دعوت و تبلیغ کی اہمیت
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
سرور کونین ؐکی بعثت و نبوت سے قبل عرب
وعجم کفروشرک اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہواتھا۔ایرا ن کے آتش کدے اور
ہندوستان کے بتکدے شرک کی ترغیب کے اڈے بنے ہوئے تھے ۔روم کی عیسائی سلطنت
عیاشیوں میں مگن ہوکر انجیل کی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکی تھی ۔اور خود عرب
بت خانوں کی آماجگہ بنا ہوا تھا۔اور تو اور خانہ کعبہ بھی بت پرستی کا مرکز
بن چکا تھا اور اس میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے گویا سال کے ہر دن کا ایک
الگ خدا تھا۔ہبل اور عزی کی حمد بلند کی جاتی تھی ۔اور رب ذوالجلال کو
بھلایا جا چکا تھا ۔شرک و بت پرستی کے علاوہ معاشرے کی ہر برائی بھی عرب
وعجم کے تقریباًہر معاشرے میں عام تھی ۔شراب اور جواء ،زنا کاری اور فحاشی
،رشوت اور سود خوری ،چوری وڈکیتی ،قتل وغارت گری اور غنڈگ گردی ،جھوٹ اور
غیبت ،غرض ہر قسم کی برائیاں عام تھیں۔عورت کو پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا
تھا ۔لونڈیوں اور غلاموں سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ان
حالات میں نبی ﷺ تشریف لائے اور دیگر معاشرتی برائیوں کے انسداد کے ساتھ آپﷺ
نے سب سے کاری ضرب شرک و بت پرستی پر لگائی اور اﷲ وحدہ لاشریک کی توحید کی
طرف دعوت دی ۔
آپ ؐ کی دعوت و تبلیغ قوی دلائل اور براہین کے ساتھ تھی ۔اﷲ کی وحدنیت کی
طرف دعوت دی تو پر زور دلائل کے ساتھ دی ۔شرک و بت پرستی کی نفی فرمائی تو
پرزور دلائل کے ذریعے فرمائی ۔حضور اکرم ﷺ کی یہی دعوت توحید تھی کہ جو
کفار مشرکین کو واقعی بری لگ رہی تھی اور وہ آپ ﷺ کی مخالفت اور آپ کو اذیت
دینے کے درپے ہو رہے تھے۔حضور اکرم ﷺ نے دعوت دین میں سب سے پہلا اہتمام یہ
کیا کہ آپﷺ کی دعوت صرف اور اﷲ ہی کی طرف تھی ۔حضور اکرم ﷺ نے اپنی دعوتی
زندگی میں حکمت کے اصولوں ک وہر لمحہ مدنظر رکھا۔آپ ﷺ نے پتھروں کے جواب
میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیا بلکہ حکمت
سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔آپﷺ نے بھی
خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار
فرماتے۔یہ بھی احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین
اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں ۔
شیرین زبان میں محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے ۔ وہ محمد عربی ﷺ
کہ جو دشمنوں کو بھی دعائیں دیتے ہیں آپﷺ نے دعوت تبلیغ میں بھی کبھی شدت
پسندانہ رویہ نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ انتہائی نرم انداز میں گفتگو فرماتے ۔اتنے
نرم و شیرین انداز میں گفتگو فرماتے اور ایسے میٹھے انداز سے بات کرتے کہ
دل خود بخود اسکی طرف مائل ہو جاتے ۔کسی کو اگر کسی بات سے منع کرنا بھی
مقصود ہوتا تو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے نرمی کے ساتھ ہی اسے سمجھاتے ۔دعوت
وتبلیغ کے دوران اگر کبھی کہیں جدال اور مناظرہ کی ضرورت پیش آتی تو بھی آپ
ﷺ نے انتہائی احسن اور نرم انداز میں گفتگو فرمائی ۔کئی مواقع پر کافروں نے
آپ ﷺ کو زچ کرنے کے لئے آپ ﷺ سے طرح طرح کے سوالات کئے لیکن آپ نے نہایت
تحمل سے ان کے جوابات دئیے۔اگر داعی کا کردار اس کی دعوت کا نمونہ نہ ہو
اور دعوت کے مطابق نہ ہو تو داعی کی دعوت بھی بے اثر ثابت ہوتی ہے ۔لیکن
حضور اکرم ﷺ کا عمل و کردار عین اپنی دعوت کے مطابق تھا۔آپ ﷺ کے قول و فعل
میں ذرہ برابر بھی تضاد ہونے کا شائبہ تک نہ تھا۔اسی وجہ سے جب حضرت عائشہ
سے آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق استفسار کیا گیا تو حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں
ارشاد فرمایا کہ آپ ﷺ کا اخلاق وہی کچھ تھا کہ جو قرآن ہے ۔
حضور اکرم ﷺ کی دعوت کے جواب میں آپ ؐ پر انتہائی مشکلات آئیں لیکن آپ ﷺ نے
انتہائی صبرواستقامت کا مظاہر ہ کیا اور اپنی دعوت میں معمولی سی لچک بھی
پیدا نہ کی ۔ایک داعی اگر مشکلات سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے
یا اپنی دعوت پر مستقیم نہ رہ سکے تو اسکی دعوت ختم ہو جا یا کرتی ہے ۔لیکن
محمد عربی ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ﷺ کے صبر استقامت کی گواہی دیتا
ہے ۔بلکہ آپ ؐ کی تو امت کے لئے بھی یہی تعلیم تھی۔کہہ!کہ میں اﷲ پر ایمان
لایا پرپھر اس پر ڈٹ جا۔
حضور اکرم نے دعوت و تبلغ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے تلقین کی ۔آپ نے
اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ساری دنیا میں پھیل جاؤ ۔اور اسلام کی دعوت دو۔
اور اسلام کو پھیلاؤ ۔صرف ایک اﷲ کی عبادت کرو اس کا کس کو شریک نہ بناؤ۔
وہی سب کا مالک ہے اور وہی سب کو رزق دینے والا ہے وہی پیدا کر تا ہے اور
وہی موت دینے والا ہے ۔اور میں محمد ﷺ اﷲ کا نبی ہوں ۔آپ ﷺ کو اس بات کا
بھی احساس تھا کہ کسی نئی قوم کو دعوت دیتے وقت سارے احکام شریعت یکمشت ان
پر لاگو نہ کردینے چاہئیں کہ اچانک ان پر بوجھ پڑ جائے بلکہ آہستہ آہستہ
انہیں احکام بتلانے چاہئیں ۔حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت آپ ﷺ نے
فرمایا۔’’تم یہود و نصاریٰ کو سب سے پہلے یہ دعوت دینا کہ خدا کے سوا کوئی
معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ۔جب وہ یہ مان جائیں تو ان کو پانچ
وقت کی نماز کا حکم دینا اور جب یہ مان جائیں تو انہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کا
حکم دیناــــ‘‘۔دعوت و تبلیغ کا کام اﷲ نے اپنے پیارے انبیاء کرام کو سونپا۔
حضور ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آنے والا۔ اب اس نبیوں والے کام کو کرنا
ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہم اس دعوت و تبلیغ کے کام کو جاری رکھتے ہوئے دعوت
اسلام کو عام کر سکیں اور نبیوں والے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو گزار سکیں
۔نبیوں والے طریقے ہماری زندگیوں میں آسکیں ۔اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔
دعوت و تبلیغ کے کام میں ہی میری بلکہ سارے عالم کے انسانوں کی کامیابی ہے
۔اور اب اس کام کو پور ا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ |
|