پیامِ گل

’’صاحب!یہ دیکھے کس صفائی سے جڑوں سمیت پودا نکالا ہے‘‘۔ فیض مالی نے اشعر کوقریب آتے دیکھ کر کہا۔’’ ہاں! ٹھیک ہے۔چلو اسے باہر لے چلو۔‘‘

وہ پودا اٹھا کر ان کے ساتھ چل تو دیا مگر اسے باہر لگانے میں ابھی بھی ہچکچا رہا تھا۔’’میں تو اب بھی کہتا ہوں صاحب اسے باہرنہ لگائیں۔کوئی چلتا پھرتا اسے اْڑا لے گا‘‘۔ اشعر نے لاپروائی سے کہا،’’ ارے نہیں بابا! یہ کوئی کچی بستی تھوڑی ہے۔ سب ہی کے گھروں کے باہر سبزہ لگا ہے، پھول لگے ہیں۔ کون لے جائے گا اسے بھلا‘‘۔۔۔ اور اپنی نگرانی میں گیٹ سے باہر بنی سبزے کی پٹی پر ایک مناسب سی جگہ منتقل کر دیا۔عمدہ قسم کے سرخ گلاب کے پودے ان کے دوست نے لاڑکانہ سے بھیجے تھے۔ کچھ پودے تو انہوں نے گھر کے اندر لگالئے تھے مگر یہ ایک پوداوہ باہر لگانا چاہتے تھے۔یہ ایک پوش علاقہ تھا جہاں دن میں بھی سناٹے کا راج رہتا تھا۔ گھروں کے دروازے اسی وقت کھلتے جب کسی گاڑی کو اندر داخل ہونا ہوتا یا باہر نکلنا ہوتا۔ صاف ستھری سڑکیں۔۔ ہر گھر کے آگے سبزہ اور پھولوں کے لہلہاتے پودے۔۔ بعض گھروں میں شوقیہ اعلیٰ نسل کے کتے بھی پلے ہوتے لیکن اتنے مہذب کہ کسی کے لان میں جا کر روشیں خراب نہ کرتے ، بس کچھ بھاگ دوڑ کرتے اور اپنے لیئے رکھے گئے ملازم کے ساتھ گھروں کو واپس ہو جاتے۔۔

اشعر جب اپنے گھر سے نکلتا تو اپنے پودے کے پاس ضرور ٹہرتا۔ پودے نے نئی زمین کو قبول کر لیا تھا۔نئے پتے آنے لگے تھے۔

ایک دن اشعر نے دیکھا کہ پتوں کے بیچ دو نئی کلیاں بھی سر اٹھا رہی ہیں یعنی چھ سے سات دن میں پھول اپنی بہار دکھانے والا تھا۔اسکو ایک انوکھا خیال آیا۔چھ ہی دن تو باقی ہیں اگر قدرت ساتھ دے تو وہ 14 فروری کو اپنے پودے کا پہلا گلاب اپنے ہاتھوں سے ماہم کو پیش کرے گا ۔ اس کی شادی کو تین سال کا ہی عرصہ تو ہوا تھا ۔اب تو اس کے پاس جیتی جاگتی گڑیا وردہ بھی تھی ۔ وہ اپنی اس چھوٹی سی فیملی کے ساتھ اس دن کو یادگار بنانا چاہتا تھا ، اس نے اپنی بیٹی کے لیئے بھی بہت خوبصورتْ سر خ نیٹ کا فراک خرید رکھا تھا ۔

جوں جوں کلی نمایاں ہو رہی تھی اْن کے دل کی کلی بھی کھلتی جا رہی تھی ۔شام کو دفتر سے واپسی پر گاڑی سے اترے تو ڈرائیور سے کہنے لگے : بس اب دیکھنا صبح تک یہ گلاب کھل چکا ہو گا ۔ڈرائیور : جی صاحب کہ کر گاڑی لاک کرنے لگا ۔گھر کے ماحول میں جا کر وہ وقتی طور پر اپنے پودے کو بھول گیا ۔

شومئی قسمت نا جانے کہاں سے ایک آوارہ کتا جو کئی دن سے آس پاس کی گلیوں میں گھوم رہا تھا اس گلی میں آ ن ٹپکا ۔وہ دوپہر سے ہی اس گلی میں ڈیرہ ڈالے بیٹھا تھا ۔ گھروں کے چوکیدار گیٹ بند کرکے اندر بیٹھے تھے ۔کبھی کوئی گاڑی سبْک سی سر سڑاہٹ کیساتھ گزر جاتی ۔ماحول کتے کے لئے بڑا سازگار تھا۔ کچھ دیر وہ اشعر کے بیرونی لان کے باہر کھڑا اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے ادھر اٌدھر دیکھتا رہا۔پھر اسکی توجہ نئے کھلے گلاب کی طرف ہو گئی۔۔۔اپنی آنکھوں کو ترچھا کیا، سر موڑا، ہر زاویے سے پرکھا۔ نہ جانے کیوں سرخ رنگ دیکھ کر اسے بہت تیز بھوک کا احساس ہوا۔وہ سرخ گلاب جسے صبح کی شبنم سے غسل کر کے اپنے پورے جوبن پر آنا تھا، ایک جھٹکے سے اسکے غلیظ دانتوں کے بیچ میں آگیا تھا۔ شاید کتے نے اسکو گوشت کا ٹکڑاسمجھا تھا۔اس نے پھول کو بھنبھوڑا لیکن جب اسکا مزہ بوٹی جیسا نہ پایااور کانٹوں نے بھی مزاحمت کی تو وہیں اگل دیا اور اپنے پیروں سے ارد گرد کے مزید پودے کچلتا ہوا پنجوں سے چپ چپ کی آوازیں نکالتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

صبح اتوار تھا۔مالی کے آنے کا دن۔۔۔سب سے پہلے مالی کی نظر روش کی تباہی پر پڑی۔چوکیدار نے بھاگم بھاگ اشعر کو اطلاع دی۔وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کرباہر آگئے۔ ا’’وہ! یہ کیا ہوا۔۔یہ آج پورا کھل جانا تھا‘‘۔۔۔ انہوں نے افسوس سے کہا۔ فیض مالی نے کہا ’’صاحب ! میں نے تو آپکو منع کیا تھاکہ گھر کے باہر اتنا اچھا گلاب نہ لگوائیں ، اسے کوئی نہیں رہنے دے گا۔ اندر ہوتا تو محفوظ ہوتا‘‘۔چوکیدار نے رائے ظاہر کی کہ یہ تو کسی جانور کا کام لگتا ہے۔ پھول توڑ کے سارا پودا توڑ دیا۔

اسی وقت شور کی آواز پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دو گھر چھوڑ کر ہاشمی صاحب کے چوکیدارنے لان میں گھسے آوارہ کتے کو ڈنڈا مار کر نکالا تھا اور وہ چیختا ہوا سڑک پہ بھاگ رہا تھا۔

اشعر افسردگی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ ماہم وردہ کو گود میں لئے سامنے ہی کھڑی تھی۔ اپنے بابا کو دیکھ کر بچی نے ہاتھ آگے پھیلا دیے۔ وردہ کواپنی گود میں لیتے ہوئے وہ نہایت سنجیدہ تھا۔اس کے ذہن میں ایک ایسا خیال آیا تھا جس سے وہ سر سے پاؤں تک کانپ گیا۔ بچی کو سینے سے لگا کرماہم سے کہنے لگا ’’آج میری پھول سی بچی کو سرخ فراک نہ پہنانا ۔باہر کتاگھوم رہا ہے۔ کہیں کوئی۔۔۔۔‘‘اس سے آگے وہ کچھ نہ بول سکا۔۔۔
( توقیر عائشہ )
Afsana Mehar
About the Author: Afsana Mehar Read More Articles by Afsana Mehar: 12 Articles with 10242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.