ماضی کی راحتیں اور حال کے مسائل، کچھ تقابلہ

ایک دن میں پیپل کے بہت ہی پرانے درخت کے نیچے بنے تڑھے پر بیٹھا سوچوں کے سمندر میں ہچکولے کھا رہا تھا کہ تیز ہوا کے جھونکے اور پتوں کی سرسراہٹ نے مجھے اک سکون کا احسا س دیا۔میں پھر سے اپنی فکروں کے جال میں پھنسنے لگا تھا کہ یک دم آواز آئی ''تمہارے چہرے پرپریشانی کے آثار کیوں وضح ہیں ؟'' ۔وہاں کوئی دوسرا نہ تھاتو یہ آواز کہاں سے آئی تھی۔یہ سوچتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وسیع رقبے پر پھیلا یہ درخت یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی پرندہ اپنے پر پھیلائے اپنی آغوش میں بیٹھے بچے کی حفاظت کر رہا ہو۔ میں نے جواب دیا،''اچھا تو یہ تم ہو،بس حالات کی تنگی نے ایسا حال کر دیا ہے''۔
وہ بولا''کیسی تنگی؟ ''۔
میں نے جواب دیا،''بس یار! ضرورتوں نے ہر وقت منہ کھو ل رکھا ہے۔پے در پے نوٹ جیب سے نکلتے جاتے ہیں۔مگر جیسے اک نا تھمنے والا سلسلہ ہے''۔
وہ بولا'' ضرورتیں ! وہ جوآج کے انسان نے خودسے بڑھا لیں ہیں ۔میں نے تمہارے بزرگوں کی جوانی میں ان کوبہت خوش حال دیکھا۔ تب بھی ضرورتیں آواز اٹھاتی تھیں ۔مگر صبر و شکر اور قناعت پسندی سے ان کو بہلا لیا جاتا تھا۔چہرے پر خوشی بھی میسر ہوتی تھی۔خوامخواہ کی دیکھا دیکھی میں گھر بار کا سکون نہیں الجھایا جاتا تھا۔وقتی ضرورت کی چیز لوگ ایک دوسرے سے کچھ دیر کو لے کر کام پورا کر لیا کرتے تھے۔''
''ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہو۔گھر کے کا م کا ج بہت مشکل ہیں ۔بیوی نے 24گھنٹے کے لئے کام والی کو رکھ لینے کی فرمائش کر دی ہے۔اب اس بارے میں پریشان ساہوں کہ اس کی تنخواہ بھی بڑھانی پڑے گی مطلب مزید خرچہ۔۔''میں نے اپنی بات بیان کی۔
درخت بولا''گھر کے کام کاج آج کے دور میں مشکل لگتے ہیں کہ جب تم لوگوں کے گھروں میں خود کار مشینیں ہیں ۔جن سے جھٹ پٹ میں کام نفاست سے نمٹ جاتا ہے۔ پہلے پہل کے لوگ یہ سب آسائشیں نہ ہوتے ہوئے بھی آرام سے اپنے کام میں مگن ہو جاتے تھے۔ خواتین کے لب و لہجے ا ن شکایات سے آ زاد تھے۔مگر آج ان سہولتوں کے باوجود معاملہ الٹ ہے۔اب تو کام والیاں کئی کام نمٹا دیتی ہیں ۔ہر دوسرے تیسرے گھر میں کپڑے دھونے والی اور صفائی والی ماسی لگوا رکھی ہے۔ لیکن خود بھی کام کرنا چاہئے ۔ورنہ جسمانی اعضا کو آرام و سکون کا عادی بنا دینے سے بڑھاپے کے آغاز میں ہی کئی مسائل چست ہو جاتے ہیں ۔''
میں نے کہا،''ہاں یہ تو ہے ۔۔گھر والوں کی فرمائش پر ہر ہفتے باہر کھانا کھانے جاتے ہیں کیونکہ ہر دوسرے دن کوئی سالن، سبزی ترکاری دیکھ کر کسی نہ کسی کا منہ جوبن جاتا ہے''۔
بزرگ درخت نے جواب دیا،''ایک وہ زمانہ تھاکہ جب میں نے لوگوں کو بھو کا سوتے دیکھا ۔مگر زبان پر رب تعالی سے کوئی شکوہ نہ ہو تا۔ دو وقت کی روٹی مل جانے پردل سے شکر کے کلمات ادا کئے جاتے۔اور وہ صرف دال سبزی ہی ہوا کرتی۔ ایسے انواع و اقسام کے کھانے کہا ں، جو آج کے لوگوں اور بچوں کو میسر ہیں۔لیکن یہ توکھانے کی میزوں پر سجے نت نئے کھانوں کو دیکھ کر منہ بنائے رکھتے ہیں ۔سبزیاں تو کھانے کے قریب نہیں آتے۔ یہ سب بہت غلط ہے۔ سب چیزوں میں اﷲ نے بے شمار فوائد رکھے ہیں ۔انسان کو چاہئے کہ ان سب کو کھائے اور چہرے کو اﷲ کے شکر سے مسرور رکھے۔ ''
میں تھوڑا شرمندہ سا ہو گیا۔پھر بولا،''بچوں کے سکول کی فیسیں بڑھتی جا رہی ہیں۔روز بروز نت نئے اخراجات نکال لیتے ہیں یہ سکول والے۔یہ نہیں سوچتے کہ والدین کوئی پیسہ کمانے کی مشین نہیں۔ان کو کسی دوسرے سکول میں بھی نہیں ڈال سکتا کیونکہ رشتہ داروں کے بچے جو اس مہنگے سکول میں پڑھتے ہیں ۔آخرہم لوگوں کو بھی تو اپنی ناک اونچی رکھنی ہے۔''
وہ سمجھدار درخت کہنے لگا،''یہی تومسئلہ ہے آج کے دور کے لوگوں کاکہ استطاعت ہے یا نہیں ،مگر دکھاوے کی خاطر خود کو اخراجات کے بوجھ تلے دھنساتے چلے جاتے ہیں۔ایک مہنگے پرائیویٹ سکول میں اور ایک مناسب کم فیس والے سکول کی کتابوں میں مماثلت ہوتی ہے۔مگر بس اونچے نام اور ٹھاٹ باٹ کے چکرمیں پڑ جاتے ہیں لوگ۔ پڑھنے والے بچے تو ایک عام سے خستہ حال سرکاری سکول میں بھی پڑھ کر آج دیکھو اچھی جگہ پہنچ گئے۔ مگر تم لوگوں نے شدیدمقابلے کا دور برپا کر رکھا ہے۔بچت کی عادت ناپید ہو گئی ہے۔اس بارے میں سوچو،جیب پر نظر ڈالو اور مستقبل کے لئے کچھ بچت کر رکھو۔''
''ہاں، بات دل کو تو لگتی ہے تمہاری۔۔ مجھے صحت کے کچھ مسائل پیش آنے لگے ہیں ۔طبیعت میں سستی سی محسوس ہوتی ہے۔بچوں کے ساتھ کبھی پارک میں کھیلنے لگوں تو سانس پھولنے لگتاہے۔ بیوی بھی جوڑوں کے درد کی شکایت کرنے لگی ہے۔یہ کہہ کر میں کچھ ادا س سا ہو گیا۔۔''
قدیم درخت بولا،''ہاں تو تم لوگوں نے زندگی گزارنے کے طریقہ کار جو بدل لئے ہیں ۔صبح اٹھ کر سیدھا آفس چلے جانا۔وہاں سارا وقت بیٹھ کر کام کرنا۔شام کو تھک کر واپس آنا اور بیٹھ بیٹھ کر سو جانا۔تمہاری گھر والی کا گھر کے کچھ کام کرنا اور بس۔جب صحت پر توجہ ہی نہ دو گے تو گڑ بڑ تو ہو گی ناں۔ پہلے کے لوگوں نے اتنی فکریں نہیں پال رکھی تھیں۔تم سب کو تو دن رات کی محنت کے باوجود آرام میسر نہیں۔دماغ میں کئی قسم کی سوچوں نے گھر کر رکھے ہیں ۔ بیوی الگ چڑچڑی اور تم الگ منہ بنائے شور مچاتے ناراضی کا اظہار کرتے ہو۔دوسروں کی آسائشوں کو دیکھتے ہوئے انھیں اپنے گھر میں لانے کے لئے پریشان رہتے ہو۔ جتنا تمہیں میسر ہے اس پر کبھی شکر نہیں کرتے۔یاد رکھو کہ کسی کو وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ نہیں ملتا۔ دیکھو،تم صبح سویرے اٹھا کرو،فجر کی نماز ادا کرو،گھر کی خیروبرکت کے لئے دعا کیاکرو،پھربیوی کے ساتھ آدھ گھنٹے کی سیر پر نکل جایا کرو۔اس سے ہشاش بشا ش رہو گے اور جوڑوں کے درد سے بھی آرام ملے گا۔پہلے کے لوگ سائیکل چلاتے تھے اوراس ورزش کے باعث کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔آج کی طرح نہیں کہ ہر چھوٹے موٹے کام کے لئے گھر سے نکلنے لگو تو موٹر سائیکل اور گاڑی کو بھی فورا زحمت دو۔دفتر میں بھی نماز کے اوقات میں نمازادا کرو۔رات کو نماز پڑھ کر توبہ کر کے سویا کرو۔قر آن کی تلاوت کیا کرو۔ دوسروں سے بھلائی کرو۔غریبوں کو مت جھڑ کو۔تم سے پہلے لاکھوں آئے مگر اب کہاں ہیں؟اپنی آخری آرام گاہ میں۔تم سب بھی اس طرف جانے والی قطار میں لگے ہو۔بس اس حقیقت سے غافل ہو۔بزرگ لوگ جوان لوگوں کو کیوں نماز ،روزے ،قرآن کی طرف بلاتے رہتے ہیں ؟کیونکہ شاید ان میں سے کئی اپنی جوانی دیوانی کے دور میں ایسے ہی غافل رہے اور اب وہ بچوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ا س بخشش کے راستے کی طرف صحیح وقت پر رجوع کر لیں۔کب کس کی باری آجائے کیا خبر۔توان سب کو اپنا معمول بناؤ۔شکوے سے شکر تک کا سفر طے کرو۔اس میں دیر مت کرو۔پھر ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھ سکو گے۔پریشانی کی دیوار پھلانگ کر سکون کے سر سبز باغ میں قدم رکھ سکو گے۔اس طرف آؤ تو سہی۔۔۔''
اس کی باتیں سنتے سنتے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔اور میرا سر جھکا ہوا تھا۔۔ اپنے رب سے ندامت کے مارے۔۔!
shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 22917 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.