قاہرہ کے غیر حنوط شدہ بازاروں میں سے ایک
بازار خان الخلیلی بازار کی طرف لے جاتی سڑک کے کنارے وہ عمری با کے سامنے
بیٹھی ہے۔اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نہ عمری با نہ اس کے سامنے بیٹھی
الزہرہ۔ایک فقیر ہے، مست ملنگ ہے، کبھی مشکیزی، کبھی مزدور ہے۔
وہ ایک وقت میں ’’ ایک ‘‘ نہیں رہتا ’’ کئی ایک ‘‘ ہو جاتا ہے۔کبھی وہ سڑک
کے کنارے، بازار میں کہیں بھی نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ وہ ’’ یہاں
کبھی ‘‘ تھا ہی نہیں۔اور کبھی وہ اتنا نمایاں اور ہر جگہ پایا جاتا کہ یہ
شک بھی نہیں ہوتا کہ کبھی وہ وہاں سے کہیں گیا بھی تھا۔وہ کب وہاں موجود
ہوتا ہے اور کب موجود نہیں ہوتا ‘نہ اس پر سوال اٹھتا ہے نہ اس کا جواب
حاصل ہو پاتا ہے۔
دھول مٹی سے اٹی سڑکوں پر پانی چھڑکتے، دُکانوں کے وزنی سامان کوکندھوں پر
اٹھائے مزدور بنے، کچھ سیاحوں کے لیے سواری کا انتظام کرتے یا بچا کچا
کھانا چنتے وہ کام میں ایسے منہک ہوتا ہے جیسے سرکار کا ادنٰی لیکن
فرمانبرار ملازم ہو۔’’ کس سرکار ‘‘ کا یہ نہ کسی نے جانا نہ اس نے بتایا۔اس
کے کام کی تند دہی یہ بتاتی ہے کہ اس تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ ملتا ہے۔ لوگ
اسے سڑک کے کنارے بے سدھ پڑا ہوا بھی دیکھتے ہیں۔مکھیاں اس کے منہ پر ایسے
بھنبھاتی ہیں جیسے وہ شیرینی کی بھری رکاب ہو اور وہ اسے چاٹ بھی جانا
چاہتی ہوں اور بچا کر بھی رکھنا چاہتی ہوں ۔
یہ ایک عمری با ہے اور دوسری الزہرہ۔جو یا سالوں اس کے پاس نظر نہیں آتی یا
پھر سال کے کئی دن اس کے سامنے، اس کے پاس دیکھی جا سکتی ہے۔یہ بھی جتنی
نمایاں رہتی ہے اتنی ہی غائب۔ جب یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ مر گئی ہو گی
تبھی وہ زندہ ہو کر اپنی پہلے سے زیادہ بدلی ہوئی، بلکہ بدتر حالت میں ،
اپنے پیروں کو چھوتے لمبے لباد ے میں کسی درویش کی طرح چلتی نظر آجاتی
ہے۔نہ پتا چلتا ہے زمین پر چل رہی ہے نہ پتا چلتا ہے ہوا میں اُڑ رہی ہے۔
وہ عمری با کو خدا کا خاص بندہ سمجھتی ہے۔ برگزیدہ ہستی مانتی ہے۔ جبکہ
عمری با اپنے منہ سے اسے کئی بار کہہ چکا تھا کہ وہ کوئی ولی نہیں ہے۔وہ
ولی کیسے ہو سکتا تھا جبکہ فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا کہ
کب سرد ملکوں کے موسم سرد تر ہوں اور پرندے ہجرت کر کے اسے میزبانی کا موقع
دیں۔وہ ولی اس لیے بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ سارا دن اسے حشرات کاٹتے
رہتے ہیں اور وہ آئے دن بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ بھلا ولیوں پر ایسی نوبت
آتی ہے کہ کیڑے مکوڑے ان پر اپنا حق سمجھنے لگیں۔وہ لمبی عبادتوں کا امین
کبھی نہیں رہا تھا۔وہ تو ایک عام نمازی کے عہدے پر بھی پورا نہیں اترتا
تھا، کچا مومن اور برگزیدہ ہونا۔پھر بھی نجانے کس نے الزہرہ کو بتا دیا تھا
کہ وہ ’’ ولی ‘‘ ہے۔ اگر وہ اسے ولی مانتی بھی تھی تو بھی حیرت انگیزطور پر
وہ اس کے پاس کوئی حاجت لے کر نہیں آتی تھی۔
الزہرہ کو دُنیا میں عمری با جیسا بے ضرر کوئی اور نہیں ملا تھا۔عمری با کی
سماعتوں سے زیادہ اسے کسی زی روح کی سماعت پر بھروسہ نہیں تھا۔وہ صر ف اسی
کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتی تھی۔وہ پہلی بار اس کے سامنے تب رکی اور
پھر بیٹھ گئی جب اس کی پہلی شادی ہو رہی تھی۔اس کے سیاہ گھنگریالے بالوں کی
کچھ لٹیں سکار ف سے باہر اس کی پیشانی پر بکھری تھیں اور سرمئی زمین پر
بکھرے رنگ برنگے پھول اس کا لبادہ تھے۔وہ جوان تھی اور خوبصورت بھی۔
’’ کیاتم خدا سے یہ نہیں معلو م کر سکتے کہ جسے میں پسند کرتی ہوں اسے چھوڑ
کر خدا نے کسی اور کو میرے لیے کیوں پسند کر لیا؟۔‘‘
عمری با خاموش رہا۔ اسے روتے ہوئے سنتا رہا۔
’’مجھے جواب چاہیے……پوچھو خدا سے……‘‘ وہ اگلے دن پھر آئی۔کتنے ہی دن آتی
رہی۔
’’میں مخلوق ہوں ،جج نہیں۔خدا سے واقعات کی دلیل کیسے مانگ سکتا ہوں۔میرے
پاس عدالت لگانے کا حق نہیں کہ یہ کیوں ہو ا وہ کیوں نہیں ہوا۔ سوال مجھ سے
کیا جائے گا ، مجھے جواب نہیں مانگنا۔مجھے تو عدالت میں جانا ہے۔یہ کام تم
خود کرو۔ہو سکتا ہے عدالت سجا کر تمہیں کچھ سکون مل جائے اور تمہارے آنسو
رک جائیں۔خدا سے مقدمہ لڑتے تم جیت جاؤ اور سکھ حاصل کرو……‘‘ عمری با چڑ کر
سخت آواز میں بولا۔
الزہرہ نے اپنے آنسو پونچھ لیے……’’ میں عدالت نہیں لگا سکتی میں خدا کا
احترام کرتی ہوں۔‘‘
’’پھر اس کے فیصلوں کا احترام بھی کرو۔‘‘
جو مجھے پسند ہے وہی مجھے دے دیا جائے تو اس میں کیا برا ہے؟
جو تمہیں پسند ہے ’’ وہ برا ‘‘ نہیں ہے اس کا تمہیں یقین ہے؟
انسان یہ جان جاتا ہے کہ اُسے کیا پسند ہے۔انسان خدا نہیں ہے وہ یہ نہیں
جان سکتا کیا اچھا ہے، کیا برا……
تو پھر جو یہ جان سکتا ہے اسی کے پاس یہ اختیار رہنے دو……
لامحدود اختیارات والا تو لامحدود خوشیاں دے سکتا ہے۔ہماری پسند کی ، ہماری
من چاہی……
وہ لامحدود خوشیاں ہی دیتا ہو تو؟ اور ہم نہ جان پاتے ہوں……
تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟ تم خدا سے گفتگو کرتے ہو نا؟ تم ولی ہی ہو نا؟
یہ باتیں تو میں خطبے میں سنتا ہوں……تم کیوں نہیں سنتی……
میرا گھر مسجد سے بہت دُور ہے……
تمہارا گھر مسجد سے دُور ہے یا تم؟
الزہرہ بے چین ہو گئی۔’’تم میرا پیغام خدا کو کیوں نہیں دے دیتے۔‘‘
انسان اپنا پیامبر خود ہوتاہے۔تم بھی اپنی پیامبربنو۔اپنی ادائیگیاں خود
کرو۔
وہ عمری با کی شکل دیکھنے لگی۔اس کی داڑھی میں تنکے الجھے تھے اور اس داڑھی
کو کبھی خط نصیب نہیں ہوا تھا۔اس کے کپڑے گندے اور بد بو دار تھے۔ایسا انسا
ن خدا کا پیار ا کیسے ہو سکتا ہے۔
وہ چلی گئی۔ جیسے اس سے ناراض ہو گئی ہو۔وہ خریداری کرنے بازار آئی نہ اُس
کے پاس۔لیکن جب اس کا شوہر حادثے میں مر گیا تو اسے اس کے پاس آنا پڑا۔وہ
آئی اور روئی۔ایک بیوی اپنے مرحوم شوہر کے لیے روئی۔پھر اس نے اپنی پسند کے
آدمی سے شادی کی اور اس نے اُسے چھوڑ دیا۔اس کا دوسرا شوہر چاہتا تھا کہ وہ
اپنے پہلے شوہر کو اس کے سامنے برا بھلا کہے اور گالیاں دے تاکہ اسے معلوم
ہو کہ وہ حقیقتاَ اُس سے نفرت کرتی تھی اور کرتی رہے گی۔
’’ میں مرحوم جبار سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن میں اس کی احسان مند ہوں۔اس
نے میرا خیال رکھا، میرے رشتے داروں کا احترا م کیا۔مجھے عزت دی۔میں اس کے
گھر میں رہی، اس کی محنت کی کمائی کھاتی رہی ، اس کا دیا اوڑھتی رہی ۔میں
اسے گالیاں کیسے دے دیتی عمری با۔میں نہیں دینا چاہتی تھی لیکن مجبور ہو کر
ایک بار میں نے مرحوم کو گالیاں دیں۔ اس نے کہا اور گندی گالیاں دو۔میں نے
اور گندیاں گالیاں دیں۔پھر وہ مجھے ہر روز یہ کرنے کے لیے کہنے لگا۔ میں نے
اپنا منہ سی لیا۔
عمری با نے سب سمجھ لینے کے انداز سے سر ہلایا۔
اس نے مجھے مارا……مارتا رہا……میں نے اپنے لب وا نہ کئے ۔پھر اس نے مجھے ایک
طلاق دی ……
تم نے ایسی زبردست نیکی کی قوت کہاں سے حاصل کی؟عمری با کی آواز اس کی چال
کی طرح بے ضرر تھی۔
نیکی؟ وہ چلا اٹھی’’ کیسی نیکی؟ ‘‘
تم نے اپنے ہونٹ کیوں سی لیے؟
کیا تم نے جس کا کھایا ہو اسے تم برا بھلا کہہ سکتے ہو؟ اس نے مجھے اناج کے
اتنے دانے کھلائے تھے کہ میں دو زندگیوں میں بھی ان کی تعداد نہیں گن
سکتی۔میں کیسے اسے برا بھلا کہہ دیتی۔ میں اس سے محبت نہیں کر سکی تھی لیکن
اس کا احترام تو کر سکتی تھی۔وہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن اس کی خوبیاں
مجھے پسند تھیں۔میں بیمار ہوئی وہ میرا خدمت گزار ہوا، ہماری پہلی اولاد
مری وہ میرے دُکھ میں شریک ہوا۔میں یتیم ہوئی تو وہ باپ کی طرح میرے لیے پر
شفیق ہو گیا ۔وہ مجھ پر ہمیشہ مہربان رہا میں اسے کیسے ……عمری باکیسے……
لیکن تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی……
ہاں!میں نے اسے کبھی پسند نہیں کیا لیکن اس کا احسان ہمیشہ مانا……شوہر تھا
وہ میرا……
جسے تم پسند کرتی تھی اُسے تم نے اس کے لیے چھوڑ دیا جسے تم پسند نہیں کرتی
تھی۔تم نے اس کی مار کھائی اور بالاخر جو تمہیں سب سے زیادہ پیار ا تھا ،تم
نے اسے دُور ہو جانے دیا۔
میں نے اس کی منت کی۔اس سے کہا کہ وہ مجھے روز مارا کرئے لیکن یہ کرنے کے
لیے نہ کہے۔ اس نے مجھے چھوڑ دیا۔
تم نے ایسی قوت کہاں سے حاصل کی؟
تم کس قوت کی بات کر رہے ہو؟الزہرہ پھر سے چلا اٹھی۔
جان سے پیارے کو چھوڑ دینے کی……ایک انسان کے احترام کے بدلے اپنے محبوب کو
چھوڑ دینے کی۔
وہ دنگ عمری با کی شکل دیکھنے لگی۔دیکھتی رہی……’’تم کیا کہہ رہے ہو……کوئی
بھی ہوتا وہ یہی کرتا……میں نے بھی وہی کیا……‘‘
عمری با نے سب سمجھ لینے کے انداز سے سر ہلایا لیکن کچھ کہا نہیں۔
جن دنوں اس کا تیسرا شوہر بستر مرگ پر تھا وہ غم سے بے حال دیوار کا سہار ا
لیتی آئی۔
دعا کرو میرا شوہر ٹھیک ہو جائے……
خدا اسے شفاء دے ۔
میں اس سے محبت کرتی ہوں……
تم جانتی تھی وہ موزی بیمار ی کا مریض ہے ۔اسے ایسی دعاؤں کی ضرورت ہے جو
معجزے رونما کریں۔ تم نے اس سے شادی کیوں کی؟
وہ رونے لگی۔’’کیا صرف انہی سے محبت کی جاسکتی ہے جن کے پاس لمبی زندگی کی
پرچی ہو۔جو زیادہ لمبے وقت تک زندہ رہ سکتے ہوں۔اس کی بوڑھی ماں اسے سنبھال
نہیں سکتی تھی۔ زندگی میں کسی نے اس سے محبت نہیں کی تھی۔وہ زندگی میں
اکیلا تھا۔میں اسے موت میں بھی اکیلا کیسے چھوڑ دیتی۔جبکہ میں یہ جان چکی
تھی کہ اُسے زندگی کے ساتھی سے زیادہ موت کے ساتھی کی ضرورت ہے۔ جب ہم کسی
کی ضرورت جان جاتے ہیں عمری با اور اسے پورا بھی کر سکتے ہیں تو اس ضرورت
کو پورا کرنا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔مجھ پرو ہ فرض ہوگیا تھا۔میں ایسے فرض
سے منہ کیسے موڑ لیتی۔
’’کتنی ہی عورتیں اس کے بارے میں جانتی ہوں گی پھر تم نے ہی کیوں شادی
کی۔؟؟‘‘
اگر میں صحر ا میں بھٹک جاؤں اور پانی کی ایک بوند کے لیے تڑ پ رہی ہوں تو
جو پہلا شخص مجھے نظر آئے گا مجھے اسی پر یقین ہو گا کہ وہی مجھے پانی
پلائے گا۔ بیماری کی تکلیف اور موت کے صحرا میں اُسے نظر آنے والا میں پہلا
شخص ہوں عمری با۔
ایسی بات نے عمری با کو دنگ کر دیا۔
میرا دل اس کے درد پر بلبلا رہا ہے۔ خدا اس کی تکلیف کو کم کرئے۔
’’خدا اس کی تکلیف کوکم کرئے گا۔‘‘عمری با نے دعا کی
خدا اسکی تکلیف کو راحت میں بدل دے……
خدا ایسا کر چکا ہے ، وہ تمہیں اسے عطا کر چکا ہے……
تم خدا کے قریب ہو تم خدا سے دعا کرو…… خدا اسے راحت دے……
کیا خدا صرف قریب والوں کی دعا ہی سنتا ہے۔اگر میں ولی ہوں تو بھی کیا وہ
کسی کافر یا گناہگار کی دعا نہیں سنے گا۔کیا وہ کچھ لوگوں کے لیے اپنی
سماعتیں بند کر لے گا اور کچھ لیے کھول دے گا۔تم نے خدا کو اتنا پابند اور
مختصر کیوں کر دیاہے۔
میں ہوں کون جس کی وہ دعا قبو ل کرئے۔
تم اس کی مخلوق ہو۔ تم خدا کو ’’ مجھ ‘‘ تک محدور کیوں کرتی ہو۔آخر تمہیں
یہ کیوں لگا کہ میں خدا کے قریب ہوں۔میں جو کہوں وہ ہو سکتا ہے……؟
میں نے مکھیوں کو تمہارے منہ پر بھنبھناتے دیکھا اور تمہیں اس پر کوئی
اعتراض نہیں تھا۔
وہ ہنسا!’’تو اس سے میں خدا کا پیارا ہو گیا؟‘‘میرے منہ پر روز مکھیاں
بھنبھناتی ہیں اور ہزاروں لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ مجھے ایسا نہیں مانتے……تم
اگر مجھے مانتی ہو تو پھر ولی ہی ولی کو پہنچانتا ہے۔
پتا نہیں! بس میں نے یہ جانا کہ تم مخلوق کے ساتھ مہربا ن ہو۔
تم مجھ سے کہیں زیادہ مخلوق کے ساتھ مہربان ہو۔تم خدا کی سب سے پیاری مخلوق
کے ساتھ مہربان ہو ۔انسان کے ساتھ۔
اگلی بار جب وہ عمری با کے سامنے آئی تو عمری با کو کچھ وقت لگا اسے
پہنچانے میں۔اتنی سی عمر میں ہی اس کی کمر جھک گئی تھی اور اس کی کھال
ہڈیوں سے لٹک جانے کے قریب تھی۔ اس کے چہرے پر جگہ جگہ زخموں کے نشان
تھے۔اس کے تیزی سے سفید ہوتے بال جلے ، کٹے ہوئے تھے۔وہ ایک آنکھ سے نابینا
بھی ہو چکی تھی۔
تیسرے شوہر کی موت اس پر بڑھاپا لے آئی اور وہ اپنے شوہر کی غم زدہ بوڑھی
ماں جو اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھی تھی کی خدمت گار بن گئی۔اس نے جاڑے اور
بہاریں گھر کے اندر اُس کے ساتھ کاٹے، جسے روشنی اور اندھیرے دونوں سے ڈر
لگتا تھا۔جوجاگتی تھی تو روتی تھی ، سوتی تھی تو چلاتی تھی۔اکلوتے بیٹے کی
طویل بیماری اور موت نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھی
تھی اور الزہرہ کے حواس تار تار کر رہی تھی۔وہ اس پر کسی جنگلی جانور کی
طرح حملہ آوار رہتی اور الزہرہ اس کے ہاتھوں شکار ہوتی رہتی۔جب کبھی الزہرہ
کو ضروری خریداری کے لے بازار جانا پڑتا تو وہ انہیں اپنے ساتھ باندھ
لیتیں۔پھر بھی وہ راستہ بھر اسے نوچتی ، مارتی، چلاتی اور روتی ہوئی
آتی۔ایک دنگل تھا جو ہر روز اس کے گھر ہوتا تھا۔پھر بھی وہ خوش تھی۔ لوگ اس
گھر کو پاگل خانہ کہتے تھے۔ الزہرہ کے ساتھ جو لوگوں کو تھوڑی بہت ہمدردی
تھی وہ بھی جاتی رہی تھی۔لوگ کہتے تھے کہ وہ اسے چھوڑ کر چلی کیوں نہیں
جاتی۔اسے کسی پاگل خانے میں جمع کروا دے وہ صرف پیتنس سال کی ہے و ہ پھر سے
اپنا گھر بسا سکتی ہے۔اس نے بھی یہ سب سوچا تھا لیکن کیا کچھ بھی نہیں۔
کیا لوگوں کو اس لیے چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں
رہے۔کیاخدا ایسے لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے……
تم خدائی صفا ت اپنانے کی کوشش کر رہی ہو؟
میں جاننا چاہتی ہوں کہ خدا کیا کرتا……
تم دیکھ تو رہی ہو اس نے تمہیں اس کے ساتھ رکھا ہے……خدا نے یہی کیا……
اور اگر میں نہ رہوں اس کے ساتھ……پھر؟
چھوڑ دو پھر ……اپنے سکھ تلاش کرو ……
میں سکھی ہوں۔ خدا جانتا ہے میں بہت سکھی ہوں۔ کیا سکھ صرف اچھا کھانے میں،
اچھا پہننے میں، اچھی جگہ رہنے کو ہی کہتے ہیں۔میں سمجھنا چاہتی ہوں لوگ
مجھے بے چاری کیوں کہتے ہیں صرف اس لیے کہ میں اپنے مرحوم شوہر کی ماں کے
ساتھ ہوں جو پاگل ہے۔میں جوان ہوں اور وہ کہتے ہیں میں خود کو برباد کر رہی
ہوں۔اگر میں ایسی پاگل ماں کی بجائے اپنے نئے شوہر کے ساتھ ہوں گی تو کیا
تب ہی میں سکھی ہوں گی۔اس نے میری ایک آنکھ پھوڑ دی ، گرم سلاخ اس نے میری
آنکھ میں کھونپ دی ، پھر بھی میں سکھی ہوں لیکن میں تب دکھی ہوتی ہوں جب
لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں۔
تو اس پاگل ضیعف کی خدمت نے تمہیں بھی ضعیف کر دیا ہے؟
ایسے نہ کہیں عمری با۔جس میں ان کا اختیار نہیں اس کا الزام بھی انہیں نہ
دیں۔کیا زندگی جوانی کی بہاریں اور پڑھاپے کا آرام ہی ہے؟کیا وقت سے پہلے
بوڑھا ہو جانا عذاب ہے؟کیا نیکی اپنے سکھ کو حاصل کرنے کے بعد کیا جانے
والا عمل ہے؟
تو تم یہ سب نیکیاں جمع کر رہی ہو؟
نہیں عمری با!نیکی میرے بس کی بات نہیں۔میں نے عبادتوں میں راتیں گزاری ہیں
نہ دن۔
’’تمھاری یہ عاجزی خدا کو پسند ہو گی ……یقینا……۔‘‘
’’اگر پسند ہوتی تو وہ مجھے بزرگی عطا کرتا……‘‘
وہ چلی گئی اور پھر اپنے مرحوم شوہر کی ماں کے مرنے کے بعد آئی۔وہ اتنی
غمزدہ اور دکھی تھی کہ عمری با کو لگا کہ وہ بھی جلد ہی مر جائے گی۔لیکن وہ
مری نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھنے لگی۔اس نے ایک
خدمت گار کی حیثیت اختیار کر لی۔ لو گ اسے اپنے بیمار بوڑھوں یا معذور بچوں
کی دیکھ بھال کے لیے اجرت پر رکھ لیتے۔وہ اجرت بھی کم لیتی تھی اور اس کی
نگرانی بھی نہیں کرنی پڑتی تھی۔ البتہ وہ جس جس بوڑھے مریض کی خدمت کے لیے
گئی ان میں سے بہت سے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے۔اور اسی لیے اس کی
مانگ میں اضافہ ہوا۔
’’کیا میرا سایہ منحوس ہے؟‘‘
میں نہیں جانتا……
مجھے جاننا ہے ……وہ میرے ہاتھوں میں دم کیوں تو ڑدیتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں میں
موت کا فرشتہ ہوں۔
تم اسے خوش نصیبی کیوں نہیں سمجھتی……
کیا موت کسی بھی طرح خوش نصیبی ہو سکتی ہے۔
کیوں نہیں!جو حکم لکھ دیا گیا ہے اس کی تکمیل ہو جائے تو کیا یہ خوش نصیبی
نہیں؟
میں موت کے لیے تیار ہوں لیکن دوسروں کی موت مجھے گوارا نہیں۔
’’تم کون ہوتی ہے گوارا کرنے والی،جب اسے گوارا ہے جو زندگی کے ساتھ موت
لکھتا ہے۔‘‘
’’تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو کیا تم نے خدا سے پوچھا ہے۔‘‘اسے یقین چاہیے
تھا۔
میرا خیا ل ہے یہ سامنے کی بات ہے……صاف صاف…… بالکل حقیقت……دن کی طرح صاف
اور دھلی ہوئی۔
تم مجھے ٹال رہے ہو۔پھر ٹال رہے ہو۔میں تو اپنے سامنے مرنے والوں کی تعداد
بھی بھول گئی ہوں ۔میرے کانوں میں ان کی توبائیں گونجتی رہتی ہیں……ان کی بڑ
بڑاہٹیں……ان کے کلمے……ان کی آخری ہچکیاں……
کیا تمہیں یہ کسی انعام سے کم لگتا ہے؟تم ان کی شہادتوں کی گواہ ہو؟
کیا خدا کو گواہوں کی ضرورت ہے؟ وہ سب جانتا ہے……
وہ سب جانتا ہے لیکن روز قیامت وہ اپنے لیے نہیں ’’ ہمارے ‘‘ لیے گواہ
سامنے لائے گا۔وہ انصاف پسند ہے ، وہ سیدھے سیدھے سزا سنانا نہیں
چاہتا۔ورنہ یوم جزا صرف یوم سزا ہوتا۔
’’ کا ش میں ولی اﷲ ہوتی،عمر ی با، کاش ایسا ہوتا،میں خدا سے ان سب کے لیے
راحت مانگتی ۔‘‘
عمری با مسکرانے لگا۔’’ انسان عجیب ہے اسے پیغمبر کے ساتھ معجزہ چاہیے اور
فرمان کے ساتھ مہر۔پھر ہی وہ اپنے ایمان کی کھڑکی لھولتا ہے۔‘‘
الزہرہ دوائیوں اور حکیمی نسخوں سے بھرے تھیلے کو اٹھا کر چلی گئی اور ایسے
ہی تھیلے کے ساتھ ایک بار پھر آئی۔
اس نے کہا کہ میں اسے کلمہ پڑھوا دوں۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس کا بیٹا
اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے گیا ہوا تھا۔پھر اس نے دم توڑ دیا۔وہ ساری رات بڑ
بڑاتا رہا اور اس نے اپنے گناہ مجھے بتائے۔
جب وہ تمہیں اپنے گناہ تمہیں بتا رہا تھا تو تم نے اس سے کیا کہا۔
میں نے کہا ’’ خدا رحمن ہے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ رحمن ہے جتنا تم سوچتے ہو
یا جانتے ہوں وہ تمہیں معاف کرنے کا رائی برابر جواز بھی نہیں چھوڑے گا۔میں
ساری رات اسے یہی کہتی رہی۔میں چاہتی تھی وہ خدا کی رحمت پرایمان رکھ کر
جان دے۔
اگر تمھارے بجائے اس کی لاپرواہ اولاد اس کے پاس ہوتی تو وہ شاید خدا پر
اتنا یقین رکھ کر سانس نہ دیتا۔
الزہرہ معصومیت سے مسکرا دی۔’’خدا رحمن ہے، وہ ہمارے یقین پر اپنا رحم نہیں
کرتا۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں یا نہیں وہ رحمن ہی ہے۔‘‘
’’تم نے ــ’’ خدائی صفت ‘‘ کی ایسی حقیقی پہچان کیسے حاصل کی؟‘‘
یہ تو سامنے کی بات ہے……صاف صاف……بالکل حقیقت……کیا تم نہیں دیکھتے یہ
سب……کیا وہ میرے اعتقاد پر مجھ پر رحم کرئے گا۔؟
عمری با بھی معصومیت سے مسکرا دیا۔’’ تو تم نے یہ جان لیا؟
اگر میں برگزیدہ بندی ہوتی تو خدا کو زیادہ اچھی طرح سے جانتی۔‘‘
’’تو تمہیں بھی مہر چاہیے۔دلیل کے ساتھ ثبوت۔‘‘ عمری با نے اس کے رخصت ہو
جانے کے بعد کہا۔
٭ ٭ ٭
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک ڈھلتی عمر کی عورت کھڑی تھی۔
کون! دیکھو میں نے تھیلا تیار کر لیا ہے میں نکلنے ہی والی تھی گھر سے۔کچھ
نسخے تیار کرنے میں وقت لگا ورنہ اندھیرہ چھانے سے پہلے میں گھر سے نکل چکی
ہوتی۔‘‘اسے لگا جس نئے مریض کے لیے اسے خدمت گار کی حیثیت سے مامور کیا گیا
ہے انہی میں سے کوئی اسے لینے آیا ہے۔
عورت اسے دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے جھجک گئی۔الزہرہ نے آنکھ رگڑ کر اپنی
بینائی کو ذرا صاف کیا اورایک پریشان حال اجنبی عورت کو سامنے کھڑا پایا۔
’’میرا گھر جل چکا ہے……میرا شوہر مر چکا ہے، میں بے اولاد رہی اور پھر میرا
ایمان ڈگمگا گیا،میں……میں نے خدا کو گنوا دیا۔‘‘اس نے سسک کر کہا۔
الزہرہ نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔پھر آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر تھپکی دی۔’’
میں دو ٹانگوں سے معذرو ایک ضعیف کی خدمت کے لیے جا رہی ہوں۔ کیا تم میر ے
ساتھ آنا چاہو گی؟ خدا کو اس کی مخلوق کی خدمت کے ذریعے پانے کی کوشش کرو
گی۔‘‘
عورت نے سر ہلا دیا اور الزہرہ کے ہاتھ سے تھیلا لے لیا۔
’’ تم مجھے جانتی ہو؟‘‘
کیا آپ مجھے نہیں جانتیں۔اس فقیر نے کہا میں یہاں آجاؤں، وہ جو خان الخلیلی
……
’’عمری با؟‘‘الزہرہ حیران رہ گئی۔’’ وہ میرا گھر نہیں جانتا۔ہمیشہ میں ہی
اس کے پاس گئی ہوں۔تمہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
میں نے جھوٹ نہیں بولا۔اس نے کہا محلہ اشرافیہ میں مسجد کے گنبد کے سائے
میں اس کا گھر ہے اور مسجد کے گنبدکی روشنی صرف اسی کے گھر کو روشن کرتی
ہے۔
پندرہ سال سے اس گھر میں رہتے الزہرہ نے پہلی بار گھر کی دہلیز سے نکل کر
مسجد کے گنبد کو دیکھا اور اس سے اٹھتی روشنی کو۔وہ صرف اسی کے گھر کو روشن
کر رہی تھی۔اس نے ڈگمگاکر دہلیز کو پکڑ لیا ۔’’ اور اس نے کیا کہا ۔؟‘‘
اس نے کہا’’ انسان بھی عجیب ہے ہر چیز کا ثبوت مانگتا ہے اپنے ولی ہونے کا
بھی۔‘‘
٭ ٭ |