امتحان
(Babar Nayab, Manchan Abad)
سرد اور دُھند بھری رات اپنی حشر سامانیوں
کے ساتھ رخصت ہو رہی تھی سحر اپنا جلو ہ افروز ہونے کی نوید سنانے لگا -
کالی اندھیری رات نے آخری ہچکی بھری اور مولوی چراغ دین وقت مقررہ پر جاگ
اُٹھا چارپائی سے اُٹھ کر مولوی چراغ دین نے نلکے کے پانی سے وضو کیا اور
پھر مسجد میں جا کر اذان دی مولوی چراغ دین کی خوش نما آواز نے اﷲاکبر اﷲاکبر
کی بازگشت بلند کی اذان دینے کے بعد مولوی چراغ دین نے دو رکعت سنت ادا کی
اور پھر نمازیوں کے آنے کے انتظار میں بیٹھ گیا ۔آج بھی فجر کے وقت صرف دو
نمازی ہی مسجد میں آئے تھے ایک نمازی فضل دین تھا جو کہ انتہائی ضعیف آدمی
تھا مگر پھر بھی نماز مسجد میں باجماعت ہی ادا کرتا تھا دوسرا نمازی چودھری
فلک شیر تھا جو کہ گاؤں کی پنچایت کا سربراہ تھا ۔مولوی چراغ دین نے جماعت
کروائی اور پھر سلام پھیرنے کے بعد چودھری فلک شیر سے مخاطب ہوا ،چودھری
صاحب آپ کوشش کیا کریں دو چار نمازیوں کو ساتھ میں لانے کی اتنے بڑے گاؤں
میں صرف دو نمازی ہی فجر کی نماز پر آپاتے ہیں ۔
مولوی صاحب کیا کروں میں تو لوگوں کو بہت کہتا ہوں مگر مجال ہے جو کوئی عمل
کرتا ہو مگر اب جب پنچایت لگے گئی نا تو سب کو شرم دلاؤں گا ،چودھری فلک
شیر نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
چودھری صاحب بات شرم کی نہیں احساس کی ہے خیر یہ تو اﷲکی رضا ہے جسے چاہے
توفیق دے ہمارا کام تو محبت اور تحمل کے ساتھ تبلیغ کرنا ہے اﷲپاک بہتر کرے
گا مولوی چراغ دین نے یہ کہ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کر لیے اور پورے خشو ع
و غضوع کے ساتھ دعا کروائی-
مولوی چراغ دین نے اسی گاؤں میں آنکھ کھولی تھی مولوی چراغ دین کا والد
حاجی غلام دین اسی مسجد کا امام تھا مولوی چراغ دین جب بچپن کی دہلیز پر
پہنچا تو والدہ کے انتقال جیسا صدمہ برداشت کرنا پڑا وہ وقت بہت کٹھن تھا
جب ماں کی ممتا سے مولوی چراغ دین محروم ہو گیا۔ مگر باپ کی شفقت اور محبت
نے مولوی چراغ دین کو ڈولنے نہیں دیا حاجی غلام دین نے بڑی توجہ اور اُنسیت
کے ساتھ چراغ دین کی پرورش کی اور اُسے دین کی ایک ایک بات انتہائی باریک
بینی سے سمجھائی یہ باپ کی تربیت کا اثر تھا کہ چراغ دین ایک سلجھا ہوا نیک
انسان کے روپ میں ڈھلتا چلا گیا حاجی غلام دین کی زندگی نے بھی زیادہ وفا
نہ کی جب چراغ دین بیسویں سال میں تھا تو حاجی غلام دین نماز ادا کرتے ہوئے
اﷲکو پیارے ہو گئے آگے پیچھے کوئی خاص رشتے دار تھا نہیں باپ کا سایہ بھی
چراغ دین سے اُٹھ گیا۔
مگر اﷲکے رضا پر چراغ دین راضی رہا اور باپ کا خلا بھی چراغ دین کے لیے
اذیت ناک تھا یوں چراغ دین کی زندگی غموں سے عبارت رہی مگر چراغ دین نے
خندہ پیشانی سے تمام مصائب کا سامنا کیا حاجی غلام دین مرحوم کی نیک نامی
کو مد نظر رکھتے ہوئے گاؤں کے لوگوں نے چراغ دین کو بے آسرا نہیں ہو نے دیا
۔
خصوصی طور پر چودھری فلک شیر نے چراغ دین کا خوب ساتھ دیا اور چراغ دین کو
اُسی مسجد کا امام بنوا دیا چراغ دین کا کھانا چودھری فلک شیر کے گھر سے
آتا تھا اور چراغ دین گاؤں کے بچوں کو قرآن پاک بھی پڑھاتا تھا بہت ہی کم
وقت میں چراغ دین کی شرافت اور پاکیزگی دیکھ کر گاؤں کے لوگ چراغ دین کی
بہت عزت و قدر کرنے لگ پڑے بلکہ دین کے مسائل پوچھنے کے لیے مولوی چراغ دین
کے پاس آیا کرتے مولوی چراغ دین آسان لفظوں میں شرعی باتیں گاؤں کے لوگوں
کا بتایا کرتا اور ساتھ یہ بھی تاکید ضرور کیا کرتا کہ نماز کی طرف آ جاؤ
کیونکہ یہی ایک رستہ ہے جو کامیابی کی طرف لے جائے گا مولوی چراغ دین مسجد
کے ساتھ بنے ہوئے حجرے میں رہتا تھا ۔
ابھی تک چراغٖ دین غیر شادی شدہ تھا آج جب مولوی چراغ دین نے ظہر کی آذان
دی تو خلاف معمول بڑی تعداد میں لوگوں کی مسجد میں آمد ہوئی چراغ دین کو
بہت خوشی ہوئی چراغ دین نے دل ہی دل میں رب کائنا ت کا شکر ادا کیا کہ آج
کافی لوگ نماز کے لیے آئے ہیں جماعت کے بعد چراغ دین نے دعا کروائی جب
مولوی چراغ دین نے یہ فقرہ کہااے اﷲ توہم سے راضی ہو جا ہمیں اس قابل بنا
دے کے تیرے دربار پر حاضری دے سکیں تجھے سجدہ کر سکیں تیرے پیارے نبی کریم
ﷺکی سچے پکے دل سے اتباع کر سکیں تو ہمیں اس قابل کر دے تو ہمیں توفیق دے
دے یہ کہتے ہوئے چراغ دین کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور پھر آمین کہ کر
دعا کو اختتام پذیر کیاچراغ دین کی دعا نے ایک ایک سماع باندھ دیا سنت اور
نوافل ادا کرنے کے بعد تمام نمازی باری باری جانے لگے نماز ادا کرنے کے بعد
چودھری فلک شیر مولوی چراغ دین کے پاس آ یا تب تک چراغ دین بھی نماز ادا کر
چکا تھا چودھری فلک شیر نے چراغ دین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،
ابھی گاؤں میں پنچایت لگ رہی ہے آپ کی بھی ضرورت پیش آئے گی آپ بھی پنچایت
میں تشریف لائے گا ۔چودھری فلک شیر کی بات سن کر مولوی چراغ دین حیران ہوا
اور فلک شیر کو کہا ۔ چودھری صاحب میں پنچایت میں آ کر کیا کروں گا
تب چودھری فلک شیر نے جواب دیا ،
آج ایک ایسی عورت کا مقدمہ ہے جس پر الزام ہے کہ وہ گاؤں میں بدکاری پھیلا
رہی ہے لہذاُ اس کا ہم نے فیصلہ کرنا ہے آ پ آئیں گئے تو فیصلہ کرنے میں
آسانی پیش آئے گی تب چراغ دین نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کہا ، ٹھیک ہے
جیسا آ پ مناسب سمجھیں ا ﷲنے چاہا تو میں ضرور آؤں گا
گاؤں کی پنچایت بیٹھ چکی تھی لوگوں کا ایک ہجوم اُمڈ آیا تھا پنچایت کے بڑے
لوگ نفاست کے ساتھ لگی ہوئی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان تھے اس پسماندہ گاؤں
کے زیادہ فیصلے پنچایت ہی کرتی تھی اکا دکا ہی کیس ہو ں گئے جس کے فیصلے
عدالت میں ہوئے ہوں گئے ورنہ یہاں مقامی پولیس کو بھی دخل دینے کی اجازت نہ
تھی اور ویسے بھی پولیس یہاں کا رخ بھی نہیں کرتی تھی چودھری فلک شیر کے
آنے پر پنچایت کے باقی لوگ کھڑے ہو گئے چودھری فلک شیر اپنی مخصوص کرسی پر
بیٹھ گیا اور مقدمہ شروع ہو گیا ہجوم کے بالکل سامنے ایک عورت کالا برقع
اُوڑھے کھڑی تھی ساتھ میں اُس کے دو بچے بھی تھے ایک کی عمر بارہ سال کے لگ
بھگ ہو گئی دوسرا دس سال کا لگ رہا تھا بچوں کے لباس سے غربت کی جھلک نظر آ
رہی تھی ۔
چودھری فلک شیر نے کڑک دار آواز میں عورت سے مخاطب ہوا ۔
زبیدہ بی بی تجھ پر الزام ہے تو نے گاؤں میں بدکاری پھیلائی تم اپنی صفائی
میں کیا کہنا چاہتی ہوں
فلک شیر کے اس سوال پرزبیدہ کی آنکھوں میں آنسو کی لڑیا ں شروع ہو گئیں
چودھری فلک شیر کے ساتھ بیٹھا ہوا ایک آدمی بولا ۔
بس بس یہ مگر مچھ کے آنسو مت بہاؤتیرے گھر میں کافی لوگوں نے اجنبی لوگو ں
کو آتے جاتے دیکھا ہے اب تو بس اپنی فکر منا۔
اس سنگسار کر دو مار ڈالوں گندی عورت کو ہجوم میں سے لوگوں نے فقرے کسنے
شروع کر دیے،
تب چودھری فلک شیر نے ہجوم سے کہا ، آپ لوگ خاموش ہو جائیں جو بھی فیصلہ ہو
گا وہ گاؤں کی بہتری کے لیے ہو گا تب ہجو م میں خاموشی چھا گئی ۔
دیکھو زبیدہ تجھ پر جو الزام لگا ہے وہ کسی ایک نے نہیں لگایا بلکہ درجنوں
لوگو ں نے لگایا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ جھوٹ نہیں بول سکتے تو اپنی
صفائی میں جو کہنا چاہتی ہے کھل کر کہو ، تب زبیدہ نے سرجھکاتے ہوئے جواب
دیا ،لوگ ٹھیک کہتے ہیں میں سچ میں ہی ایک طوائف کا روپ دھا ر چکی ہوں مجھے
مار ڈالیں اور میرے بچوں کو بھی مار ڈالیں یہ کہہ کر زبیدہ اپنے بچوں سے
بغل گیر گئی بچے بھی ماں کو دیکھ کر رونے لگ پڑے ۔
یہاں گاؤں کی پنچایت کو موت کے فیصلہ پر اختیار نہیں اور نہ ہی ہم قانون
ہاتھ میں لیں گئے لیکن تم اپنے اوپر لگنے والے الزام کا اقرار کر رہی ہو
فیصلہ تو ہوگا اور تجھے وہ بھگتنا بھی پڑے گا ، چودھری فلک شیر نے غصے سے
زبیدہ کو کہا ۔
پھر چودھری فلک شیر نے ہجوم پر ایک نظر ڈالی اور ایک آدمی کو بلا کر پوچھا
، مولوی چراغ دین صاحب تشریف لے آئیں ہیں یا نہیں تب آدمی نے جواب دیا ، جی
وہ آ چکے ہیں ہجوم کے پیچھے بیٹھے ہیں تب فلک شیر نے کہا ، جاؤ اُنھیں بلا
لاؤ پھر آدمی چلا گیا اور چراغ دین کو ساتھ لے آیا
مولوی صاحب آ پ نے یقینی طور پر ساری باتیں سن لی ہوں گی آپ کی کیا رائے ہے
اس حوالے سے، چودھری فلک شیر نے چراغ دین سے پوچھا ۔
ہاں جی میں نے ساری باتیں سن لی ہیں جو الزام اس خاتون پر لگایا گیا وہ بھی
اور جو خاتون نے جواب دیا وہ بھی ، چراغ دین نے جواب دیا
پھر کیا رائے ہے آپ کی اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے چودھری فلک شیر نے
پوچھا۔ وہی سلوک کیا جائے جو انصاف کا تقاضہ ہو ورنہ روز قیامت انصاف نہ
کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے چراغ دین نے چودھری فلک شیر کو جواب دیا
۔
مگر کوئی بھی سزا تجویز کرنے سے پہلے آپ نے اس خاتون سے پوچھا ہے کہ اُس نے
یہ پیشہ کیوں اختیار کیا ،مولوی چراغ دین نے فلک شیر سے سوال کیا۔
ہمیں اس سے کو ئی غرض نہیں مولوی صاحب اس نے یہ پیشہ کیوں اختیار کی ہمیں
تو جرم دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے ، چودھری فلک شیر نے سرد انداز میں جواب دیا
، پھر معاف فرمائیے گا چودھری صاحب آپ درست فیصلہ نہیں کر رہے آپ کا عدل
عدل نہیں ، مولوی چراغ دین کے اس سوال پر ہجوم میں ایک سناٹا چھا گیا
چودھری فلک شیر کے چہرے پر برہمی کے آثار اُبھر آئے تب فلک شیر نے اپنے غصے
کو ضبط کرتے ہوئے زبیدہ سے مخاطب ہوا اور کہا ۔
زبیدہ بی بی بتاؤ تم نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا تب زبیدہ نے ہجوم کو دیکھا
اور پھر چودھری فلک شیر کو درد بھرے انداز میں جواب دیا۔
جب خاوند کی وفات کے بعد رشتہ داروں نے چند دن بعد حال تک نہ پوچھا جب میرے
بچے بھوک سے تڑپنے لگے جب گھر میں فاقے ہونے لگے لوگوں کے گھروں میں کام
کرنے پر بھی ہاتھ کچھ نہ آیا بلکہ صرف میری جوانی کی قیمت لگی لوگوں کی
بھوکی نظروں محلے اور رشتہ داروں کے طنز کے تیروں اور معاشرے کے سبھی عزت
داروں نے ذلیل پر ذلیل کیا تو میں ذلیل ہونے پر مجبور ہو گئی مگر یہ سب کچھ
اپنے بچوں کی بھوک کی خاطر کیا ورنہ مجھے تو بھوکا مرنا منظور تھا یہ ہے
میرا جرم اور مجھ پر الزام عائد کرنے والے زیادہ تر وہی ہیں جو رات کے
اندھیرے میں میری شرم کو تار تار کرتے رہے ۔
زبیدہ کے اس جواب پر چودھری فلک شیر حیران پریشان ہو گیا اور ہجوم میں بھی
خاموشی چھا گئی کافی لوگوں کے سر جھُک سے گئے ۔
سن لیا آپ نے اس خاتون کا اقرار جرم اگر یہ مجرم ہے تو اس سے پہلے آپ سب
گاؤں والے مجرم ہیں جنہوں نے اس خاتون کو یہ پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا
مُفلسی سے تو ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے بھی پناہ مانگی تھی ، تنگ دستی اور
غربت توا ﷲ معاف فرمائے کفر تک لے جاتی ہے آپ کا ہمسایہ بھوکا سوتا رہا اور
آپ پیٹ بھر کر کھاتے رہے ہمار ا پورا گاؤں اس جرم میں برابر کا شریک ہے اگر
اس خاتون کو سزا دینی ہے تو سب پہلے آپ سب اپنے آپ کو سزا دیں ۔ مولوی چراغ
دین کی ان باتوں نے سب کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔
آ پ سچ کہتے ہیں مولوی صاحب میں واقع درست انصاف نہیں کر پایا آج سے میں اس
انصاف کی کرسی کا اہل نہیں مگر ذاتی طور پر ایک باپ کا ضرور اہل ہوں یہ کہ
کر چودھری فلک شیر کُرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور زبیدہ کے پاس جا کر اُس کے
سر پر ہاتھ رکھا اور کہا آ ج سے تم میری بیٹی ہو ۔
یہ سُن کر سب میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی لوگوں نے چودھری صاحب زندہ باد
کے نعرے لگانے شروع کر دیے یہ سن کر زبیدہ رونا شروع ہو گئی اور روتے ہوئے
کہنے لگی ،
چودھری صاحب میں کسی کی بیٹی بننے کے لائق نہیں میں داغداد ہو چکی ہوں آپ
کیوں اپنی عزت کو رُسوا کرنا چاہتے ہیں اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں کب
کی کر چکی ہوتی ۔
اﷲپاک جب اپنے کسے بندے پر کرم اور فضل والا معاملہ فرماتے ہیں تو اُس کو
یوں نہیں ٹھکراتے چودھری صاحب نے جو عظیم فیصلہ کیا ہے اُسی میں ہی آپکی
اور ہم سب کی بھلائی ہے پاک ہے وہ ذات جس نے تمہیں تاریکی سے روشنی کی طرف
لے جانے والا کرم فرما دیا ۔ اب مایوسی والی باتیں مت کرو اور جو مل رہا ہے
اُسے قبول کر لو ، مولوی چراغ دین نے زبیدہ کو کہا ،تب زبیدہ نے سر جھکا
لیا اور پھر کہا ،
ٹھیک ہے مگر میں تو ساری زندگی چودھری صاحب پر بوجھ بنی رہوں گی مجھے تو
کوئی اپنا بھی نہیں سکتا میرے گناہوں کا بوجھ کو ن اُٹھا سکتا ہے
تب مولوی چراغ دین نے جواب دیا ۔
ندامت کا ایک آنسو توبہ کا ایک لفظ انسان کے تمام گناہوں کا مداوا کر سکتا
ہے اگر وہ سچے دل سے رب کائنات سے معافی مانگ لے اُس کے حضور پیش ہو کر سچے
دل سے توبہ کر لے اﷲپاک بہت رحیم ہے اُسکی رحمت انمول ہے آ پ اﷲپاک سے توبہ
کریں وہ اپنے بندوں کو ضرور معاف فرما دیتا ہے ایک بار بندہ اُس کے دربار
میں پیش ہو کر اُس سے معافی مانگے تو سہی اور میں چودھری فلک شیر کے توسط
سے آپ کو نکاح کا پیغام دیتا ہوں اگر آپ رضامند ہیں تو میں فی الفور آ پ کو
اپنی منکوحہ بنانا چاہتا ہوں ۔ مولوی چراغ دین کی اس بات سے تو گو یا ایک
دھماکہ سا ہو گیا لوگ حیران ہو کر مولوی چراغ دین کو دیکھنے لگ گئے تب
چودھری فلک شیر نے چراغ دین کو خود سے بغل گیر کیا اور زبیدہ کے سر پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے کہا ، بس اب گھر چلوں میرے پاس اب میں تمہاری کوئی بھی بات
نہیں سنوں گا تب زبیدہ کی آنکھوں سے زار قطار آنسو بہنے شروع ہو گئے جو کہ
خوشی کے آنسو تھے چودھری فلک شیر زبیدہ کو لیکر گھر چلا گیا اور دوسر ے ہی
دن سادگی کے ساتھ مولوی چراغ دین کے ساتھ زبیدہ کا نکاح ہوا مولوی چراغ دین
نے اُسی رات شکرانے کے نوافل ادا کیے خالق کائنات کا شکر ادا کیا جس نے ایک
بڑے امتحان میں چراغ دین کو سُرخرو کر دیا گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں مولوی
چراغ دین کی عزت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی زبیدہ مولوی چراغ دین کے نام کے
ساتھ منسوب ہو کر شرم و حیا کا ایک پیکر بن گئی زبیدہ گھنٹوں سجدے میں پڑے
اﷲپاک کا شکر ادا کرتی رہتی جس نے ایک نئی خوبصورت زندگی بخشی ۔انسان کے
گناہوں کی طوالت کتنی بھی ہو مگر رب کریم کی رحمت کی وسعت انسان کے سوچ و
خیال سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔ |
|