غیرت کے نام پرقتل: اسباب اورسدباب

وزیراعظم نوازشریف نے معروف سماجی کارکن اورفلم سازشرمین عبیدسے ملاقات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل جیسی فرسودہ رسومات اور روایات کااسلام اورہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔حکومت معاشرے سے اس بدنماداغ کودورکرناچاہتی ہے۔اوراس کے لیے تمام تراقدامات اٹھانے کیلئے پرعزم ہے۔شرمین عبیدچنائے سے گفتگوکرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کے ذریعے دنیامیں اسلام کابرپاکردہ انقلاب تبدیلی اورسماجی اصلاحات کی کامیاب تحریک ہے۔جس نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دنیاکی تاریخ کادھاراموڑدیا۔سب سے پہلے اسلام نے خواتین کوحقوق دیئے۔خواتین ہمارے معاشرے کاناگزیرترین جزو ہیں اورمیں ایک خوشحال ومتحرک پاکستان کی مشترکہ منزل کے حصول کیلئے انہیں بااختیاربنانے اورتحفظ فراہم کرنے پریقین رکھتاہوں۔تمام کاوشوں کامقصدفریقین سے مشاورت کے ذریعے موجودہ قوانین میں خامیوں کودورکرنا ہے تاکہ پاکستان سے غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہو۔وزیراعظم کاکہناتھا کہ حکومت اورسول سوسائٹی کی مشترکہ کوششوں سے سماجی برائیوں کاخاتمہ ضروری ہے۔ان کاکہناتھا کہ غیرت کے نام پرقتل کے واقعات کے خاتمے کیلئے قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔جس کیلئے متعلقہ اداروں کوہدایت جاری کردی ہیں۔شرمین عبیدچنائے کاکہناتھا کہ انہیں فخرہے کہ پاکستان کونوازشریف جیساوزیراعظم ملاجوملک میں غیرت کے نام پرقتل کے مسئلے کوختم کرنے کیلئے راہنماکرداراداکررہا ہے۔

غیرت کے نام پرقتل کامعاملہ سال ہا سال سے چلاآرہا ہے۔اس کے خلاف مہم بھی چلائی جاچکی ہے۔اخباروں میں تبصرے، تجزیئے اورکالم بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔سماجی تنظیمیں، سول سوسائٹی اورمعاشرے کے دیگرطبقات بھی غیرت کے نام پرقتل کیخلاف اپنی اپنی آوازبلندکرتے رہتے ہیں۔متعدد سیاستدانوں اورحکمرانوں نے ملک میں اس کے خاتمہ کے اعلانات کیے۔لیکن یہ مسئلہ جوں کاتوں موجودہے۔وزیراعظم نوازشریف درست کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پرقتل جیسی فرسودہ رسومات اورروایات کااسلام اورہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام کسی کوبھی ازخودقتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں جرائم اوربرائیوں کے خاتمے کیلئے سزاؤں کانظام قائم کیاگیا ہے۔لیکن کسی بھی شخص کویہ اجازت نہیں ہے کہ وہ خودہی ان سزاؤں پرعمل کرناشروع کردے۔اس کے لئے باقاعدہ ایک نظام بنایا گیا ہے کہ جو شخص بھی کوئی جرم کرے اس کیخلاف متعلقہ عدالت میں مقدمہ دائرکرایا جائے۔ اس کیخلاف ٹھوس ثبوت اورحقیقی گواہ پیش کئے جائیں۔عدالت ہی اس کی سزایااسے بری کرنے کافیصلہ کرے۔اسی طرح جب کوئی شخص یاخاتون غیراخلاقی حرکت کرتے ہوئے پکڑے جائیں توانہیں قتل کرنے کی اسلام میں واقعی کوئی اجازت نہیں۔ انہیں قانون کے حوالے کیاجاناچاہیے۔ پھرقانون ہی ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔وزیراعظم کی یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام نے ہی سب سے پہلے خواتین کوحقوق دیئے۔ اسلام نے خواتین کوہی نہیں معاشرے کے ہرفرد، ہرطبقے اورہرچیزکوحقوق دیئے ہیں۔اسلام سے پہلے بچیوں کوزندہ درگورکردیاجاتاتھا۔ اسلام نے اس گھناؤنے جرم کاخاتمہ کیا۔اسلام نے ہی خواتین کوجائیدادمیں حصہ داربنایا۔بطور، ماں، بہن اوربیوی الگ الگ جائیدادمیں اس کاحصہ مقررکیا۔اسلام نے ہی خواتین کوماں، بہن، بیٹی، بیوی، ساس، جیسی پاکیزہ عزتیں فراہم کی ہیں۔دنیامیں ایسے مذہب بھی ہیں۔ جن کے پیروکارشوہرکے مرجانے پراس کی بیوی کوبھی اس کے ساتھ زندہ جلادیتے ہیں۔اسلام اس کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔اسلام نے تومردے کے بھی حقوق مقررکیے ہیں کہ اسے عزت کیساتھ دفن کیاجاتا ہے۔اسلام میں مردوخواتین کی تمام ضرورتوں کابھی خاص خیال رکھاگیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف بھی ملک میں غیرت کے نام پرقتل کوختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں انہوں نے قانون میں موجودخامیوں کودورکرنے کیلئے متعلقہ اداروں کوبھی ہدایات جاری کررکھی ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس برائی کاخاتمہ ہوناچاہیے۔اب تک اس برائی کیخلاف جتنی بھی باتیں ہوئی ہیں۔ سب نے یہی کہا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہوناچاہیے۔اس طرح کسی کوقتل نہیں کرناچاہیے۔ صبراوربرداشت سے کام لیناچاہیے۔اس کی حمایت توکوئی نہیں کرتا۔اس برائی کوختم کرنے کیلئے ہمیں اس کے اسباب اوروجوہات پربھی غورکرناہوگا۔اسلام غیرت کے نام پرقتل کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتااورجس فعل بدکودیکھ کرلوگ اشتعال میں آجاتے ہیں اورفعل میں مشغول مردیاخاتون یادونوں کوقتل کردیتے ہیں اس فعل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ہرایک یہی کہتا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ جس فعل کی وجہ سے غیرت کے نام پرقتل ہورہے ہیں اس کیخلاف کوئی بات نہیں کرتا۔اس سلسلہ میں تمام ترذمہ داری قاتل پرڈال دی جاتی ہے۔یہ درست ہے کہ قاتل کواس طرح قتل کرنے کاکوئی اختیارنہیں اسے قانون کی مددلینی چاہیے۔جس فعل کودیکھ کروہ اشتعال میںآکرقتل کرڈالتا ہے اس فعل کی اجازت فاعل اورمفعول کوکس قانون اورضابطے میں دی گئی ہے۔جب تک معاشرے سے زناء حرام کاخاتمہ نہیں ہوتا اس وقت غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ نہیں ہوسکتا۔غیرت کے نام پرقتل کوختم کرنے کیلئے معاشرہ سے زناء حرام کی برائی ختم کرناہوگی۔اسلام میں پردے کوخاص اہمیت حاصل ہے ۔جس کوآج کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔آج تونوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جوخاتون کسی جگہ کام کرتے ہوئے پردہ کی پابندی کرے تواسے کہا جاتا ہے کہ پردہ کرنا ہے توگھرمیں رہویہاں کام کرناہے توپردہ چھوڑناہوگا۔گویاپردہ کرنے کی تاکیدکی بجائے پردہ ختم کرنے کاکہاجاتا ہے۔پردے کوفرسودہ رسم اورمعاشرے میں ترقی کے لیے رکاوٹ قراردیاجارہا ہے۔ایک طرف خواتین کے حقوق اورتحفظ کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف پردے کی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔اسلام میں خواتین کوپردہ کرنے کاحکم ان کے تحفظ کیلئے ہی دیاہے۔ان کے چہروں کودیکھ کرہی لوگ ان کیساتھ برائی پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔پردے میں ہونے کی صورت میں نہ کوئی ان کے چہروں کودیکھ سکے گانہ ہی ان کیساتھ کوئی غلط فعل کرے گا۔ایک طرف غیرت کے نام قتل کیخلاف باتیں کی جاتی ہیں۔ اخباروں میں بیانات شائع کرائے جاتے ہیں۔اس کے خاتمے کیلئے آوازاٹھائی جاتی ہے دوسری طرف اس کوفروغ دلانے والے کام بھی کئے جاتے ہیں۔اس کے اسباب بھی مہیاکیے جاتے ہیں۔ان اسباب کادفاع بھی کیاجاتا ہے۔ان اسباب کوتفریح بھی کہاجاتا ہے۔اس سوال کاجواب تلاش کریں کہ پردے کی مخالفت کرنے والے خواتین کاتحفظ چاہتے ہیںیاکچھ اور۔ہرسال چودہ فروری کوویلنٹائن ڈے منایاجاتا ہے۔اس سال بھی منایاگیا۔اخبارات کے میگزین میں اس مناسبت سے صفحے بھی شائع ہوئے۔قارئین خودفیصلہ کریں کہ یہ جوہرسال محبت کے اظہارکادن منایاجاتا ہے ۔اس سے غیرت کے نام پرقتل کوفروغ نہیں دیاجارہا توکیااسے ختم کیاجارہا ہے۔جب اس طرح محبت کے اظہارکی حمایت کریں گے توغیرت کے نام پرقتل کوکیسے روک پائیں گے۔خودتوکسی کی بہن، بیٹی کیساتھ محبت کااظہارکرتے ہیں اسے پھول بھی دیتے ہیں کوئی اورآپ کی بہن، بیٹی کیساتھ اس طرح محبت کااظہارکرے توآپ کی غیرت جاگ جاتی ہے۔کسی کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت پرنظررکھنے سے پہلے یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ کے گھرمیں بھی ماں، بہن، بیٹی موجودہے۔پہلے محبت کااظہارہوتا ہے پھربات آگے بڑھتی ہے۔ تعلقات میں تیزی آجاتی ہے۔پھرانجام غیرت کے نام پرقتل کی صورت میں ہوتا ہے۔مخلوط تعلیم بھی اس برائی کے اسباب اوروجوہات میں شامل ہے۔ یہ کیسانظام تعلیم ہے کہ چھوٹے بچے جنہیں اس غلط فعل کاشعورنہیں ہوتا انہیں توالگ الگ سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ جب طلباء وطالبات جوان ہوجاتے ہیں۔دونوں طرف مقناطیس موجودہوتا ہے تویونیورسٹیوں میں طلباء اورطالبات کوایک ہی کلاس میں پڑھایا جاتا ہے۔ا اکثردفاترمیں مردوخواتین ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں کام کرتے ہیں۔سکولوں میں مردوخواتین اساتذہ ایک ساتھ پڑھاتے ہیں۔اسمبلیوں میں خواتین مردوں کے ساتھ بیٹھتی ہیں۔اسلام میں تونامحرم مردوں، عورتوں کودیکھنے، ان کے ساتھ بات کرنے اوران کی آوازسننے سے بھی روکاگیا ہے ۔صرف اورصرف خواتین کے تحفظ اوران کی حفاظت کے لئے۔ یہاں دفاتر اورکمپنیوں میں کام کرنے والے مردوخواتین ایک دوسرے کے رشتہ دارنہیں ہوتے ہوتے بھی ہیں توان کاتناسب بہت کم ہے۔خواتین کوحراساں کرنے کے قانون سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دفتروں اوراداروں میں خواتین کیساتھ کیا ہوتا ہے۔فلموں اورڈراموں میں بھی غیرت کے نام پرقتل کوفروغ دیاجارہا ہے۔آپ کہیں گے کہ کون سی ایسی فلم ہے جس میں غیرت کے نام پرقتل کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک فلم نہیں سب اکثرفلموں میں اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔آپ کہیں گے وہ کیسے۔ وہ اس طرح غیرت کے نام پرقتل کاآغاز ایک دوسرے کودیکھنے، میل ملاقات کرنے سے ہوتا ہے۔یہی کام اکثرفلموں میں دکھایا جاتا ہے۔فلم چاہے کسی بھی موضوع پربنائی گئی ہواس میں لڑکے اورلڑکی کاتنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، ایک دوسرے کیساتھ اٹکھیلیاں کرنا، ایک دوسرے کیساتھ مذاق کرنااورایک دوسرے کیساتھ محبت کااظہارکرناضرورشامل ہوتا ہے۔میں تیرے بغیرنہیں رہ سکتا۔ میں تیرے بغیرنہیں رہ سکتی۔میرابھی یہی حال ہے ۔ہم کب تک ایسے ہی ملتے رہیں گے۔خودہی منصف بن کرفیصلہ کریں کہ فلموں میں ایسے مناظردکھائے جانے کے معاشرے پرکیااثرات مرتب ہوں گے۔بچے ، لڑکے اوربیس بائیس سال تک کے ناپختہ ذہن رکھنے والے نوجوان ان مناظرکودیکھیں گے توان کے جذبات پرکیااثرات مرتب ہوں گے اس کاشایدبہت سوں کوادراک بھی نہیں ہوگا۔فلموں میں ایسے مناظرغیرت کے نام پرقتل کی طرف نہیں جاتے توکہاں جاتے ہیں۔ جیساکہ اس تحریرمیں لکھاجاچکا ہے کہ اسلام میں انسان کی ضرورتوں کاخاص خیال رکھاگیا ہے۔اسی طرح اسلام میں انسان کی خاص خواہش کی ضرورت کابھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔اس کیلئے نکاح بیاہ جیسے پاکیزہ تحفے عطاء کیے ہیں۔غیرت کے نام پرقتل کی وجوہات اوراسباب میں شادی بیاہ کامشکل سے مشکل بنائے جانابھی ہے۔شادی دیکھادیکھی میں اتنی مشکل بنادی گئی ہے کہ غریب طبقہ تورہا ایک طرف متوسط طبقہ بھی کیلئے اس فرض کواداکرنامشکل ہوجاتا ہے۔جب لوگ اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے بیٹوں اوربیٹیوں کی شادیاں نہیں کرسکتے۔دولہا،دلہن کے ورثاء ایک دوسرے کی شرائط پرپورانہ اترنے کی وجہ سے اولادکی شادیاں نہیں کرسکتے۔جب جائزطریقے سے ان کی خواہش پوری نہیں ہوتی تووہ غیراخلاقی ،غیرقانونی طورپراپنی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسلام میں غیراخلاقی ،غیرقانونی طریقہ اختیارکرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔بے حیائی اوربے راہ روی کے سدباب کے لئے اولادکی شادیاں ان کے جوڑملتے ہی کرنے کاحکم دیاگیاہے۔جب شادیاں مشکل بنادی جاتی ہیں توبے حیائی اوربے راہ روی کاراج پھیلنے لگتا ہے۔ جوغیرت کے نام پرقتل تک لے جاتا ہے۔غیرت کے نام قتل کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب اوروجوہات کوبھی ختم کیاجائے۔ پردے کانظام نافذ کیاجائے خواتین جہاں بھی کام کریں ،سفرمیں ہوں ، میڈیاپرپروگرام کریں ہرجگہ، ہرحال میں پردہ کااہتمام کریں۔مخلوط تعلیم ختم کی جائے۔دفاتر، اداروں میں مردوخواتین ایک ہی کمرے میں کام نہ کریں۔ویلنٹائن ڈے منانے پرپابندی لگادی جائے۔فلموں، ڈراموں میں اظہارمحبت کے مناظردکھانابندکرائے جائیں۔عوام کوکم سے کم اخراجات میں شادیاں کرنے کی ترغیب دی جائے۔شادیاں جتنی کم سے کم اخراجات اورجلدی ہوں گی معاشرے سے بے راہ روی اتنی ہی جلدی کم سے کم ہوجائے گی۔ جب بے راہ روی کم ہوگی توغیرت کے نام پرقتل بھی کم سے کم ہوجائیں گے۔یہ توسب کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ لوگ ایساکام کیوں کرتے ہیں لوگ ایساکام ہی نہ کریں جسے دیکھ کرکوئی اشتعال میںآجائے اورغیرت کے نام پرقتل کردے۔ایک پہلوپرزوردینااوردوسرے پہلوکونظراندازکرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.