ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک استاد پہلے دن
اسکول آنے والے بچے کو پڑھا رہے تھے پڑھو بیٹا ح حمام وہ بچہ کہتا نہیں
استاد جی یہ تو نائی ہے استاد پھر بولتا نہیں بیٹا یہ حمام ہے مگر بچہ بار
بار نائی ہی کہتا رہا۔ کیونکہ اس نے اپنی ماں سے سن رکھا تھا کہ جو بال
کاٹتا ہے وہ نائی ہوتا ہے صرف یہ ہی نہیں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں جو
اسکول جانے والے بچوں کے لئے پہلے دن ہی مسائل پیدا کرتی ہے جب عالمی جنگ
جاری تھی تو ایک طالب علم نے فرانسیسی پروفیسر سے پوچھا کہ کیا ہم جنگ ہار
جائے گے تو پروفیسر کا جواب تھا جب تک ہم اپنی مقامی زبان کو تھامے رہے گے
تو ہار ہمارے قریب سے بھی نہیں گزرے گی-
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اپنے دورِ حکومت میں جس ملک میں بھی گئے آپ
اپنی ماں بولی زبان بولا کرتے تھے جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ انگلش میں
کیوں نہیں بات کرتے تو آنکھ پلٹنے سے پہلے انکا جواب تھا کسی کو میرے سے
مطلب ہے تو وہ میری زبان سیکھے ۔ اسکو مجھ سے غرض ہے مجھے نہیں۔
پاکستان کے دوسرے تمام صوبوں میں انکی مقامی زبان میں سلیبس اور درس وتدریس
کا عمل ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پنجابی ہی ایسی زبان ہے جس کے ساتھ دشمنوں
جیسا سلوک کیا جا رہا ہے-
مائزے تنگ سے جب پوچھا گیا کہ اپنی مادری زبان بولنے کا راز کیا ہے تو
انھوں نے بولا کہ میں کونسا گونگا ہو جو کوئی دوسری زبان بولوں!
مخیئر حضرات کو چاہئے کہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کو بھی وہ حق دینا چاہئے
تاکہ اس کے بیٹے لنگرے، گونگے اور بے زبان ہونے سے بچ سکے
سنُاں وڈا پنجاب اے کروٹوٹے
اوبھڑلوکاں دے ہتھیں پنجاب ہے جی
اج ویریاں نو ہندراں مار کے
مائے چھلے تیرے انگ
ہُن مولا کرے نیاں |