آہوں کا رِستا ہوا لہو

ماں اپنے لاڈلے جواد اور لاڈلی زیبا پر اپنی پہاڑ جیسی جوانی قربان کر چکی تھی۔ جسیے تیسے کرکے محنت مزدوری کی جواد کو تعلیم دلوائی اسی طرح چھوٹی زیبا کو بھی اُس نے پڑھایا۔ماں سارا دن لوگوں کے کپڑے سیتی یوں اُس نے انپے خاوند کی موت کے بعد اپنے گھر کی روٹی ،پانی کا انتظام چلایا۔ جب اُس کا خاوند اُسے اکیلا چھوڑ کر منوں مٹی میں جا سویا تھا اُس وقت جواد تین سال کا تھا اور زیبا چھ ماہ کی تھی ۔جواد کو اپنے با پ سے بڑا پیار تھا اُس نے اپنی توتلی زبان سے ابا کہنا سیکھا ہی تھا کہ اُسکا پیارا لاڈو ابا اپنے ننھے سے جواد اور معصوم بیٹی زیبا اور اپنی وفا کا پیکر بیوی کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ایسے دیس روانہ ہوگیا تھاجہاں سے واپسی کبھی کسی کی آج تک نہ ہوئی ہے۔جہاں سے کبھی کسی کے خط کا جواب بھی نہیں آیا کرتا ۔ یوں رخشیندہ جو ابھی مشکل سے چوبیس سال کی ہوئی تھی بیوگی کے پُل صراط پر سے گزرنے کے لیے سوائے اُس کے رب کے اُسکا کوئی سہارا نہ تھا ۔ ماں باپ اُسکے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔اور اُسکو کسی کی خبر نہ تھی بس اتنا پتہ تھا کہ محلے کے ایک بزرگ نے اُسے بیٹی بنا کر پالا اور اُسکا بیاہ کردیا اور بس اُسکے بابا نے بھی شاید اپنی سانسوں کو ننھی رخشیندہ کے لیے سنبھال رکھا تھا جیسے ہی اُسکا بیاہ ہوا وہ بزرگ بھی داغِ مفارقت دے کر اپنے خالق ِ حقیقی کو جا ملا۔ رخشیندہ کی زندگی میں بہار اور خزاں جیسے ا لفاظ میں کوئی فرق نہ تھا۔اُسے اتنا پتہ تھا کہ رب کا کام روٹی دینا ہے اور بندے کا کام کھانا ہے اُس روزی روٹی کو جب تک اٰس رب نے سانسیں دے رکھیں ہیں۔کیونکہ اُس کو پتہ تھا کہ جس ڈوری کے ساتھ بندے کی سانسیں بندھی ہوئی ہیں وہ ڈوری ایک ایسے ہاتھ میں ہے جو کہ پوری انسانیت اور سارے جگ کا مالک ہے اور وہ کچا ہاتھ نہیں بلکہ بہت پکا اور مظبوط ہے اس لیے رخشیندہ نے مایوس ہونا تو کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ اِسی لیے تو جب اُس کے شوہر کی وفات ہوئی تو وہ اپنے رب کے اس فیصلے پر صابر و شاکر ہوکر ایک نئی راہ پر چل پڑی اس راہ میں اب اُس کے ساتھ اُسکا ننھا جواد اور معصوم زیبا بھی تھی یہ سفر بھی تو رب نے اُسکے لیے چنا تھا تو رب خراب راستے اپنے بندے کے لیے کیسے چُن سکتا ہے وہ تو اپنی مخلوق سے محبت کا سلوک کرتا ہے۔ رخشیندہ اپنے طور پر دن رات محنت کرکے اپنے بیٹے اور بیٹی کو پالتی رہی۔ننھا جواد جب جب سکول جاتا تو ماں اُس کو ڈھیروں دُعائیں دیتی ۔جواد کو دھن تھی کہ وہ بڑا انسان بنے گا۔ ما ں اُسکو سمجھاتی کہ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو کہ دوسرں کا خیال ر کھے اُن کے دکھ درد میں شریک ہو۔ماں ہمیشہ جواد کو نصعیت کرتی کہ بیٹا کبھی محنت سے جی نہیں ُچرانا ،رب پاک سے ناامید کبھی نہیں ہونا۔ننھے جواد کے اندر یہ سوچ اُس کی ماں نے جاگزیں کردی تھی کہ رب ہی کارساز ہے اور اُس سے ناامید ہونا گناہ ہے اور اسی سوچ میں جواد پروان چڑھا۔ جواد کی سوچوں میں یہ راسخ ہوچکا تھاکہ جو کچھ رب پاک نے کرنا ہے وہی ہونا ہے انسان کا کام صرف نیک نیتی سے محنت کرنا ہے جواد میٹرک میں جب سکول میں اول آیا تو اُسکی ماں کے خوشی سے آنسو نکل اُئے۔ ماں نے گھر میں رب کے پیارے رسولﷺ کا میلاد منایااور محلے کی عورتوں نے میلاد میں بھرپور شرکت کی۔ جواد کی کامیابی کے پیچھے درحقیت وہ جذبہ کارفرما تھا کہ ہمیشہ سچ بولنا ہے اور محنت کرنی ہے۔ رخشیندہ کی تربیت نے جواد کو ایک مثالی طالبعلم بنا دیا تھا۔جواد ایف ایس سی کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ ماں کے پاس وسائل بہت کم تھے۔لیکن وہ بھی دُھن کی پکی تھی اور اُسے اپنے رب کی رحمت پر اتنا یقین تھا جتنا کہ اُس کو اس بات پر یقین تھا کہ وہ انسان ہے اور مسلمان ہے۔ رب پاک کی رحمتوں کے سائے تلے جواد پڑھتا چلا گیا۔ جواد کی ماں کی محنت تو تھی ہی لیکن جواد بھی کسی طرح سے بھی محنت سے جی چُرانے والا نہیں تھا۔رخشیندہ نے بیشمار تکلیفوں کے باوجود جس طرح سے اپنے لال کی تربیت کی تھی اُس کا کوئی ثانی نہ تھا۔اس لیے جواد اپنی ہر کلا س کے اُستاد کی آنکھ کا تارا بن جاتا۔جواد کی پڑھائی سے لگن اور زندگی کے معاملات میں ایک پختہ سوچ اور رائے نے اُس کو اپنے ساتھی لڑکوں سے ممتاز کر رکھا تھا۔اُسکی کامیابی کے حصول کے مقصد کے راہ میں حائل رکاوٹیں کبھی بھی اُس کے حو صلوں کو پست نہ کرسکیں۔ہر ہر مشکل گھڑی اُس کو کامیابی کے نزدیک اور مایوسیوں سے دور کرتی جا رہی تھی۔ ماں کو اپنے لاڈلے کی فکر تو رہتی لیکن اس کی ممتا نے جواد کو اُن راستوں کا راہی بنا دیا تھا ۔ جہاں دکھ اور سکھ غمی اور خوشی سب پر بندہ اپنے رب کی رضا پر شاکر رہتا ہے۔ جواد کی زندگی ایسے عنوان سے عبارت تھی جہاں بچے بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں۔زندگی اُن کے لیے بوجھ نہیں بلکہ اُستاد بن جاتی ہے تو بھلا پھر کبھی کو ئی اُستاد سے گلا شکوہ بھی کرتا ہے۔ وہ عا م لڑکوں کی طرح نہ کھیلا کودا نہ کبھی دوستیاں پالیں اور نہ من پسند کی کبھی شاپنگ کی۔ وقت کے سمندر نے جواد کو ایک ایسا گوہرِ نایاب بنادیا تھا جو کہ کسی بھی لمحے مایوسیوں کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ اُس کے سا منے تو ماں اور رب کی رضا ہی مقدم تھی کیوں ایسا نہ ہوتا جواد تو تھا ہی سراپا عجزِوانکسار۔ ماں خوش تھی باپ کی شفقت سے محروم بچہ اپنے رب کے سہارے زندگی کی منازل طے کر رہا تھا۔ رشتے دار تو کوئی تھا ہی نہیں محلے دار جو تھے وہ جواد اور اُسکی ماں کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ جواد کبھی کبھار اگر حالات کی تنگی سے اُکتا جاتا تو وہ رات کو اپنی چھت پر چلا جاتا اور اور آسمان کے ستاور ں کو دیکھ کر آنسو بہا کر اپنا من ہلکا کر لیتا ۔ یوں دن بیتتے چلے گےٗ۔ زندگی کا سفر ہر دم رواں رہتا ہے یہ تو انسان کے احساسات ہیں جو اس کو کبھی خوشی کبھی غم دیتے ہیں۔ورنہ زندگی تو روز اول سے ہی زندگی ہے وہ تو رکتی نہیں اُسے تو بس چلتے ر ہنا ہوتا ہے۔ انسان کو جب خوشیاں میسر آتی ہیں تو اُسکو وہ اپنا حق سمجھ لیتا ہے لیکن جب ُدکھ ملتے ہیں تو تب وہ خیال کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ تو بڑا ظلم ہوگیاہے ۔وہ چیختا اور چلاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو رب کی رضا پر قا نع ہوتے ہیں وہ اﷲ کے شیر بن جاتے ہیں۔ اُن کو پھر رُباعی نہیں آتی وہ اپنی تقدیر کو خود سنوارتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر کسی دوسرے کو موردِ الزام نہیں ٹھراتے۔ جواد کو تو بس اگے بڑھنا تھا۔ وہ ایف ایس سی کے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد میڈیکل کالج چلا گیا۔ میڈیکل کالج میں اُس کو سکالرشپ ملا جسکی وجہ سے اُسکی ماں سے کافی بوجھ کم ہو گیا۔ یوں ایک دن جواد ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر ڈاکٹر بن گیا۔ وہ دن ماں کے لیے شادیِ مرگ کی کیفیت کا دن تھا۔اُسے زندگی کا حاصل مل گیا تھا۔ زیبا بھی اپنے لاڈلے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر بن چکی تھی۔

زیبا زندگی کو اپنی ماں کی آنکھ سے دیکھتی اور ماں کی سوچوں سے سوچتی۔ زیبا کو ہر وقت فکر اپنی ماں اور بھائی کی رہتی۔وہ اس جذبے کی قائل تھی کہ بیٹیاں ،بہنیں تو اپنی ماں اور بھائیوں پر قربان ہونے کے لیے ہوتی ہیں۔ رخشیندہ کی تربیت نے زیبا کو پابند صوم وصلاۃ بنا دیا تھا۔ اُسکا بھائی بھی اُس پر ہر وقت واری ہوتا تھا۔ زیبا سوچتی کہ ماں نے کتنے دکھ اور تکلیفیں سہی ہیں کاش ایسا نہ ہوتا اُسکے ابا زندہ ہوتے اور وہ اُسکے ناز اُٹھاتے لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ اُسے یہ ادراک ہو چکا تھا کہ فطرت کی ہر شے مجبور ہے۔ستم کے سلسلوں نے دراز ہی رہنا ہے لیکن رب کی رحمت سے مایوسی بھی تو کفر ہے ان خیالات کو جھٹک کر وہ خیالوں میں پریوں کے دیس پہنچ جاتی۔کسی کا تو پتہ نہیں اُسے اتنا اندازہ ضرور تھا کہ اُس نے ہر گھڑی اپنے خالق کی اطاعت میں گزارنی ہے۔ پریوں کے دیس کی سیر اُس کے خیالوں کو اتنا پاکیزہ بنا د یتی کہ وہ خود کو بھی ایک پری ہی سمجھنے لگتی۔ ماں زیبا کا دل بہلاتی اور زمانے کے ساتھ کیسے سلوک کرنا ہے اور دُنیا کی کونسی بات کو پسِ پشت ڈال دینا ہے اور کس بات پر عمل کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ اس لیے زیبا اپنی سوچ میں اتنا گم ہوجاتی۔ کہ وہ خود کو بھی فراموش کر دیتی پھر ماں اُسکو تسلی دیتی کہ دکھ اور سکھ تو زمانے کا حصہ ہیں ۔ ؔ’ـماں کو تو یقین ہو چلا تھا کہ رب پاک نے اُسکی قسمت کتنی اچھی بنائی تھی۔ جواد کو ایک مقامی ہسپتال میں جاب مل گئی تھی ۔ زیبا بھی بھائی کے ساتھ ہی اُسی ہسپتال میں ملازمت کرنے لگ گئی۔ اسی دوران جواد سپیشلائزیشن کرنے امریکہ چلا گیا۔ ماں نے اُسکے جانے سے پہلے جواد کی منگنی کردی اور زیبا کی شادی بھی ایک ڈاکٹر سے ہوگی۔ وہ اپنے گھر ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ گئی۔ جواد منزلیں طے کرتا ہوا امریکہ میں کامیابی حاصل کرکے جب لوٹا تو ماں کی زندگی میں بہارِجاوداں آگئی۔ جواد شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں کام کرنے لگا۔ دنوں میں اُسکی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ رخشیندہ اب بیمار رہنے لگی تھی اُس نے جواد کو شادی کا کہا ۔منگنی پہلے ہی طے تھی۔ یوں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ زیبا بھی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ماں کے گھر آگئی وہ ایک ننھی سے کلی کائنات کی ماں تھی۔ شادی کی شاپنگ اور دیگر تیاریوں میں وقت تیزی سے گزرتا گیا اور پھر وہ دن آپہنچا جب جواد گلے میں پھولوں کی مالا سجائے اپنی ماں کی خوشیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بارات کے ساتھ دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ بارات گاڑیوں کے قا فلے میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک دھماکے کی آ واز سنائی دی ا ور اگلے دن کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں تھی کہ کل شہر میں ہونے والے خود کش دھماکے کی زد میں ایک بارات بھی آگئی اور یوں دلہا اپنی ماں بہن اور دیگر عزیزواقارب کے ساتھ اُس بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا بیان بھی ساتھ چھپا تھا کہ مجر موں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ روشن راہوں کی مسافر رخشیندہ اپنی بیٹی،داماد، زیبا کی بیٹی اور جواد کے ساتھ ناکردہ جرم کی سزا میں ہلاک ہوکر اپنے پیارئے رب کے حضور پیش ہو گئی۔ رخشیندہ کی روح ازل سے ابد تک کی طرح مطمن ٹھری لیکن جواد ، زیبا وغیرہ کی روحیں بے چینی رہتی اور حیران تھیں کہ کس جرم کی سزا میں وہ اپنی طبعی موت سے پہلے ہی موت کے آنگن میں اُتر آ ئیں۔ قدرت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوا کرتے ہیں۔لاکھ کوشش کے باوجودجس کی جتنی زندگی تھی اُس نے اتنی ساعتیں گزار لیں لیکن اُن کی روحوں کی بے قراری ایسی تھی کہ اُن کی سمجھ سے بالا تر تھا کہ دل دماغ سوچیں گواہی دینے سے قاصر تھیں کہ ان معصوموں کا کیا قصور تھا؟
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 413135 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More