ریلوئے کے شھید افسر کی بیوہ اور یتیم بچے انصاف کے لیے دربدر
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
مجھے سرگودہا سے ایک نہایت ہی محترم
دوست کا فون آیا جس میں اُن کی بیوہ بہن اور اُن کے بچوں کے ساتھ محکمہ
ریلوئے کی بے حسی کا ذکر تھا۔مجھے بطور انسانی حقوق کے کارکن کے ایسے
واقعات سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری محکمہ میں جس طرح کا سلوک
اپنے ہی ایک افسر کی بیوہ اور اُس کے یتیم بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والس
سلوک اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ سرکار کے محکمہ میں کرسیوں پہ براجمان
افسران شاید انسانیت کی قدروقیمت کو فراموش کرچکے ہیں۔ حلال روزی کمانے
والا اﷲ کا دوست ہے ۔ اﷲ کی دوستی تو اُن کو درکار ہے جن کا عقیدہ اور
ایمان اِس بات میں ہے کہ اِس عارضی دُنیا کی بجائے۔ اپنے رب کی رضا کے آگے
سر تسلیم خم کرتے ہوئے زندگی کے اِس سفر کو گزارا جائے۔روح کی تروتازگی
حقیقی خوشی میں پنہاں ہے اور حقیقی خوشی رب کی رضا میں ہے۔فی زمانہ جس طرح
ہوس نے لالچ اور بے ایمانی کی انہتاء کی ہوئی ہے ۔ اِس سے یہ بات عیاں کہ
انسان نے گھاٹے کو سودا کیا ہوا ہے اور چند سالوں پہ محیط زندگی کے لیے وہ
اپنی ہمیش زندگی کو اپنے ہاتھوں سے غارت کر رہا ہے۔دس سال قبل دوران ڈیوٹی
شہادت کا رتبہ پانے ولاے ایک افسر کے بیوی بچوں کے ساتھ محکمہ ریلوئے کا
سلوک انہتائی افسوس ناک ہے۔بچوں کو ریلوئے کے گھر سے بے دخل کیا گیا ہے۔ جس
میں گریڈ میں ریلوئے آفیسر کی وفات ہوئی اُس کی بجائے بیوہ کو اُس کے پچھلے
گریڈ کی پنشن دی جارہی ہے۔بچوں کی تعلیم کے لیے بھی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
اگر وہ صاحب وفات نہ پاتے تو گویا ریلوئے کا گھر اور تنخواہ اُن کے اہل ِخانہ
کو میسر تھی۔ چونکہ وہ نہیں رہے اِس لیے محکمہ نے اُن سے چھت بھی چھین لی
اور اُس گھر میں ایک انتہائی جونئیر ملازم کو لا بٹھایا۔ یہ ہے سلوک دوران
ڈیوٹی شہادت پانے والے کے خاندان کے ساتھ۔لاہور ہائی کورٹ نیدوران ڈیوٹی
ٹرالی اور کارگو ٹرین کی ٹکر سے شھید ہونے والے افسر کی بیوہ اور بچوں کو
سرکاری رہائش سے بیدخل کرنے اور دس سال سے گریڈ کے مطابق پنشن نہ دینے کا
نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین ریلوئے کو طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت جناب جسٹس شاہد
وحید نے کی۔ سائلہ کی جانب سے انسانی حقوق کے علمبردار اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
نے رٹ دائر کی تھی۔ سائلہ کے خاوند سلطان احمدبطور AEN مچھ کوئٹہ میں کام
کر رہے تھے۔ جہاں ایک حادثہ میں ڈیوٹی کرتے ہوئے 22 مارچ 2007 کو شھید
ہوگئے تھے۔ سائلہ کے خاوند کی پروموشن 4 نومبر 2006 کو ہوئی اور اُنھوں نے
بطور گریڈ سترہ کام کر نا شروع کردیا تھا۔ اُس سے پہلے وہ گریڈ سولہ میں
تھے ۔تقریباً پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اُن کی شہادت دوران ادائیگی فرائض
منصبی ٹرالی اور ٹرین کے درمیان حادثے میں ہوئی۔ اُن کی شہادت تک محکمہ کی
جانب سے اُن کی DPC کلیئر نہیں ہوئی تھی۔ سائلہ کے خاوند نے گریڈ سترہ میں
چار ماہ اور اٹھارہ دن کام کیا۔ سائلہ کے خاوند کے ساتھ ترقی پانے والے
افسران کی DPCبھی ہوگئی اور وہ اگلے گریڈ میں سال 2006 سے تنخواہ لے رہے
ہیں سائلہ کے خاوند دوران ڈیوٹی وفات پا گیا اور پاکستان ریلوئے کی تقریباً
19 سال نہایت ایمانداری سے خدمت کی اوراپنافریضہ سرانجام دیتے ہوئے
ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے۔ درخواست گزار اُسکی بیوہ اورچار چھوٹے چھوٹے
بچوں سے گھر چھین لیا گیا اور دس سال ہوگئے ہیں ۔ درخواست دہندہ کو ابھی تک
گریڈ سترہ کی پنشن نہیں مل سکی۔ ہائی کورٹ نے چیئرمین ریلوئے سے جواب طلب
کر لیا ہے۔ اشرافیہ کی بے حسی دیکھیں کہ ایماندار سرکاری ملازم کی فوتیدگی
کے بعد اُس کے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔تاکہ معاشرئے میں
ایماندار اور نیک اہل کاروں کے ساتھ اِس طرح کا سلوک ہو کہ آئندہ ایمان
داری کے ساتھ کام کرنے والوں کو نشانِ عبرت بننے کا احساس قبل از وقت ہی
ہوجائے۔اور معاشرئے میں ایمان داری، دیانت، رواداری جیسی چیزوں پنپ نہ سکیں۔
اِس حوالے سے اشرافیہ کی کوششیں کارگر ثابت ہورہی ہیں۔ اب سچے اور نیک
ایماندار سرکاری ملازم ڈھونڈئے سے بھی نہیں ملتے۔کتنے افسوس کا مقام ہے۔کہ
نوکری میں شہادت کا رُتبہ حاصل کرنے والے ایماندار آفیسر کی فیملی دربدر
ایک کمرئے میں کرائے ہر گزارنتے پر مجبور اور نام نہاد قبضہ گروپ، سرکاری
املاک پر قابض۔ امید ہے کہ وزیر ریلوئے شھید کے بچوں کو چھت مہیا کریں گے۔ |
|