پچھلے دنوں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان
مہیندرسنگھ دھونی کے تعلق سے ایک انگریزی روزنامہ نے الزام عائد کیا کہ
انہوں نے سال2014؍ کے ایک کرکٹ میچ میں فکسنگ کی تھی،جس کی بدولت انہیں
شکست کا سامنا کرنا پڑا،یہ بات کہاں تک سچ ہے اور اس میں کس حد تک ثبوت
موجود ہیں یہ بات الگ ہے لیکن کپتان مہیندرسنگھ دھونی نے اپنی عزت کو پامال
ہوتے دیکھ کراخبار پر سو کروڑ روپئے کا ہتک عزت کا مقدمہ ٹھوکہ ہے،اس طرح
سے اور بھی کئی معاملے ہیں جن میں نامو ر شخصیات نے اپنے اوپر اٹھنے والے
الزامات کے خلاف اخبارات و الیکٹرانک میڈیا پر ہتک عزت یعنی عزت کی پامالی
کو لیکر مقدمات عائد کئے ہیں جن کی وجہ سے اخبارات ایسی بے بنیاد خبریں
شائع کرنے سے قبل سو بار سوچتے ہیں،اور کئی ایسے اخبارات بھی ہیں جو ایسے
سنگین معاملات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔دراصل ہندوستان میں ہر ایک شہری کو
اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے بے بنیاد الزامات کے خلاف
کارروائی کرتے ہوئے عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں اور ایسا ہونا بھی
چاہیے۔لیکن ایک افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان میں
اسلام و مسلمانوں کے تعلق سے بے بنیاد و بے تکے الزامات عائد ہوتے رہے
ہیں،کبھی مذہب پر سوالات اٹھائے گئے تو مدرسوں کو دہشتگردی کے اڈے قرار
دئیے گئے۔کئی مسلم نوجوانوں کو دہشتگردی کے ملزم بنا کر حوالات میں ٹھونسا
گیا تو کبھی اہانت اسلام کے تعلق سے اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں تبصرے
جاری ہوئے۔اخبارات نے ایسے معاملات پر کچھ بڑھ چڑھ کر ہی توجہ دی اور جس
حدتک ہوسکے اُن حددوں کو پار کرتے ہوئے خبروں و تبصروں کو نمایاں جگہ فراہم
کی۔ان کا مقصد ان تبصروں کو لوگوں تک پہنچانا نہیں ہے بلکہ اسلام و
مسلمانوں کی شبیہ کوبگاڑنا ہے۔جب کبھی کوئی مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام
میں گرفتار ہے تو اس کے لئے اخباروں میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ
جڑے ہونے کی خبریں پیش کی جاتی ہیں اور ا سکے ساتھ ایسی کہانیاں جوڑی جاتی
ہیں جو بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔اسی طرح سے ان
خبروں کو ٹیلی ویژن میں نشر کیا جاتا ہے تو ایک الزام میں پھنسے ہوئے ایک
نوجوان کے ساتھ ساتھ القاعدہ،این آئی ایس آئی ایس آئی(نان اسلامک اسٹیٹ آف
عراق اینڈسیریا)،لشکر طیبہ یا پھرجیش محمد کی پرانی میڈیا کے ساتھ ملا کر
خبریں پیش کی جاتی ہیں،جس سے عام لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ
نوجوان اسی تنظیم سے جڑا ہوا تھا اور وہ خود نقاب پہننے ہوئے ہے جسے ٹی وی
والے دکھا رہے ہیں۔اتنا ہی نہیں ٹیلی ویژن چینلوں میں پرانی ویڈیو گرافی
کولیکر نئے قصے بنائے جاتے ہیں جس سے ہر ایک امن پسند انسان مسلمانوں کے
تعلق سے غلط سوچنے لگے گا۔ہمارے یہاں دہشت گردی کے الزام میں پھنسنے والے
مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے کئی تنظیمیں ہیں اوروکالت کیلئے لاکھوں روپئے
بطورفیس خرچ کرتی ہیں۔یہ سب پیسہ عام مسلمانوں کا ہے جو ایک طرح سے بہت
معنی رکھتا ہے۔وکالت بھی ہوجاتی ہے،ضمانت بھی ہوجاتی ہے اور کچھ سال بعد یہ
نوجوان با عزت بری بھی ہوجاتے ہیں۔لیکن ان نوجوانوں کے ساتھ جو حق تلافی
ہوتی ہے ان کے اور ان کے اہل خانہ کی بے عزتی جو سماج میں ہوتی ہے وہ عزت
نہیں ملتی اور جو قیمتی وقت جیلوں میں گذرتا ہے وہ واپس نہیں ملتا اور نہ
ہی انہیں اس کامعاوضہ ملتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو زندگی ان کی
برباد ہوئی ہے اس کا انہیں صلہ ملے تاکہ کم ازکم وہ اپنی بقیہ زندگی راحت
کے ساتھ گذار سکیں۔جب مہیندرسنگھ دھونی جیسے لوگ اپنی عزت کی قیمت طئے
کرسکتے ہیں تو ہم ان بے بس و بے قصور نوجوانوں کی زندگی کی بربادی کی قیمت
کیوں طئے نہیں کررہے ہیں؟کیا وجہ ہے جانچ ایجنسیوں پر جوابی کارروائی کرنے
سے گریز کررہے ہیں،آخر کیوں نہیں ہم فرقہ پرست میڈیا کو ان کی غلطی کی سزا
دینے سے گریز کررہے ہیں؟کیوں نہیں ہماری تنظیمیں ان الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ
میڈیا کے مالکان پر ہتک عزت معاملات درج کررہے ہیں؟۔دہشت گردی کے الزامات
میں ملوث نوجوانوں کی باعزت رہائی کے باوجود انہیں عزت نہیں دلوائی جارہی
ہے۔تنظیموں کے پاس راحت و وکالت کیلئے تو ٹیمیں قائم کی گئی ہیں لیکن ان کے
پاس میڈیا واچ شعبہ نہیں ہیں جو ایسے حساس معاملوں کو جمع کرکے ان کے خلاف
قانونی کارروائی کرنے کیلئے اقدامات اٹھا سکیں۔جب ہم لاکھوں روپئے دیکر
اچھے سے اچھے وکیل کی خدمات لے سکتے ہیں تو چند ہزار روپئے دیکر میڈیا
ابزرور کی تعیناتی کیوں نہیں کررہے ہیں۔ممبئی دہلی مدراس جیسے شہروں میں
ایسے ابزرویشن یعنی جائزے کیلئے نجی کمپنیاں موجود ہیں کیوں نہیں ہم ان کی
خدمات لے رہے ہیں۔سوال بہت مشکل ہے لیکن جواب اس کا آسان ہے ،ہماری قوم یہ
نہیں چاہتی کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں،ہم تو بس محض عارضی آرام کے
قائل ہوچکے ہیں،ہمیں مستقل سکون کی ضرورت نہیں ہے،ہماری مثال بالکل ایک
ایماندار سرکاری ملازم جیسی ہے جو اپنی خواہشوں کی تکمیل کیلئے ہر مہینے کی
پہلی تاریخ کا انتظار کرتا ہے،پہلی تاریخ جو تنخواہ مل جائے جس سے وہ اپنی
ضروریات پوری کرلیگا،قرض داروں کا قرض ادا کریگااور کرانے کے دکان سے سامان
خرید لائیگا اور مہینے کے باقی دن وہ دنیا کی نعمتوں کو حسرتوں سے دیکھتا
رہے گا،وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ اپنے بقیہ وقت میں کچھ چھوٹا موٹا کام
کرلے جس سے اس کی آمدنی زیادہ ہو۔ہمارا بھی یہی حال ہے جب جیل جاتے ہیں تو
ان کے اہل خانہ کیلئے کچھ راشن پہنچ جائیگا،ضمانت کیلئے وکیل کی تعیناتی
ہوگی جب ضمانت مل جائے اور رہائی بھی ہوگی تو ان کیلئے یہ زندگی کی پہلی
تاریخ ہوگی۔اب ہمیں پہلی تاریخ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر تاریخ
میں ایک نئی تاریخ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ذرا سی ہوشمندی سے کام لینے سے
ممکن ہے۔ |