کچھ دیر معروف ادیب عتیق صدیقی کے ساتھ
(Ibnul Hussain Abidi, Karachi)
|
صحافت کے ساتھ ان کی وابستگی محض ایک
اتفاقی وقوعہ تھا- لیکن اس حسنِ اتفاق کو کیا نام دیا جائے کہ یہ وابستگی
چالیس سالوں کو مُحیط ہوگئی ہے۔ اِن چالیس سالوں میں وہ صحافت کے ہر شعبہ
سے نتھی رہے۔ کوچہ صحافت میں وہ پروف ریڈر کی حیثیت سے داخل ہوے اور بہت سے
نشیب وفراز سے ہوتے ہوے ایڈیٹر کی کرسی تک پہنچے۔
کوچہ صحافت میں ان کے اتفاقی ورود کے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صدیقی صاحب
کے ایک دوست روزنامہ جسارت میں کام کرتے تھے۔ صلاح الدین شہید جسارت کے
ایڈیٹر تھے۔ عمرہ کرکے آئے تو دوست نے کہا تم بھی فارغ ہو، چلو صلاح الدین
صاحب کو مبارک باد دے آتے ہیں۔ صلاح الدین صاحب سے نشست ہوئی تو باتوں
باتوں میں انہوں نے صدیقی صاحب سے مصروفیت بارے پوچھا۔ صدیقی صاحب کے فارغ
ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پیشکش کی "ہمارے قافلے میں شامل ہوں گے؟"
صدیقی صاحب نے جب ڈرتے ڈرتے کہا پوچھ کے بتاؤں گا تو صلاح الدین صاحب ان کے
ڈرنے کا سبب بھانپ گئے۔ فرمایا "اچھا تو بتائیے! آپ کونسا قافلہ مراد لے
رہے ہیں؟"
"یہی آج کل جو جماعت اسلامی کے قافلے پورے شہر میں نکل رہے ہیں"
یہ سن کر صلاح الدین صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا "یہ بات ٹھیک ہے کہ میں
مودودی صاحب سے متاثر ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں روزنامہ جسارت کے
عملہ کو کسی سیاسی جماعت کے لیے استعمال کروں۔ میں آپ کو جسارت ادارے میں
شامل ہونے کی دعوت دے رہا ہوں"۔
یوں صدیقی صاحب نے 1977ء میں بطور پروف ریڈر جسارت میں شمولیت اختیار کی۔
پروف ریڈنگ اخبار کا سب سے اہم شعبہ ہے۔ اس شعبہ میں محنت سے اچھا صحافی
بنا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ سب سے مظلوم شعبہ یہی ہے۔ پروف ریڈر کو صحافی نہیں
سمجھا جاتا۔ وہ نظر انداز ہونے کی ذلت سہتا رہتا ہے۔ انہوں نے مگر اس شعبہ
میں خوب عزت کمائی۔ ادارے کے ہر شعبہ کی خواہش ہوتی صدیقی صاحب ان کے ساتھ
کام کریں۔ اٹھارہ سال روزنامہ جسارت میں کام کرنے کے بعد صلاح الدین صاحب
کی درخواست پر ہفتہ روزہ تکبیر سے وابستہ ہوگئے۔ صلاح الدین صاحب کی شہادت
کے بعد تکبیر سے استعفاء دے دیا۔ کچھ لوگوں سے بد دل ہوکر تجارت کی راہ
اپنائی۔ ایک دوست ڈھونڈتے ہوئے دکان پہنچے اور کسی طرح اپنے مجلہ "ھدف" کے
لیے ان کو کام پہ آمادہ کرلیا۔ "ھدف" میں ان کی شمولیت سے کچھ عرصہ میں ہی
رسالہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ ان کی تحاریر ادبی محفلوں میں زیر
گردش رہیں۔ قارئین کے تعریفی خطوط ملتے کہ صدیقی صاحب کی صورت میں صلاح
الدین شہید نے دوبارہ قلم سنبھال لیا ہے۔
رب نےSarosh Hasan کی صورت میں ایک ہی بیٹے سے نوازا ہے۔ سروش بی اے کرنے
کے بعد انجیئنرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک کمپنی میں بزنس ایگزیکٹو
ہیں۔ Four Stars Production پیج کے لیے سبق آموز شارٹ فلم بناتے ہیں۔
آرٹیکل بھی گاہے لکھتے ہیں۔
روزنامہ اسلام کے اجراء سے پہلے صدیقی صاحب کو مشاورت کے لیے بلوایا گیا۔
2002ء میں انہوں نے روزنامہ اسلام سے باقاعدہ وابستگی اختیار کی۔ یہاں بھی
مختلف شعبوں میں کام کرنے کے بعد آج سینئر نیوز ایڈیٹر اور کالم نگار کے
عہدہ پر فائز ہیں۔ روزنامہ اسلام میں ان کا ادبی قد کاٹھ نکھر سامنے آیا۔
100 اقساط پر مشتمل ہندوستان کا سفرنامہ قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔ جو "سفر
گزشت" کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوکر شوق سے پڑھا گیا۔ اس سفرنامے کی
خاص بات یہ ہے کہ سفر انہوں نے تب کیا جب آتش جوان تھا اور یاداشتیں انہوں
نے اس عمر میں آکر لکھیں جب ان کے بالوں پر سفیدی کی چاندی غالب آگئی ہے-ان
کا استحضار قابل رشک ہے اور قلم رواں اور سیال- قاری کو یوں محسوس ہوتا
ہے،وہ کل سفر کر کے آئے ہیں اور آج اس کی انگلی پکڑے ہندوستان کی گلی کوچوں
کی سیر کرا رہے ہیں- وہاں کی مقامی بولیاں اور بوڑھیوں کے مکالمے ان کے
دلچسپ اسلوب زبان اور مقامی لہجوں میں ہی آپ کے سماعت سے ٹکرا رہے ہیں۔
والدہ مرحومہ کی یادیں "آپا" کو بہت پذیرائی ملی۔ بڑے بھائی روزنامہ اسلام
کے سب ایڈیٹر، مترجم اور قطعہ نگار لئیق احمد کے حوالہ سے یاد داشتیں "بھائی
صاحب" کے زیر عنون لکھ رہے ہیں۔ "کراچی جو میں نے دیکھا" کے عنوان سے کراچی
کے بارے لکھا جارہا ہے، جس کی 200 سے زائد اقساط روزنامہ اسلام کے ادارتی
صفحہ پر شائع ہوچکی ہے۔ |
|