بہت حسیں ہیں کسی کی آنکھیں۔۔۔۔بس ایک کمی ہے حیاء نہیں ہے

خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ،پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے:(سورۃالنور) مغرب کا یوم عاشقاں ویلنٹائن ڈے اور مغربی تقلید میں اندھی ہورہی قوم، تاریخ و حقیقت کو جانے بغیراپنی جان اور ایمان داؤ پر لگانے کے لئے بے قرار
محترم قارئین کرام:السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔۔۔امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔اور اپنے گھر والوں کی ہر طرح سے فکر کرتے ہوئے ان کی زندگی بہتر سے بہتربنانے میں لگے ہوئے ہوں گے اور اس فکر میں بہت حد تک کامیاب بھی ہورہے ہوں گے۔ مگر کیا صرف زندگی کے عیش وآرام اور ان کے دل کو لبھانے والی ہر چیزوں کی فکر کرنا ہی ان کا اچھے سے خیال رکھنا ہوتا۔کیا کبھی آپ نے ان کی آخرت کی فکر بھی کی ہے کہ وہ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں ،گھر والی ،بچیاں اور ماں پردے کا اہتمام کرتے ہیں یا نہیں، قرآن کی پابندی سے تلاوت کرتے ہیں یا نہیں۔۔!! میں سمجھتا ہوں شاید ہی بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو گھر والوں کی ا?خرت کے اعتبار سے فکر کرتے ہوں گے۔والدین بڑی محنت ومشقت کے ساتھ بچے بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کی خاطر کالج بھیجتے ہیں ان کے آنے جانے کے لئے گاڑیوں کا انتظام کرتے ہیں ان کی ہر خواہش کو پہلے پورا کیا جاتا ہے مگر کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کالج میں کیا پڑھایا جارہا ہے؟ آپ کے ساتھی کون کون ہیں ؟کونسے استاد کونسا کا مضمون پڑھاتے ہیں؟ یا کبھی مہنگے مہنگے فون دلا کر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان میں کیا کیا موجود ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کے بچے کالج تو جارہے ہیں مگر۔۔۔ادھر کچھ اور ہی پھول کھلائے جارہے ہیں۔اس جانب بھی ان کی فکر کیجئے۔اور آج اگر تھوڑا سا وقت اپنی فرصت میں سے نکال کر کالج جاکر دیکھئے کہیں آپ کی بچی یا بچہ اپنے معشوق کو گلاب کے پھول اور چاکلیٹ تحفہ میں دینے تو نہیں گئی ہے۔اکثر کالج کے طلباء وطالبات مغرب کی نقالی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ مغرب والوں کو بھی شرم آنے لگی ہے کہ یہ کیا۔۔۔یہ تو ہم سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

عصر حاضر میں عیسائیوں کاسب سے مشہورتہوارعید حب ویلنٹائن ڈے ہے جسے ہر سال چود ہ فروری کو مناتے ہیں اور اس سے انکا مقصد اس محبت کی تعبیر ہے جسے اپنے بت پرست دین میں حب الہی کا نام دیتے ہیں۔ ہر سال فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی موبائل کمپنیوں کی طرف سے ٹیکسٹ میسج آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو پیار بھرا پیغام بھیج دیجئے، الیکٹرانک میڈیا پر اس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ موبائل کمپنیاں مختلف ترغیبات کے ذریعے اپنے صارفین کے بیلنس پر ہاتھ صاف کرتی ہیں جبکہ ٹی وی چینل والوں کو اپنے ناظرین کو بے وقوف بنانا کا ایک اور موقع مل جاتا ہے۔ہر سال چودہ فروری کو ایک پادری ویلن ٹائن کے بدکاری کی سزا میں مارے جانے کی یاد میں دنیا بھر کے جنسی بے راہ لوگ ’’یوم محبت’’ مناتے ہیں۔اس دن کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ رومانی بادشاہ کلاو دیوس کو ایک بار جب لڑائی کیلئے تمام رومی مردوں کو فوج میں شامل کرنے میں مشکل پیش آئی اور اس نے غورکیاکہ اسکا اصل سبب یہ ہے کہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر لڑائی کیلئے نہیں جانا چاہتے تو انہیں شادی کرنے سے روک دیا ، لیکن ویلنٹائن نامی ایک راہب نے شہنشاہ روم کے حکم کی مخالفت کی اور چوری چھپے کنیسہ میں لوگوں کی شادیاں کرتا رہا ،جب بادشاہ کو اسکا علم ہوا تو اس نے اسے گرفتارکرکے۴۱فروری ۲۶۹ء کو قتل کردیا ، اس طرح کنیسہ نے مذکورہ بالا بھیڑیا لیسیوس کی پوجا کی جانے والی عید کو بدل کر ویلن ٹائن نامی شہید راہب کے پوجا کی عید بنادیا ، آج بھی یورپ کے شہروں میں اسکا مجسمہ نصب ہے۔ پھر بعد میں۱۹۶۹ کو کنیسہ نے راہب والنٹائن کی عید منانے کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ انکے خیال کے مطابق یہ میلے ایسی خرافات سے عبارت ہیں جو دین و اخلاق سے میل نہیں رکھتے ، اسکے باوجود آج بھی عام لوگ اس عید کو مناتے اور اسکا اہتمام کرتے ہیں۔

عیسائیوں کی جانب سے منائے جانے والی اس عید کے موقع پر کیا ہوتاہے : (1) مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے : "میرے والنٹائن محبوب بنو\"۔ (2)مرد و عورت کے درمیان سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ (3) مردو عورت کے درمیان مٹھائیوں، خاص کر سرخ مٹھائیوں کا تبادلہ ہوتاہے۔ (4) خدائے محبت \"Cupid\"کی تصویر بنائی جاتی ہے ، جو ایک بچے کی شکل ہے جسکے ہاتھ میں ایک کمان ہے جس سے وہ اپنی محبوبہ کے دل میں تیر پیوست کررہا ہوتا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اس دن کے بعد سے ا?نے والے ۶ دن تک مختلف قسم دن منائے جاتے ہیں اور آخری دن زنا ڈے(SexDay)پر ختم ہوتا ہے۔ دین سے دوری نے مغرب کی اندھی تقلید نے ہماری عقلوں پر جالے بْن دیئے ہیں۔ پچھلے برسوں سے ویلن ٹائن ڈے جیسے مغرب کے حیاباختہ دِنوں اور تہواروں کو جس جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اس سے ہماری ثقافتی اقدار کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔بالخصوص ’’ویلن ٹائن ڈے’’ کے موقع پر آوارگی، اوباشی، بے حیائی، بے ہودگی اور فحاشی جس طرح اپنے عروج پر ہوی ہے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات کے لیے کی طرح بھی موت سے کم نہیں۔ ہم کسی اور میدان میں ترقی کریں یا نہ کریں مغربی تہذیب کی پیروی میں سب سے آگے ہیں۔ نجانے کیا بات ہے کہ مغرب کی پیروی میں کیوں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ اس پیروی کو ہم نے اپنا دین و ایمان بنا رکھا ہے جبکہ جو اصل دین ہے اس کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔اپنے آپ کو ماڈرن ظاہر کرنے کے چکر میں ہم اپنی اصلیت بھولتے جا رہے ہیں۔ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن مسلمانوں والی کوئی بات ہم میں نہیں پائی جاتی۔ خرافات کو اپنانے میں ہم اپنی مثال آپ ہیں، دین میں بدعتوں کو رواج دینا ہو تب بھی ہم نمبرون ہیں، اسی کی ایک مثال ’’ویلن ٹائن ڈے’’ ہے جس کو منانے میں ہم ان سے بھی آگے نکل گئے جہاں سے اس روایت کا آغاز ہوا تھا۔ دینِ اسلام ہمیں اﷲ تعالی، رسول اﷲ اور پوری انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے، جس کے اظہار کے لیے ہمارے پاس سال کا ہر دن اور ہر لمحہ موجود ہے اور اس کا اظہار ’’ویلن ٹائن ڈے’’ کے موقع پرلال پھولوں اور تحائف سے نہیں، بلکہ احکام الٰہی اور اسوہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔مسلمانوں کو ویسے بھی مغرب کی تقلید کے کوئی بھی دن نہیں منانا چاہئے کیونکہ اس میں غیر مذہب کی تقلید ہے، جسے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام دونوں ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں، جس کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس طرح کے لایعنی تہوار وہ لوگ مناتے ہیں، جن کی اپنی کوئی تہذیب یا ثقافت نہیں ہوتی۔الحمد اﷲ ہماری اپنی جداگانہ خوب صورت تہذیب اور ثقافت ہے۔ ویلن ٹائن ڈے جہاں ایک غیر مذہب کی ثقافت کو رواج دینے کی چال ہے وہاں نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش بھی ہے۔ اسلام ہی سچا دین ہے اور مسلمان قوم ہی دنیا کی دیگر اقوام سے ہر لحاظ سے افضل و برتر ہے لیکن افسوس کہ ہماری قوم کے اکثر افراد غیر مسلموں کی تقلید کر کے خود کو کم تر ثابت کر رہے ہیں۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے پیروکار، کسی نبی کی اْمت اور کسی قوم سے وابستہ ہیں۔ ہمیں ہر معاملے میں صرف اور صرف اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسلامی تہواروں کو خاص اسلامی طریقے سے منانا چاہیے۔یہی ہمارے لیے باعث فخر ہے، نہ کہ بسنت اور ویلن ٹائن جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانا اور فروغ دینا۔ ہمیں اپنا امتیاز، اپنی پہچان اور اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر اظہارِ محبت ہی کرنا ہے تو کسی مخصوص دن نہیں بلکہ ہر دن اپنے ماں باپ سے کیجیے، بچوں سے کیجیے، بہن بھائیوں سے کیجیے، اساتذہ سے کیجیے، ہسپتالوں میں پڑے بیماروں سے کیجیے۔ محبت صرف یہی نہیں جس کا اظہار دو غیر محرم مخالف جنسوں کے درمیان ہو، بلکہ محبت کے اور بھی بہت سے رْخ ہیں، کبھی اس طرف بھی سوچئے۔ اگر چودہ فروری کا دن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر اس کا نام بدل کر ’’یومِ نکاح’’ رکھ لیں اور پھر شادی شدہ جوڑے اس دن کو یوم محبت کے طور پر منائیں، جبکہ غیر شادی شدہ افراد کی اجتماعی شادیاں ہوں۔اگر آج کے دن آپ کوایک ساتھ لڑکی او رلڑکا نظر آئے تو ان سے بغیر کسی جھجک کے پوچھ لیں کہ کیا آپ شادی شدہ ہیں اگر نہیں تو فوراًان کے گھر والوں کو اطلاع کرنے کی کوشش کریں۔اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اﷲ تعالی غفور الرحیم ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہودودجال کے تمام سازشوں سے ہماری حفاظت فرمائیں، بغیر نکاحی لڑکے اور لڑکیو ں کے جلد از جلد مناسب رشتوں کے انتظام فرمائے۔ چلئے پھر ملیں گے انشاء اﷲ۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔اﷲ حافظ۔۔
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.