موت آئے گی تو کر جائے گی مہنگا مجھ کو!

مجھے اپنی اس خالہ سے خصوصی انسیت تھی سب سے چھوٹی خالہ جنہیں ہم سب پیار سے خالہ بی بی کہتے تھے ۔ بڑی نرم مزاج دھیمے دھیمے بولنے والی ہر دم مشفقانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ہم سب سے بے حد قریب تھیں۔

جس بچے کو جو مسئلہ درپیش ہوتا وہ جھٹ خالہ بی بی کے دربار میں جا کر یاد کرتااور وہ اپنی فہم و فراست سے اس معاملہ کو بخوبی نمٹا دیتے ہم بلا تکلف ہر موضوع پر ان سے بات کر لیتے تھے ان کا مطالعہ و مشاہدہ بے حد وسیع تھا ہاں تجربہ وسیع یوں نہیں کہہ سکتے کہ ابھی ان کی عمر صرف چھتیس برس تھی اور خاندان کے بزرگ اپنے تجربے کے سامنے ان کی فہم و فراست کا لوہا ماننے کو تیار نہیں تھے ہاں اندر ہی اندر وہ ان کی ذہانت کے قائل ہوں گے مگر ظاہر نہیں کر سکتے تھے بہرحال انہیں اپنی بزرگی کا بھرم تو رکھنا ہوتا تھا نا؟
اس طرح ہم سب بڑے ہوتے گئے تعلیمی میدان میں مختلف راستے سب نے چن لئے میں نے نفسیات چنی اور اسی حوالے سے مجھے اپنی تحقیق اور تجربے اور مشاہدے کے لئے سب سے قریب ترین جو شخصیت نظر آئی وہ خالہ بی بی کی تھی۔ بڑی خاموشی اور گہرائی سے میں نے ان کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ مجھ پر ان کی شخصیت کے پرت تہہ درتہہ کھلتے چلے گئے۔

میں انہیں ہمیشہ مختلف قسم کی دوائیں کھاتے ہوئے دیکھتی اور پوچھ بیٹھتی۔

خالہ بی بی آپ کو کیا بیماری ہے اور کیا دوائیں آپ کھاتی رہتی ہیں ۔

ارے بیٹی دوائیں تو بس دل کے بہلاوے کے لئے کھا لیتی ہوں علاج تو بس ایک ہی دفعہ ہو گا جب ساری تکالیف سے چھٹی مل جائے گی۔

پھر بھی آخر کیا مرض ہے آپ کو مجھے تو آپ اچھی خاصی نظر آتی ہیں یہ کھلتی ہوئی رنگت، یہ اسمارٹنس یہ ذہانت یہ ہر کسی کے معاملات میں دلچسپی اور سوتی بھی آپ خوب ہیں کبھی جاگتے یا راتو ں کو باہر نکل کر ٹہلتے نہیں دیکھا پھر بیماری یا دوائیں ۔۔۔۔۔۔؟ کھانا بھی آپ ڈٹ کر کھاتی ہیں۔

وہ ہنس پڑتیں وہی مخصوص دھیمی ہنسی جس میں نہ جانے کیا ہوتا جس کو سن کر میرا دل دہل جاتا انجانا سا خوف بے نام سے اندیشے سرایت کر جاتے تھے مجھے میں اور میں بڑے غور سے ان کا چہرہ دیکھنے لگتی تب وہ کسی نہ کسی بہانے میری سامنے سے ٹل جاتی تھیں مگر اسی تھوڑے سے وقت میں میں ان کی آنکھوں کے اندر ٹھہرے ہوئے ساون بھادوں کے منظر کو دیکھ چکی ہوتی تھی اور کئی دن اپنے آپ سے الجھتی رہتی ۔
آج کالج سے آ کر سنا کہ خالہ بی بی آئی ہوئی ہیں اور کچھ دن رہنے کے لئے آئی ہیں میں بے حد خوش ہو کر ان کے کمرے کی طرف بھاگی مگر اندر داخل ہونے سے پہلے دروازہ بجانا نہیں بھولی وہ ہم سے لاکھ بے تکلف سہی مگر اخلاقی اصولی پر سختی سے خود بھی عمل کرتیں اورہمیں بھی پابند کر رکھا تھا۔

’’ آ جاؤ بیٹے انہو ں نے دھیمی آواز میں کہا۔ یہ کیا؟ ان کا چہرہ زرد خشک ہونٹ ویران آنکھیں ، میں تڑپ کر ان کی طرف بڑھی بے اختیار ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر میں نے پوچھا۔

’’آپ کو کیا ہو گیا ہے کب سے بیماری ہیں آپ ، مجھے کیو ں نہیں بتایاآپ نے ؟‘‘

وہی مخصوص ہنسی جسے سن کر میں اندر ہی اندر لرز جاتی تھی دکھ، یاسیت ، اندوہ، مایوسی اور ٹوٹی ہوئی ہنسی۔

’’مجھے کچھ نہیں ہوا میں تو سدا سے ہی ایسی ہوں بس کچھ چیزیں اندر ہی اندر طوفان مچاتی تھیں اب باہر آنے لگی ہیں، بہت قابو کیا بہت روکا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے نہیں بتایاکہ اپنے بچوں کو پریشان کرنا اچھا لگتا ہے کیا؟‘‘

’’خالہ بی بی آپ بتائیں تو سہی تھوڑے دن کی بات ہے میں انشاء اﷲ جلد ہی اس قابل ہو جاؤں گی کہ اپنی خالہ بی بی کا سب سے اچھے ہاسپٹل میں علاج کرا سکوں! ‘‘

’’ ضرور میرے بچے اﷲ تمہیں اس قابل بنائے مگر جب تک تم اس قابل ہو گی تمہاری خالہ ہر طرح کے علاج سے بے نیاز ہو چکی ہو گی مگر میری طرح کی اور بھی خالائیں ہوں گی جن کا تم خود علاج کرنا۔ میرے بچے انسانیت بڑی تیزی سے دکھوں بیماریوں کے سمندر کی طرف بڑھ رہی ہے اس میں جسمانی، روحانی، نفسیاتی، ذہنی ہر طرح کی بیماریاں شامل ہیں تم نے نفسیات کا میدان چنا ہے نا، تم اسی حوالے سے مرہم فراہم کرنا، زخم جسم کے اوپر ہو یا روح کے اندر مرہم کے بغیر اچھا نہیں ہوتا وعدہ کر و کہ تم اپنا فرض دیانتداری سے نبھاؤ گی اگر وعدہ کرو تو میں تمہیں اپنی بیماری بتاؤں شاید اس کی روشنی میں دوسروں کی تشخیص کرنے میں تمہیں مدد ملے آج وہ کھلنے پر تیار تھیں اور میں بے حد بے چین تھی میں تو کب سے ان کی کھوج میں تھی۔

ضرور خالہ بی بی ضرور میں آپ سے وعدہ کرتی ہو آپ بتائیے تو سہی۔

تو سنو انہوں نے آنکھیں بند کر کے کہنا شروع کیا تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز برا سا دوپٹہ
اوڑھے وہ مجھے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہی تھیں اورمیں سامنے کرسی پر سحر زدہ سی بیٹھی سن رہی تھی۔

’’ میرا تعلق اس صنف سے ہے بیٹے جو صنف نازک کہلاتی ہیں جسے خدا نے ریشم سے بنایا ہے اور پہلو میں دل کی جگہ کانچ کا ٹکڑا رکھ دیا ہے جسے سرکار دو عالم ؐ نے آبگینوں سے تشبیہ دی ہے اور آبگینے ذراسی ٹھیس لگنے پر ٹوٹ جایا کرتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ بچپن میں والدین ان کے احساسات کا لحاظ نہیں کرتی جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں اولاد بار بار ان کے شیشہ دل کو چکنا چور کرتی ہے بہت سے حالات سے مقابلہ کر کے زندگی کی نےّا پار لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مگر کچھ مجھ جیسی اندر ہی اندر کوئی بکھرتی رہتی ہیں بار بار ٹوٹنے بکھرنے اور سمٹنے کے بعد آخر کارایسا اسٹیج بھی آتا ہے کہ مزید سمٹنے جڑنے کے قابل نہیں رہتیں ریت کی دیوار کو بھی کوئی گرنے سے بچا سکتا ہے؟‘‘

بس خالہ بھی ریت کی دیوار ہے جو کسی لمحے بھی گر سکتی ہے یہ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے میں نے ہوش سنبھالا تھا مجھے خدا نے حساس بنایا تھا اس میں میرا بھلا کیا قصور تھا مگر مجھے حساسیت کی سزا ملی اور وہ سزا بدستور جاری ہے۔تم نے محسوس کیا ہو گا کہ جب سے تم لوگ اپنا بڑا گھر بیچ کر اس چھوٹے سے فلیٹ میں آئے ہو میں تمہارے یہاں رہنے سے انکار کرتی رہی ہوں کسی نہ کسی بہانے شام میں اپنے گھر چلی جاتی ہوں جو بے شک چھوٹا سا ہے مگر وہاں صحن ہے جب جب میرا دم گھٹتا ہے میں صحن میں نکل کر لمبے لمبے سانس لیتی ہوں منہ اٹھا اٹھا کر آسمان کی طر ف دیکھتی ہوں امید بھری نگاہیں آسمان پر جم جاتی ہیں آسمانوں کے اوپر رہنے والا قائم و دائم رب میرے حال سے بے خبر نہیں ہے وہ ضرور میری محرومیوں مایوسیوں اور دکھوں کا ازالہ کرے گا مجھ جیسی مظلوموں کی داد رسی کے لئے تم جیسے لوگ تیار کرے گا جو اس معاشرے سے ناانصافی ، جبر ظلم کا قلع قمع کریں گے‘‘

’’زندگی میں کئی لمحے ایسے آتے ہیں جب بے اختیار اپنی بات منوانے اور اپنی رائے کا برملا اظہار کرنے کو دل چاہتا ہے اور اس کا موقع نہ ملنے پر شدید احتجاج کا طوفان اندر ہی اندر اٹھتا یہ مگر جب باپ ، شوہر، بھائی اور بیٹے کہیں کہ ہمیں کچھ نہیں سننا تم ہی بتاؤ دل کا، دماغ کا اور احساسات کا کہا حال ہوتاہو گا دل کی بات دل میں رہ جاتی ہے غصہ اور غم اندر ہی اندر بل کھا کر رہ جاتے ہیں غم و اندوہ کی گھٹا اٹھ اٹھ کر سینے میں ٹکریں مارتی ہے اور بار بار گلے پر حملہ آور ہوتی ہے تب میں کہہ کر میں صحن کی کھلی فضا میں آ جاتی ہوں‘‘

’’میری بچی علاج کی ضرورت مجھے نہیں علاج کی ضرورت انہیں ہے علاج کی ضرورت انہیں ہے جو زمین پر خٖدا بنے بیٹھے ہیں جو عورت کو احساس جذبات ‘آزادی اظہار سے عاری مٹی کی مورت سمجھتے ہیں۔تم توسائیکالوجی پڑھ رہی ہو جب بہت ماہر بہت بڑی سائیکاٹرسٹ بن جاؤ تو اپنی خالہ کا ایک پیغام لوگوں تک پہنچا دینا تمہاری بات لوگ کان دھر کر سنیں گے بھی غور سے پڑھیں گے بھی مجھ جیسی جابے مایہ بے حیثیت بے اختیار کمزور سی عورت کی بات کب لوگوں نے سنی ہے جو آئندہ سنیں گے تو بیٹا تم اپنے الفاظ میں اپنی زبان میں اپنے مقام و مرتبہ کے حوالے سے یہ بات لوگوں تک پہنچا دینا کہ لوگو عورت بھی اسی طرح بھرپور جذبات احساسات سمجھ بوجھ اور ذہنی طور پر مکمل شخصیت لے کر پیدا ہوتی ہے جیسے کہ مرد تو خدارا کبھی شرم و حیاء کے نام پر کبھی کم ۔۔۔ کے نام پر اور کبھی کمزوری کے نام پر عورت کی حقوق غصب نہ کرو اس کا استحصال نہ کرو ہاں کبھی کبھی کہیں کہیں وہ نادانی یا کمزوری کا شکار ہو جاتی ہے تو کیا مرد ان چیزوں سے پاک ہیں ؟ عیوب اور کمزوریوں سے پاک تو بس خدا کی ذات ہی ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟ کہ مرد کی غلطیوں اور نادانیوں اور کمزوریوں کو تو معاف کردیا جائے ڈھانک دیا جائے۔ پر دہ ڈال دیا جائے اور عورت کے معاملے کو خوب خوب اچھا کر اسے آزادی اظہار سے محروم اور ذہنی ، جسمانی ، روحانی اور نفسیاتی طور پر غلام بنا لیا جائے ․․․․․․․! ‘‘

اپنی بات پوری کر کے انہو ں نے طویل سانس لی اور چپ سادھ لی اب میں سوچ رہی ہوں کہ واقعی ایسا کیو ں ہے؟ اور کیا میں اپنی پیاری خالہ سے کیا ہوا وعدہ پورا بھی کر سکوں گی؟ اگر آپ میں سے کچھ لوگ میری مدد کریں تو شاید میں اس مشن میں کامیابی حاصل کر سکوں!
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.