شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے

سنو تو سہی

دین اسلام میں تعلیم کا مقام و مرتبہ جاننا ہو تو یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ رب کائنات نے نبی آخر الزماں ﷺ پر اپنی وحی کا آغاز ـ’’اقرائــ‘‘ سے کیا
ــ’’اقراء بسم ربک الذی خلق‘
ـــ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیاـ‘‘اور پھر چشم منظر نے وہ منظر بھی دیکھا کہ غزوہ بدرکے فاتح سپاہی تھے ۔ چند تلواروں اور سوکھی ٹہنیوں سے فتح پانے والوں نے جب قیدیوں کے لئے سزا کا فیصلہ کرنا تھاعقل کا تقاضا یہی تھا کہ فدیہ لے کر اپنے مالی حالات کو بہتر بنایا جاتا۔ مگر انہوں نے غیر مسلم قیدیوں سے مسلمانوں کے دس ،دس بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کو ترجیح دی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہترمثال تاریخ کے پہلو میں شاید ہی موجود ہو۔

تاریخ بتاتی ہے کہ تیزابوں سے لیکر ادویات ، سرجری سے لیکر علم فلکیات تک ،زمین کے قطر سے لے کر سمندروں کی گہرائی تک ہر ہر شعبہ جات میں ماہر اور بیشتر کے بانی مسلم سائنسدان تھے اس دور میں بظاہر جدید ٹیکنالوجی کے بنا ان مسلم مفکرین نے حکم ربی کو بجالایا کہ
’’تم اپنے رب کی کائنات میں غوروفکر کرو‘‘

اور اس غورو فکر نے وہ راز کھولے کہ رہتی دنیا ان کی احسان مند ہے۔ گو کہ مختلف محاذوں پراسلامی ممالک اور خصوصاََ پاکستان حالت جنگ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ محاذ دہشت گردی ہو یا کرپشن ، ناخواندگی ہو یا بیروزگاری۔ ہر ہر محاذ پر اک جنگ کا سماں برپا ہے۔ اگر ہم ان مسائل کے حل کو اپنا موضوع بحث بنائیں تو وجہ علم و شعور کی کمی ہوگی اور حل علم و شعور کی فراوانی ہوگی۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو بہت کم سہی مگر تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔ سرکاری سطح پر اور غیر سرکاری سطح پر بھی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ بہت سے غیر سرکاری اداروں میں تعلیمی معیار سرکاری اداروں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ میٹرک کی تمام کلاسز میں ڈگری ہولڈرز زیادہ تر پرائیویٹ اداروں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے اصل نقطے پر آؤں گی۔ کچھ ہفتے قبل گوجرانوالہ میں ملک کی ایک نامور پبلکیشنز کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیاتھا۔ بنیادی طور پر یہ ورکشاپ اس پبلی کیشن کی کتابوں کی پبلسٹی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ مگر اس تقریب کو منفرد بنانے کے لیے اس پبلی کیشن کمپنی کے آنر نے اک پر مغز لیکچر بھی تیار کیا ہوا تھا۔ یہ لیکچر خصوصاََ سکولوں کے پرنسپل و مالکان حضرات کے لئے تھا۔ اس لیکچر کے دوران بہت سی مفید ریسرچز کو شامل گفتگو کیاگیاان میں سے ایک ریسرچ کو میں یہاں quote کروں گی۔

U.A.E کا آٹھواں امیر ترین آدمی پندرہ ممالک میں 132 سکولز کا مالک اور اک ورلڈ وائڈ فاؤنڈیشن کا آنر ’’سنی ورکی‘‘sunny varkey جس کا تعلق انڈیا سے ہے اور مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے۔ اس ورلڈ وائڈ فاؤنڈیشن کا نام varkey gems foundation ہے۔ جس کے تحت دنیا بھر سے بہترین ٹیچرز کا انتخاب کرکے اسے بھاری رقم سے نوازا جاتاہے۔ سنی ورکی کی تعلیمی قابلیت کو جانچا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ موصوف اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل نہیں کر پائے اور اس کی وجہ ان کی غریبی تھی۔ اور جہاں تک پڑھائی مکمل تھی ان سالوں کے درمیان یہ پارٹ ٹائم جاب کرتے تھے۔ ان کے جو خواب پورے نہ ہوسکے انہوں نے مرحلہ بہ مرحلہ اپنے سکولز بنا کر ان خوابوں کو شرمندہ تعمیر کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ لیکچر اور ہم اس انسان کی زندگی کے حالات سے آگے بڑھنے کا جذبہ ، لگن اور مثبت رویہ اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے تک کا راستہ ماپتے مگر اس ورکشاپ میں جو نقطہء نظر سامنے رکھا گیا وہ یہ تھا کہ آپ ایک ہوتے ہوئے غریبی سے امیری تک کا سفر بہت آسانی سے کرسکتے ہیں۔ یعنی ایک اسکول کھولنا راتوں رات امیر ہونے کا سہل ذریعہ ہے۔ ایک معاشرے کے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں قوم کی خدمت کے پیچھے کیا نیت موجود ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ جس ملک میں حکومت اس لئے سڑکیں اور ایئر رپورٹ تعمیر کریں کہ یہ ان کے لئے باعث فرحت ہے ۔ فلائی اوور اس لئے تعمیر ہوں کہ یہ سب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا بہانہ ہوں تو اس معاشرے میں تعلیمی ادارے پیسے بٹورنے کی نیت سے بنایا جانا با لکل بھی باعثِ حیرت نہیں۔

مگر لمحہ ء فکریہ یہ ہے کہ سنی ورکی جیسے کری ایٹو دماغ رکھنے والے لوگ جب اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے شام میں پارٹ ٹائم جاب کریں گے تو پاکستان میں کوئی گورنمنٹ و پرائیویٹ ادارہ ایسا ہے جو ان بچوں کو قابل برداشت اخراجات کے ساتھ فرسٹ کلاس تعلیم دے گا؟ ہمارے معاشرے میں میر حسن اور علامہ اقبال کا استاد و شاگرد کا رشتہ تو سب کو یاد ہے مگر کیا کسی استاد کو میر حسن کا کردار یاد ہے؟ پنجاب ہی کی بات کریں تو بے شمار کیس ملے گے جس میں کلاس ٹیچر کے پاس ٹیوشن نہ پڑھنے پر سرکاری ملازم (اسکول ٹیچر) نے امتیازی سلوک روا رکھا۔ ان حالات میں پڑھنے والا بچہ بڑا ہوکر علامہ اقبال یا قائد اعظم بننے سے تو رہا۔اور ایسے غریب و ذہین بچے پرائیویٹ سکولز کے اخراجات تو ہرگز برداشت نہیں کر پائیں گے۔

خدارا! تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیا جائے پیشہ مت بنائیں ورنہ یہ قوم پڑھی لکھی جاہل تصور ہوگی۔ اور جاہل قوم ترقی نہیں کرتی ، ذلیل ہوا کرتی ہیں۔ علامہ اقبال نے خواندان مکتب سے ہی گلہ کیا ہے اور اسے ہی دہراؤں گی۔
’’شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا‘‘
Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23523 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More