولاد نہ ہو، بیروزگاری ، طلاق یا کوئی جسمانی معذوری... حالاں کہ یہ سب واقعات کسی کی بھی زندگی میں معمول کا حصہ ہو سکتے ہیں مگرہمارے معاشرے میں افراد کی زندگی میں لوگوں کی انفرادی دخل اندازی اور اجتماعی بے حسی ایسے میں فرد کی زندگی کو مایوسی، بیزاری اور کبھی خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے .

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ہماری اپنی زندگی اس معاشرے کی نظر میں " نارمل کٹ آوٹ " میں فٹ نہیں ہوتی تو ہم خود ایسے سوالوں سے جان چھوڑا کر یا تو سوسایٹی سے کٹ جاتے ہیں یا پھر زیادہ ھی "ابنارمل " وقت پڑ جاۓ تو یورپ اور امریکہ کے "اپنے کام سے کام رکھو " ٹائپ معاشرے میں پہنچ جانے کی تگ ؤ دو شرو ع کر دیتے ہیں لیکن ہم میں سےیہ کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں کہ اپنےھی معاشرے کو ایسے "خوامخوہ " جراثیم سے بیمارپڑے لوگوں سے نجات دلائیں جو ہمارے مسلوں کا حل نہیں جانتے مگر کرید ، جستجو اور بے مقصد سوالات سے ہماری زندگیوں کو تکلیف دہ ضرور بنا دیتے ہیں ایسے لوگوں کے سوالات اور نکتہ چینیوں سے گھبرا کر بہت سے کارآمد وجود معاشرے سے کٹ کر بےمقصدیت کا شکار ہوجاتے ہیں -

خود اذیتی یا خود رحمی جیسے نفسیاتی مسایل انسان کی تخلیقی صلاحیتو ں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں اور وہ معاشرے میں آپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو کہ ایک آزاد اور خود اعتماد انسان کر سکتا ہے .

یوں بھی اگر آپ دوسرے کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ آپکے گھر کی کھڑکیوں سے اندر جھانکے تو آپ خود کیوں کسی دوسرے کے دروازے سے کان لگاۓ کھڑے ہیں ؟اس سےاچھا نہیں کہ آپ اپنے لیے کوئی بہتر مصروفیت ڈھونڈیں ؟

کیونکہ اب ہم مہذب دنیا کی دی ہوئی ٹیکنولوجی کے ذریعے جہالت پھیلا رہے ہیں مثلا '' ایک صاحبہ کیمرے اور مائیکافسوسناک خبر یہ ہے کہ آج سے دس بارہ سال پہلے تک جو بیماری اپنے محلے کی محترمہ اور محترم "خوامخواہ " کو تھی آج ہمارے ما رنگ شوز کی ٹیموں کو ملکی سطح پر لگ چکی ہے دنیا آگے جارہی ہے اور ہم پیچھے کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہیں. مہذب دنیا اور ہمارے درمیان جو فاصلہ پہلے کچھ سالوں کا تھا اب بڑھ کر دہایوں کا ہوچکا ہےکیونکہ اب ہم مہذب دنیا کی دی ہوئی ٹیکنولوجی کے ذریعے جہالت پھیلا رہے ہیں مثلا '' ایک صاحبہ کیمرے اور مائیک سمیت شہر کے کونوں کھدروں میں چھاپے مارنا شروع ہوگیں ،سمارٹ فونز کے ذریعے بازاروں اور پارکس میں بیٹھے افراد کی سرگرمیوں کو انکی اجازت کے بغیر کبھی اینٹرٹینمنٹ چینلز اور کبھی نیوز چینلز تک پہنچا دیا جاتا رہا .

گھروں کا بھی یہی حال ہے مثلا ایک صاحبہ نے تو جاپان اور امریکہ کی مشترکہ کوشش کا "کامیاب تجربہ " کر ڈالا ، اپنے بھائی کے لیے رشتہ لے کر آئیں گھروالوں کی اجازت کےبغیر گھرمیں چکرلگاتی ہوئی کچن میں کام کرتی لڑکی کیتصویریں "اپلوڈ "کر کے بھائی تک پہنچا دیں کہ "اصلی مال " یہ ہے پھر شکایت نہ کرنا. اب کوئی پوچھے کہ آپ نے جو آپنا اصلی مال" یورپ میں گاڑیوں کا بزنس کرتا ہے"، کی پہچان سے پردے میں چھپا رکھا ہے جو حقیقت میں گیس اسٹیشن پرکھڑا آنےجانےوالوں سے ٹپ وصول کرتا ہے اسکی "حقیقت" کب اپلوڈ ہو رہی ہے ؟

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسی جہالت کے ساتھ دنیا سے بحیثیت قوم رخصت ہوجائیں گے ؟ کیونکہ ہم اخلاقیات کے پہآ ڑ پر چڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ اونچائی سے لڑھکتے ہوۓ نیچے کی طرف آرہے ہیں ایک دو افراد اس طرح اونچائی سے پھسلیں تو چڑھائی کی طرف جانے والے شاید سہارا دے دیں مگر یہاں تو ایک مجمع ہے اورافسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسمیں ایسے ایسے دین و دنیا کے ہیوی ویٹ لڑھکتے چلے آرہے ہیں کہ سنبھالنے والا بھی انکے بوجھ سے انہی کے ساتھ نیچےپستی میں گرتا چلا آ رہا ہے.
تعلیم تواب ڈگریوں سے لد جانے کا نام ہوچکی ہے یا جیب بھا ری ہونے کا اور بس

ہم نے شعور اور آگہی سے اپنے ذہنوں کو روشن کیا ہوتا تو ہم بھی مہذب معاشروں کی طرح دوسروں پر تنقید ،انکی زندگیوں میں دخل اور اجتماعی بے حسی کے ا علی شہکار بننے کی بجاۓ سوسایٹی کے مفید شہری بنتے اور یقینن ٦٨ سال گزرنے کے بعد پیچھے کی طرف نہیں بلکہ آگے کی طرف سفر کرتے !
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 63095 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More