جہنم کے سوداگر - تیسری قسط

جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی :وقارعلی جان
شیطان کو بلیدان (تیسری قسط)
1997میں جب ڈیوڈافغانستان میں تحریک الشیر تنظیم کے سرابرہ ابو المسعود کامہمان بناتواس گروپ کے اندر ہمارے جاسوس پہلے سے ہی موجود تھے ۔جو اس کی تمام خبریں اسلام آباد ہمارے ہیڈکواٹر میں پہنچارہے تھے،اس کے روزوشب کی ہر قسم کی نقل و حرکت کی مکمل اطلاع ہمیں ملتی تھی ۔ یہ کہاں جاتاتھا اسکی کن سے ملاقاتیں ہوتی تھی یہ اور بہت کچھ ۔اس کے علاوہ ڈیوڈ کے وہاں ٹھہرنے کا مقصد تحریک الشیر تنظیم کے سرابرہ ابو المسعودکو امریکہ روانہ کرنے کے حوالے سے تمام انتظامات اور ہدایات دیناتھیں۔اس مقصد کے لئے اسے تمام ضروری کاغذات اور کوڈز دیناتھے تاکہ امریکہ جاکر اسے کسی قسم کی کوئی دشوار ی نہ ہو۔یہ سب کچھ وہ ایک بیگ میں لے کر آیاتھاجس میں سفری سامان کے علاوہ ڈیوڈ کی دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں بھی موجود تھیں ۔ابوا لمسعود کاکوڈ نام جان ہٹمین (John Hitman) تھااور اسے امریکہ خصوصی طور پر کرنل اشرسے ملنے کے لئے بھجوایاجارہاتھا۔اس کے لئے ان کی تیاری پہلے سے ہی زبانی طور پر ٹیلی فون پر ہوگئی تھی اب ڈیوڈ کے آنے سے اس پر باقاعدہ عمل درآمد ہورہاتھا۔نائن الیون سے قبل ہی اسے تمام ماسٹر پلان کی تیاری کروانامقصود تھا،اس کے لئے اس کاامریکہ آنابہت ضروری تھا۔جس طریقے سے ڈیوڈ افغانستان پہنچاتھابالکل اسی طریقے سے ابوالمسعود نے جاناتھا۔اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے اپنی دھاڑی شیوکرالی تھی اور ڈیوڈ نے پاکستان میں داخل ہونے سے قبل دھاڑی رکھ لی تھی اور اس نے وہاں قریباًدو ہفتے قیام کیاتھا۔ان دوہفتوں میں اس کی خوب آؤ بھت اور مہمان نوازی ہوئی تھی۔اس کی پسند کی خصوصی شراب کا بھی بندوبست ہوا تھاجس سے صبح شام اس کی تواضع ہوتی تھی۔اس کے علاوہ اسے افغانستان کا ایک خصوصی پھل بھی کھلایاگیاتھااس کی خدمت کے لئے باقاعدہ کئی ملازم مقرر تھے جو ہروقت اس کی خدمت پر معمور رہتے تھے۔چونکے ان دنوں وہاں جنگ نہیں ہورہی تھی اور ہر طرف امن و امان کی صورت حال تھی لہذا انسانی اسمگلنگ سے لیکر ہر قسم کی دیگر ممنوعہ چیزوں کی کھلے عام خرید و فروخت ہورہی تھی ۔بلکہ افغانستان کی معیشت کا دارومدار ہی انہی چیزوں پر تھا۔سرحد کے اس پار اور اس پار آنے جانے کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی بارڈرنام کے کسی لفظ سے وہ لوگ ناآشانہ تھے اس کو تو وہ سرے سے تسلیم بھی نہیں کرتے تھے۔بلکہ پاکستان کی اپنی پالیسی بھی افغان دوستی پر مبنی تھی اسی لئے بارڈر کھلارکھاگیاتھااور ہماری فوج بھی بھارت کے بارڈر پر زیادہ ہوتی تھی ہمیں کبھی بھی ایران اور افغانستان سے کسی بھی قسم کاخطرہ نہیں رہا۔ سویت یونین کی جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعد اد پاکستان میں آکر بس گئی تھی انہوں نے اپنے کاروبار یہاں شروع کردئیے تھے ۔چونکے ہر طرف امن کاہی پیغام دیاجارہاتھالہذاڈیوڈ کو قبائلی روایات کے مطابق خصوصی طور پر شکار کا اہتمام بھی کیا گیاتھا۔اسے خاص ہتھیار بھی دیئے گئے تھے اورقبائلی روایات کی تاریخ کے عین مطابق اسے عزت و توقیرسے نوازہ گیاتھا۔ان دو ہفتوں میں وہ جتنی عیاشی کرسکتاتھااس نے وہ کی اور جب اس کا دل بھر گیاتو اسے خفیہ طور پر افغان مہاجرین کے روپ میں پاکستان داخل کرادیاگیا۔وہ سب سے پہلے پشاور پہنچاچند روز تک زمینی حقائق سے روشناس ہوتارہاپھر اس نے ایک ٹرک والے بھائی کے ساتھ اسلام آباد کی طرف رخ کیااور روانہ ہوگیا۔

پشاور میں چند روز کے قیام کے دوران اس کی خفیہ ملاقاتیں جاری رہی جس میں اس نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے پیشگی حکمت عملی پر غور کیااور ان ملاقاتوں کا مقصد بھی یہی تھاکہ وہ اسلام آباد میں پیش آنے والے حالات کے حوالے سے اپنالائن آف ایکشن مرتب کرسکے۔جو لوگ اس سے ملے وہ ہماری تحقیق کے مطابق پہلے ہی بہت متنازہ تھے اور ان کے تانے بانے بھارت سے ملتے تھے۔سو اس گیم میں تنہاہ امریکہ شریک نہیں تھا بلکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے پیچھے ہونے کے شواہد بھی مل رہے تھے۔وہ تمام لوگ جن سے وہ ملاتھا وہ ہماری ہٹ لسٹ پر تھے اور ہمیں متعدد سنگین وارداتوں میں انتہائی مطلوب تھے۔ ہم نے اسے اس وقت چھیڑنامناسب نہیں سمجھابلکہ اسے اپناکام کرنے کے لئے اس کے راستے میں بالکل حائل نہیں ہوئے۔۔۔۔۔
******
مجھے یاد نہیں کہ میری بے ہوشی کے دوران کیاکیاہوتارہااور میں کب تک بے سدھ رہا،بس میرے ذہن پر اندھیرے کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی۔وہ اندھیرا بہت گہرا اور لامتناہی تھااس کی وسعتوں کا اندازہ کرنامیرے بس میں نہیں ،وہ ایک عجیب کیف تھاایک پراسرار سرور تھاجس میں میں نہ چاہتے ہوئے بھی جھوم رہاتھا۔مجھے ایسے لگ رہاتھاکہ جیسے میں ایک تاریک وادی میں اترگیاہوں جہاں ہر پل موت اپنی بانہیں کھولے میرانتظار کررہی تھی۔اب آئی کہ تب آئی نہ جانے کب آئی اور پھر آکر مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لے گی۔میں وقار علی جان پورے یقین سے یہ بات بیان کررہاہوں کہ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتابلکہ موت تو میری محبوبہ ہے۔اسے گلے لگ کر دنیاکی ان رنگینوں کو خیرباد کہناہی میری زندگی کی خواہش تھی ،ہے اور رہے گی۔مگر خواہش رکھناایک بات ہے اس کامزہ چکھناایک اور بات ۔اگر اسے امتحان کہتے ہیں تو اس کا ذائقہ تو میں کئی بار چکھ چکاہوں،اس کی لذت کا لطف میں کئی بار پاچکاہوں۔اے تاریک وادی کی موت آجامجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لے مجھے اب مزید انتظار مت کروا،آجامیرے وجود سے لگ جا۔تیری سانسوں کے ساتھ میری سانسیں ملیں اور میرے وجود میں اتر کر میری روح کو مجھ سے الگ کردے تاکہ میں جو اپنے دل میں تیری جستجو لئے اپنی عمرکاٹ رہاہوں ہر پل ٹرپ رہاہوں ہر پل سسک رہاہوں اس سے مجھے ہمیشہ کے لئے آزادی مل جائے۔
نہ جانے میں کن جذبات میں بہے چلے جارہاتھا۔کہاں اور کس دنیا میں تھامعلوم نہیں ۔پھر وہ وقت آیا جب میں سیاہ وادی کی سرحد پار کرکے آہستہ آہستہ شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے لگا۔وہ وقت کتناطویل تھاکہ جب میں سیاہ وادی میں بھٹکتارہااس کا تعین کرنامیرے لئے ممکن نہیں تھا۔یہ وقت کا وہ حصہ تھا جب میں شعور کی رمق سے بے نیاز زندگی اور موت کی کشمکش میں الجھتارہا۔ان کیفیات کو پوری طرح سمیٹنامیرے لئے ممکن نہیں تھا۔البتہ ان احساسات کی ترجمانی میں الفاظ کی صورت میں کردی تاکہ آپ لوگ اسے جو معنی پہنانا چاہیں پہنادیں ۔مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔وہ جذب و مستی کی ایسی کیفیت تھی جس کا اظہار پوری طرح سے ممکن نہیں ۔
شعور کی دہلیز پر پہنچتے ہی میرے ذہن کے کسی گوشے میں ایک ستارہ سا چمکاجو رفتہ رفتہ اپنی ہئیت تبدیل کرتے ہوئے اپنی اصل حیثیت سے مزید بڑا اور روشن ہوتاچلاگیا۔اندھیرے کی تہہ آہستہ آہستہ میرے ذہن سے علیحدہ ہوتے ہوئے روشنی کی ایک نئی تہہ کو میرے ذہن میں اپنی جگہ دیتی چلی گئی ۔جو ں جوں میر ا شعور بیدا ہونے لگاویسے ویسے میں اپنے آپ کو پہچانے لگا۔اس کے بعد جس خیال نے سب سے پہلے میرے لاشعورکے دروازے پر دستک دی وہ میرے خالق کاتھا۔اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں اس سے جڑے دیگر خیالات بھی مضبوطی سے اپنی جگہ بناتے چلے گئے کہ میرا رب ایک ہے اسی نے مجھے جنم دیااور بطور مسلمان میرا یہی عقیدہ ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کروں اور اس کے سوا کسی کو بھی اپنے قریب نہ بھٹکنے دوں۔وہی میرا معبود برحق ہے ،صرف وہی ہے جو مجھے رزق دیتاہے اور صرف وہی ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔اس اعتبار سے میں جوکچھ بھی ہو ں صرف اسی کا محتاج اور اسی کے در پر سوالی ہوں۔جب میرے لاشعور نے مجھ پر میرا عقیدہ واضح کیاتومیں نے بے اختیار اپنے رب کر شکرادا کیاکہ اس نے میری تخلیق کی اور اپناایک بندہ بنایا۔مجھے ایساسکون ملا جو میں بیان نہیں کرسکتا۔مجھے یہ جان کی بہت اطمنان ہوا کہ میں مسلمان ہوں اور بطور مسلمان میرا ایمان ہے کہ صرف اپنے رب پر بھروسہ کروں ۔اگر اس نے میری زندگی رکھی ہے تو وہ ضرور مجھ سے کوئی کام لیناچاہتاتھااور اس میں ضرور اس کی کوئی مصلیحت ہوگی۔وہی جانتاتھاکہ وہ مجھ پرکیااحسان کرنے والاتھااور مجھ سے خود اس نے کیاکام لیناتھا۔

اس کے بعد جو دوسرا خیال میرے لاشعور سے عود کر میرے دماغ کی اسکرین پرآیا وہ میری دھرتی ماں پاکستان کاتھا،وہی تو ہے میرااصل عشق ،میرا جنون،میری دیوانگی ،میں مر تو سکتاہوں مگر اپنے پیارے پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دے سکتا۔پاکستان میری زندگی کامقصد ،میرا ایمان میرا سب کچھ جس کے بغیر میری زندگی ادھوری تھی ،میں ادھورا تھا میری روح پیاسی تھی۔وہ زندگی ہی کیا جس میں مقصد نہ ہو یا وہ کسی بھی مقصد یا مشن سے خالی ہو۔جو یہ سمجھتاہے کہ اس کا اس دنیا میں کوئی مقصد نہیں اس یہ ضرور سوچناچاہے کہ وہ یہاں آیا ہی کیوں؟ اگر بھارتی فلمیں اور گانے سن کر ہی اس دنیا سے چلے جانا ہے تو پھر اسے اپنی عقل و دانش پر ماتم ضرور کرناچاہیے۔میرا مقصد تو میری روائید شروع ہوتے ہی آپ پر واضح ہوگیاتھااور وہ ہے پاکستان جو لامحدود جذبے ،جرات ،بہادری اور تڑپ کا نام ہے۔یہ میرے وجود میں اک روح کی مانند ہے کوئی لاکھ سر پیٹھ لے مگر مجھے میرے مقصد سے دور نہیں کرسکتا۔جب آپ کے سامنے آپ کی زندگی کا مقصد واضح ہوتوپھر وہ مقصد وقت کے ساتھ ساتھ پیار میں تبدیل ہوتاچلاجاتاہے اور پھر وہی پیار کچھ اور پختہ ہوکر دیوانگی میں بدل جاتاہے۔جب وہی دیوانگی اپنی آخری حدوں کو چھور ہی ہوتی ہے تو انسان مدہوش ہوجاتاہے اور پھر اسی مدہوشی کے عالم میں کیا جانے والارقص انسان کو اپنی زندگی کامقصد پورا کرنے کا سامان فراہم کرتاہے اور آدمی کے ہاتھوں سے پھر ناممکن بھی ممکن ہونے لگتاہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ تھااور جب ہواتو پھر ٹوٹ کر ہوا۔پھر جب انسان کسی چیزکو ٹوٹ کرچاہے تو وہ چیزپلٹ کر اسے بھی وہ سب کچھ دیتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتاہے۔

خیالات کی رو میں بہہ کر ایک اور خیال نے مجھے پھر اپنی طرف متوجہ کرلیااور وہ یہ تھا کہ دھرتی ماں نے میرے ذمے ایک ایساکام لگایا ہواہے جس کو انجام دیتے ہوئے میں شعور کی سرحد کو عبور کرتاہوا تاریک وادی میں اتر گیاتھااورپھر اب میں رفتہ رفتہ واپس شعور کی دہلیز سے ہوتاہوااپنی یاداشت کو بجال کرتاہوازندگی کی طرف لوٹ رہاتھا۔اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لے اس وقت جو لبادہ میں نے اوڑھ رکھا تھااب مجھے اس کی باتیں یاد آنے لگی تھی ۔مجھے جو کردار نبھانے کے لئے دیاگیاتھااب مجھے اس کی باتیں یاد آنے لگی تھیں۔وہ تو باتوں کا ایک عظیم الشان سمندر تھاجسے عبور کرتاہوا میں اپنے آپ کو زندگی کے قریب اور موت سے دور کررہاتھا۔اب مجھے اس کردار میں دوبارہ اترناتھا،وہ میرے اصل عقیدے سے میرے اس کردار کے عقیدے سے بالکل مختلف تھا۔میں اس وقت ایک یہودی ہونے کا دم بھر رہاتھاسو مجھے اب اس کے ساتھ انصاف کرناتھااور جہاں انصاف کے نام آگیا تو پھر یہ صرف برائے نام نہیں تھا مجھے اس کے انصاف کے تمام تقاضوں کو پور ا کرناتھا۔اس سے کیامراد تھی ؟ یااس کے تقاضوں کو پور ا کرنے کا کیامطلب تھا تو وہ سادہ سی زبان میں میں یہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے ڈیوڈ کی شخصیت میں ڈوب کرایک اداکار کی طرح اس کی زندگی کے ہر گوشے کی ہو بہو ویسے ہی نکل کرنی تھی جیساکہ مجھے کرنے کو کہاگیاتھا۔لہذا اسی کو پور ا کرنے کے لئے میں اپنے کردار میں ڈوب گیاتھا۔اس کے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار کی خوب مہارت کے ساتھ کاپی کرنی تھی نہ صر ف کرنل اشر اور اس کے گروپ کے سامنے بلکہ ڈیوڈ اور ڈائمنڈ کے گروپ کے ہردشمن کے سامنے تاکہ مجھ پر کسی کوبھی شک نہ ہواور میں احسن طریقہ سے اپنا کام کرتا چلوں ۔مجھے اپنے ماضی کی ایک ایک بات یاد آنے لگی اور پھر میں اس گہر ے سمندر میں اترتاچلاگیا۔ان علامات سے ایک بات تو واضح ہوگئی تھی کہ میری یاداشت بالکل ٹھیک تھی،کیونکہ ایسے موقعوں پر اکثر ایساہوجانے کا اندیشہ ہوتاہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنے رب کا شکرادا کیابے شک اس کے مجھ نہ چیزپر بے پنااحسانات تھے جس کا میں جتناشکر ادا کرتاوہ کم تھابے شک وہ قادر مطلق ہے جس کو دیتاہے تو بے انتہادیتاہے۔اس کی نعمتوں کا شمار میرے کیلکولیٹرکی گنتی میں ہی نہیں تھا۔۔۔۔

مجھے گزشتہ واقعات یاد آنے لگے جہاں پر آکر میرے شعور کی گاڑی تھم گئی تھی اسے دوبارہ رواں کرنا بہت ضروری تھاجوان تمام واقعات کو یاد کرکے تروتازہ کرکے ہی ممکن تھا۔آخری دفعہ جو واقعہ میرے ساتھ ہواتھاوہ میرے لئے کچھ نیانہیں تھابلکہ ایک عمر گزری تھی مجھے ایسے واقعات میں زندہ رہنے کی تو اب تو عادت ہوگئی تھی۔ان حالات میں کس طرح پیش آناہے اس کی بھی وقتاًفوقتاًٹریننگ ہوتی رہتی تھی۔اب بھی کسی فلم کی مانند میرے ذہن میں تما م واقعات ایک بار پھر سے چلنے لگے کہ جب میں بلیک ڈائمنڈ گروپ کے سربراہ کرنل اشر کے ساتھ اس کے آفس میں تھا اور اس نے مجھ سے آئندہ پیش آنے والے عالمی حالات پر پہلے سے کی گئی اپنی پلاننگ کے تمام بلیوپرنٹس دکھائے جس میں اس نے مجھے واضح کیا کہ کس طرح آئندہ آنے والے دنوں میں مسلمان ملکوں کے ملک صفحہ ہستی سے مٹتے چلے جائیں گے اور تما م واقعات خصوصاً مشرق وسطح میں پیش آئیں گے اور اس کے نتیجے میں ایک نئی مسلمانوں کی خلاف کا اعلان ہوگا۔جس میں ایک نیاخلیفہ وقت لوگوں سے اپنی اطاعت قبول کرنے کاکہے گا اور لوگ اس کے عشق میں جہاد کا نام استعمال کر کے لوگوں کا قتل عام کریں ۔ان حیران کن سیاسی حالات میں سب سے زیادہ قتل مسلمانوں کاہوگااور مسلمان خود ہی ایک دوسرے کا قتل عام کریں گے اور پھر فخر سے کہیں گے کہ دیکھا ہم نے اتنے لوگوں کو مارا بلکہ وہ تو درحقیقت یہ سمجھیں گے کہ وہ جہاد کررہے ہیں ۔اسی گفتگو کے دوران اس نے مجھے آفر کی تھی کہ وہ مجھے نائن الیون کے بعد اپنی کسی خفیہ عبادت گاہ میں لے جائے گا اور اپنی عبادت کاایک نظارہ کروائے گامگر اس نے مجھے اس کام میں اپناراز دان بنایاتھااور کہاتھا کہ میں اس کا ذکر کسی سے نہ کروں۔میں نے نیم رضامندی تو ظاہر کردی تھی مگر مہلت مانگی تھی کہ میں سوچ کر بتاؤں گا اس کے بعد میں وہاں سے سیدھا میں اپنی رہائش گاہ چلاگیاتھااور پھر آرام کرنے کے بعد میں وہاں سے انہی کپڑوں میں ہوٹل چلاگیاتھا۔وہاں پر میں گلاب کے پھو ل کی مدد سے ایک خاموش تحریر کوڈالفاظ میں ٹشوپیپرپرلکھی تھی اور پھر اسے میں نے اپنے رائج طریقہ کار کے مطابق کوڑے دان میں پھینک دیاتھا۔مگر اچانک وہیں پرمیری مڈھ بھیڑ نامعلوم افراد سے ہوگئی تھی جنہوں نے مجھے تھوڑی سی محنت کے بعد دھر لیاتھااور جو آخری تاثر یا خیال میرے ذہن میں تھاوہ یہ کہ میں بری طرح سے پکڑاگیاہوں اوراب بہت نقصان ہوسکتاتھا۔

وہ نامعلوم حملہ آور جو کوئی بھی تھے انہیں ایک تو میری جان عزیز تھی اور دوسر ا میں خود،اس بات کاخیال از خودہی میرے دماغ میں اس لئے آیاتھاکیونکہ میں اب تک زندہ تھااور یہی وہ سب سے بڑی دلیل تھی جس کی بناپر میں نے یہ رائے قائم کی تھی۔میرے حملہ آور کون تھے اور انہوں نے میرے ساتھ میری بے ہوشی کے دوران کیا سلوک کیاتھااس بات کو جاننے کے لئے ضرور ی تھاکہ میں اپنی آنکھیں کھول کر اپنے گردوپیش کا جائزہ لوں۔مجھے خود پر اتنابھروسہ ضرور تھاکہ حالات جو بھی ہوں میں ان پر قابو پالوں گا۔

آنکھیں کھولنے کا ارادہ کرتے ہی میرے سر میں درد کی ایک شدید لہر نے انگڑائی لی اور میں تکلیف کی شدت سے ہلکاساکراہ اٹھا۔میں نے بلااختیار آنکھیں کھولنے کی کوشش کی جو بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی کیونکہ میری آنکھیں عجیب حیرت انگیزطور پر بھاری معلوم ہورہی تھیں ،ان کا وزن غیر معمولی طور پر زیادہ معلوم ہورہاتھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ شدید انداز میں دکھ بھی رہی تھیں ۔لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرتارہالیکن میری آنکھیں تھیں کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں عجیب بے بسی تھی۔مجھے اس معاملے میں کافی حیرت بھی ہوئی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہاتھا۔کیاکہیں اس دوران میری بینائی تو ضائع نہیں ہوگئی تھی؟کیامیں واقعی اب دیکھنے کے قابل نہیں رہاتھا؟لیکن اگر ایسانہیں تھا تو میری آنکھیں کیوں نہیں کھل رہی تھیں؟بہت سوچ بچار کے باوجود بھی مجھے کوئی وجہ سمجھ نہ آئی لیکن میں درد کے باوجود برابر کوشش کرتارہاکیونکہ خدا کی امید سے میں کبھی بھی مایوس نہیں ہواتھا۔پہلے صرف سر میں دردتھااب آنکھوں کے درد نے بھی اپناحصہ ڈال دیاتھا۔اس دوران مجھے دور کہیں سے ڈول بجنے کی آواز آنے لگی اور مجھے ایسامحسوس ہواکہ کچھ لوگ مجھے اٹھاکر کہیں لے جارہے ہوں۔ مجھے تھوڑی مزید حیرت ہوئی اور دل میں سوال پیداہوا کہ مجھے جو لوگ اٹھاکر لے جارہے ہیں وہاں ڈھول کیوں بج رہاتھا؟وہ لوگ یقینامیرے اغواکرنے والے ہی ہونگے اور مہذب دنیا کے رہنے والے ہونگے اور اکیسویں صدی میں ڈول وغیر ہ کاتصور کچھ عجیب بھی تھا اور میرے لئے قدرے حیرت کا باعث بھی ۔پھر خیال آیا کہ کہیں میں کسی خواب کی حالت میں تو نہیں ہوں ؟ مگر اپنے جسم کو جو ہچکولے اور جھٹکے لگ رہے تھے وہ مجھے حقیتقت کے ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔میں نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑدیا۔جو ہوناتھاتو وہ ہوجائے کیونکہ فل الحال تو میں بے بس تھا۔اوپر والا مجھے جہاں لے جائے اس کے آسرے پر چلاجاؤں گااور موقعہ ملتے ہی کوئی مزید جدوجہد کروں گا۔
نہ جانے کتنی دیر وہ لوگ مجھے یوں ہی اٹھائے چلتے رہے،وقت کی کمان اب ان کے ہاتھ میں تھی اب میں انہی کے ہی سپرد تھااور اب اگر وہ چاہتے تو مجھ پر وقت کو بھاری کرسکتے تھے ۔فل الحال تو قدرت ان پر ہر لحاظ سے مہربان دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔۔
********
ڈیوڈپشاور سے ظہور خان کے ٹر ک پر روانہ ہوا اور کوئی دو دن کے بعداسلام آباد پہنچاتھا۔بظاہر وہ ٹرک پر مختلف قسم کے فروٹس بہت سے ڈبوں میں لوڈ کر کے سفر کرتاتھامگردرپردہ وہ ہیروئین سمیت دیگر نشہ آور ادویات کو غیر قانونی طور پر اسمگل کر کے اسلام آباد لاتاتھا۔پھر وہاں وہ ایک خاص پوائنٹ پر انہیں غیر محسوس طریقے سے آف لوڈ کردیتاتھااور اس کا یہ دھندہ پولیس کی سرپرستی میں بڑے احسن طریقے سے چل رہاتھا۔ہماری ایجنسی کا چونکہ وہ ڈومین نہیں تھا لہذا ہم نے کبھی بھی اس قسم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی تھی۔پولیس جانے اور اس کا کام اگر ہم چاہتے تو مداخلت کر سکتے تھے مگر اکثر ان کے دفاع کے لئے ہمارے سیاست دان کھڑے ہوجاتے تھے اور پھر وہ ایٹری چوٹی کا زور لگادیتے تھے کہ وہ ہمیں ان معاملات میں دخل اندازی کا موقع ہی نہیں ملتاتھا۔ویسے بھی ہمارے اور بھی بہت سے اہم کام ہوتے ہیں ملک کے داخلی اور خارجی اسکیورٹی سے متعلق حالات پر مکمل طور پر نظر رکھناہی ہمارا کام ہوتاتھا۔جس کا کئی دفعہ نقصان یہ ہوتاتھا کہ غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں انہی انڈرولڈ مافیاز کو استعمال کرکے ملک کے عمومی حالات پر اثر انداز ہوتی تھیں ۔لیکن جب بھی ہمیں ان کے ملوث ہونے کے مکمل شواہد مل جاتے تو پھر ہماری پوری کوشش ہوتی تھی کہ سویلین حکومت یاپولیس کے اعلی ٰ افسران پر دباؤڈالوکر انہیں پکڑوادیا کرتے تھے۔کئی دفعہ یہ ممکن ہوجاتاتھامگر بہت دفعہ معاملات ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے تھے مگر ملک کی داخلی صورت حال کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ہمیں ان غیر ریاستی عناصر کے بعض دفعہ ہمیں مجبوری کے تحت بھی اٹھاناپڑتاتھا۔۔۔
خیر ظہور خان کی ڈیلوری سے ہماری کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر اس کے نیٹ ورک سے بہت زیادہ تھی کیونکہ وہ واضح طور پر ڈیوڈ کی مدد کررہے تھے اور ان معاملات کو ہم سویلین حکومت کے حوالے ہر گزنہیں کرسکتے تھے۔اس معاملے میں پولیس پر بھی اعتبار کر نا ہمارے سائنسدان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔اسلام آباد میں ڈیوڈ کا قیام انڈروالڈ کے سب سے بڑے اور بدنام زمانہ ڈان عابد سے تھا۔عابد ڈان ہمارے خوف سے پاکستان تو نہیں آتاتھا مگر اس کاگروہ درپردہ ہمارے خلاف اکثر کام کرتارہتاتھا۔عابدڈان کا قیام خفیہ طور پر برطانیہ تھا مگر اس کے گر وہ کی سپورٹ ساؤتھ افریقہ کے ذریعے بھارت کرتاتھا۔عابد ڈان کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی حصہ سے تھا۔ڈیرہ غازی خان سے وہ اپنا خوف ناک گینگ آپریٹ کرتاتھاپھر اس نے غیرریاستی سرگرمیوں کے لئے درپردہ بھارت سے مدد لیناشروع کردیں تھیں۔ابتداء میں تو وہ نچلے درجے کے کرائم میں ملوث رہا تھامگر رفتہ رفتہ وہ اپنااثر رسوخ بڑھاتاہواکراچی تک لے آیاتھااور پھر وہاں سے بڑھتاہوابھارت کا اعلی کار بن گیاتھا۔پھر وہ اچانک غائب ہوگیا،بہت تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ساؤتھ افریقہ اور برطانیہ میں رہ کر اپناپور نیٹ ورک چلارہاتھا۔اس کا بظاہر دھندہ پاکستان میں منشیات فروشی اور غیرقانونی اسلحے کی اسمگلنگ کرناتھاجو بڑھتابڑھتاریاستی ادروں کے خلاف ہوگیاتھا۔

ڈیوڈ کا عابد گینگ کے آدمیوں سے کے ذریعے آپریٹ کر ناکسی خطرے سے خالی نہیں تھاکیونکہ اس گینگ کی جڑیں پوری پاکستان میں پھیلی وہی تھیں اور جیساکہ میں پہلے بتاچکاہوں کہ ڈیوڈ کا پاکستان آنے کا مقصد ہمارے قومی ایٹمی سائنسدان کو قتل کرناتھا۔یہ بات تو ہمیں معلوم تھی مگر اس وقت ہماری حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب ہم نے عابد ڈان کو بذات خود ڈیوڈ کے ساتھ اسلام آباد میں دیکھا۔عابدڈان وہ بدنام زمانہ شخص تھا کہ جس پر قتل کے بے تحاشہ پرچے تھے مگر پولیس خوف کی وجہ سے اس پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالتی تھی۔یہ وہ بھیڑیا صفت انسان تھاجس نے خود اپنے ہی ہاتھو ں اپنے باپ کاقتل کردیا تھااور وہ لوگوں کو بڑے فخرسے بتاتاتھاکہ دیکھواگر میں اپنے باپ کو نہیں چھوڑ سکتاتو باقی کسی کی میرے سامنے کیااوقات ۔اس کے باپ کی موت انتہائی پراسرار انداز میں ہوئی تھی۔ وہ راہ چلتے راستے میں اچانک گر گیاتو لوگ اسے اٹھاکر ہسپتال لے گئے ،وہاں پہنچتے ہی پہلے اس کا جسم لال ہوا پھر حیرت انگیز طور پرتیز سبز رنگ کا ہوگیا۔ ڈاکڑوں کے مطابق اس کو کسی نے انتہائی ہوشیاری سے ایک انتہائی خطرناک افریقی زہر دیاتھا جس کی مقدار اتنہائی قلیل تھی ۔چند ہی روز تڑپنے کے بعد وہ گہرے نیلے رنگ میں تبدیل ہوا اور پھر اس کی موت ہوگئی ۔ بعد میں عابد بڑے فخر سے کہتاتھاکہ دیکھاپولیس کو اب تک کوئی کلیو نہیں ملا کہ قاتل کون تھاوہ پھڑک پھڑک کے مر گیا ۔مگر پھر کبھی بھی اس حادثے پر آج تک حقائق واضح نہیں ہوسکے تھے اور نہ اس کی اپنے باپ سے عداوت کی اصل وجہ کسی کو معلوم ہو سکی تھی۔عابد کا اسلام آباد میں ڈیوڈ کے ساتھ ہوناکیاکیاگل کھلاسکتاتھااس کا اندازہ ہمیں آنے والے وقت میں ہوسکتاتھااور اب ان دونوں کاسدوباب کرنا بے حد ضروری ہوگیاتھا۔
********
میں تو مجبور اور بے بس تھا۔جو شخص اپنی آنکھ بھی انتہائی کوشش کے بعد کھول نہ پارہاہوتو وہ سوائے اپنے رب کی رحمت کے اور کس کی مدد و نصرت کاطلب گار ہوگا۔اس یقین کے پختہ ہونے کے بعد میں نے پکافیصلہ کر لیاتھاکہ اب خود کو میں ان بے رحم موجوں کے حوالے کردوں وہ مجھے جہاں چاہیں بہاکے لے جائیں۔مجھے کچھ اچھی طرح سے یاد نہیں کہ ان کے چلنے کا عمل کب تک جاری رہااور پھر اچانک انہوں نے مجھے لے جاکر ایک جگہ کچی زمین پر گرادیا۔بلکہ گراکیادیااگر میں یہ کہوں کے بری طرح سے پٹخ دیاتو بے جانہ ہوگا۔اس دوران ڈھول کے آواز برابرمیرے کانوں میں رس گھول رہی تھی بس فرق صرف اتناتھاکہ اب وہ آواز بہت قریب سے آرہی تھی۔جس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہ ہوئی کہ میں کسی ڈول بجانے والے کے بہت ہی پاس ہوں۔
ایک بات جو قابل غور تھی وہ یہ کہ اس تمام عرصہ میں مجھے کوئی انسانی آواز سنائی نہ دی ۔خلاف توقع جو لوگ مجھے اغوا کر کے کسی ایسی جگہ پر لائے تھے جس کے پاس ڈھول بج رہاتھاوہ سب کے سب یاتو گونگے تھے یاپھر جان بوجھ کر کسی خاص مصلحت کے تحت کوئی بات چیت نہیں کررہے تھے۔ایساکیوں تھااس کا مجھ پر جلد ہی انکشاف ہونے والاتھا۔اس سے قبل مجھے یہ اندازہ لگانے میں کافی دقت ہورہی تھی اور میں کوئی خاص رائے قائم کرنے میں ناکام ہورہا تھاکہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کس حال میں ہوں اور یہ اندازہ لگانا بھی میرے لئے فل الحال مشکل تھاکہ ابھی میرے ساتھ کیاہونے جارہاتھا۔

مجھے اس بے دردی سے پٹخنے کی وجہ سے ایک کام تو یہ ہواکہ میرے پورے جسم میں درد کی شدید لہراٹھی اور اس نے مجھے بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مجھے اپنے وجود کا جوڑ جوڑ بری طرح سے بکھرتاہوا محسوس ہوا ہوا میں صبر و استقامت سے سب کچھ اپناامتحان جان کر برداشت کرتارہا۔اس کے ساتھ ہی اس اثناء میں ایک اور کام جو غیرارادی طور پر ہوا وہ یہ تھا کہ میری تھوڑی سی آنکھیں کھل گئیں اور حیرت انگیزطور پر ان سے بھاری پن بھی ختم ہوگیاتھا۔جو مجھے پہلے شدت سے محسوس ہورہاتھا میں نے کوشش کرکے اس بار مکمل طور پر اپنی آنکھیں کھول لیں اور بغیر کسی دقت کے یہ سب کچھ ہوگیا۔آنکھیں کھلتے ہی اس سے قبل کے مجھ پر گردوپیش کے حالات واضح ہوتے ان افراد نے مجھے انتہائی بے دردی سے ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑا کیااور پھر میرے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی کے ساتھ کھول کر دو ستونوں کے ساتھ رسی کے کی مدد سے باندھ کر مجھے کھڑا کردیا۔اس سے قبل کے میں اپنے سہار ا پر کھڑا ہوتالڑکھڑا کر نیچے گر نے ہی لگاتھاکہ مجھے پیچھے سے کسی نے اپنے آہنی ہاتھوں میں تھام کر میری گردن میں ایک اور رسی کا پھندا ڈالااور پھر اس سرے کو دو ستونوں کے اوپر موجود ایک راڈ کے کیساتھ خوب اچھی طرح سے کس کر باندھ دیا۔۔۔۔۔۔
********
عابد ڈان اور ڈیوڈ اسلام آباد کے پہاڑوں میں موجود ایک غار میں قیام پذیر تھے ۔یہ پہاڑی علاقہ انہوں نے حکومت سے مکمل طور پر خرید رکھاتھا۔ اس غار میں قیام پذیر ہونا اس بات کی دلیل تھا کہ وہ کافی عرصہ سے اپناپرائیویٹ اڈا ہم سے چھپاکر پولیس کی پشت پناہی میں بنائے ہواتھا۔اس اڈے کی منظوری یقیناسیاست دانوں کے ہی ایماء پر ہوئی تھی ۔بظاہر یہ پہاڑ پر موجود ایک غار ہی تھی مگر جب ہم نے اپنے انفارمر عابد گینگ میں داخل کرنا شروع کئے تو پتہ چلاکہ انہوں نے غار کے اندر پورا نیٹ ورک بنارکھاتھاجو تمام جدید ترین سہولیات سے مزین تھا اور اسلام آباد پاکستان کا درالحکومت ہونے کی وجہ سے اس کے نواح میں ہم اتنے بڑے خطر ے کو کیسے پنپنے دے سکتے تھے۔غار کے اندر زیرمین جدید ترین ہتھیار اور دیگر مشینری موجود تھی جس سے وہ نہ صر ف امریکہ بلکہ بھار ت سے بھی رابطہ میں تھے اور یہ سب کچھ سویلین حکومت کی مرضی اور منشاء کے عین مطابق ہورہاتھا۔

عابد گینگ کے سربراہ عابد ڈان کے پاس شہر بھر کا نقشہ موجود تھااور وہ ڈیوڈ کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑی کاروائی کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔اسلام آباد کے نواح میں ہماری ایک سیکرٹ ریسرچ لیبارٹری موجود تھی جس میں ہمارے ملک کے سب سے بڑے ایٹمی سائنس دان جناب ڈاکڑ شاہد عباس کام کررہے تھے۔بظاہر تو ان کی اسکیورٹی انتہائی فول پروف تھی اور ان کی اور لیبارٹری کی حفاظت ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کی زمہ داری تھی،جس کے لئے ہمارے انتہائی چاق وچوبند ایجنٹس اس کی چاروں طرف سے حفاظت کررہے تھے مگر کسی بھی قسم کے خطرے کو خارج نہیں کیاجاسکتاتھا۔ان کی جان ہمارے لئے بہت قیمتی تھی۔ڈیوڈ کے آتے ہی ہم نے نہ صرف لیبارٹری کی اسکیورٹی ریڈالرٹ کردی تھی بلکہ پاک فوج سے باقاعدہ خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز کے دستے کو بھی وہاں اسکیورٹی کے فرائض نبھانے کے لئے تعینات کردیاتھا۔
ظہور خان کے ٹرک نے اسلام آباد شہر سے قبل ڈیوڈ کو ایک ٹک شاپ پر چھوڑ کر خود شہرکی طرف روانہ ہوگیاتھا۔جبکہ وہاں سے اسے ایک سیاہ شیشوں والی ایک نئے ماڈل کی جدید ترین کارکچھ دیربعد وہاں سے پک کرکے شہرکے اندر لے گئی اور پھر وہاں پر موجود ایک اور خفیہ پوائنٹ پر لے جاکر اسے ایک کوٹھی میں چھوڑا گیا۔پھر کچھ دیربعد اس کوٹھی سے ایک اور کار برآمد ہوئی جواسے وہاں سے لیتی ہوئی پہاڑوں کی طرف روانہ ہوئی اور پھر پہاڑی سلسلے کے پاس آکر اسے ڈراپ کردیاگیا۔وہاں ایک جیپ خصوصی طور پراسے پک کرکے پہاڑ کے اوپر لے جاکر ایک غار کے اندر داخل ہوکر غائب ہوگئی۔کافی تحقیق کے بعد ہمیں معلوم ہواکہ یہ کوئی خفیہ اڈا تھا جس میں کوئی نہ کوئی غیرقانونی کام لازمی ہورہاتھا۔

ہمارے ایجنٹس نے نہایت غیر محسوس طریقے سے ان کی مکمل ریکی کی تاکہ ان کی مکمل نقل و حرکت پر نظررکھی جاسکے ۔اس دوران میں ڈیوڈکاروپ دھارنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا۔ایک طرف تو انکی ریکی ہورہی تھی اور دوسری جانب مجھے ان کے بار ے میں مکمل بریفنگ بھی دی جارہی تھی۔پھر اسی بریفنگ کے دوران میں ایک کھٹن امتحان سے گزر کر ڈیوڈ کے رول کو کرنے کے لئے میدان عمل میں بس آنے ہی والاتھا۔
میری ڈاکٹر دانش اسحاق صاحب سے باقاعدہ اپاؤنٹمنٹ طے تھی اور پھر وہ وقت آیاجب میری اور ڈاکڑصاحب کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے دنوں میں کیا سے کیابنادیا۔۔۔۔۔!
********
آنکھیں کھلنے میں تو کامیابی ہوگئی تھی مگر منظر ابھی تاحال دھندلا ہی تھامجھے کچھ انسانی ہیولے نظر آرہے تھے ۔منظر غیرواضح اور مبہم تھا البتہ ڈھول بدسطور بج رہاتھابلکہ اب تو اس میں شدت آگئی تھی اور وہ ایک خاص طرز پر بجایاجارہاتھاجو میرے لئے بالکل نیاتھامیں نے اس سے قبل اس طرز کو کبھی نہیں سناتھا۔مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی لاشعوری جدوجہد کیوں ناں کی ممکن تھااگر کچھ کرتاتو شایدکچھ نیاہوسکتاتھامگر اگر کسی کی بینائی ہی ٹھیک طرح سے کام نہ کررہی ہوتوتھوڑی دقت تو ضرور ہوگی بالکل ایسی ہی دقت کا سامنامیں نے بھی کیالیکن اگر میں یہ کہوں کہ نہ جانے کیوں میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھاجو ہورہاتھااس میں میرااختیار شامل نہیں تھامیری لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے اوپر ہونے والے تمام اقدامات کو روک نہیں پارہاتھا۔اندر سے جس قوت اور طاقت کی ضرورت تھی میں اس میں کمی شدت سے محسوس کررہاتھا۔معلوم نہیں ایساکیوں تھامگر ایساہی تھاجیسے میں نے بیان کیا۔

مجھے مکمل طور پر مفلوج کرنے کے بعد وہ نامعلوم افراد مجھ سے دور ہوگئے ۔جو بھی کچھ ہورہاتھاوہ میری مرضی اور خواہش کے بغیر ہورہاتھااور جب ایسی حالت ہوتو انسان دوسروں کے رحم و کرم و کرم پرہوتاہے۔مگر مجھے اپنی قوت ارادی کو بحال کرناتھامجھے اپنی بینائی کو جلداز جلدواپس لانے کے لئے کوشش اور محنت کرنی تھی۔مجھے ناکامی جیسے لفظ شدید چڑتھی اور میں اسے اپنی لغت میں رکھنے کا قائل نہیں تھا۔عزت ذلت دینامیرے رب کے اختیار میں تھالیکن کوشش کرنامیرے اختیار میں تھااور وہ مجھے کرتے رہناتھی اس کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔

میں نے اعصاب اور جذبات پر قابو پاکر اپنی آنکھیںآہستہ آہستہ کھولناشروع کیں۔یہ عمل میں نے دو تین دفعہ دہرایاتو مجھے فائدہ ہونے لگامیری بینائی کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹنے لگی اور مجھ پر سامنے کا منظر واضح ہونے لگا۔پھر وہ وقت بھی آگیاکہ جب میں اپنے گردوپیش کو مکمل طور پر دیکھ سکوں تو اس وقت میری حیرت کی انتہانہ رہی جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نیم بر ہنہ حبشیوں کو کھڑے ہوئے پایا جنہوں نے اپنے جسموں پر جنگلی پتے لپیٹ رکھے تھے۔ان میں ایک بہت بڑی تعداد عورتوں ، بچوں اور دیگر لوگوں کی تھی یہ ایک وسیع و عریص میدان تھاجس کے عین وسعت میں ایک شخص ایک بہت بڑے ڈھول کے اوپر کھڑا اسے بے دردی سے پیٹ رہاتھا۔

ایک طرف ایک بڑے سے چبوترے کے اوپر ان کا حبشی سردار بیٹھاہواتھااور بہت سے حبشی اس کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے تھے ۔رات کا نہ معلوم کون سا پہر تھا میں اس کا اندازہ ٹھیک طرح سے نہ کرسکا۔ جگہ جگہ بڑے بڑے الاؤ جلے ہوئے تھے جن کی روشنی سے سارا گردوپیش روشن تھا۔جبکہ چاروں طرف گھناجنگل پھیلاہواتھا۔مجھے ہوش میں آتادیکھ کر سردار کے سامنے موجود سارے حبشی ایک دم سے سجدہ کی حالت سے اٹھے اور پھر انہوں نے بری طرح سے اچھلناکودناشروع کردیا۔اسی اچھل کود کے دوران انہوں نے اپنی مقامی زبان میں نعرے بازی بھی شروع کردی جسے میں فی الوقت کوئی مفہوم پہنانے کے قابل نہیں تھااور نہ ہی مجھے ان کی حرکات و سکنات دیکھ کر کچھ سمجھ آرہی تھی کہ اس کا کیامطلب تھا۔خیر اب جو ہورہاتھااسے ایک کھیل تماشے کی حیثیت سے دیکھ کر لطف اندوز ہوناکاارادہ کرکے میں اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔

اکیسویں صدی میں ان عجوبوں کو دیکھ کر بہت لطف محسوس ہورہاتھا۔آج تک قصے کہانیوں میں ہی انہیں پڑھنے کا اتفاق ہواتھامگر حقیقت میں اس کانظارہ میری زندگی میں پہلی بارہورہاتھا۔مجھے ان عجوبوں کو دیکھ کر یقین نہیں ہورہاتھاکہ اس اچھل کود سے ان کو کس قسم کی ذہن تازگی ملتی ہوگی۔ڈھول اسی رفتار سے جاری تھااور اب تو باقاعدہ نعرے بازی کے ساتھ رقص بھی شروع ہوگیاتھا۔تمام حبشی جوانوں نے بڑھ چڑھ کر رقص میں حصہ لیا۔وہ رقص کیاتھا؟ ایک بے ہنگم نیم برہنہ جسموں کا ایک عجیب و غریب اچھل کود اور نعرے بازی تھی۔معلوم نہیں یہ کس خوشی کاوہ جشن منایاجارہاتھابظاہر وہ تاثر مجھے وہ یہی دے رہے تھے کہ انہوں نے مجھے اپنے کسی دیوتا یاشیطان کے نام پر بلیدان کرناتھا۔۔۔۔۔ !
********
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56575 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More