گیارہ سال کا ایک بچہ تھا جسکا باپ تو پہلے
ہی اﷲ کو پیارا ہو گیا اور اب اسکی ماں بھی قوما میں جا چکی تھی ۔جسکا
سہارا اسکے پختہ ارادوں ،مضبوط بازو اور اﷲ کے سوا کوئی نہیں تھا ،اپنی ماں
کی محبت میں اسکے علاج معالجہ اور زندگی گزارنے کیلئے پیٹ پوجا کیلئے وہ
ایک دوکان پر کام کرنے لگ گیا ۔اسی طرح آٹھ سال بیت گئے اور ایک دن اسکی
ماں دنیا سے چل بسی لیکن اسنے ہا ر نہیں مانی ،اپنی ماں کی موت کا صدمہ
اسنے اس قدر دل و دماغ میں بسایا کہ یہ تہیہ کر لیا کہ جس بیماری سے اسکی
ماں چل بسی اس کی وجہ سے کوئی اور نہ فوت ہو اور اسکے لئے اسنے دن رات کڑی
محنت کی ۔وقت کے ساتھ ساتھ اسکی محنت رنگ لائی اور آج ہم پورے ملک پاکستان
میں جہاں نظر دوڑاتے ہیں ایدھی ایمبولینسیں ہر وقت عوام کی خدمت میں دوڑتی
نظر آتیں ہیں ۔ایدھی گروپ کی بدولت پورے پاکستان میں عوام کو تعلیم ،صحت
اور دیگر بنیادی سہولیات ہر ممکن صورت میں مہیا ہو رہی ہیں ۔اس شخص کا نام
عبدالستار ایدھی تھا جسنے اپنے کردارسے لوگوں کے دل و دماغ میں ایسی جگہ
بنائی جسکی مثال نہیں ملتی ۔دیکھا جائے تو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے حق
دار بھی عبدالستار ایدھی جیسے لوگ ہیں نہ کہ وراثتی اور بنیے ۔پر ہمارے ملک
اور عوام کی قسمت اتنی اچھی کہاں!
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جسے برباد کرنے میں
کئی قوتوں نے تو کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی لیکن یہ اﷲ کا خاص فضل ہے کہ یہ
قائم و دائم ہے ۔اس ملک کے اداروں میں کرپشن کے ایسے ناسور ہیں کہ جن کا
علاج ممکن نظر نہیں آتا ۔نفسا نفسی کا ایسا عالم ہے کہ ہر کوئی اپنے پیٹ کی
سوچتا ہے ۔ماں ،باپ بوڑھے ہو گئے تو بیٹے ان کی دو وقت کی روٹی سے تنگ ہو
گئے ہیں ،بھائی ،بھائی آپس میں مخلص نہیں ،حقوق اﷲ اور پڑوسی کے حقوق یاد
نہیں ۔کوئی بھوکا سو گیا ،ساتھ والے گھر میں کوئی دنیا فانی سے رخصت ہو گیا
کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔سب نے اپنی اپنی نوکری کرنی ہے،اور اپنے بیوی اور
بچوں کیلئے روزی کما کر جانا ہے۔کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہ روزی حرام طریقے
سے کمائی ہے یا حلال بس پیٹ بھرا رہنا چاہئے ۔ جھوٹ ،وعدہ خلافی ،چوری ،حرام
خوری ،رشوت خوری ،چغل خوری ،زنا،ناپ تول میں بے ایمانی اور دیگر جو اﷲ سے
دور کرتی ہیں ان چیزوں پر لوگ زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور جو چیزیں اﷲ کے
قریب کرتی ہیں ان کیلئے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
مسجد میں منمبر رسول ﷺ پر بیٹھ کرپیٹ پالنے کیلئے کونسے نظام کا درس دیا جا
رہاہے کہ مسلمان آپس میں لڑ کر مر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیرونی سازشیں
اس میں ملوث ہیں ۔میں اس پر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں کوئی ایسا مدرسہ یا سکول نہیں ہے جو کہ ایک پرچم تلے اکٹھے
ہونے اور مساوات کا درس دیتا ہو ؟انسانیت کا اس ملک میں یہ عالم ہے کہ مدعی
کی جگہ مجرم کو تھانوں میں اور ہمارے معاشرے میں زیادہ اہمیت ملتی ہے اب اس
بات کا مجھے اندازہ نہیں ہو پا رہا اس کی وجہ کرپشن ہے ،ڈر ہے یا انسانی
فطرت ہے ؟اب تو حق خود ارادیت استعمال کرنے کو بھی دل نہیں کرتا! عوام جس
پر بھروسہ کر کے اپنے مینڈیٹ کی اما نت سونپتی ہے وہ ہی اپنے عہدے کا غلط
استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا خون پی کر سرکاری نوکریاں مہیا کرنے لگتا ہے
اور جسکا خون پہلے ہی پیا جا چکا ہو تا ہے وہ چاہے جتنا بھی قابل ہو گلیوں
اور سڑکوں میں آوارہ پھرتا نظر آتا ہے کیا یہی جمہوریت کی سیاست ہے ؟ کیا
اس کو سیاست کہتے ہیں کہ جس میں پڑوسی بھوک سے مر رہا ہو اور سیا ست دان کے
گھر اعلیٰ پکوان ان کے پالتو کتے کھاتے ہوں ؟ اسی پر مجھے ایک بات یاد آگئی
جو میں آپ کے علم میں لانا چاہوں گا ،کہ ایک دن میرا ایک دوست آیااور اس نے
مجھ سے مشورہ مانگا کہ میرے پاس کچھ سرمایا ہے جو کہ کسی کاروبار میں لگانا
چاہتا ہوں تو بتاؤ کہ کون سا کاروبار شروع کروں ؟َ ؟ تو میں نے اسے کہا !آپ
پھلوں اور سبزی کا کاروبار کر لو اس میں بہت منافع ہے ،10 روپے والی چیز 20
روپے میں بکتی ہے ۔جب وہ چلا گیا تو مجھے گھر سے فون آیا کہ گھر کیلئے کچھ
سبزی لیتے آئیے گا ۔ جب میں سبزی لینے لگا تو اسنے مجھے و ہی 10 روپے چیز
کے 20 روپے بتائے تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں ابھی اسی بات کا اپنے
دوست کو مشورہ دے چکا ہوں جبکہ کل کو میں نے بھی یہی چیز یں خریدکرنی ہیں۔
بنک اپنے بھرو اور ٹیکس ان پر لگاؤکا حکومتی فارمولا جائز ہو تا نظر آیا
کیونکہ جب ہم ہی ٹھیک نہیں تو حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔یہاں پر میں
بیوروکریسی پر بھی کچھ کہنا چاہوں گا کہ کیا ہمارے ملک کی معیشت کا انحصار
صرف اور صرف لیپ ٹاپ تقسیم کرنے ،میٹرو بنانے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
سود پر گاڑیاں تقسیم کرنے یا بڑے بڑے فلائی اوور کی تعمیر پر ہے؟کیا ہماری
معیشت قابلیت ،تعلیم،عوامی حقوق کی آگاہی اور ملکی بحران جنکا خاتمہ ممکن
ہے سے بہتر نہیں ہو سکتی؟جو پیسہ اپنے رشتے داروں کو ٹھیکے دے کر اجاڑا
جاتا ہے کیا ان پیسوں سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا ؟ہو سکتا
ہے !لیکن جمہوریت کے دعوے دار اگر جمہوریت پر عمل کرنا شروع کر دیں ۔
میری خداوند رب جلیل سے دعاہے کہ بہت جلد وہ دن دیکھیں کہ مسلمان تفرقے کی
بجائے ایک قوم کے طور پر ایسی قوت بن کر ابھریں کہ ملکی معیشت ،سیاست
،بیوروکریسی جیسے الفاظ پاک ہو جائیں ۔آمین ۔ |