اورنج ٹرین منصوبہ تحفظات کو خدشات
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
لاہور میں اورنج منصوبے کے تحت حکومت پنجاب
ٹھوکر سے لیکر واہگہ تک ٹرین چلانا چاہتی ہے اس سلسلے میں کام تیزی سے جاری
ہے لاہور اس وقت اس منصوبے کے باعث گردوغبار میں لپٹا ہوا ہے حکومت پنجاب
لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے پر عمل کرنے کی کوشش کرر ہی ہے پہلے میٹرو
ٹرین کا منصوبہ شروع کیا جو پائیہ تکمیل تک پہنچ چکا اب میٹرو ٹرین کا
منصوبہ شروع ہے اس پر پنجاب اسمبلی میں گرما گرم بحثیں ہو چکی ہیں یہ بات
درست ہے کہ اس منصوبہ کی زدمیں بہت سی قدیمی عمارات ،کاروباری مراکز آگئے
جوگرائے جارہے ہیں لوگ اپنے گھروں کے گرائے جانے پر اپنے آشیانے مانگ رہے
ہیں ہزاروں کاروباری بھی پریشان ہیں کیونکہ کہ کئی سالوں سے ان کے کاروبار
ہورہے تھے لیکن اس منصوبے کے باعث ان کے کاروبار اجڑ گئے ہیں اب وہ نہتے
ہوگئے ہیں اور حکومت سے اپنے کاروبار کے تحفظ میں بھیک مانگ رہے ہیں رہائشی
لوگ،کاروباری،عام دوکاندار سراپائے احتجا ج ہیں کہ ہمارا گھر اور کاروبار
ختم کرکے ہمیں بے گھر اور بے روزگار نہ کیا جائے ،اورنج ٹرین کے اس منصوبے
پر متاثرین وناقدین سراپائے احتجاج ہیں آئے روز احتجاج معمول بن گیا ہے اس
منصوبے کی زد میں آنے والے کاروباری مراکز کے تاجروں نے احتجاجی بینرز
آویزاں کررکھے ہیں کہ ٹرین منصوبے کے باعث انھیں بے روزگار نہ کیا جائے ،
اقوام متحدہ نے بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اس ادارے کا کہنا
ہے کہ قدیمی عمارتوں کا تحفظ اور لوگوں کے تحفظات وخدشات دور کئے جائیں ۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت اورنج ٹرین منصوبے کیلئے 6 فیصد
سود پرقرض لے کر خوشی منا رہی ہے(جبکہ سود اﷲ ورسولؐ سے کھلی جنگ ہے ہمارے
سیاستدان اسمبلی میں سود کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے کیوں؟) لیکن قرض عوام
کی جیبوں سے نکالا جائے گااگر یہ منصوبہ سستا ترین ہوا تو مستعفی ہوجاؤں
گا۔اور اگر سستا نہ ہوا تو ایوان میں منصوبے کی حمایت کرنے پر رانا ثناء اﷲ
کو استعفیٰ دینا ہوگا۔ وزیراعلیٰ پر ٹرین منصوبے کا بھوت سوار ہے صوبے میں
مریضوں کا برا حال ہے اور غریب بے بس ہیں ۔اورنج منصوبے سے شہر کا درجہ
حرارت 2سے4ڈگری سینٹی گریڈ بڑ ھ جائے گا جبکہ یہ منصوبہ شہر کی اہم ثقافتی
عمارتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے 2ہزار د رختوں کو کاٹ دیا گیا ہے جس سے
آلودگی اور بیماریوں میں اضافہ ہوگا لوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا صحت کو
برقرار رکھنے کیلئے درختوں کا ہونا ضروری ہے لیکن حکومت درخت کاٹ کرکوئی
قومی خدمت نہیں کررہی ایک طرف شجرکاری مہم کے بینرز اور دوسری طرف درخت
کاٹنا سمجھ سے بالاتر ہے،حکومت پر اپوزیشن کے طرف سے یہ الزام بھی لگایا جا
رہا ہے کہ حکومت نے 611 ترقیاتی منصوبے روک کر اس منصوبے کو شروع کیاہے یہ
ریمارکس پنجاب اسمبلی میں دئیے گئے جو قومی اخبارات کی زینت بنے اس کا مطلب
ہے کہ اس انکشاف میں سچ ضرور ہے تو کہاں 611 ترقیاتی منصوبے اور کہاں ٹرین
منصوبہ کیا اورنج ٹرین منصوبے کی اہمیت ان منصوبوں سے اتنی ہی زیادہ ہے؟ کہ
باقی سب منصوبے ٹھپ اور یہ منصوبہ سر فہرست۔۔۔۔ ،ایک رپورٹ کے مطابق اورنج
ٹرین منصوبے کی تکمیل کیلئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور نے 87 کروڑ83 لاکھ روپے
نکال لیے ہیں جس کے باعث ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور مالی بحران کا شکار ہوگئی ہے
۔اس منصوبے کا عوام کو فائدہ ہوگا یا نقصان ۔یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر
اتنا ضرور ہے کہ میٹروبس منصوبہ ہو یا اورنج ٹرین منصوبہ اس سے حکمرانوں کو
کاروباری فائدہ ضرور ہوا ہے ٹھیکیداری سے لیکر میٹریل کے استعمال تک سب کچھ
ارباب اقتدار کے کاروباری مراکز سے ہی خریدنے کی خبریں موصول ہوئی ہیں جس
سے ان کو کثیر منافع حاصل ہوا ہوگا،اگر دیکھا جائے تو میٹرو بس کا عام عوام
کو فائدہ ضرور ہوا ہے مگر جتنا سرمایہ خرچ ہوا اس تناسب سے حاصل ہونے والا
فائدہ انتہائی قلیل ہے اسی طرح اورنج ٹرین کے منصوبہ سے بھی عوام کو سرمایہ
کے تناسب سے اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوگا جن تاجروں کے کاروبار اس منصوبے کی
زد میں آگئے وہ اپنے کاروبار کو دوبارہ کس طرح سٹینڈ کریں گے کیا حکومت نے
ان تاجروں کو نقصان ادا کیا ہے یا نہیں ۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک کاروبار
کئی دہائیوں سے ایک تاجر ایک جگہ پر کر رہا ہے اس منصوبے کی زد میں اس کا
کاروبار آگیا تو وہ تاجر دوربارہ اپنا کاروبار کیسے سٹینڈ کرے گا؟ اس کا
خوش حال گھرانہ تو فاقوں کا شکار ہوجائے گامیٹرو بس منصوبے کے باعث بہت سے
تاجروں کے کاروبار اجڑ گئے جو آج تک صحیح نہیں ہو سکے اب اورنج ٹرین منصوبہ
کے باعث ہزاروں تاجروں کے کاروبار اجڑ رہے ہیں میٹرو بس اور میٹرو ٹرین
منصوبوں سے متاثر تاجران اپنی کاروباری تباہی پر ان منصوبوں کو کیسے بھولیں
گے وہ تو اپنی نسلوں کو بتائیں گے کہ یہ ہیں وہ منصوبے جس نے ہمارے منہ
لقمہ چھینا تھا ہمیں بے روزگاری کا پروانہ دیا تھا ہم یہاں رہائشوں کی بات
اس لئے نہیں کر رہے کہ گھر تو معاوضہ لے کر کہیں بھی بن سکتے ہیں مگر
کاروبار کا سلسلہ دوبارہ بحال کرنا مشکل ترین کام ہے ،تاجران کا کہنا ہے کہ
ہمارا معاشی قتل کرکے اورنج ٹرین چلائی جارہا ہی ہمارے کاروبار کو تباہی سے
بچایا جائے۔
حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی زد میں کوئی بھی قدیمی عمارت نہیں
آرہی یہ منصوبہ عالمی معیار کا ہے جس کا فائدہ تادیر ہوگا ہم یہ منصوبہ ملک
کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کر رہے ہیں ۔ ترقیاتی منصوبوں کو جاری
رکھیں گے۔ حکومتی ان خوشنما دعوؤں کے باوجود حقائق اس کے برعکس ہیں جو اوپر
ذکر کردئیے گئے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ایسے منصوبوں کی بجائے بے روزگاروں
کو روزگار کی مستقل فراہمی کیلئے اقدام کرے ۔ایک منصوبے کی خاطر سینکڑوں
تعمیری منصوبوں کا گلہ نہ دبایا جائے۔ایسے منصوبے شروع نہ کئے جائیں جس سے
حکومت خود کنگال ہوجائے اور سیاستدانوں کی تجوریاں اتنی بھر جائیں کہ وہ
انھیں سنبھال ہی نہ سکیں۔حکومت تعمیری منصوبوں کا آغاز کرے جس کا فائدہ
تادیر اور سرمایہ کے تناسب سے زیادہ ہو۔٭٭ |
|