سورہ اعلی ۸۷، ۔۹۔۱۱ پس نصیحت کر اگر
نفع دے نصیحت کرنا تیری․؛۱۰۔ وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو ڈرتا ہے۔۱۱ اور جو
شخص بد نصیب ہو وہ اس سے گریز کرتا ہے۔
۱۳ تحقیق با مراد ہوا وہ شخص جو پاک ہوا۔اور یاد کیا اسنے پروردگار کا نام
اور نماز پڑھتا رہا۔
دنیا میں ہر جگہ یاد کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ زبان سے بار با دھرانہ
ہے یعنی رٹا لگانا ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو بات یاد کرنا اور رکھنا چاہتے
ہیں اس کو اونچی آواز سے بار بار دہرایا جائے تا کہ کانوں کے ذریعے بات ذہن
میں بار بار ریکارڈ کر دی جائے۔ کمپیوٹر کے برعکس، دماغ کا کمپیوٹر ایک بار
کہنے سے پکا، ریکارڈ نہیں کرتا۔ دوسرا یہ کہ کچھ عرصہ بعد خود بخود ر پرانی
یکارڈنگ یعنی یاد داشت خود بخود کم ہونے لگتی ہے اور نسان بھول بھی جاتا ہے،
یا یہ سمجھ لیں کہ پرانی ریکارڈنگ ترجیحات میں پیچھے چلی جاتی ہے اور نئی
باتیں سامنے آکر یاد رہتی ہیں۔۔ اس لئے ضروری باتیں وقفے وقفے سے پھر
دہرانا ضروری بن جاتا ہے۔ اس لئے ہی قرآن کو بار بار پڑھتے رہنے کا حکم ہے
تا کہ اﷲ کا پیغام لگاتار ترجیحات میں آگے رہے اور یاد رہے۔
نصیحت کرتے رہنے کا مطلب دراصل مثبت سوچ کو دوسروں کے ذہن میں ڈالتے رہنا
ہے تا کہ اس کی یادداشت میں پختہ ہو جائے۔ نصیحت زبان سے بھی کی جاتی ہے
اور دوسرے کے سامنے ایک عمل بار بار کرتے رہنے سے بھی۔ جیسے اگر بڑے بچوں
کو بھی تھینک یو کہیں گے تو بچے بھی نقل سے سیکھ جائیں گے، بچے چونکہ جلدی
بھول جاتے ہیں اس لئے کوئی عادت ڈالنے کے لئے ان کو بار یاد دلانا پڑتا ہے۔
اسی بات کو اﷲ تعالی یہاں سکھا رہا ہے کہ نصیحت کرنا بند نہیں کرنا چاہئے
وقفے وقفے سے یاد دلانا چاہئے تا کہ وہ خود بھی احساس کر لے اور پھر اپنے
طور پر فیصلہ کر کے بات پر عمل کر لے۔ دوسرا تنگ نہ آ جائے اور رد عمل کے
طور پر چڑ کر انکار نہ کر دے۔
جو آدمی سوچ بچار والا ہوتا ہے وہ نصیحت پر خود بھی غور کرے گا۔ عام طور پر
لوگ یہ نہیں کرتے اس لئے بھی دہراتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر ایک نقطہ یاد
رکھنا چاہئے کہ جب تک اس نصیحت کے فائیدے اور نقصان نہیں بتائیں گے تو وہ
عمل نہیں کرے گا۔اس لئے نصیحت کا ساتھ اس کی وجہ بھی بتانا ضروری ہوتا
ہے۔کیونکہ ہر کام کسی وجہ سے کرنا چاہئے صرف اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ ماں
باپ یا معاشرہ کر رہا ہے ۔
ایک اہم بات جو ہم سب بتانا بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھی
نصیحت کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی دوسروں کو بھی۔ بلکہ میرے خیال
میں اپنے آپ کو، اپنے آپ سے اونچی آواز میں باتیں کرنے کے انداز میں نصیحت
کرنا زیادہ فائیدہ مند ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے
ہیں کہ نئی عادت سیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں یا اپنے میں کوئی بری یا
نقصان دہ عادت یا بات دیکھتے ہیں اور اس کو صحیح کرنا چاہتے ہیں تو یہ
طریقہ ہی سب سے اچھا ہے۔مثلاجیسے اپنے آپ سے کہیں ۔ خالد صاحب، آپ بہت ہی
سستی دکھا رہے ہیں ۔ آپ کو خود سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر صبح اٹھنے میں
دیر لگاتے ہیں توکل سے آپ یہ کریں کہ جب بھی کوئی جگائے یا الارم بجے اور
آپ سوچنے لگیں کہ پانچ منت بعد اٹھونگا تو فورا کہیں کہ نہیں ابھی اٹھو اور
کرو۔ یا اپنی عادت بنا لیں کہ فورا اپنے آپ سے کہیں، ایک دو تین اور اٹھ کر
کام کر دیں ۔ اپنے آپ کو سمجھائیں کہ بھئی سستی ٹھیک نہیں ہوتی۔ چستی بہتر
ہوتی ہے۔وغیرہ وغیرہ جو بھی دلیل آپ سستی دور کرنے کے لئے دوسروں کو کہنا
چاہیں گے وہی اپنے آپ کو مخاطب کر کے سمجھائیں ۔آپ دیکھیں گے کہ یہ طریقہ
اپنی بری عادات دور کرنے اور اچھی عادات کو اپنانے میں کتنا کارگر ہوتا ہے۔ |