قوموں کا سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں کسی بھی
ملک و قوم کی تقدیر کوبدلنے،خوشحال بنانے،اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا
ہنر صرف جوان نسل کے پاس ہی ہوتا ہے کیونکہ جس قوم میں تعلیم کی طرف رجحان
بڑھتا ہے وہی قومیں ترقی کی منازل دنوں میں طے کرتی دیکھی گئیں ہیں پاکستان
میں تعلیم اور تعلیمی نظام کے ساتھ ہمیشہ مذاق کیا جاتا رہا ہے خصوصا خیبر
پختونخوا ،قبائلی علاقہ جات،میں مفاد پرست سیاستدانوں نے بڑھنے،پھلنے
پھولنے نہیں دیا سندھ میں وڈیرہ شاہی نظام نے غریبوں کے سپنے چھین لیے
بلوچستان میں تعلیم کوبد امنی کی نظر کھا گئی ۔جہاں جسکا جتنا زور چلا وہاں
تعلیم اتنا ہی دبایا اور نقصان پہنچایا گیا میڈیا کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے
کہ میڈیا نے لاکھ رکاوٹوں کے باوجود تعلیمی زیادتیوں کو بے نقاب کیااور
حالات عوام کے سامنے لائے گئے تو حکومتوں کو بھی شرم آنے لگی اور تعلیم پر
تھوڑی بہت توجہ دی جانے لگی مگر استاد کو آج بھی وہ مقام نہ مل سکا جو ماں
کی عظمت کے بعد اساتذہ کا بنتا ہے خبیر پختونخوا میں دہشت گردی نے ہمیشہ
ڈیرے ڈالے رکھے اور معصوم بچے ونوجوان ہر دور میں خوف کے سائے میں تعلیم
حاصل کرنے پر مجبور رہے حالیہ دور میں اے پی ایس سکول اور باچا خان
یونیورسٹی پر دہشت گردی کے واقعات نے پوری قوم کو تو متحد کر دیا مگر پوری
قوم مل کر وہاں کے نوجوانوں کے معصوم ذہنوں سے خوف دور نہ کر سکی اور نہ ہی
اساتذہ کی پریشانیوں کو کم کیا جا سکا ۔ہر ہاتھ میں اسلحہ پکڑا
دینے،سیکورٹی کے لیے تجربہ کار بندے رکھ لینے،اساتذہ کو کتاب اور قلم کے
ساتھ گن پکڑا دینے سے دہشت گردی کا خوف دور نہیں کیا جا سکتا جسکی مثال ایک
لیڈی ٹیچر کا خط ہے جو وزیر اعلی خیبر پختونخوا کو لکھتی ہیں کہ
جناب وزیر اعلی خیبر پختونخوا صاحب
جناب آئی جی پی خیبر پختونخوا صاحب
جناب سیکرٹری ایجوکیشن صاحب
گزارش ہے کہ ایس ایچ او تھانہ علاقہ ہذا ہمارے گورئمنٹ گرلز پرائمری سکول
تشریف لائے اور ایک سیکورٹی پروفارمہ دیا کہ سیکورٹی کی بابت مندرجہ ذیل
ضروریات فوری پوری کریں۔(1)سی سی ٹی وی کیمرے(2)چار دیواری(3)لائیٹنگ
سسٹم(4)اسلحہ ایلونیشن(5)مورچہ برائے سیکورٹی گارڈ(6)الارم سسٹم(7)بائیو
میٹرک سسٹم(8)ایس او ایس سسٹم(9)سیکورٹی گارڈمزید ایس ایچ او نے کہا کہ اگر
مندرجہ بالا ضروریات پوری نہ کی گئیں تو آپ کے خلاف،انڈر سٹیزن پروٹیکشن
ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج ہو گی ۔جب سے ایس ایچ او نے یہ دھمکی دی ہے
سکول جانے اور بچوں کو پڑھانے کے لیے دل ہی نہیں کرتا بلکہ الٹا اپنی عزت
بچانے کی فکر میں ہوں بچوں کو پڑھاؤں یا کورٹ کچہری،ایجوکیشن آفس چکر لگا
کر بتاؤں کہ یہ اساتذہ کا کام نہیں ہے خدا راہ ہمیں نوکری چھوڑنے پر مجبور
نہ کریں ہم دہشت گردی کا مقابلہ تو کر لیں گے مگر پولیس کے ذریعے بھجوائی
گئی دھمکیوں کا مقابلہ نہ کر پائیں گے اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے
کہ ایک لیڈی ٹیچر سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا جائے سیکورٹی فراہم کرنا
حکومتوں کا کام ہوتا ہے لیڈی ٹیچروں کا نہیں ہوتا۔اب معصوم بچوں کو دہشت
گردی کے خوف سے نکالتے نکالتے ہمارے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں اساتذہ کا کام ہے
نوجوان نسل کو اچھی تربیت دیکر اعلی تعلیم کے لیے تیار کرنا اور درپیش
مختلف چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت پید ا کرنا ہے اگر سیکورٹی کا کام بھی
اساتذہ سے لیا جائے گا تو تعلیم اور تربیت کون کرے گا۔یہ وہ سوالات ہیں
جنکا جواب یقینا ہمارے پاس نہیں کیونکہاے پی ایس سکول اور باچا خان
یونیورسٹی میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد اس قوم کے نوجوانوں کے بلند
حوصلوں کو داد دینا ہو گی جنہوں نے اپنے دوستوں کی شہادتیں آنکھوں کے سامنے
ہوتی دیکھیں مگر آج بے خوف و خطر انہیں سکولز کالجز میں تعلیم حاصل کرنے جا
رہے ہیں کیا یہ دلیری نہیں کہ اساتذہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے فرائض
منصبی ادا کر رہے ہیں اور ہماری نسلوں کے ذہنوں سے خوف کو دور کرنے میں
کوشاں ہیں ۔سیکورٹی فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ہماری
حکومتیں کیسا معاشرہ پید ا کر رہی ہیں کہ سکول کالجز جانے والا ہر طالب علم
کتاب کے ساتھ اسلحہ رکھے اور اساتذہ لیکچر دیتے وقت اسلحہ ٹیبل پہ رکھ کر
امن کا درس دے گا ہم پوری دنیا کو کیا پیغام دینے جا رہے ہیں تعلیم اسلحہ
سے نفرت سکھاتی ہے قلم سے دوستی بڑھاتی ہے یہ تو طے ہے کہ جس گھر میں جس
ہاتھ میں اسلحہ ہو گا وہاں ایک روز ،،بین،،ضرور ہونگے چاہے اسلحہ والا وار
کرے یا اسلحے والے پر وار ہو میت تو اٹھ کر رہتی ہے ۔اسلحہ کی نمائش کرنے
والے کو ہم قانون شکن اور جاہل کے نام سے جانتے ہیں اور ہم نے ہی،،ہلاکو
خان اور چنگیز خان پیدا کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے کہ اسلحہ کی
ٹرینگ،سکولز،کالجز،میں اسلحہ کی فراوانی لازمی قرار دیا جا رہا ہے شاید یہی
وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اسلحہ لائسنس بنوانے اور خریدوفروخت میں کافی
حد تک اضافہ ہو چکا ہے ایسے حالات میں یہ توقع رکھنا کہ بندوق کے سائے میں
تعلیم حاصل کرنے والے معمار وطن بنیں گے اگر اسلحہ کی بہتاب یونہی جاری رہی
تو ہو سکتا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے افسر بننے کی خواہش رکھنے والوں کی
بجائے نظام کے باغی پیدا کر بیٹھیں۔جو تعلیم حاصل کر کے ایک باوقار مستقبل
کی تمنا رکھتے ہوں وہ خوف کے سائے میں گھٹ ،گھٹ کر جینے کو بزدلی سمجھ کر
نظام کے باغی بن کر ہمارے سامنے آ جائیں ۔حکومتون کو سیکورٹی پر توجہ دینا
ہو گی کیونکہ استاد اور طالب علم کے ہاتھ میں اور آس پاس کتابیں اور قلم ہی
اچھے لگتے ہیں جو خوف کے سائے دور کرتے ہوئے علم و تدریس کا کام کر سکیں
اور نوجوان نسل کو ایک باوقار قوم کی طرح تیار کر کے پاکستان کا مستقبل
روشن کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مھفوظ ہاتھوں میں دے سکیں خدا راہ
اسلحہ کی فراوانی کر کے اس ملک کی تقدیر سے مت کھیلو نوجوانوں کو تحفط
فراہم کریں ،وہ کتابوں سے پیار کریں تاکہ وہ روشن مستقبل کے زینے طے کرتے
ہوئے دنیا میں امن پسند شہری کی حثیت سے ہماری مثال بن سکیں ۔ہمیں سوچنا ہو
گا کہ کہیں ہمیں اقوام عالم میں دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے تو اسلحہ سے لیس
نہیں کیا جا رہا ہے ؟
کہیں یہ اسلحہ میرے نوجوانوں کو جنگ و جدل کی طرف تو نہیں لے جائے گا ؟
کہیں معاشرے میں تعلیم کی جگہ گن کا نظام متعارف کروانے کے لیے نادیدہ
قوتوں کا ہاتھ تو نہیں ہے جو خاص ایجنڈے پر کام کر رہی ہوں؟
ہاں ہمیں سوچنا ہوگا اسلحہ اور کتاب میں فرق رکھتے ہوئے قلم اور کتاب کا
دور لانا ہو گا یہ سب تب ممکن ہو گا جب سیکورٹی کے لیے وفاق اور صوبائی
حکومتیں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گی دہشت گردی کے واقعات ہوں نہ ہوں
ہمارے نوجوان اسلحہ اور کتاب تھام کر امن کا درس کہاں دے سکیں گے اور آنے
والی نسل کو کیا پیغام ملے گا موت کے سائے میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے یا
جینے کے لیے اسلحہ کی ٹرینگ حاصل کرنا ضروری ہے ؟بقول شاعر شاہ زیب نوید کہ
بچے کے بستے میں اتنی کتابیں نہیں ہوتیں جتنے والدین کے خواب ہوتے ہیں
جنہیں ٹوٹنے سے ہمیں بچانا ہوگا۔ |