سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس

گل زیب انجم کے ایک طویل مضمون سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس.
سیری نالہ بان
سے لیا گیا اقتباس

مسجد کے بننے سے شاملاٹ کے تقاضے جاتے رہے.

مسجد کو بسانے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں. ..........جو پل بهر میں بنا اور سجا لی جاتی ہے.

باوا ڈبہورا گہرا اور دیوار اونچی کرتے رہے.

عقابوں کی دنیا کے شاہین ہے یہ

زبیر ہاوس سے ساٹھ ستر میٹر کے فاصلے پر سڑک کی بائیں جانب ایک مسجد ہے جسے چودھریاں نی مسیت (چودھریوں کی مسجد) کہا جاتا ہے یہ مسجد بر لب بان اور سڑک ہے جب یہ بنائی جانے لگی تو کچھ شاملاٹ کے تقاضے سامنے آئے لیکن چودھریوں نے بڑی دانشمندی سے نہ صرف اس جگہ کے بلکہ ساری بان کے تقاضے ہی ختم کر ڈالے .اس مسجد کی تعمیر میں آڑوس پڑوس کے تین چار گهروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن بابا فتح شیر کا حصہ اس لیا تهوڑا نمایاں ہے کہ جب وہ عطیہ دینے مسجد آئے تو ان کو انہی کے دو پوتوں نے پکڑ رکها تها کیونکہ وہ بڑهاپے اور بیماری کے باعث بہت لاغر ہو چکے تھے ساتھ ہی آنکھوں سے بصارت بھی کم ہو چکی تھی جس وجہ سے انہیں سہارے کی ضرورت تھی اور یوں وہ اپنے اصلی سہارے ( پوتوں) کے ساتھ مسجد آئے. آج وہ نہیں ہیں لیکن ان کا اپنے ہاتھوں سے عطیہ پیش کرنا تحریر کو چار چاند لگا گیا ہے.

بقول اقبال. ... مسجد تو شب بهر میں بنا دی ایمان کی حرارت والوں نے............. ! ازل سے ایک مسلہ رہا کے ہم مسجدوں کو بنا اور سجا پل بهر میں لیتے ہیں لیکن بسا صدیوں بھی نہیں سکتے. البتہ یوں یہ جگہ برلب سڑک اور ساحل بان اپنا مقام بنا گئی۔اس سے آگے باؤے فتح شیر ہوراں ناں ڈبہورا ہے ڈبہورا ڈب سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معانی وہ جگہ جہاں پانی گولائی اور گہرائی کی شکل میں کھڑا رہتا ہے یا دوسری جگہ کی بانسبت کچھ گہرا ہوتا ہے ،یہ ڈبہورا اتنا گہرا تو نہ تھا لیکن جب سے اس کی شناسائی باؤے سے ہوئی تب سے یہ گہرائی پکڑتا گیا کیوں کے باؤا اس سے پتھر نکال نکال کر اس کو گہرا اور اپنی فصیل اونچی کرتے رہے اور یہ بے نام جگہ اُنہی سے منسوب ہو کر رہ گئی۔ چار شیروں کی سیری میں ان کا مکمل تعارف ماجود ہے. اس سے تھوڑی آگے محکمہ امور حیوانات والوں کی ڈسپنسری ہے جہاں دو چار کمروں پر سرکاری عمارت قائم ہے لیکن سٹاف وہاں بیٹھنے کی زحمت کم ہی کرتا ہے ۔

اس ڈسپنسری سے ایک پیلی(میدانی جگہ) شروع ہوتی ہے پہلے تو باناں کی پیلی ہوتی تھی لیکن چند عرصے سے اس کو قادری ہوراں نی پیلی کہا جانے لگا ہے وہ اس لیے کے اس سے جو کاشت کار زمین کی حد یا باونڈری شروع ہوتی ہے وہ زمین قادری نامی وسنیک کی متروکہ اراضی ہے اس وجہ سے یہ پیلی اپنا نام یا پھر قادری اپنا نام اس سے منسوب کر بیٹھے ہیں۔ جب تک یہ پیلی بان کی پیلی تھی ڈورڈنگر کی چہل قدمی بھی ہوتی تھی اور بچے کوئی کھیل وغیرہ بھی کھیل لیتے تھے لیکن جب سے اس کا نیا نام پڑا تب سے سمجهو ارٹیکل ۵۸بی لاگو ہو گیا ہے یعنی چڑی پَر نہیں مار سکتی کے مصداق ہے . ویسے بھی یہ عقابوں کی دنیا کے شاہین ہیں .......... اب یہ پیلی ویسے بھی ویسی نہیں رہی ایک تو سڑک بن گئی ہے دوسرا خودرو بوٹے اگ آئے ہیں. پهر رہی سہی کسر بارشوں کے پانی نے نکال دی ہے اب پیلی کم اور کسی(ندی) زیادہ لگتی ہے.

سڑک جو نکلی ہے اس کی دائیں جانب میاں طیفے( قاضی لطیف مرحوم) ہوراں نے بٹے( پتهر) ہیں حالانکہ اس کے آگے ان کے ڈولہے ( کهیتی باڑی) بھی ہیں لیکن پکارنے والے صرف بٹے ہی کہتے ہیں. میاں جی پتہ نہیں کیسے لام کهو کر الف لگوا بیٹھے اور یوں لطیف سے طیفا بن گے حالانکہ محلے بهر کی امامت کے علاوہ دو تین محلوں میں نماز جنازہ بهی کراتے اور تعویذ بتی کے علاوہ جوڑوں میں بندهن بندهانے کے لیے نکاح خوانی کے فرائض بھی دیتے تھے کیا کہنے محلے والوں کے کہ تمام خدمات کو بالا طاق رکھ کر چنگے بهلے قاضی عبداللطیف کو میاں طیفا کہنا شروع کر دیا اور یہاں یہ ظلم کے ان کی ساری جائیداد بهلا کر بٹے یاد رکھ لیے. بانگ بلالی دینے والے اور طرز داودی میں کلام پاک کی تلاوت کرنے والے میاں جی رخت آخرت باندهنے لگے تو اتفاق سے بٹے ہی توڑ رہے تهے اور وہی سے راہی عدم ہوئے سرخروئی دیکهیے کے اپنے ہی دست سے تراشے ہوئے بٹے(پتهر) اپنے ابدی گهر کی دیواروں میں چنوا لیے. میاں جی کی باڑی کے نیچے ایک اور ڈولہہ ہے لیکن دیکهنے والوں کو صرف توت نظر آتے ہیں اس لیے انہیں محمد خان ہوراں نے توت کہتے ہیں، کبھی کبهی یہاں بڑے گھنے توتوں کے درخت ہوتے تھے جو لوگ مال مویشیوں کو پانی پلانے لے جاتے تھے وہ خود ان توتوں کی چھاں میں سستا لیتے تھے وقت بدلا حالات بدلے نہ وہ لوگ رہے نہ توت رہے نہ وہ مزاج رہے لیکن آج بھی وہ جگہ توتوں کے نام سے اور توت محمد خان ہوراں سے مشہور ہیں. جگہ تو ہے لیکن وہ ساری باتیں آئی گئی ہوئی محمد خان بٹ جو اس رقبے کے مالک تھے بہت پہلے توتوں کے ساتھ ساتھ سیری کو بهی خیر آباد کہتے ہوئے گلشن راوی جا بسے تھے حالانکہ یہاں بهی چهوٹا سا باغ تها اس راوی سے زیادہ شفاف ندی بهی بہتی تهی فرق صرف اتنا تھا کہ اس ندی کو راوی نہیں بان اور گلشن کو توت کہتے تھے. محمد خان سیری چهوڑنے کے بعد لاہور بیڈن روڈ کے کیری ہوم میں جا کر اپنے حصے کا آب و دانہ سمیٹنے لگے لیکن اس دوران بھی متاثر کن شخصیت کے مالک رہے . ایوب خان سے نہ صرف شکلی مشابہت تهی بلکہ ہیر کٹ اور مونچھیں ہو بہو ایوبی تهی اور عادتاً ...... شاید ایوب خان کے کسی فیصلے میں لچک آتی ہو گئی لیکن یہاں..... معاذ اللہ ..... کبهی جو ایسا ہوا ہو . چهٹی کر کے سائیکل سواری کرتے ہوئے گهر جاتے تو اکثر لوگ قیاس آرائیاں کرتے کیا شریف النفس آدمی ہے کہ اتنا بڑا آفیسر ہو کر بھی سائیکل پر ہی آتا جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں کی جائیداد چھوڑ کر اچانک دنیا کو اللہ حافظ کہہ گے لیکن جا کر بهی ویسے ہی یاد ہیں جیسے توت سوکھ جانے کے بعد بھی یاد ہیں ۔

یہاں سے آگے بان کا کنارہ مندو ہوراں نا دندا بن جاتا ہے محمد شریف نام کے آدمی سے منسوب جگہ (rock)دندا ، اب یہ محرحوم شریف سے مندو کیسے بنے اس کی اج تک سمجھ نہ آ سکی، یہ شارٹ کٹ کی ستم ظریفی نہ صرف ان کا مقدر ٹھہری بلکہ اس کی زد میں ان کی زوجہ متحرمہ بھی پوری پوری رہی، اُن کا نام ماں باپ نے بڑے مان گمان سے امرت بی بی رکھا تھا لیکن ساری زندگی وہ بھی ترس گئی کہ اُ ن کو کوئی امرت کہے حروف کے کفایت شعاروں نے اُن کو ابرو کے علاوہ کبھی کچھ نہ کہا ، اور تو اور اُ ن کے گھر والے بھی اُ ن کا اصل نام بھُول گے ، ابھی حال ہی میں مصنف کا گذر ان کی تُربت کے پاس سے ہوا تو کتبے پر بھی اِبرو لکھا پایا ،یوں امرت مٹی کا ڈھیر بن کر بهی امرت نہ کہلا سکی کیونکہ اب وہ واقعی امرت نہ رہی تهی ۔ وقت بڑا بے نیاز ہے اس نے جہاں علی قلی کو شیرافگن مہروانسا۶ کو نور جہاں اور نوردین کو شہنشاہ جہانگیر بنا دیا وہی محمد شریف کو مندو اور امرت بی بی کو ابرو بنا کر سرک گیا. یہاں پہلے پہل چار بهائی رہتے تهے شادی شدہ ہوئے تو بچوں کی پنیری بهی اگنے لگی پنیری نے پودوں کا روپ دهارا تو جگہ بهی کم لگنے لگی اس تنگی کے باعث دو بهائی کئی اور جا بسے لیکن بشیر اور شریف یہی کے ہو رہے . دو بهائیوں کے جانے کے بعد دندے کی طرف پہلا مکان ابھی تک بشیر کا ہے لیکن نہ جانے دندا مندو ہوراں ناں کیسے بن گیا.گویا بان کا یہ حصہ مندو ہوراں نا دندا کے نام سے ہی مشہور ہے.
 
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56150 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.