نیلے پانیوں میں

زندگی بھی تو انہی راستوں کی طرح ہے جہاں متعین منزل کا پتہ ہی نہیں بس چلتے جانا ہے اور چلتے جانا ہے، آخری سفر گاہ کیطرف پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ یہی تو منزل تھی پھر اتنی بھاگ دوڑ کیوں۔۔۔؟؟ ایک سراب کے پیچھے کیوں اپنا آپ گنوایا۔۔۔؟؟ جب سے خدا کے کاموں میں اپنی جمع تفریق شروع کی تو گویا ہر چیز تقسیم ہی ہوئی۔۔۔۔۔ (فائزہ عمیر)

بے شک خدا “مسبب الاسباب“ ہے

السلام علیکم!
معزز قارئین ویسے تو میں شاعری لکھتی ہوں لیکن آج دل چاہا زندگی کے کچھ حقائق آپ لوگوں سے شئیر کروں ۔۔۔۔۔ “نیلے پانیوں میں“ ماضی و حال کے سفر سے لے کر فنا و بقا کی وادیوں میں رہنے والی لڑکی کی سوچ عکاسی کرتی میری ایک چھوٹی سی کاوش ہے۔ اُمید کرتی ہوں آپ میری اس کاوش کو سراہیں گے اور اپنی رائے بھی دیں گے ۔۔۔۔۔

اپنے آفس کی بالائی منزل سے دیوار کے ساتھ سہارالیے اپنے کام سے بے نیاز کھڑکی کی اوٹ سے وہ بدستور سڑک پر چلتی ٹریفک کو بغور دیکھے جا رہی تھی، اُلجھے ہوئے ذہن میں پیچیدہ سوالات کی بوچھاڑ تھی۔۔۔۔۔۔ کب ایک جھروکے سے یادوں کا گلستان مہکنے لگا اور آنکھوں سے ساون برسنے لگا۔۔۔۔۔
زندگی بھی تو انہی راستوں کی طرح ہے جہاں متعین منزل کا پتہ ہی نہیں بس چلتے جانا ہے اور چلتے جانا ہے، آخری سفر گاہ کیطرف پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ یہی تو منزل تھی پھر اتنی بھاگ دوڑ کیوں۔۔۔؟؟ ایک سراب کے پیچھے کیوں اپنا آپ گنوایا۔۔۔؟؟

جب سے خدا کے کاموں میں اپنی جمع تفریق شروع کی تو گویا ہر چیز تقسیم ہی ہوئی۔۔۔۔۔

نیلے پانیوں کی سی گہرائی لیے وہ اپنی ہی سوچ میں مدفن تھی، نیلا پانی اپنی وسعت کی وجہ سے بھلا کب کسی اور رنگ کو اپنے اُوپر غالب آنے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی رنگ ریز اس کو رنگ چڑھا سکتا ہے۔۔۔۔۔ یہ تو من کا ایک دیپ ہے جو زندگی کو منور کرتا ہے چڑھتے سورج کی مانند۔۔۔۔۔ خواہشات کی نئی کونپل کو جنم دیتا ہے جیسے آسمان کو چُھونے کی آرزو، پرندوں کی سی اُڑان کے ساتھ، ساحل کی گیلی ریت میں پور پور ڈُوبتے پیروں کو چُومتی لہریں اور آزادی کا احساس۔۔۔۔۔

ڈُوبتے سورج کے ساتھ یہ نیلے پانیوں کی سی گہرائی مزید گہری ہو گئی اور سکوت چھا گیا، تسلسل ایک چھناکے سے ٹُوٹ گیا جب اس گہرائی میں مد و جزر آیا۔۔۔۔۔ ٹیلی فون کی گھنٹی کے بجنے سے وہ حال میں پژ مردہ ذہن کے ساتھ واپس آ چکی تھی۔

حالات کو اپنے رنگ میں رنگنے اور پروانے کی خواہش میں دل کی نگری جل کر خاکستر ہو چکی تھی، مد و جزر آ کر جا چکا تھا اور اپنے پیچھے ماضی کا ملبا بکھیر گیا تھا جن کو اکٹھا کرنے اور پھر سے رنگنے کے لیے ایک عرصہ درکار تھا۔۔۔۔۔ ڈھلتے سورج اور پرندوں کی واپسی کی اُڑان بھرنے کے ساتھ ہی وہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی اور گھر کی راہ لی۔ ابھی بھی سفر باقی تھا، باقی ہے اور تا حیات باقی رہے گا۔۔۔۔۔
بس اب نیلے پانیوں کی گہرائی میں تاریکی اور خامشی بڑھ جانے کو تھی کیونکہ اب کی بار خدا کے جمع تفریق کرنے سے سب تقسیم ہوا تھااور ایک سکوت کے ساتھ سکون بھی دے گیا تھا۔۔۔۔ من کا سکون۔۔۔۔۔ ضمیر کا سکون۔۔۔۔۔

پیا گھر آ چکا تھا جہاں اب روشنی ہی روشنی تھی۔ نہ رنگ ریز کے رنگ چڑھانے کا خوف تھا نہ پروانے کے جلانے کا ڈر۔۔۔ روگ اب سنجوگ بن چکا تھا۔۔۔ پیا رنگ چڑھ چکا تھا پورے جوبن سے اور۔۔۔ نیلے پانیوں میں رہنے والی من کے ملاح کے ساتھ ہر سمندر پار کر چکی تھی۔۔۔۔۔

یہی تو تھا اصل۔۔۔۔ سب کچھ جب طے تھا تو بے سبب ہی آوارگی منتخب کی ۔ نیلا پانی اُسے اپنے اندر مدغم نہ کر سکا اور وہ پیا گھر کی دہلیز کے اندر قدم رکھنے سے پہلے پلٹی اور ایک فاتح مسکراہٹ لبوں پر بکھیر دی۔۔۔۔۔

بے شک خدا “مسبب الاسباب“ ہے وہ اپنے بندوں کو زندگی کی دوڑ میں گرنے نہیں دیتا بلکہ شکست کھانے کے بعد بھی انسان کو حوصلہ دیتا ہے نئے راستے دکھاتا ہے جو کہ خدا کے قُرب کا ذریعہ بنتے ہیں۔۔۔۔۔
Faiza Umair
About the Author: Faiza Umair Read More Articles by Faiza Umair: 8 Articles with 13092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.