بھٹہ مالکان مزدور اور حکومت

حالیہ دنوں میں حکومت بھٹہ مزدوروں پر کچھ زیادہ ہی مہربان نظر آتی ہے بھٹہ مزدوروں پر توجہ حد سے زیادہ کیوں کی جا رہی ہے اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں پھر کبھی سہی اب حکومت بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے کو شا ں ہے ہونی بھی چاہیے مگر دوسری جانب اس مد میں بھٹہ مالکان پر مقدمات کا اندراج بلا تحقیق سراسرزیادتی ہے ،تعلیم سب کیلئے ہے اس بات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو تعلیم دلانا بھٹہ مالکان پر واجب نہیں ہے ذمہ داری بچوں کے والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں کو سکولوں میں بھیجنے سے انکاری ہیں اس بات کا میں عینی شاہد ہوں بھٹہ مزدروں پر جو ظلم اور بربریت کی کہانیاں میڈیاء پیش کرتا ہے بہت کم ان میں صداقت ہے مگر یہ سختی ان پر کیوں کی جاتی ہے اس بات پر نوٹس لینا میڈیا ء اور ارباب اختیار مناسب خیال نہیں کرتے ہیں ۔

بھٹہ مزدوروں کے ساتھ کچھ این جی اوز اپنی پاپی پیٹ کی آگ بھجانے کیلئے چند کمشین یافتہ ایجنٹوں کو ہلا شیری دے کر حکومت اور بھٹہ مالکان پر دباؤ بڑھانے کیلئے احتجاجی مظاہرے کرواتی ہیں جیسا کے پچھلے چند دنوں سے ہو رہا ہے بھٹہ مزدور پیشگیاں معاف کروانے کے چکر میں لاہور پریس کلب کے سامنے دھرنے کبھی ڈی سی او قصور آفس کے باہر دیتے ہیں جو کہ بلکل غیر قانونی ہیں حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہیے مگر اس کے ساتھ بھٹہ مالکان کو بھی اعتماد میں لیکر قانون سازی کرنی چاہیے پیشگیاں دینے میں کوئی بھی بھٹے کا مالک خوش نہیں ہے بھٹہ مالکان کی جانب سے مزدوروں پر ظلم کی کہانی تو بڑھ چڑ ھ کر سنائی جاتی ہیں مگر جو فراڈ اور گھپلے یہ مزدور مالکان کے ساتھ کرتے ہیں ان پر کوئی لب کھولنا پسند نہیں کرتا ،ایک محتاط سروے رپورٹ میں یہ بات واضع ہوئی ہے کہ یہ مزدور جو بظاہر بہت مظلوم نظر آتے ہیں حقیقت میں یہ بلکل نہیں ہیں صرف چند فیصد یعنی 10 فیصد ایسے ہوں گے جو حقیقت میں ظلم کا شکار ہوتے ہیں یہ مزدور مالکان کے ساتھ لاکھوں روپے کا فراڈ کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں ان کے باقاعدہ گینگز ہوتے ہیں جو مالکان سے پیشگی کے نام پر لاکھوں روپے بطور گرنٹی وصول کرتے ہیں بعد ازاں مخصوص دنوں تک کام کر کے کسی دوسرے بھٹے پر اُڑان بھر جاتے ہیں اور ان میں سے بعض نے تو اپنے ساتھ کچھ بھٹہ مالک ،وکیل اور پولیس والے شامل کئے ہوتے ہیں جو اس فراڈ میں ان کا ساتھ دیتے ہیں ایک ضلع میں ایک بھٹے والے کے ساتھ یہ فراڈ کیا اور نکلتے بنے پھر بھٹہ مالک ان کے پیچھے پیچھے خاک چھانتے ہیں اگر ان کو پیسے مل جائیں تو بہت اچھا ورنہ طاقت ور مالکان ان کو بزور طاقت کچھار سے نکال لیتے ہیں اور اپنے دیئے ہوئے معاوضے کے عوض کام کرواتے ہیں اس میں کام نہ کرنے پر تشدد بھی شامل ہوتا ہے لیکن اس بات کا حل بھی ان کے پاس ہوتا ہے کورٹ کیس کے ذریعے بھٹہ مالکان پر مقدمہ اور بیلف کے ذریعے آزادی اس سے بھٹہ مالک اُلٹا مصیبت میں پھنس کر خود کو بچانے کے چکر میں پیسے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ذلیل ہو کر اپنے پیسے بھول جاتا ہے ۔

یہاں پر ان مزدوروں کا ایک اور کارنامے کا زکر کرنا بہت ضروری ہے یہ مزدور کام کرنے سے پہلے پیشگی رقم کا تقاضا کرتے ہیں اور پیشگی کے معاملات طے کر کے پچھلے مالک کوادائیگی کے نام پر ایک بھاری رقم حاصل کرتے ہیں ان کے اس سارے کام میں بھٹہ مالک ملوث ہوتا ہے جس سے جعلی پرچی بنوا کر رقم دینے والے بھٹہ مالک کو دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ ہے کہ یہ لوگ یا تو سرے ہی کام نہیں کرتے ہیں اگر کرتے ہیں تو چند دن کیلئے پھر غائب ایسے ایک گروہ کا تعلق ضلع قصور کے ایک معروف قصبے سے ہے اس نے کئی بھٹے والوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس گروہ میں تین کے قریب وکلاء ایک بھٹہ مالک اور سولہ کے قریب افراد ملوث ہیں جن کا پیشہ ہی صرف بھٹہ مالکان سے پیسے بٹورنا ہے یہ گروہ مختلف وارداتوں میں بھی ملوث ہے اسی طرح کا ایک گروہ جس کا تعلق بہاولپور سے ہے اس میں چند قانون نافذ کرنیوالے ادارے کے اہلکار ملوث ہیں یہ ساری باتیں ہمیں ریڈ پر جانیوالے اہلکار ہی بتاتے ہیں ،ظلم کسی پر بھی ہو نہیں ہونا چاہیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کرے جس میں مزدوروں اور مالکان دونوں کو تحفظ حاصل ہو ،اکثر بھٹہ مالکان پیشگی دینے کے معاملے پر انکاری نظر آتے ہیں ان کے بقول یہ اپنی اجرت پر کام کریں تاکہ ہمیں نقصان نہ ہو،ایک بھٹہ مالک نے جو ابھی نوازئیدہ بھٹے کا مالک ہے اس نے بھی اس لیبر سے 26 لاکھ کا فراڈ برداشت کیا ہے جو ہمدردی کی وجہ سے لیبر نے کیا اس نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک دفعہ پیشگی مکمل طور پر معاف کردے آئندہ کیلئے قانون سازی کردے کہ پیشگی دینے والا اور لینے والا دونوں قصور وار ہوں گے اس طرح ہمیں ایک بار نقصان برداشت کرنا پڑے گا بار بار نہیں ۔

بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری والدین کی ہے جو سب کچھ ملنے کے باوجود سکولوں میں نہیں بھیجتے ہیں ان کو سہولیا ت ملنی چاہیں مگر اس مد میں بھٹہ مالکان پر مقدمات درج کر کے نہیں ۔
mehar sultan mehmood
About the Author: mehar sultan mehmood Read More Articles by mehar sultan mehmood: 9 Articles with 7203 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.