دُور بینی کو لاحق خطرات!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
درست ہی کہتے ہیں، انسان اپنی جیب سے
پیسہ خرچ کرتا ہے اور اپنے لئے غم خریدتا ہے، چاہے وہ اخبار کی شکل میں ہو
یا ٹی وی کیبل کی صورت میں۔ پریشان کن خبر آئی ہے کہ’’․․ ․تیس برس میں دنیا
کی نصف آبادی کی دور کی نظر خراب ہوجائے گی۔ تقریباً پانچ ارب لوگ 2050ء تک
زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکیں گے، اس سے اندھے پن میں سات گنا اضافہ ہوسکتا
ہے، دور کی نگاہ کی کمی اندھے پن کی پانچویں بڑی وجہ ہے، اس کی وجوہ میں دن
کی روشنی میں کمی اور کمپیوٹر، ٹی وی اور موبائل سکرین پر زیادہ وقت صرف
کرنا شامل ہے، بچوں کو آؤٹ ڈور کے لئے بہت کم وقت دیا جارہا ہے، ماہرین نے
والدین کو مشور ہ دیا ہے کہ وہ بچوں کی نظر باقاعدگی سے چیک کروائیں، انہیں
باہر کھیلنے کے لئے بھیجیں، الیکٹرانک آلات کے استعمال کو محدود کریں۔اس
وقت دنیا کے دو ارب افراد کی دور کی نظر خراب ہے ․․․‘‘۔
ویسے تو یہ پوری دنیا کا معاملہ ہے اور جب ایسا وقت آئے گا، تو ہم میں سے
بہت سے لوگ موجود ہی نہیں ہونگے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا ایسی
تحقیقات حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں یا پھر میڈیا کے کسی زرخیز ذہن کی پیدا وار
ہے؟ اگر اس سائنسی تحقیق کو درست مان لیا جائے تو اس کے سدِ باب کی کوشش
ہونی چاہیے۔ اگرچہ تحقیق میں اس مسئلے کا حل بھی بیان کیا گیا ہے، سورج کی
روشنی کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور الیکٹرانک آلات کے کم استعمال کی بات کی
گئی ہے۔ چونکہ یہ خبر برطانیہ سے آئی ہے اس لئے سورج کی روشنی کا مسئلہ
وہاں تو ہو سکتا ہے مگر پاکستان میں ایسا قطعاً کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ حتیٰ
کہ اپنے ہاں تو گرمی بھی شدید ترین ہوتی ہے۔ مگر جہاں تک الیکٹرانک آلات کا
تعلق ہے تو نئی نسل اس کی اس قدر دلدادہ ہے کہ وہ ان آلات کی دوری برداشت
ہی نہیں کرسکتے، اپنی اپنی عمر کے مطابق بچے ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کا
استعمال کرتے ہیں، بلکہ وہ یہ کام مسلسل کرتے ہی رہتے ہیں۔ گھنٹوں ٹی وی کے
سامنے بیٹھتے ہیں، وہاں سے اٹھے تو کمپیوٹر پر کام کرنے ، فلمیں دیکھنے اور
گیم کھیلنے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں سے فرصت پاتے ہی وہ موبائل پر
پیغامات لینے اور دینے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔
ان الیکٹرانک آلات کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ ہی ہے کہ اب بچے بھی نظر کا
چشمہ لگائے پھرتے ہیں، ان کو عینک کو سنبھالنا بھی نہیں آتا ، مگر مجبوری
ہے کہ اس کے بغیر ان بچوں کی محرومی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بچوں میں کبھی
سردرد کی شکایت پیدا ہوتی ہے اور کبھی نگاہ کے دھندلانے کی شکایت، کبھی وہ
کلاس میں لگے بور ڈ کو درست طریقے سے نہیں پڑھ سکتے ، مگر بدقسمتی یہی ہے
کہ آئی ٹی کی ترقی کا یہ بندوبست نئی نسل کے لئے وبال بن رہا ہے، جہاں یہ
بچوں کی نظر پر اثر انداز ہورہاہے، اسی طرح ان کے اذہان بھی اس کی منفی اثر
انگیزی سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان آلات سے بچوں کی جان چھڑوانا اب ناممکن ہوتا
جارہا ہے، یہ ایک نشہ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اہم بات یہ کہ حالات نے
اس نشہ کو لازمی قرار دے رکھا ہے، ا س کی مخالفت کا مطلب ترقی اور تابناک
مستقبل سے دور رکھنا ہے۔ مگر اس حقیقت کو تو کمپیوٹر اور موبائل ایجاد کرنے
والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا استعمال ضرور ت کے مطابق اور محدود ہونا
چاہیے، ہر وقت کے استعمال سے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگلے تیس برس کادعویٰ موجودہ حالات کو پیشِ نظررکھ کر ہی کیا گیا ہوگا،
معاملات جس طرف کو جارہے ہیں ، ان کی رفتار کیا ہے اور آنے والے وقت میں اس
رفتار میں کس قدر اضافہ ہو گا اور اس کی منزل کیا ہوگی۔ مگر ستم یہ بھی ہے
کہ ہم لوگ حال سے بھی نگاہیں چُراتے ہیں، اس وقت بھی اگر دور کی نگاہ کا
جائزہ لیا جائے تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی دور کی نگاہ کمزور ہے، مگر
انہوں نے نہ کبھی اس کا نوٹس لیا ہے، نہ اس کی فکر کی ہے اور نہ ہی انہیں
کوئی پریشانی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نظر زیادہ تیز رفتاری سے
کمزور ہوتی ہے اور مسائل میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے ہاں قریب کی عینک
کا رواج تو کسی حد تک زیادہ ہے، کہ کچھ لکھنا یا پڑھنا پڑتا ہے، مگر دور کا
کام دھونس سے ہی چلا لیا جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ایک اہم
ترین نعمت کی قدر کی جائے ، احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور بروقت
معائنہ کروا کر اِس نور کو محفوظ کیا جائے۔ |
|