خانہ عنکبوت

’’یہ بارش کب ختم ہو گی اماں! تین دن ہونے کو آئے ہیں‘کتنے پہر بیت گئے ہیں‘اندھیرہ چھایا ہے صبحیں ‘دوپہریں‘شامیں ایک سی لگتی ہیں۔‘‘
خدیجہ نے کچھ اماں کو سنایا ‘ کچھ صرف خود کو۔سوال اماں سے بھی تھا اور خود سے بھی……
’’ تمہیں دوپہر شاموں سے کیا خدیجہ……؟؟ ‘‘
اس نے ان گہرے سیاہ بادلوں کا سا سانس لیا‘ جو کبھی برس کر نہیں دیتے اور گرج کر اندھیرہ پھیلا کر تن فن کرتے پھرتے ہیں۔اگر دن کی روشنی دکھائی نہ دے……سورج کی موجودگی ‘ گمشدگی کا پتا نہ چلے……اور……اور……
’’روٹی کب بناؤ گی؟‘‘ اماں اسے سن ہی کہاں رہی تھیں۔بہت سنیں ایسی باتیں ‘بہت پوچھیں‘ بہت کیں‘ بہت ہوئی بس اب۔
گھر میں موجود دوسری واحد عورت کے اِس سوال اندر جواب پر وہ دنگ سی رہ گئی۔ روٹی کا سوال ‘ روٹی کا جواب‘ روٹی کی بات بس……بس یہی عورت مرد کی زندگی……روٹی روٹی……کیا یہی……؟؟
وہ روٹی بنانے کے لیے اٹھ گئی۔
سفید اجلی قلعے سی دیواروں اور قلعے سے گھر میں مسلسل برستی بارش اور سیاہی پھیلاتے بادلوں سے گھٹن ہو رہی تھی۔ اسے ان سے شکایت تھی۔اس بند گھر پر وہ آسمانی پہرے دار سے تھے۔جیسے ارشدکے ساتھ ملے ہوں یا اُس کے ہم خیال ہوں۔اِن کو یہ حق کس نے دیا تھا کہ اس کی پیاری ‘ چمکیلی ‘کھلی کھلی ‘نکھری‘ چمک کر پھیلتی دھوپ کو چھین کر اسے اندھیروں میں غرق کیے رکھیں؟
’’کوئی بتاتا کیوں نہیں……یہ حق ان سب کو کس نے دیا؟ــ‘‘
ــ’’ کوئی بتاتا کیوں نہیں ……یہ حق کیسے انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔؟‘‘
ابا کے گھر وہ اسی بارش میں نہا لیا کرتی تھی۔تب وہ دن کے اُجالے کے لیے اتنا نہیں تڑپا کرتی تھی۔ابا بھی سخت تھے‘ پر وہ چھپ کر چھت پر چلی جایا کرتی تھی اور اُڑنے والے پرندوں کو دیکھ دیکھ تالیاں بجایا کرتی تھی۔اوراپنے وہ ہاتھ جو پر نہیں تھے کو روپوش ہو کر پھیلا لیا کرتی تھی۔اور خیال کو چھپا کر اُن کے سنگ اُڑ جایا کرتی تھی۔وہ جو آسمان پر محو ِ پرواز رہتے تھے اور جن پر پہرئے دار نہیں تھے ۔
اُسے کبھی ستارے اچھے نہیں لگے۔کیونکہ وہ کبھی ستاروں بھرے چھاتے تلے آئی ہی نہیں تھی۔بس اسے رات سے خوف آتا تھا اور رات میں آنے والی ہر چیز سے۔رات میں من و سلوی بھی اُس کے لیے اتارا جاتا تو وہ اس سے بھی خوف کھاتی‘ اس متبرک غذا کو نہ کھاتی۔
ابا رات کو ہی گھر آیا کرتے تھے نا……
شوہر کے گھر وہ اسی بارش پر کڑھنے لگی۔بادل گرجتے تو اٹھ کر بیٹھ جاتی۔
’’بچی ہو کیا‘ایسے کیسے ڈر جاتی ہو؟‘‘ ارشدکہتے کروٹ بدل کر سو جاتے۔
وہ چپ رہتی ‘ خود بھی جان نہ سکی کہ وہ بہانے بنا بنا ڈر تی ہے۔الزام کبھی اس پر لگا‘ کبھی اُس پر۔کبھی ماچس کی تیلی کی آگ سے جلی اور کبھی خواب میں ڈر کر روئی۔اس نے رونے‘ ڈرنے کے کئی بہانے اور راستے تلاش کر لیے تھے۔
کیوں؟؟ شاید وہ اپنی قسمت پر کھل کر رونے سے ڈرتی تھی۔
اپنے ساتھ یہ سب ہونے پرکڑھتی تھی…… پر بتانے سے ڈرتی تھی……
اس لیے و ہ بس روتی تھی روتی تھی……خود سے بھی چھپا کر……کونوں میں جہاں کوئی پہرئے دار نہیں ہوتا تھا……
وہ ارشد سے نہیں ڈرتی تھی لیکن گھر میں ارشد کے ہونے سے ڈر جاتی تھی۔جیسے شام ہوتے ہی وہ ابا کے آنے سے ڈرا کرتی تھی۔دونوں نہیں مارتے تھے۔دونوں کم گو تھے لیکن دونوں ہی کی آنکھیں سرخ انگارہ تھیں۔دونوں ہی اس کے قریبی تعلق دار ‘ حقوق دار‘ فرائض دار تھے۔
پھر وہ ان سے کیوں ڈرتی تھی؟
دونوں نے ہی اپنی مرضی سے اس کے گرد مذہب کا دائرہ کھینچ دیا تھا۔ارشد اس دائرے کو تنگ سے تنگ کرتا جا رہا تھا۔وہ قرآن و حدیث کی کتابیں پڑھتا تھا اور اپنی ہی مرضی کے مطلب نکالتا تھا۔
وہ بھی وہی کتابیں پڑھتی تھی اور اسے وہ کتابیں بہت صاف صاف سیدھی سیدھی لگتی تھیں۔
سچی……کھری……کھلے آسمان کی طرح وسعت لیے……پرہیز گار مومن کی سی روشن اور ان کا نور لیے……جیسے وہ ہزاروں سالوں کا سفر کرتا اس تک نہ آیا ہو بلکہ ابھی اس پر اتارا جا رہا ہو۔وہ اس کلام کو سمجھتی تھی اسی لیے تو اس کی غلط تشریح پر کڑھتی تھی۔وہ ایسے کلام کی راہوں پر چلنے کے لیے کیسے تیار نہ ہوتی جو ایسی روشنیو ں سے منور تھا جن کی ابدیت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔
لیکن سوال کی تو بات ہی کیا اس کا توآسمان ہی بند تھا……بند کر دیا گیا تھا……
اس کی روشنی اندھیرا کر دی گئی تھی……
وہ قلعہ بند گھر میں زوجہ بنی تنگ سے تنگ ہوتے دائرے میں گھٹ رہی تھی۔
وہ عبدالکریم کی بیٹی تھی……وہ ارشد صدیق کی بیوی بنا دی گئی تھی……وہ خدیجہ نہیں تھی۔ایک عورت ‘ایک انسان ہی‘دو پیروں والی ‘دو آنکھوں والی ‘آنکھیں جنہیں اڑتے پرندے بہت پسند تھے۔آنکھیں جو پرندوں کے پروں کے ساتھ لپٹ جانا چاہتی تھیں اور جو ان سے اڑنے والے کھلے‘روشن وسیع آسمان تلے اٹھکیلیاں کرتے آزاد ہنسوں کے ساتھ ساتھ اُڑ کر رب عظیم کی بنائی رنگ برنگی دُنیا کے رنگ اکٹھے کرنا چاہتی تھی۔وہ اپنے پروں پر رنگوں کو اوڑھ کران سے ست رنگی پینگیں بنانا چاہتی تھی۔اس میں برائی کیا تھی۔اس میں حرام کیا تھا۔
وہ سمجھ نہیں سکی تھی۔اُسے سمجھایا نہیں گیا تھا۔بس عمل کروایا جا رہا تھا اور وہ کر رہی تھی۔
رنگوں سے واقفیت میں اب تک اس کے ہاتھ ایک ہی رنگ لگا تھا۔ ’’مان لینے کا‘‘
غلط درست بس مان لینا‘بند رہنا‘خود کو بند رکھنا‘سوال نہ کرنا‘جواب نہ مانگنا‘بس مانتے رہنا۔
عبدالکریم کے گھر‘ارشد صدیق کے گھر‘ماں کی کوکھ سے لحد تک‘یہی فرض تھا ‘یہی نصیب تھا‘ اسے ہی نصیب بنا دیاگیا تھا۔
خدیجہ عبدالکریم کیا کر سکتی تھی؟ خدیجہ ارشد کیا کر سکتی ہے؟ حکم کی تعمیل کر رہی ہے‘آسمان کو صحن سے دیکھ لیتی ہے‘ا’ڑتے پرندوں سے نفرت کرنے لگی ہے۔ایسے گھر میں جس کی وسعت میں باہری انسانوں کا شور بھی اندر نہیں آ سکتا‘وہ اپنے ’’نہیں‘‘ کے سناٹے پر بلبلانے لگی ہے۔ اُسے اپنے رونے کا انتظار رہتا ہے۔وہ گھٹ گھٹ کر تھکی نہیں ہے۔ اسی لیے گھٹ گھٹ کر مر بھی نہیں رہی تھی۔
ُُُُ’’کیونکہ اور کر ہی کیا سکتی ہے۔؟؟‘‘
ایک دن بغیر پروں والا سریلا پھر پھر اڑنے والا ننھا ابابیل اُن کے گھر میں آیا۔
’’یہ بچہ بھیجا ہے ارشد نے دُکان سے ‘کچھ لینے آیا ہے۔‘‘ سسر سر جھکائے آئے ‘کہہ کر چلے گئے۔
بچہ اجنبیت اور نئے پن سے ذرا ساسہما ‘ برآمدے سے دو سیڑھی نیچے کھڑا تھا۔وہ باورچی خانے سے نکل کر برآمدے کے ستون کے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔ برآمدے میں ہی بچھے تخت پر سے اماں نے لیٹے لیٹے ذرا سی گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
’’کیا چاہیے منے؟‘‘
وہ ایسے کھڑا تھا جیسے نماز کے لیے نیت باندھنے جا رہا ہو۔
’’آپا جی! بھائی جی نے کہا ہے ان کی الماری میں سب سے نیچے والے خانے میں نیلے رنگ کی چھوٹی سی کتاب۔‘‘ اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اٹھا کر چھوٹی سی کو بنا کر دکھایا ’’ رکھی ہے وہ مجھے دے دیں۔‘‘
’’کتنی چھوٹی؟‘‘ خدیجہ نے برآمدے کے ستون کے ساتھ ٹک کر اُس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔اُسے دیکھتے ہی خدیجہ کو وہی سکون
ملا جو حبس کے ماروں کو گھر گھر کر آنے والے‘ برس کر جانے والے بادلوں کو دیکھ کر ملتا ہے۔
’’اتنی چھوٹی سی آپا جی۔‘‘ اس نے پھر ہاتھوں کے اشارے سے بتایا۔
’’اتنی ؟‘‘ خدیجہ نے زیادہ بڑے ہاتھ پھیلا کر پوچھا۔
’’نہیں آپا جی!اتنی بڑی نہیں ۔انہوں نے کہا تھا کہ اتنی سی ہے‘بس وہی لانا‘ وہ ناراض ہوں گے پھر۔‘‘
خدیجہ نے ہاتھ بڑھا کر اسے اُوپر کیا اور اندر کمرے میں لے گئی۔
’’نام کیا ہے منے کا؟‘‘ خدیجہ نے اسے کرسی پر بٹھا دیا‘وہ گردن اٹھا کر اونچی چھت کو دیکھنے لگا‘جس پر چاک سے نقش نگاری کی گئی تھی۔سفید اونچی چھت ‘جس کی وانچائی کسی کام کی نہیں تھی۔
’’محمد ابو بکر جلیل ۔‘‘ وہ کھل کر مسکرایا۔اجنبیت جاتی رہی۔
’’کہاں سے آئے ہو۔؟؟‘‘
ُُ’’اپنے گھر سے ارشد بھائی کی دُکان پر‘ پھر یہاں۔‘‘وہ پھر مسکرایا،جیسے تتلی کو ہتھیلی پر نچا رہا ہو۔
وہ ہنسی ۔’’ہمارے گھر کیوں آئے بھلا۔؟‘‘
’’کتاب لینے آپا جی؟‘‘ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’یہ والی کتاب؟‘‘ وہ الماری کھول کر کھڑی ہوگئی۔
’’یہ تو کالے رنگ کی ہے آپا جی! ارشد بھائی نے کہا تھا کہ نیلی والی ہی لانا۔‘‘ وہ سمجھ رہا تھا کہ آپا بے چاری کم عقل ہے ‘ بات سمجھ ہی نہیں رہی۔
’’اچھا یہ ہو گی پھر؟‘‘ وہ چپکے سے ہنس بھی رہی تھی۔
’’یہ تو اتنی بڑی ہے اور یہ نیلی بھی تو نہیں ۔‘‘چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل ٹوٹ جاتا ہے جیسے‘ وہ ایسے ہو گیا۔
’’پھر یہ ہو گی۔‘‘ اس نے مطلوبہ کتاب نکال کر دکھائی۔وہ کرسی سے اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’ہاں یہی ۔دیکھا مل گئی ناآپا جی!‘‘
اس کی پیاری میٹھی شفاف آواز پر خدیجہ جیسے فدا سی ہو گئی۔تتلیاں پکڑنے کا خواب جیسے پورا ہونے لگا۔
’’ہاں مل گئی۔‘‘ اس نے اس کے گالوں کو چھوا‘جیسے کسی مقدس مقام کا بوسہ لیا۔جیسے بارگاہ میں سر کو جھکایا اور بس سب ہو گیا۔
چند دن گزرے ‘ وہ پھر آیا۔
’’ایک اور اتنی چھوٹی سی کتاب تو نہیں ہے ہمارے گھر۔‘‘ خدیجہ نے اُسے دیکھتے ہی ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا۔
’’میں تو میٹھا لینے آیا ہوں آپا جی!‘‘ وہ ڈر کر صفائی دینے لگا۔میٹھا وہ تیار کر چکی تھی‘ارشد نے ابا جی کو دُکان سے فون کر دیا تھا۔
’’تمہارے کپڑوں کو کیا لگا ہوا ہے ابوبکر؟‘‘ وہ اس کی انگلی تھام کر اسے باورچی خانے میں لے آئی۔
’’ آتے ہوئے میں گر گیا تھا آپا جی ! آپ کی گلی کے نکڑ پر ‘کیچڑ تھا وہاں۔اماں مجھے مارے گی اب ۔میں نے کپڑے گندے کر لیے ہیں نا۔‘‘
’’گرے کیسے؟‘‘ وہ ہاتھ سے اس کے کپڑے جھاڑنے لگی۔’’ دیکھ کر نہیں چلتے کیا‘ گندے بچے ہو کیا۔‘‘
ُُ’’میں غبارے والے کو دیکھ رہا تھا آپا جی !‘‘ کہہ کر وہ مسکرانے لگا۔کھلونے کیا کچھ نہیں ہوتے بچوں کے لئے ۔
’’غبارہ لینا تھا کیا۔‘‘ کپڑا گیلا کر کے وہ کپڑوں پر لگا کیچڑ صاف کرنے لگی۔
’’نہیں!دو روپے تو میں نے اسکول میں ہی خرچ کر دیے تھے۔‘‘ اب اس نے منہ بسور لیا۔
’’تو پھر غبارے والے کا کیا کرنا تھا؟‘‘
’’غبارے دیکھنے تھے۔‘‘ اس کا نچلا ہونٹ لٹک گیا۔
’’خالی خولی دیکھ کر کیا کرتے؟‘‘ خدیجہ کے اندر بھی بہت کچھ لٹک گیا۔
’’بڑا مزا آتا ہے آپا جی! ایک لڑکی نے پورے تین غبارے لیے۔میں بھی کل پورے چار غبارے لوں گا۔ لال‘نیلا اور ہرا‘ایک پیلا۔ لال دو لوں گا۔‘‘ وہ انگلیوں پر گننے لگا۔
’’تم پورے پانچ لینا۔‘‘ خدیجہ نے اس کے گال پر چٹکی بھری۔
’’جب میں گرا تو سب ہی بچے ہنسنے لگے۔‘‘ اسے اپنے گرنے کا دُکھ یاد آیا۔
’’انہیں معاف کر دو ۔‘‘ خدیجہ نے اسے بہلایا۔
’’آپ کی ہی گلی کے بچے ہیں آپا جی ! آپ ان سب کو ماریے گا۔‘‘
’’میں کیسے ماروں۔‘‘ وہ خود مار کھائی نظر آنے لگی۔
’’اپنے گھر بلا کر۔یا ان کے گھر جا کر۔میری جمیلہ باجی ایسے ہی کرتی ہیں‘بہانے سے بلا لیتی ہیں پھر کان کھینچتی ہیں۔‘‘
’’جمیلہ باجی اچھی والی باجی ہیں نا۔‘‘
’’آپ اچھی نہیں ہیں کیا؟‘‘
اس کی نظریں باورچی خانے کی کھڑکی سے ہوتی لمبے پھیلے ہوئے صحن کے گرد بنی دیواروں میں الجھ گئیں اور آم کے تناور ہوئے درخت میں بھی۔جس کی شاخیں کبھی دیوار کے اُس پار نہیں جا سکی تھیں اور جس کی کچی کیریاں کبھی میٹھے رسیلے آم نہیں بنی تھیں۔
’’نہیں۔۔‘‘ اس کے منہ سے نہیں ایسے نکلا جیسے عمر خیام کی رباعی نے آہ بھری ہو‘ جو اس نے روح بارے لکھ کر جلا ڈالی ہو۔جیسے نظر بند کیے قیدی نے دہائی دی ہو۔جیسے تابوت میں کیل گڑی ہو۔جیسے کوئی معصوم تختہ دار کی طرف جاتا ہو۔
خدیجہ نے اسے انڈوں کے حلوے کا ڈبا پکڑایا اور جانے کے لیے کہا۔
انڈوں کا حلوہ رات واپس بھی آ گیا۔
’’پکانا بھول گئی ہو کیا؟‘‘ ارشد غرائے۔
وہ لکڑی کی سیاہ منقش الماری کھول کر کھڑی ہو گئی۔بھول گئی کیا تلاش کرنا تھا۔اکثر بھول جاتی تھی۔
’’گھر میں رہتی ہو کھانا پکانا تو ڈھنگ سے کیا کرو ۔ ہم مردوں کا ہی کمال ہے باہر کے ہزار بکھیڑے کس طریقے سے نپٹاتے ہیں
۔تم جیسوں کے ہاتھوں میں نظام ہو تو دنیا اجڑ بجڑ جائے دنوں میں ہی۔‘‘
ارشد بہت دیر تک عورتوں کے نقصانات اور مردوں کے فوائد گنواتا رہا۔خدیجہ حسب عادت سنتی رہی……سنتی ہی آئی تھی……زبان پر ماں نے تالا لگایا تھا اور چابی اسی کے ہاتھوں گم کروا دی تھی۔تو اب کیسے بول لیتی‘ اس نے مان لیا کہ بہت نقصان ہے عورت ہونے
میں‘ کوئی فائدہ نہیں ‘ ورنہ وہ گھاٹے میں نہ جا رہی ہوتی۔ جس رتبے پر اسے بنایا ہے‘ اس رتبے کو کوئی ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تو…… گھاٹا ہی ہوا نا۔اس نے مان لیا۔کہا نا وہ مان لینے کے لیے ہی بنی تھی……بنا دی گئی تھی……
٭٭٭
’’یہ ابوبکر کون ہے؟‘‘ بہت دنوں بعد وہ پوچھ سکی۔
’’چھوٹے موٹے کاموں کے لیے رکھا ہے دُکان پراس کی اماں سے اچھی دعا سلام ہے‘کہنے لگیں اسکول کے بعد ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے میں دُکان پر بٹھا لیا کروں۔‘‘
’’اتنا چھوٹا سا تو ہے ‘ کیا کام کرے گا؟‘‘
’’کام کیا کرناہے بس بیٹھا رہتا ہے۔کبھی گز پکڑا دیاکبھی تھان۔دکان کی صفائی بھی کر دیتا ہے‘ سوچا گھر سے کھانا لے آیا کرے گا۔ابا جی کو بھی سکون ہو جائے گا۔‘‘
’’سکون کہیں اور ہوا تھا۔‘‘
’’روز ہی کھانا لے جایا کرے تو ٹھیک ہے نا۔ابا جی کیوں ضد کرتے ہیں کھانا لے جانے کی۔‘‘خدیجہ نے کسی قدر مسرت سے کہا۔
’’ابا جی سنتے ہی نہیں۔کہتے ہیں کہ چہل قدمی ہو جاتی ہے۔‘‘ ارشد بے زار سا بولا۔’’ خیر آیا کریں تو ٹھیک ہے‘ ورنہ ظہر کے وقت تو میں اسے بھیج ہی دیا کروں گا۔‘‘
وہ ظہریں کبھی کبھی آیا کرتیں ‘ جب وہ آیا کرتا ۔وہ اسے باورچی خانے کے اسٹول پر بٹھا لیتی ‘کھانا باندھتے دیر کر دیتی۔اس سے باتیں کیے ہی جاتی ‘ سوال پر سوال پوچھے ہی جاتی۔جیسے عباد ت کرتی ہو جی نہ بھرتا ہو۔جیسے حمد بیان کرتی اور تھکن نہ ہوتی ہو۔
اس کی عمر سات سال سے تھوڑی زیادہ تھی۔پلکیں اور بھنویں اتنی گھنی تھیں کہ اس پر کسی نوجوان لڑکے کے ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ تیز تیز جلدی جلدی بولتاتاکہ فٹ اگلی بات کر سکے اور اس کے بعد فٹ سے اگلی اور پھر اگلی۔اور باتیں ایسی تھیں جیسے ایک ننھا فرشتہ روز شہر کے اُوپر پرواز کرتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھ کر دیکھ کر آتا ہے۔
ننھے فرشتے ‘ ابابیل کی پرواز کی کہانی اس کی گھٹن کے لیے تریاق بنی ‘ آسکروائلڈ کے شہزادے کی مانند وہ اسے پرواز کے لیے بھیجتی۔
فرق صرف اتنا تھا کہ وہ یہ سب اپنے لیے کرتی‘ ابوبکر اسے کھلا کھلا آسمان لگنے لگا۔وہ اسے نت نئی باتیں سناتا۔ بازار کی ‘ دُکان پر آنے والی عورتوں کی ‘ گلیوں کی ‘ اپنے اسکول کی ‘اپنے گھر ‘ کھیل کے ساتھیوں کی بھی۔سب کی سب باتیں بتا دیتا۔اسے مسرو ر کر دیتا۔
خدیجہ ایسے کرید کرید کر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پوچھتی ‘ جیسے اُسے ست رنگی دوپٹہ رنگنا ہو اور ہر ہر رنگ کی پہچان کر رہی ہو۔
وہ لکڑی کے اسٹول پر آنکھیں مٹکا کر گھما کر کچھ ایسی باتیں کرتا۔
’’ان کے بٹوے پر پہلے میری نظر پڑی آپا جی!‘‘
’’اچھا !تمہاری ہی کیوں بھئی؟؟‘‘ وہ ایسے سوال کرتی ۔
’’باقی سب گاہکوں کے ساتھ لگے تھے‘ایک میں ہی فارغ بیٹھا تھا‘مجھے لگا کہ وہ اپنا بٹوا بھول گئی ہیں ‘ میں نے بھاگ کر بٹوہ اٹھایا اور ان کے پیچھے بھاگا ‘بھاگا ‘بھاگا‘ اتنا بھاگا کہ مجھے لگا میں مر ہی جاؤں گا‘ لیکن بٹوے والی خالہ جی مجھے کہیں نظر نہیں آئیں۔‘‘
’’وہ کسی اور دُکان میں چلی گئی ہوں گی۔‘‘
’’بھاگتے بھاگتے اتنی دکانیں بھی تو دیکھ لی تھیں۔‘‘
’’بھلا کون کون سی دُکان دیکھی تھی تم نے ؟‘‘ خدیجہ کبھی بازار نہیں گئی تھی ارشد کی دُکان بھی نہیں دیکھی تھی۔
’’کپڑوں ‘ جوتوں‘برتنوں کی آپا جی۔بہت دکانیں دیکھیں۔‘‘
’’ہار سنگھار کی دیکھی؟‘‘
وہ تو بازار کے آخری نکڑ پر ہے خالہ جی وہاں کہاں اتنی دُور جا سکتی تھیں۔‘‘
’’اچھا جوتوں کی دُکان کس طرف ہے وہ بھی نکڑ میں ہے؟‘‘
’’جوتوں کی تو کتنی ہی دُکانیں ہیں۔تین ہماری دُکان کے ساتھ‘ دو سامنے‘ ایک بہت بڑی دکان اُدھر بڑی سڑک کی طرف‘جہاں پھلوں کی ریڑھیاں لگتی ہیں اور رکشے کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
’’تمہیں سب دُکانوں کا پتا ہے ابو بکر!‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’جی آپا جی! بازار میں بہت سی دکانیں ہیں ‘ بہت ۔ کل تو ضرور ہی گنوں گا ساری دکانیں۔آپا جی ! آپ کس دکان سے کپڑے جوتے لیتی ہیں۔؟؟‘‘
’’میرے جوتے کپڑے گھر میں آ جاتے ہیں۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
وہ کھی کھی کرنے لگا۔’’ آپ کو بازار جانے سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’وہ خالہ جی پھر کہاں ملیں؟‘‘ وہ اتنے سے بچے کے سوال سے ڈر گئی‘ سوال تھا یا امتحان جس میں اُسے ہی ناکام ہونا تھا۔
’’وہ ……ہاں وہ جب میں تھک کر دُکان پر واپس گیا تو وہ دُکان میں بیٹھی تھیں۔مجھے کہتی ہیں ‘ کیا گھر تک دینے گئے تھے ؟لو بھلا مجھے کیا پتا ان کا گھر کہاں ہے۔‘‘ ہاتھ سوالیہ لہرا کر اس نے پوچھا، بہت پیارا لگا یہ کرتے۔
’’گھر کا پتا ہوتا تو چلے جاتے؟‘‘ خدیجہ کو اس پر رشک آیا۔
’’ہاں چلا جاتا میری اماں کہتی ہیں میں بدروح ہوں‘ جو ہر جگہ چلی جاتی ہے۔‘‘اس کی کھی کھی شروع ہوئی پھر سے جیسے نقرئی گھنٹیوں کو کسی نے رقصِ یار سیکھا دیا ہو۔
’’ہر جگہ جانے کے لیے بدروح ہو جانا بھی ٹھیک ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’خدیجہ! دیر ہو رہی ہے اس منے کو کھانا دے دو اس کا سر کھانا چھوڑ دو۔شمسہ اور فائزہ کی بھی یہی عادت تھی آس پڑوس سے کوئی بچہ ‘
بچی آ جاتے تو گھنٹہ گھنٹہ ان کا سر کھاتیں ۔یہاں کی پوچھ ‘ وہاں کی پوچھ ‘ نہ جانے تم لڑکیاں کرید کی ہی مٹی سے کیوں بنی ہوتی ہو۔‘‘
اماں دیر تک بڑبڑانے والی تھیں اب۔
’’اور اپنا نام نہیں لیا ارشد کی ماں۔‘‘ ابا جی اپنے کمرے سے مومی کاغذ کی نایاب مسلم بخاری کی کتابیں لیے نکلے۔آج وہ ایک ایک کتاب کو دھوپ لگوارہے تھے۔سارا دن ان کتابوں کے سرہانے بیٹھے رہتے تھے کہ مومی کاغذ پر کوئی چڑیا‘ کوا‘کبوتر چونچ نہ مار جائے۔ بلی کا دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کتابوں پر پھدکنے‘پھلانگیں نہ لگے۔تیز ہوا چلے‘ کاغذ پھڑ پھڑا جائیں تو۔یہ دھڑکا الگ سے ‘ خود وہ وضو کر کے دو انگلیوں کی پوروں سے احتیاط کے ساتھ مومی کاغذ پکڑتے اور الٹتے تھے۔ارشد بھی ایسے ہی کرت۔جی جان سے زیادہ کتابوں کی حفاظت کرتے تھے۔خدائی باتیں لکھی تھیں ان میں۔بہت پیاری تھیں وہ کتابیں انھیں۔
باورچی خانے کی برآمدے کی طرف بنی جعفری کے گول گول دائروں سے خدیجہ نے ایک گہرے سائے کو اماں کے وجود پر لپک کر آتے اور جاتے دیکھا۔ اوروہ بلا وجہ گاؤ تکیہ ٹھیک کرنے لگیں۔کبھی شمسہ ‘فائزہ ‘ خدیجہ ‘ وہ بھی تھیں۔پرواز کا شوق انہیں بھی رہا تھا۔کھلے آسمان میں پر پھیلا کر اُڑتے پرندوں پر انہوں نے بھی تالیاں بجائی تھیں۔ہاں کبھی انہوں نے بھی زندگی کے لیے سانسیں لی ہوں گی۔اب وہ زندہ رہنے تک ہی سانس لیتی تھیں۔سمجھوتہ کر لیا تھا یا تھک گئی تھیں اس کی سند ان سے حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔
خدیجہ نے ابوبکر کو کھانا دے کر رخصت کیا اور برآمدے کے ستون کے ساتھ کھڑی ہو کر آم کے درخت کو دیکھنے لگی۔کس شان سے چڑیاں پھر پھر پھدک رہی تھیں درخت پر۔کتنی خوش تھیں وہ اور کیوں خوش نہ ہوتیں‘ انہوں نے وہ مرثیہ نہیں سنا ہو گا جس پر مرثیہ نگار خود بہت رویا ہو گا۔
’’زندہ انسانوں کی مردہ زندگیوں کا۔‘‘
ڈھائی سال ہو گئے تھے اس کی شادی کو‘صرف دو بار ڈاکٹر کے پاس لے جائی گئی تھی‘پھر ارشد نے کہا ۔
’’دعا کرو۔‘‘
اورارشد کی اماں دعا کرنے لگی۔اس کی اماں ‘ بڑی بہنیں بھی ‘ جٹھانی بھی۔سب دعا کرنے لگے۔
’’ڈاکٹر صاحبہ نے کہا تھا کہ کورس پورا ہو جائے گا تو۔ ‘‘ڈرتے ڈرتے ہی اس نے اتنا کہہ ضرور دیا تھا۔
’’ہزار جتن کر کے لے کر جاتا ہوں۔بس بہت ہوئی۔‘‘
’’برقع میں تو ہوتی ہوں‘ جتن کیسے؟‘‘ اس کی آواز بھیگ گئی‘ کانپ گئی۔
’’سو طرح کے لوگوں میں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اﷲ نے چاہا تو اولاد مل جائے گی ‘ بات ختم۔‘‘
’’خدا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہے اس کا کیا۔‘‘ وہ کہہ نہ سکی۔ڈر گئی۔ساری رات باورچی کی جعفری سے لگ کر روتی رہی۔
٭ ٭ ٭
دو دن بعد ابوبکر آیا تو ہاتھوں میں نمک پارے تھے۔
’’یہ کہاں سے ملے۔‘‘ اس نے اسے پلیٹ دی اور خود بھی اس کے ساتھ کھانے لگی۔
’’آپ کے ساتھ والے گھر سے آپا جی!‘‘
’’کون سے ساتھ والے گھر سے؟‘‘ دونوں برآمدے کی دوسری سیڑھی پر بیٹھ گئے۔
’’وہی ہرے دروازے والے۔‘‘ ہاتھ کا اشارہ کر کے بھی بتایا۔
’’میں کیا جانوں کس کا ہرا دروازہ ہے۔‘‘ گھر سے نکلتی تو جانتی۔
’’ارے وہی گھر آپاجی! جن کی چھت پر بڑا سارا کبوتروں کا گھر ہے۔‘‘
’’کبوتروں کا گھر۔‘‘ وہ دیر تک ہنستی رہی۔
’ اچھا ہاں!کبھی کبھی وہ گلابی دم والے کبوتر ہمارے آم کے درخت اور گھر کی دیواروں پر آ بیٹھتے ہیں ۔وہ ساتھ والوں کے کبوتر ہیں؟‘‘
’’ان کا یہ بڑا شیر سا کتا بھی ہے۔پہلے مجھے اس سے بہت ڈر لگتا تھا۔لیکن اب تو میں بھی اس کی گردن پر ہاتھ پھیر لیتا ہوں آپا جی!شیر ہے شیر وہ۔‘‘
’’ارے ہاں!‘ ہاں‘رات میں وہ اکثر دیر تک بھونکتا رہتا ہے‘ ہر رات۔‘‘
’’آپ دیکھیں تو ڈر جائیں۔‘‘ ابوبکر نے ہاتھ اٹھا کر جیسے فیصلہ سنا دیا۔
’’کاش وہ مجھے ڈرا دے۔‘‘ دونوں ہاتھ گود میں رکھ کر اس نے خواہش کی۔
’’آپ تو چلانے لگیں گی۔‘‘ ابوبکر نے اسے ڈرانا چاہا۔
’’ہاں!میں ضرور چلاؤں گی۔‘‘ وہ ڈری نہیں‘ خوش ہوئی۔
’’اگر آپ نے اسے گھورا تو وہ آپ کو کاٹ لے گا۔‘‘
’’میں اسے ضرور گھوروں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ خوش تھی۔
’’احمد اسے بازار میں لے کر گھماتا رہتا ہے۔میرا بھی دل چاہتا ہے آپا جی! میرے پاس بھی ایساشیر ساکتا ہے۔بازاروالے بہت پیار کرتے ہیں اسے ۔قصائی اسے اتنا زیادہ گوشت کھلاتا ہے۔جسے دیکھو شیرا شیرا کرتا ہے۔ارشد بھائی بھی کہتے ہیں‘
’’واہ جی آج تو ہمارا شیر آیا ہے۔‘‘
’’ایک کتے سے اتنا پیار‘بھلا کیوں؟‘‘ خدیجہ نے اس سے پوچھا‘دراصل خود سے پوچھا۔
’’لو آپا جی!وہ ہے ہی اتنا پیارا اور پھر شیر ہے شیر۔ایسے چھلانگیں لگا کر بھاگتا ہے کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔سب کو ڈرا دیتا
ہے……کتا نہ سمجھے اُسے آپ……‘‘
ساری رات وہ کروٹیں بدلتی رہی۔شیر……شیر……کتا……جی دار……بہادر……نہ ڈرنے والا……ڈرا دینے والا……
اور وہ!اس کی ذات میں کیا خصوصیات تھیں۔کیا تھا اس میں۔کیا پیدا کر سکی تھی خود میں وہ۔بہادری کے نام پر ‘ جی داری کے سوال پر ۔سوال بہت تھے جواب کہیں نہیں تھے۔
ایک ہی سوال۔’’میں کون ہوں؟‘‘
سارے جواب ’’ تو عورت ہے۔‘‘
ایسے میں وہ باقی سوالوں کے جواب کہاں سے لاتی۔ سوال خانہ عنکبوت ( مکڑی کا جالا) بنے اسے لپیٹتے رکھتے۔
یہ ہوا‘یہ پھول ‘ یہ باغات‘ یہ گیلی آبشاریں ‘ اُونچے پہاڑ‘ کھلے آسمان میرے لیے کیوں نہیں؟؟
اگر جو میں انسان ہوں تو آزادی کے شفاف جھرنے میرے لیے کیوں نہیں؟ اگر جو میں انسان ہوں تو……تو میرے سارے اختیار میرے کیوں نہیں؟ مقدس کتابیں لاؤ……مجھے سناؤ……مجھے سمجھاؤ…… جو ان میں لکھا ہے ان پر عمل کیوں نہیں؟
’’خانہ عنکبوت میں اس کا دم گھٹنے لگتا۔‘‘
’’خانہ عنکبوت سے اسے ابوبکر نکالنے لگا۔‘‘
٭٭٭
رمضان آیا ۔شب قدر ‘ چاند رات‘ابو بکر اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے اڑتا رہا۔ہر بار ڈھیروں باتیں کر جاتااس سے ۔باقی کا وقت وہ ان باتوں کی تصویریں بناتی اور رات بھر کروٹیں بدلتی۔چاہ بابل سے توبہ کی صدائیں بلند ہوتیں۔اُسی چاہ بابل میں رہتے وہ ابوبکر کے ساتھ باہر نکل جاتی۔باہر نکل جانا ‘ صرف ایک پرواز کی خواہش کی مانند تھا‘ نمائش نہیں۔خانہ خدا کو دیکھنا تھا ‘ دکھانا تھا۔
ارشد یہ کبھی نہیں سمجھ سکتا تھا‘اس کے والد محترم بھی نہیں سمجھتے تھے‘پھر وہ جان سی گئی کہ سمندر کے ساحل کی گیلی ریت کو اس کے پاؤں کبھی نہیں چھوسکیں گے۔اس کی ماں کے بھی نہیں چھوئے تھے‘اس کی ساس کے بھی۔سب ان پر حرام نہیں تھا‘سب ان پر حرام کر دیا گیا تھا۔
اور اب ابوبکر گیلی ریت نہ سہی ‘ کچھ ذرات تو ضرور تھا اس ریت کے۔وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو لہرا لہرا کر ایسے تانے بانے بناتا ‘ جیسے ہاتھ کے برش سے کائنات کی تصویر بنا رہا ہو۔ ایسی کائنات کون نہ دیکھنا چاہے گا پھر۔قید تنہائی کے قیدی سے پوچھو بھونرے کی آمد پر وہ کس دل سے جشن مناتا ہے۔اُسی قیدی سے جانو روشی کی آزاد کرن کس وجد میں مبتلا کر دیتی ہے۔
’’بڑی سڑک سے دائیں ہاتھ جو پہلی پتلی گلی ہے نا‘ اسی میں ہے نان کباب ‘ دہی بڑوں کی دکان ۔اسی پتلی گلی کے نکڑ پر بڑی ساری مچھلی والے کی دُکان ہے۔ کمال کی مچھلی تلتا ہے آپا جی! سب سے زیادہ رش اسی دکان پر رہتا ہے‘بہت عورتیں آتی ہیں۔اماں بھی جاتی ہیں‘جمیلہ باجی بھی۔ آپا جی ! چلیں ناآپ بھی۔‘‘ ہونٹو ں پر زبان پھر کر اس نے لاڈ سے کہا
’’نہیں ……نہیں……اپنے ارشد بھائی کے سامنے یہ بات نہ کر دینا۔‘‘
’’پردے لگے ہوئے ہیں آپا جی! دو عورتیں ہیں جو اندر پلیٹیں لے کر جاتی ہیں ارشد بھائی جانتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ‘ نہیں‘ بازار تو تباہی اور بربادی کی جگہ ہے۔‘‘ اسے خوف آیا کہ کہیں یہ سب کسی کونے میں چھپے بیٹھے ارشد سن ہی نہ لیں۔
’’تو پھر میلے چلیں آپا جی! مسجد کے پیچھے جو میدان ہے نا‘ اس میں لگا ہے ۔عید سے لگا ہوا ہے‘ ابھی بہت دن لگا رہے گا۔‘‘
’’تم گئے تھے میلے میں؟‘‘ اب وہ میلے کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔
’’اماں اور باجیاں گئی تھیں۔مجھے بھی لے گئی تھیں‘ لیکن مجھے جانے ہی نہیں دیا اندر۔‘‘ اس کا منہ بن گیا۔
’’کیوں ؟‘‘ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی اور ہنستی ہی رہی۔
’’کہتے ہیں صرف عورتوں کے لیے ہے۔‘‘
’’تم تو بچے ہو۔‘‘ وہ حیران ہوئی‘سکون بھی آیا کہیں تو مرد ہارا۔
’’اماں نے کہا تھا‘ مگر وہ کہتے صرف گود کے بچے۔‘‘
وہ خوب ہنسی ’’بہت رش ہو گا۔‘‘
’’ہاں جی ‘ بہت تھا ‘ سب گئے تھے۔اماں نے سب کو اکٹھا کر لیا اوراماں نے ابا سے کہا کہ اب ہو گی ہماری بھی عید۔باجیاں کہنے لگیں !اب آئے گا مزا‘ ہم بھی مزے کریں گے گھر کے کام کرنے کے لیے ہی پیدا نہیں ہوئے صرف جی ۔روز ہی چلی جاتی ہیں مجھے چھوڑ کر ‘ پھر آ کر چڑاتی ہیں‘ بہت مزا آتا ہے وہاں اُنھیں۔‘‘
’’تو ہو گئی اُن کی عید؟‘‘ ایک سسکاری سا سانس لیا اس نے۔
’’اماں نے کہا !جاؤ اپنی آپا جی کو بھی لے جاؤ۔میں لینے آیا تو ارشد بھائی بہت ناراض ہوئے مجھ پر ‘ بس مارا ہی نہیں۔‘‘
’’تم آئے تھے عید پر ‘ کب آئے تھے‘ باہر سے ہی چلے گئے تھے‘ میں نے تو بہت انتظار کیا تھا تمہارا۔‘‘
’’دوپہر میں آیا تھا ارشد بھائی باہر ہی کھڑے تھے ۔‘‘
’’اچھا !میں نہیں جاتی میلوں ٹھیلوں میں ابوبکر ۔‘‘ اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
’’کہاں جاتی ہیں آپ پھر آپا جی؟‘‘ اس کی گھنی بھنویں ذرا سکڑ گئیں۔
’’میں؟‘‘ اسے اس سوال کے جواب کے لیے سو چ کا اتنا لمبا وقفہ چاہیے تھا کہ شاید یوم حساب آجا تا
کتنا اچھا سوال تھا ……کتنا برا جواب تھا……کوئی جواب نہیں تھا……
ابوبکر معصومیت سے خدیجہ کو دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ۔’’ہاں !آپ ہی بھلا اور کون؟‘‘
’’میں؟‘‘ وہ سوچ میں تھی بتائے کہ نا……گہرئے راز کو عیاں کرئے یا نا……
’’میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو سب جگہ چلی جاتی ہوں ابوبکر!‘‘
آج دونوں آم کے درخت تلے بیٹھے تھے ۔ارشد دُکان کا مال لینے مارکیٹ گئے تھے اورابوبکر خود ہی دُکان سے گھر آ گیا تھا۔
’’اچھا آپا جی !‘‘ اس کی بھنویں خوشی سے پھیل گئیں۔’’ کہاں کہاں آپا جی؟‘‘
’’کہاں کہاں۔آؤ میرے ساتھ ۔‘‘ اُس کا ننھافرشتوں کے پنکھ سا ہاتھ تھام کر اُس نے کہا۔
’’پہلے تو صبح سویرے اٹھ کر میں سڑک پار والے باغ میں جاتی ہوں۔وہیں جہاں اتی گھاس ہے اتی گھاس ہے کہ کیا بتاؤں۔اور اتے پھول ہیں اتے پھول ہیں کہ کیاکہوں۔‘‘ مقد س لوگوں کی سی مسکراہٹ نے اس کے گرد ہالہ بنا لیا۔
’’ہر رنگ کے آپا جی ‘یہ اتے ڈھیر سارے۔‘‘
’’ہاں !لیکن میں کوئی پھول نہیں توڑتی ۔میں جھک جھک کر ایک ایک پھول کو سونگھتی ہوں ۔انہیں اپنے گالوں سے لگاتی ہوں ۔دیر تک کھڑی انہیں دیکھتی رہتی ہوں‘سونگھتی رہتی ہوں‘تتلیاں تلاشتی ہوں ان پر۔‘‘
’’کتنی پیاری خوشبو ہوتی ہے نا ان کی……ہے نا؟‘‘
’’بہت……بہت پیاری……پور پور رچ بس جانے والی۔‘‘
وہ ناسمجھی سے خدیجہ کو دیکھنے لگا۔
’’پھر میں نیلی کھڑکیوں والے گھر کی دہلیز میں بیٹھی اماں جی کو سلام کرتی ہوں جو ہر آنے جانے والے سے سلام لیتی ہیں۔‘‘
’’سر پر پیار بھی کرتی ہیں اور پوچھتی ہیں ۔’’کدھروں آیا ایں کاکا؟‘‘
’’میں ان سے سر پر پیار لیتی ہوں اور انہیں بتاتی ہوں کہ باغ میں چہل قدمی کرنے اور پھولوں کی خوشبو لینے گئی تھی۔پھر ہمارے گھر سے دائیں ہاتھ جو دوسری گلی جو بند ہے اور جہاں ساری گلی کی عورتیں بیٹھ کر باتیں کرتی رہتی ہیں میں جا کر ان کی باتیں سنتی ہوں۔
کچھ انہیں اپنی سناتی ہوں۔پھر اس بالکنی کے نیچے سے تو ضرور گزرتی ہوں ‘ جہاں ایک چھوٹی بچی کھڑی ہوتی ہے اور آنے جانے والوں پر پانی پھینک کر چھپ جاتی ہے۔‘‘
’’بہت گندی لڑکی ہے وہ ……گندے بال……گندے کپڑے ……گندی۔‘‘ وہ منہ بنا کر بولا۔
وہ دل کھول کر ہنسی۔
’’پھر میں برف کے گولے والے کو ڈھونڈتی ہوں جو اتی دیر میں ایک گولا بناتا ہے ‘ اتی دیر میں کہ میں تھک جاتی ہوں۔‘‘
’’ہاں ‘ میں تو تھک جاتا ہوں جی ۔‘‘
’’ارے میں تو بھول ہی گئی ۔پہلے تو مجھے شیرا کو دیکھ کر ڈرنا تھا۔‘‘
’’وہ کتنا پیارا ہے نا……ہے نا……نہیں لگتا نہ ڈر اب اس سے؟‘‘
’’ہاں!اتنا پیارا ہے کہ اس سے تو بالکل ڈر نہیں لگتا ۔‘‘ وہ صحرا میں دم توڑتی صدا کی طرح بولی۔
’’بازار نہیں جاتی کیا آپ؟‘‘
’’بازار‘‘ وہ سوچ کر چپ کر گئی۔’’وہاں کیوں نہ جاؤں جہاں پر جمعرات کو نان دال بانٹی جاتی ہے۔‘‘
’’کتنے مزے کی دال ہوتی ہے نا۔اس بار تو ضرور آپ کے لیے لاؤں گا۔‘‘
’’جھوٹے۔‘‘ خدیجہ نے ہلکے سے اس کی ناک مروڑی۔
’’نہیں آپا جی ! اس جمعرات کو پکا۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔
’’اور کھوئے والی قلفی نہیں کھاتیں آپ۔میں تو روز کھاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں !مجھے کوئی پانچ روپے دیتا ہی نہیں ابوبکر ‘کیسے کھاؤں۔‘‘ وہ شرارت سے بولی
’’کل اماں پیسے دیں گی تو میں آپ کو دے دوں گا۔‘‘ اس نے سر گوشی کی۔
’’تم پیسے تو دے دو گے ‘ باقی سب کون دے گا؟‘‘ سرگوشی صورت ہی اس نے خود کلامی کی۔
ابوبکر سوالیہ اسے دیکھنے لگا۔وہ خود سر تا پا سوالیہ بن گئی ۔اس نے آنکھیں کھول لیں۔رنگ برنگی دُنیا کی سیر ختم ہوئی۔اب وہ اپنے گھر بیٹھی ہے جس گھر کی دیواریں اُونچی اٹھا دی گئی ہیں۔ جس گھر کے اندر آنے کا تو دروازہ ہے لیکن باہر جانے کا نہیں۔ وہی خارجی اور داخلی ایک دروازہ……جو مردوں کو ہی اند ر باہر کرتے ہیں……بس……بس ……
٭٭٭
کبھی کبھار اس کی جٹھانی آ جاتیں‘ جتنا ان کے پاس کہنے سننے کے لیے ہوتا اتنا ہی اس کے اپنے پاس ہوتا۔ان کی تین نو عمر بچیوں کے پاس بھی وہی سب۔ایک دن انہی کے سامنے ابوبکر آ گیا۔تینوں لڑکیاں پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستی رہیں۔
’’چچی کتنا تیز ہے یہ ابوبکر‘کیسے تیز تیز بولتا ہے‘ کتنی باتیں کرتا ہے ‘ تھکتا نہیں ہے کیا یہ‘ آنکھیں کیسے مٹکاتا ہے۔‘‘
اس دن وہ انہیں اس موٹے آدمی کے بارے میں بتا رہا تھا ‘ جو ان کے گھر کے راستے میں کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے اور اگر کوئی بچہ چیخ چلا کر گزرے تو اسے ایک دھپ لگاتا ہے ۔اس دن تیز آواز میں قلفی والے کو روکتے اس نے وہ دھپ کھائی تھی۔
خدیجہ نے محبت سے اس کی کمر مسلی۔’’ میرے پیارے ابوبکر کو کیوں مارا انہوں نے؟‘‘
’’اماں نے تو کہا کہ اچھا ہوا مجھے لگی ایک ‘اور گلا پھاڑ کر چلایا کر۔‘‘ وہ روہانسا ہو گیا۔
’’اماں نے مذاق کیا ہو گا۔‘‘
’’روز ایسے ہی مذاق کرتی ہیں؟‘‘ وہ رونے کے قریب ہو گیا۔
’’میں تو ایسے مذاق نہیں کرتی نا!‘‘
’’آپ تو بہت اچھی ہیں آپا جی!‘‘ وہ خوش ہو گیا ایک دم سے۔
’’تم سب سے اچھے ہو ……مجھے بہت پیارے ہو تم……‘‘
’’سچی آپا جی؟‘‘ وہ خوب خوش ہوا۔
اگلے دن آیا تو پھر منہ بگڑا ہوا تھا۔
’’جمیلہ باجی کہتی ہیں تمہاری آپا جی مذاق کرتی ہیں تمہارا دل رکھتی ہیں ۔تم اتنے اچھے نہیں ہو اور انہیں کیوں اچھے لگو گے بھلا؟‘‘
خدیجہ ہنس پڑی اور اسے سمجھا نہ سکی‘ابوبکر کی عمر جتنے الفاظ کہاں سے لاتی کہ وہ جان جاتا کہ وہ اس کے لیے کیا ہے۔اس کا ابابیل۔ اس کی جھری ……اس کا ہوادان……اس کی پرواز……خدیجہ کے دو پر……دو آنکھیں……اس کی کرن……آسان تھا اسے یہ سب سمجھانا بھلا؟
’’اماں سے کہنا ارشد بھائی اور آپا جی دونوں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔‘‘
وہ خوش ہو گیا ۔’’ میں ضرور کہوں گا اماں اور باجیوں سے۔یہ بھی کہ ارشد بھائی مجھے کبھی نہیں ڈانٹتے۔حسن بھائی اور نذیر بھائی کو بہت ڈانٹ پڑتی ہے مجھے نہیں۔‘‘ ابوبکر نے ننھا سا ہاتھ لہرا کر ذرا مٹک کر کہا۔
’’انہیں کیوں ڈانٹ پڑتی ہے ؟‘‘
’’سارا وقت باتیں کرتے رہتے ہیں آپا جی۔کام پر دھیان نہیں دیتے‘ میں تو سارے کام کر تا ہوں۔ارشد بھائی کہتے ہیں ‘ میں بہت اچھا بچہ ہوں اور وہ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ رکھیں گے میں ان کی ہر بات مانتا ہوں۔بھائی کہتے ہی! ابوبکر مجھے دُکان اتی سی بھی گندی نظر نہ آئے۔میں ہر وقت دُکان صاف کرتا رہتا ہوں اور پھر بھائی جان کہتے ‘ جا بجلی کی طرح جا اور ایک پیالہ ربڑی تین قلفیاں ڈلوا کر لے آ۔میں یوں جاتا ہوں اور شوں آتا ہوں۔‘‘ اس نے بھاگ کر دکھایا۔
وہ ہنسی’’ واہ!کہاں ہے ربڑی کی دُکان؟‘‘
’’بازار سے نکل کر بس اسٹاپ کی طرف۔بہت رش ہوتا ہے وہاں پر ‘پرمیں جلدی لے آتا ہوں۔‘‘
’’تم کیسے جلدی لے آتے ہو؟‘‘ کھانا باندھ کر خدیجہ نے ایک طرف رکھا اور باداموں کا حلوہ اسے کھانے کے لیے دیا۔دونوں باورچی خانے میں تھے‘وہ اسٹول پر بیٹھا تھا اور وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔
’’ملک جی! مجھے دے دیں۔۔ملک جی پہلے مجھے فارغ کر دیں۔کہتا جاتا ہوں‘کہتا جاتا ہوں۔وہ کہتے ہیں اف یہ لڑکا تو کان کھا جائے گا پہلے اسے فارغ کرو۔‘‘
ملک جی……دکان……رش……اور اس کے الفاظ وہ منظر کو نگاہوں میں لا کر خوب ہنسی۔
’’آپ نے ملک کی ربڑی کھائی ہے آپا جی۔ٹھنڈی ٹھار قلفیاں ڈلوا کر؟‘‘
’’ربڑی تو کھائی ہے ملک کی تھی یا نہیں ‘ یہ معلوم نہیں۔‘‘
’’اگر آپ نے ملک کی کھائی ہوتی تو آپ روز منگوا کر کھاتیں اتنی مزے کی ہوتی ہے۔‘‘ حلوہ کھاتے اس نے ربڑی کا چٹخارہ لیا۔
’’منگوا کر کھاؤں گی ‘ضرور کھاؤں گی۔‘‘ خدیجہ نے ٹفن اس کے ہاتھ میں دے دیا‘ہاتھ سے اس کے بال سنوارے اور اس کی گھنی پلکوں کو محبت سے دیکھا۔
’’تم بہت پیارے ہو ابوبکر !‘‘ اسٹول سے وہ اتر گیا تو خدیجہ نے اسے روک کر کہا۔وہ خوش ہو کر خدیجہ کو دیکھنے لگا۔
’’سچی آپا جی؟‘‘ بچکانہ وجد طاری کرتی خوشی۔
’’ہاں !تم فرشتے سے ہو۔‘‘
’’فرشتہ‘‘ وہ مسکرایا‘مقدس مسکراہٹ ۔’’فرشتہ‘فرشتہ‘‘ کرتا وہ چلا گیا۔
٭٭٭
رات ارشد آئے۔اس نے بہت دنوں بعد گلابی سوٹ پہن کر بال کھولے تھے۔اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں اور اس سے بھی خاص بات یہ کہ وہ مسکرانے لگی تھی۔اس نے ربڑی کی فرمائش کی۔اور اگلی ہی رات ربڑی آ گئی۔
’’کہاں سے لی آپ نے یہ؟‘‘ ہلکی مسکراہٹ لیے اس نے پوچھ لیا۔
’’بازار سے ہی لی ہے اور کہاں سے لینی تھی۔‘‘ ارشد چڑ سے گئے ۔وہ قیامت کی نشانیاں اور دجال کی آمد نامی کتاب پڑھ رہے تھے۔
’’لیکن ملک ربڑی والے کی دُکان تو بس اسٹاپ پر ہے ۔بازار سے کیوں لی۔وہیں سے لے لیتے۔‘‘
کتاب پڑھتے ارشد اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کر رہے تھے۔
’’تجھے کیسے پتا کہ ملک ربڑی والے کی دُکان بس اسٹاپ پر ہے؟‘‘کنگھی کرتے انگلیاں رک گئیں۔
ارشد نے اپنی نظریں اس کے آر پار گاڑ دی۔ اس کا جی چاہا جل کر بھسم ہو جائے۔ان نظروں میں ہر وہ رنگ تھا جو ذرا سی عزت رکھنے والی عورتیں بھی اپنے لیے پسند نہیں کرتیں۔جن کے سایوں سے ہی وہ بے سایہ ہو جاتی ہیں۔جن کی چاپ پر ہی وہ زمین میں خود کو گاڑ لینا چاہتی ہیں۔ہاں اب وہ کامل وہی مرثیہ نگار بن گئی ‘ جو اپنے ہی مرثیے پر بہت روئی……روتی رہے گی……
’’بس ایسے ہی……باتوں میں بات نکلی……وہ ……‘‘ اس کی زبان صفائی دینے سے انکاری ہوئی۔
’’کس کی باتوں میں بات نکلی؟‘‘ کتاب ایک طرف رکھ کر وہ تقریباََ دہاڑے۔
شیر آیا……شیر آیا……ابابیل ڈر کر پھر اڑا……وہ سہم گئی……شیر کیوں آیا……
’’ابوبکر کی باتوں ……وہ بتا رہا تھا۔‘‘ خدیجہ نے خود کو چھپانے کے لیے کوئی کونا تلاش کرنا چاہا لیکن سارے کونوں کی لگامیں ارشد کے ہاتھوں میں تھیں۔اُسے معلوم ہوا اُس کے ہاتھ تو واقع کچھ بھی نہیں ہے۔کچھ بھی نہیں……چچ چچ……افسوس……
ربڑی کا رنگ سیاہ پڑھ گیا……وہ زہر آلود ہو گئی……اُس کا زہر چار سو پھیل گیا ……
وقفے وقفے سے کئی بار اسے گھورنے کے بعد ارشد سو گئے۔وہ سو نہ سکی۔
جن پیاری باتوں کے مناظر کھینچ کر انہیں دیکھتے دیکھتے وہ میٹھی نیند سو جایا کرتی تھی آج وہ اسے دکھائی نہ دیے۔
اور پھر……
کئی دن گزرے……ابوبکر نہ آیا ……پھر ہفتے بھی گزرنے لگے……
’’اُس کے امتحان بھی تو ہونے والے تھے نا۔‘‘
وہ رات کو ڈر کر اُٹھ جاتی تو سوچتی۔رونے جیسی ہو جاتی۔جی چاہتا کہیں کوئی عدالت لگوا لے اور کٹہرے میں خود کو کھڑا کر کے خوب روئے۔اتنا روئے کہ جج اُس کے حق میں فیصلہ دے دیں۔بس اب وہ دیر نہ کرئے ……بہت ہوا……بہت ہی ہو گیا……
’’وہ منا نہیں آتا اب ارشد؟‘‘
صبح سویرے اماں پوچھ رہی تھیں۔وہ بل والے پراٹھے بنا رہی تھی۔جعفری سے اس نے برآمدے میں بیٹھی اماں کو محبت سے دیکھا۔ایک پراٹھا توے پر تھا ایک ہاتھ میں……
’’اسے سامنے والی دکان میں رکھوا دیا ہے اماں۔بہت سر کھاتا تھا۔‘‘
’’ہاں بولتا تو بہت تھا۔‘‘ اماں نے تائید کی۔
توئے کا پراٹھا جل گیا ہاتھ کا لٹک گیا……بہت ہوا……بس بہت ہو گیا نا……جج نے فیصلہ دے دیا نا……
چاہ بابل سے توبہ کی صدائیں بلند ہوئیں……
شیر آیا……شیر آیا……شیر آ گیا……
ٹھک ……ٹھک ……جھری میں کیل گڑے…… تختے لگے……
بعد ازاں شام ڈھلے خدیجہ کے سسر نے مومی کاغذ کی کتابوں میں سے ایک کتاب کو پڑھتے اس کی دبی دبی ‘ گھٹی گھٹی ہچکیوں کو سنااور ساس نے بھی۔
’’پگلی ہے ‘ اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔وہ ضرور صاحب اولاد کرے گا۔‘‘
دونوں چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے رہے۔
ختم شد
Sumaira Hameed
About the Author: Sumaira Hameed Read More Articles by Sumaira Hameed: 5 Articles with 6256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.