آپ نے اکثر اپنے بڑوں سےسنا ہو گا کہ "ہمارے
زمانے میں مجال ہے کہ والد صاحب نے ایک سے دوسری دفعہ کچھ کہا ہو۔ ہم تو
پہلی آواز پر اٹھ کھڑے ہوتے تھے" یا "مجال ہے جو ہم نے کبھی بڑوں کے آگے
انکار کیا ہو" وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے تابعداری اور فرمابرداری سکھاتے جملے
ہمیں اکثر سننے کو ملتے تھے۔ بلکہ اب تو اکثر ہم بھی اپنے بچوں کو کچھ ایسا
ہی کہہ دیتے ہیں۔ تو کیا آخر نسل در نسل یہ فرمابرداری کچھ کم ہوتی جا رہی
ہے یا پھر ہر نئی نسل کا نافرمان ہونا فیشن میں شامل ہے۔؟ ویسے تو اس کی
کئی وجوہات ہیں.جس میں پورے معاشرے کے روئیے سے لے کر گھر کی چاردیواری کا
ماحول تک شامل ہیں۔ لیکن میں ایک ایسے مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گی جس
سمت شاید ہمارا اتنا دھیان نہیں جاتا. آپ کو یاد ہو گا کہ ہمارے بچپن میں
کارٹون لگتے تھے "مینا کا طوطا" اور "لیلی کے خطوط" ۔ ۔ پھر ایک دن ایس ٹی
این آیا اور اس پر تین گھنٹے کے لیے کارٹون نیٹ ورک۔ تمام ماؤں کو فکر پڑ
گئی کہ بچے تین گھنٹے ٹی وی کے آگے بیٹھیں گے تو پڑھائی کیا خاک ہو گی۔؟
مائیں دھڑا دھڑ احتجاج کرنے لگیں کہ اسے بند کیا جائے۔تب ماؤوں کے وہم و
گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان سے اگلی ہی نسل کی مائیں موقع ڈھونڈیں گی کہ
کب بچے ٹی وی کے آگے بیٹھیں اور تھوڑی دیر کو انکی جان چھوٹے ذمہ داریوں سے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم آج کل بچوں کو ٹی وی کے آگے بٹھا کر سکون محسوس کرتے
ہیں کہ چلو تنگ نہیں کریں گے یا سنبھالنا نہیں پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔
ہم چھوٹے تھے تو کارٹون کیا تھے ۔ ۔؟ سواٹ کیٹس۔ ۔ جانی کویسٹ۔ ۔ سکوبی ڈو.
۔ ۔ لونی ٹونز اور اسی طرح کے دیومالائی اور جادوئی کرداروں سے بھرپور ۔
پھر زمانے نے کروٹ لی اور لوگوں کو "سچ کا سامنا" کرنے اور دیکھنے میں مزہ
آنے لگا۔ ۔ جادوئی کرداروں اور چیزوں کی بجائے "رئیل سبجیکٹس" پر باتیں
ہونے لگیں۔ ۔ ظاہر ہے غیر محسوس انداز میں یہ چیزیں بچوں تک بھی منتقل ہونے
لگیں۔ شروع شروع میں جانی براوو سب کو عجیب لگا کہ لڑکیوں کے پیچھے جاتا
اور ان سے مار کھاتا جانی بچوں کا کردار ہے ۔ پھر پرنسس ایریل کے کپڑے جو
کہ جل پری ہونے کی وجہ سے ایک ٹکڑے پر مشتمل تھے کافی مشکل سے ہضم ہوئے۔
بچے کم از کم بڑوں کے سامنے پرنسس ایریل کی ڈرائنگ میں کلر کرتے ہوئے ایک
جھجک سی محسوس کرتے تھے۔ ۔ یوں ہی چلتے چلتے نسل نے ایسی ترقی کی کہ آج
آپکو 24 گھنٹے کا کارٹون نیٹ ورک اور ساتھ کئی اور کارٹونز چینلز کی بھرمار
ٹی وی پر دکھائی دے گی۔ ۔
اس پر رئیلیٹی کا یہ عالم ہے کہ ہر ویلینٹائین ڈے پر اسی تھیم کے کارٹونز
چلتے ہیں۔ ۔ ۔ پریگنینسی۔ ۔ بچہ پیدا ہونا۔ ۔ لڑکی سے دوستی۔ ۔ لڑکی کو
کیسے رام کیا جائے اور ہر فلم کے آخر میں ایک کس سین اب ایک معمولی بات ہے۔
۔ کہاں ایریل کے کپڑے ہضم نہیں ہو رہے تھے کہاں ہر دوسرے کارٹون میں لڑکی
کا لباس ہی سوئم سوٹ ہے۔ ۔
بچے جو دیکھتے ہیں وہی اپناتے ہیں۔ ننجا ٹرٹلز دیکھ کر نقلی تلواروں کے
ساتھ کھیلنا اور ایک جعلی انگوٹھی کو کیپٹن پلینٹ کی انگوٹھی سمجھنا بھی
ایک معصوم دور تھا۔ ۔ مینا کا طوطا کافی سبق آموز کارٹون تھے۔ ۔ اس زمانے
میں غیر مرئی اور دیو مالائی کرداروں میں بھی بچوں کو سکھایا جاتا تھا کہ
اچھائی اور نیکی میں ہی کامیابی ہے اور یہ کہ برائی کا خاتمہ ضرور ہوتا ہے
چاہے وہ جتنی بھی طاقتور ہو بالآخر اسے نیکی کے آگے ہارنا ہی ہے۔
اب ذرا آج کے کارٹونز پر نظر ڈالیں۔ ۔ ڈورے مون۔ ۔ جمی ۔ ۔ آئیڈیٹکلز ٹونز
جیسے کارٹونز ایسے بچوں کو ہیرو کے طور پر سامنے لے کر آئے جو ماں باپ کو
تنگ کریں۔ ۔ جھوٹ بولیں۔ ۔ اور پڑھائی سے جی چرائیں۔ ۔ نیز اگر ماں باپ کچھ
زبردستی یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیں تو ان سے بدلہ لینے کا مناسب طریقہ بھی
میسر ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ جس دن میرا بیٹا ڈورے مون دیکھتا ہے اس دن پڑھائی سے
جی چراتا ہے۔ سو میں نے چپکے سے چینل غائب کر دیا اور حیرت انگیز طور پر اس
میں بدلاؤ آ گیا۔ اسی طرح اوگی جو کہ آج کل مقبول عام کارٹون ہیں دیکھتا یے
تو وہی "ٹپوری" زبان استعمال کرتا ہے۔ اور بظاہر بے ضرر سے ٹام اینڈ جیری
دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ مارنے کے بعد شکل ویسی واپس ہو جائے گی۔ ۔
بچوں میں سیکھنے کا عمل ہم سے زیادہ ہوتا ہے. کہ یہ تو کورے کاغذ جیسے ہیں۔
اور ان پر جو بھی لکھا جائے گا وہ مٹایا بھی جائے تو ایک نشان ضرور چھوڑ
جائے گا جیسے نئے صفحے پر ربڑ سے مٹانے کے باوجود ایک نشان رہ جاتا ہے.
کارٹون بلاشبہ ایک بہت اچھی تفریح ہے۔ اور میں خود بھی اپنے بچوں کے ساتھ
بیٹھ کر بہت شوق سے دیکھتی ہوں۔ اب وقت اور حالات پہلے سے نہیں رہے کہ
مائیں کام کریں اور بچے گلیوں میں کھیلیں سو کارٹون گھر کے اندر ایک مزیدار
ذریعہ ہیں بچوں کی تفریح کیلئے لیکن اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ آج جو ان
کے ذہن میں انڈیلیں گے کل کو وہی پک کر باہر آئے گا۔ بہت سے کارٹونز اب
باقاعدہ پہلے PG یعنی پیرنٹل گائڈنس کا اشتہار سے دیتے ہیں۔ یعنی ان میں
کچھ ایسے بالغ سین ہوتے ہیں جو شاید بچے کے ننھے سے دماغ میں آسانی سے نہیں
بیٹھتے۔ ۔ آپ خود سوچیے ہم سب نے زندگی میں کبھی نہ کبھی اس چیز کا سامنا
کیا ہے تو بعض اوقات سمجھدار عمر میں بھی کچھ چیزیں آسانی سے ہضم نہیں
ہوتیں تو ان ننھے دماغوں کی حفاظت کس قدر ضروری ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ" آج آپ کے غصہ کرنے کا طریقہ کل کو آپ کے بچوں کی
شخصیت ہو گا" اور بلاشبہ یہ ایک بہترین بات تھی۔ لہذا یہ ذہن میں رکھیں کہ
آپ اس بچے کی صورت کیسا انسان پروان چڑھا رہے ہیں۔؟ انہیں غصہ اور گرمی
دکھانے والے، دھوکا دینے اور جھوٹ بولنے والے کارٹون کیریکٹرز سے دور رکھیں
کہ ان سے بچوں میں نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خود بھی
پیار سے بچوں کو ہینڈل کریں اور انکی روزمرہ کی حرکات پر نظر رکھیں۔ محض
وقت بچانے کی خاطر انہیں ٹی وی کے آگے بٹھا کر بھول نہ جائیں۔ ریموٹ ہمیشہ
اپنے پاس رکھیں اور بچے کو چینل بدلنے کی ہرگز آزادی نہ دیں۔ ایک دفعہ پاس
بیٹھ کر پروگرام دیکھ ضرور لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس قسم کا
کارٹون یا شو ہے اور بچوں کیلیے کتنا مناسب ہے؟
یاد رکھیں جو بیج آج بوئیں گے کل کو وہی پھل کاٹنا پڑے گا۔ اس لیے سمجھداری
سے ایک اچھا انسان پروان چڑھائیں تاکہ کل کو فرمابردار اولاد کا سکھ ملے۔
:-) |