بادشاہ کی سخاوت( حکایت)
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
ایک بادشاہ نے رعایا میں منادی
کروائی کہ فلاں تاریخ کو بادشاہ کا شاہی خزانہ عوام الناس نے لئے کھولا
جائے گا ، جس کسی کاجودل چاہے اور جتنا چاہے وہاں سے اپنے گھر لے جا سکتا
ہے۔عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کوئی دن رات اپنی ضرورتوں اور خواہشات
کی مالا پرونے لگا۔ لوگ ایک دوسرے کی خواہشات جاننے اور اپنی بتانے میں
اپنی فرصت کے لمحات صرف کرنے لگے۔ وہ دن دیہاڑے ، بیداری کے خواب دیکھنے
لگے۔ سب کو شدت سے انتظار تھا کہ وہ دن کب آئے گا ۔ وہ دن،رات اس دن کے آنے
کے دن گننے لگے۔
بادشاہ بہت زیرک تھا،اس نے اپنے وزیروں، مشیروں اور کارندوں کو ایک ڈیوٹی
سونپ دی کہ وہ اس کے خزانے کی ہر چیز کا ایک نقلی متبادل ایسا بنائیں کہ وہ
اصلی چیز سے بھی زیادہ پر کشش اور دیدہ زیب دکھائی دے۔اور اصلی چیزوں کو اس
قدر بھدی، بے کیف اور غیر دلچسپ بنا دیں کہ کسی کا ان کو لینے کو دل ہی نہ
چاہے۔بادشاہ کا اشارہ پاتے ہی انہوں نے اپنی مہارتوں کے کرشمے دکھانے شروع
کر دیئے اور سب کچھ اتنی عمدگی سے کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔
مقررہ تاریخ اور وقت پر لوگوں کا ایک جمِ غفیر امڈ آیا۔ لوگوں کا اضطراب
اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا تھا۔وہ بس شاہی محل کے گیٹ کے سامنے کھڑے ہو
گئے اور اس کے کھلنے کے منتظر تھے کہ اس کے کھلتے ہی خزانے پردھاوابول دیا
جائے۔وہ اپنے مقصد کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کو بھی تیار ہو
چکے تھے لیکن شاہی محل کے سخت انتظامات اور نظم و ضبط کی پابندی کے باعث
ایسا کرنا مشکل ضرور تھا۔کچھ لوگ اس خیال میں تھے کہ کوئی چیز سوچ سمجھ کر
اٹھائیں گے جب کہ اکثریت کا یہی خیال تھا کہ جو ہاتھ میں آ جائے اٹھالیا
جائے۔ لیکن انسانی رویوں میں سے ہجوم کا رویہ بہت خطر ناک ہے۔ ہجوم میں عام
انسان بھی خطرناک انسان بن جاتے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ جاتی ہے۔ اس
نفسا نفسی میں ہوش کہاں رہتے ہیں۔ ہر جگہ کی طرح یہاں بھی کمزور ہی تختہ
ستم بنتے ہیں۔ یا پھر جن کی قسمت منہ پھیر لے۔ بہت ساروں پر تو شاہی محل
میں پہلی دفعہ داخل ہونے کا رعب بھی چھایا ہوا تھا۔ لیکن مفت ہاتھ آنے اور
دوسروں پر سبقت لے جانے کے لطف بھی تو نرالے ہوتے ہیں۔سارا ماحول خواب رنگ
لگ رہا تھا۔ایک ایسا پر اسراررنگ اس فضا میں بکھرا ہوا تھا جو اسے دل نشیں
بھی بنائے ہوئے تھا اور نظر بھی نہیں آرہا تھا۔
جیسے ہی شای محل کا بڑا گیٹ کھولا گیا ، لوگوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ محل میں
داخل ہو گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے بہت سی چیزیں اپنے ہاتھوں ،
جیبوں اور بوریوں میں بھر لیں۔ ہیرے ، جواہرات ، اشرفیاں،خوردنی اجناس،
وغیرہ جو کہ سب لوگوں کی خواہشات اور ضروریات تھیں ، دیکھتے ہی دیکھتے
لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کو منتقل کرنی شروع کر دیں۔ وہ ایسے لگ رہے تھے
جیسے چیونٹیوں کا ایک ہجوم اپنا راشن ایک سے دوسری جگہ منتقل کر رہا ہو۔
مقررہ وقت پر پھر گیٹ بند کر دیا گیا۔ اور یہ انوکھا واقعہ اپنے اختتام کو
پہنچا۔
لوگوں کے چلے جانے کے بعد بادشاہ نے پتہ کروایا کہ کیا صورتِ حال ہے۔ وہی
ہوا جو کہ سوچا اور سمجھا گیا تھا۔لوگ نقلی اور پر کشش چیزیں اٹھا لے گئے
اور جو اصلی اور قیمتی چیزیں تھیں جن کو چشم گریز بنایا گیا تھا لوگوں کی
توجہ حاصل کرنے سے محفوظ رہیں۔
وقت گزرنے پر لوگوں کو اپنی حماقتوں کا اندازہ ہوا۔ لیکن وہ بادشاہ سے کوئی
شکوہ ، شکایت نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ ان کو کھلا انتخاب دیا گیا تھا کہ
وہ جو جی چاہے وہاں سے اٹھا سکتے تھے۔ اب انہوں نے اپنے لئے کیا پسند کیا ،اس
کی ذمہ واری بھی صرف انہی کے کندھوں پر آتی ہے۔ کیوں کہ کسی نے ان کو نہ
روکا اور نہ مجبور کیا کہ وہ وہی چیز ہی اٹھائیں جو انہوں نے اٹھائی۔
وہ چیزیں چوں کہ اصلی نہیں تھیں ، اس لئے ان ہیروں اور جواہرات کی بازار
میں وہ قیمت نہ لگی جو کہ اصلی کی ہوتی ہے۔ اجناس سے بھی اتنا فائدہ نہ ہوا
جتنا کہ انہوں نے سوچا تھا ۔ بلکہ ان کی صحتیں پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو
گئیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے سکون اور عیش کے لئے کیا تھا جبکہ یہ چیزیں
ان کے سکون کو برباد کرنے کا سبب بن گئیں۔ وہ بادشاہ کے خلاف کوئی بات بھی
نہ کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ایسا کریں ؛ انہیں کس
نے مجبور کیا تھا کہ وہ نقلی کو اصلی سمجھ کر اٹھا لائیں۔ قصور تو ان کا
اپنا تھا ۔
دراصلیہ دنیا ہی وہ شاہی محل ہے جہاں انسان اصل کی بجائے نقل کو ترجیح دیتے
ہیں، چیزوں کی چمک پر ان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ اصلی، نقلی کی
تمیز میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ زندگی کا مزہ سادگی میں ہے، انسان اسے تکلف
اور عیش میں تلاش کرتا ہے۔ اس لئے اسے نہ حقیقی مزا ملتا ہے اور نہ دل کا
سکون میسر آتا ہے۔ دل کا سکون خدا کی یاد میں ہے لیکن انسان اسے مال و دولت
میں تلاش کرنے کا دھوکہ کھا جاتا ہے۔ اگر وہ دل کا سکون خدا کی یاد میں
تلاش کرے تو وہ سکون ضرور ملے۔ کیوں کہ جو چیز کسی الماری میں رکھی ہی نہ
گئی ہو ، وہاں سے کیوں کر مل سکتی ہے۔ دل کا سکون مال و دولت کی بجائے خدا
نے اپنی یاد میں رکھا ہے اس لئے دنیا کی چمکتی دولت یہ سکون نہیں دے سکتی۔
انسان کی آخرت کی کامیابی دنیا سے دلی طور پر کنارہ کشی میں چھپا دی گئی ہے
اور انسان اس کو دنیا کی محویت میں تلاشتا ہے۔جو کہ سراسر ناکامی اور
نامرادی ہے۔ مال ودولت کا سکون زکوۃ و صدقات میں پنہاں ہے، جسے انسان مال
کے فروغ میں تلاش کرتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی میسر نہیں آتا۔انسان کی سلامتی
گوشہ نشینی اور مسجد میں رکھی گئی ہے جسے انسان شہرت اور بازار میں تلاش
کرتا ہے۔ ان ساری باتوں میں انسان کو نئے سرے سے اپنی سوچوں کا محور متعین
کرنے کی ضرورت ہے اگر محور درست ہو جائے تو زندگی اپنے اصل کی طرف لوٹ جائے
جو کہ خدا کی قربت اور جنت کی آغوش ہے۔ |
|