توحید اسلام کا سب سے بنیادی عقیدہ ہے جو
کہ انسان کی انفرادی اوراجتماعی و معاشرتی زندگی پر کئی لحاظ سے اثر انداز
ہو تا ہے ۔عقیدہ توحید کے انفرادی اوراجتماعی زندگی پربہت سے اثرات مرتب
ہوتے ہیں ۔ان اثرات کو عقیدہ توحید کے فوائدوثمرات بھی کہا جاتا ہے ۔
عقیدہ توحید کے مطابق صرف اور صرف اﷲ ہی کی بارگاہ میں جھکنااور عاجزی کرنا
جائز ہے ۔چنانچہ اس عقیدہ کی وجہ سے انسان دردرکی ٹھوکریں کھانے کی ذلت سے
بچ جاتا ہے۔اورصرف اسی حکم الحاکمین ذات کے سامنے جھکنا ہے کہ جس کے سامنے
جھکنے سے اس کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہوتی ہے۔د ردر پر بھٹکنے اور
جھکنے والے آدمی کی عزت نفس اور خودداری مجروح ہوتی ہے۔جبکی عقیدہ توحید
انسان کو اس رسوائی سے بچا کر صرف اس ایک ذات کے سامنے جھکنے کی تعلیم دیتا
ہے کہ جس کے سامنے جھکنے سے اس کی خودداری اور عزت نفس مجروح نہیں ہوتی
بلکہ اس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات اور زمین پر خلیفہ بنایا ہے تو اگر
یہ اپنے سے کسی کمتر مخلوق کے سامنے جھکنا شروع کر دے اور اسے اپنا معبود
بنا لے تو گویا اس نے خود اپنے آپ کو منصب خلافت سے گرا دیا ۔گویا انسان
صرف اﷲ ہی کو وحدہ لاشریک سمجھے تو وہ منصب خلافت پر صحیح طور پر قائم رہ
سکتا ہے ۔اور حق نیابت ادا کر سکتا ہے ۔شرک میں مبتلا ہو کر وہ ایسا نہیں
کر سکتا۔ ایک اﷲ کا پیروکار صرف اسی کا ڈر دل میں رکھتا ہے اور صرف اسی کے
احکام کو اپنے لیے لازم سمجھتا ہے اس طرح وہ مخلوقات کی غلامی سے نکل آتا
ہے ۔عقیدہ توحید کو ماننے والے کے دل میں صرف اور صرف اﷲ ہی کا ڈر ہوتا ہے
۔اور وہ مخلوقات میں سے کسی سے خوف نہیں کھاتا۔اس طرح وہ نڈر اور بے خوف ہو
جاتا ہے ۔
عقیدہ توحید کو ماننے والایہ اعتقاد بھی رکھتا ہے کہ میری تمام صلاحیتیں اﷲ
ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں ۔اس طرح وہ اپنی صلاحیتوں پر مغرور نہیں ہوتا ۔بلکہ
اس میں عاجزی و انکساری پیدا ہو تی ہے ۔عقیدہ توحید کو ماننے والے کو
خداوند قدوس کی بارگاہ میں جوابدہی کا بھی ڈر ہوتا ہے ۔جنانچہ وہ اپنے رب
کے حصول کے لئے رذائل سے بچتا ہے ااور اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کر تا
ہے ۔
ایک اﷲ کو ماننے والا یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر مشکل اور مصیبت میں میرا حاجت
روا او ر مشکل کشا صرف اور صرف اﷲ ہی ہے کوئی اور میری مدد نہیں کر
سکتا۔جنانچہ وہ ہر معاملہ میں اﷲ ہی پر بھروسہ رکھتا ہے ۔توحید کا یقین
رکھنے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خداوند قدوس ساری کائنات کے لئے احکم
الحاکمین اور رحیم و کریم ہیں۔چنانچہ وہ تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ
نہیں کہہ سکتا کہ صرف ہمارے قبیلے کو فلاح حاصل ہو گی یا خدا صرف ہمار اہے
بلکہ وہ وسعت نظری کے ساتھ یہ یقین رکھے گا کہ کسی بھی قبیلے کا کوئی بھی
فرد اگر صحیح عقائد وایمان رکھتا ہے تو اسے فلاح حاصل ہو گی ۔
زیادہ خداؤں کے ماننے والے کو ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ شاید میرافلاں
معبود مجھ سے ناراض ہو گیا یا شاید فلاں خدا کو میں صحیح طور پر راضی نہیں
کر سکا جبکہ ایک اﷲ کا ماننے والا قلبی اطمینان اور سکون کے ساتھ صرف اسی
کو راضی رکھنے کی کوشش کرے گا۔
عقیدہ توحید یہ بھی درس دیتا ہے کہ تمام انسان اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں
بحیثیت انسان برابر ہیں ۔کسی کو کسی پر تقویٰ کے علاوہ کوئی فضیلت حاصل
نہیں ہے۔توحید کے اس درس سے معاشرت میں مساوات پیدا ہو تی ہے ۔جس کی ہم کو
اشد ضرروت ہے ۔توحید ہی وہ واحد نظریہ ہے کہ جو عقل و فکر کے عین مطابق ہے
اور جس پر انسانیت کا اجتماع ممکن ہے گویا توحید فکری اتحاد کے لئے ایک
پلیٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اور اس پلیٹ فارم کی مدد سے ہم معاشرہ میں امن
پیدا کر سکتے ہیں ۔جنانچہ جس معاشرے میں اﷲ کے پیروکار ہوں گے وہاں پر
معاشرتی امن قائم ہو گا۔اگر معاشرہ کے افراد بارگاہ ربانی میں جوابدہی کے
ڈرسے رذائل سے اجتناب کریں گے اور محاسن کو اپنائیں گے تو معاشرہ میں اعلیٰ
روایات تشکیل بھی پائیں گی ۔اور ان کی ترویج بھی ہو گی ۔
توحید کا انفرادی زندگی پر بھی بہت گہرا اثر ہو تا ہے ۔اس سے انسان میں
آزادی وحریت خودداری ،بہادری و بے خوفی اور وسعت نظری پیدا ہوتی ہے اور
ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں ان صفات کے حامل افراد موجود ہوں گے وہ معاشرہ
بلند فکر ہو گا اور عزم و استقلال کی صفات سے متصف ہو گا ۔گویا اپنے رب کو
ہی اپنا مالک ،رازق،اور معبود جانو۔چھوڑ دو ان خداؤں کی پوجا جو آپ کو
رسوائی کے سوا کچھ دے نہیں سکتے ۔جن کے اپنے پیٹ نہیں بھرتے وہ دوسروں کے
بارے میں کیا سوچیں گے۔صرف اپنے اﷲ سے محبت اور اس کی ہی عبادت کرو۔ اس کا
کسی کو شریک نہ بناؤ۔صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرواور اسی سے ہی مانگو ۔کیونکہ
وہی سب کے دلوں کا حال جانتا ہے اور وہی سب کچھ دینے والا ہے ۔ |