ہم کیوں بھول جاتے ہیں

ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی دین، عطا اور عنایت ہے جب ہمیں کوئی بڑی خوشی یا کامیابی ملتی ہے تو ہم اسے محض اپنی محنت اپنی طاقت اپنی ہمت اور اپنی صلاحیتوں کا نتیجہ سمجھ کر کیوں مغرور ہوئے جاتے ہیں اور اپنی کامیاب زندگی کی مستی میں کیوں دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان میں جو بھی پوشیدہ صلاحیتیں ہیں اور انہیں جانچنے اپنے اندر سے باہر نکالنے اور کام لینے کے جو کچھ بھی ذرائع یا وسائل انسان کو میسر ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی عنایت اور احسان ہے اللہ کی مرضی شامل حال نہ ہو تو انسان اپنی مرضی سے دو قدم بھی نہیں چل سکتا اٹھ کر پانی تک نہیں پی سکتا سامنے انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر سجے ہوئے ہوں اگر رب نہ چاہے تو انسان ان نعمتوں میں سے ایک لقمہ بھی اپنی مرضی سے منہ میں نہیں رکھ سکتا کہ رب کی وہ قدرت ہے کہ محض ‘کن‘ یعنی ہو جا کہہ دینے سے پوری کی پوری کائنات خلق ہو جاتی ہے اور اسی کے ایک اشارے پر چشم زدن میں یہ ہستی نابود بھی ہو سکتی ہے-

اگرچہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ یہ سب بھول جاتا ہے اگر نہ بھولے تو ظلم نہ کرے، کسی کی حق تلفی نہ کرے اللہ نے انسان کو جو اختیار کی قوت بخشی ہے اس کا ناحق استعمال نہ کرے اس کی مقررہ کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے رب اپنے بندوں کو اختیار دے کر آزماتا ہے کبھی تنگی و عسرت سے تو کبھی تونگری و عیش و عشرت سے کبھی خوشحالی سے کبھی بدحالی سے کبھی اولاد کی نعمت سے تو کبھی بے اولادی کی کلفت سے تو پھر ہم یہ حضرت انسان کیوں اس کی رحمتوں کے شکر گزار نہ ہوں کیوں رب کی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر نہ کریں جب کہ رب کریم نے صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے اجر عظیم کی نوید اور ایسا نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید بیان کی ہے جو انسان رب کے حکم کی تعمیل بسرو جشم برضا و رغبت بخوشی بجا لاتے ہیں-

ان کے لئے خوشخبری ہے کہ بے شک اللہ اپنے بندوں سے کئے وعدے پورے کرتا ہے لیکن یہ بندوں کی ناشکری نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ رب سے کئے وعدوں کو ہدایت پانے کے باوجود بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں اختیار حاصل کرنے کے بعد ایسے بے اختیار ہو جاتے ہیں کہ دیگر انسانوں کو کم تر اور برتر کے درجوں میں تقسیم کرنے لگتے ہیں خود کو بادشاہ اور دوسروں کو فقیر سمجھنے لگتے ہے خود کو اعلٰی اور دوسروں کو ادنٰی تصور کرتے ہیں غریب کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں دوسروں کو کبھی اپنی طاقت سے کبھی دولت کے بل پر کبھی اپنے الفاظ سے کبھی اپنے انداز سے بدسلوکی کا نشانہ بنا کر اذیت سے دوچار کرنے لگتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک طاقت ہے جو ان سب کی طاقتوں پر حاوی ہے کہ جس کے ایک اشارے پر ان کے یہ خود ساختہ غرور و تکبر کے محل نیست و نابود ہو جائیں گے کہ جب رسی دراز کرنے والا رسی کھینچنے پر آتا ہے تو غرور و تکبر کے بت مسمار ہونے میں ایک پل بھی نہیں لگتا اس سے پہلے کہ رب یہ دراز رسی کھینچنے کا حکم جاری کر دے کاش کہ ہوش میں آ جائیں یہ ظالم ظلم سے باز آ جائیں خود کو بھی انسان سمجھیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اپنے ہی جیسے انسان سمجھیں جیسے احساسات و جذبات اپنے لئے رکھتے ہیں دوسروں کے لئے بھی رکھیں جن سہولیات سے خود مستفیض ہیں دوسروں کے لئے بھی ان ذرائع و وسائل تک رسائی کے عمل کو ممکن بنانے کی سعی کریں نہ کے دوسروں کے لئے راستے مسدود کرنے کی سازشیں کرتے رہیں کہ بس ہم سب سے آگے ہم سب سے کامیاب ہم خوش و خرم رہیں باقی محض ہماری غلامی کرتے رہیں ہمارے ایک ادنٰی سے احسان کے بدلے اپنی گردنیں ہمیشہ کے لئے غلام بن کر ہمارے آگے سرنگوں رکھیں-

یاد رکھیں کہ چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی ہر نعمت اللہ تعالٰی کی بخشی ہوئی ہے چاہے وہ کچھ بھی ہو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں تو ان کا مصرف کس طرح کیا جائے ان کا حق کیسے ادا کیا جائے اس کا علم بھی انسان کو اختیار کے ساتھ ہی دیا ہے پھر ہم کیوں نہ اپنے اختیار کو اپنے علم کو رب تعالٰی کی منشاء کے مطابق استعمال کریں چاہے وہ نعمت قوت گفتار ہی کیوں نہ ہو کہ یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے اللہ تعالٰی نے جہاں انسان کو بے شمار نعمتیں بن مانگے عطا کی ہیں انہی میں سے قوت شامہ قوت بصارت وقت سماعت و قوت گفتار وغیرہ بھی ہے غرض کے اللہ تعالٰی نے جو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ بے مصرف نہیں اور ان کا درست استعمال ہی اصل میں رب کی نوازشات کا شکر بجا لانا اور صحیح حق ادا کرنا ہے مثال کے طور پر قوت گفتار کو ہی لے لیجئے کہ اس کے ذریعے ہم دوسروں سے بات کرتے ہیں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں ہم اس قوت سے کام لے کر دوسروں کے لئے خوشی و مسرت کا سامان کر سکتے ہیں اس قوت سے انسانیت کی کئی طرح سے خدمت کر سکتے ہیں لیکن اگر اسی قوت گفتار کا منفی استعمال انسان کے لئے تکلیف کا باعث بھی بن سکتا ہے کہ ہاتھ اور زبان سے کسی ذی روح کو ضرر نہ پہنچانے کا حکم ہے لیکن ہم میں سے اکثر بلا وجہ اپنی قوت گفتار کے بل پر رب کے حکم کو فراموش کرتے ہوئے دوسروں کو ناحق اذیت دیتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کے دیگر نعمتوں کی طرح قوت گفتار بحشنے والا یہ قوت سلب کر لینے پر بھی قادر ہے اور یقیناً جو رب کی عنایات کا ناجائز استعمال کرنے لگتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ رب ان سے یہ سب چھین لینے پر قادر ہے انسان کو ڈرنا چاہیے اس بات سے کہ ناحق کسی کی گفتار کسی کے لئے باعث آزار بن جائے اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے رب نے جو کچھ ہمیں عنایت کیا ہے ہمیں چاہئیے کہ ہم ان عنایات کی مسرتوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں- اللہ ہمیں ان نعمتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق و صلاحیتیں عطا فرمائے کہ ہم حق کے ساتھ ان نوازشات پر رب تعالٰی کا شکر بجا لائیں (آمین)-
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 488548 views Pakistani Muslim
.. View More