اسلام دین فطرت، مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے
کہ اسلام کی روح تین ناقابل تکذیب حقائق پر مبنی ہے۔ وہ ہیں توحید ، رسالت،
آخرت، اگرچہ تقاضا ایمان کی تکمیل کیلئے دیگر الہامی کتب، ملائکہ، تمام
انبیاء کرام، قیامت، یوم حساب، جنت اور جہنم وغیرہ پر یقین قلبی ضروری ہے
لیکن مذکورہ بالا تین حقائق میں پیغام حق کے تمام پہلو آشکار ہو جاتے ہیں۔
توحید نہ صرف انسان کو خالق و مالک کی یکتائی اور یگانگت کا تعارف پیش کرتی
ہے بلکہ آغاز حیات اور اس کی حقانیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ تصور رسالت کے
بغیر انسان اپنی زندگی اور اعمال کو صحیح سمت پر نہیں ڈال سکتا اور تصور
آخرت محض اخروی جز اوسزا کا یقین مطلق نہیں بلکہ یہ ہمیں حیات بعد الموت
اور دوسرے عالمین کے ساتھ ہماری وابستگی کا پیغام حق سناتا ہے۔ اسی لیے یاد
رہے کہ دین اسلام سے بے بہرہ ہونا ہی حقیقی وازلی جہالت ہے۔
اسلام کا مفہوم:
لغوی اعتبار سے اسلام کی کئی تعریفیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کی ایک نہایت
سادہ اور سہل تعریف ہے جسے سمجھے بغیر کوئی مسلمان اتباع دین کی روح کو
نہیں پا سکتا۔ اسلام کے سادہ سے معنی توہیں فرمانبرداری ،لیکن حق یہ کہ
فرمانبرداری محض زبان سے ادا نہیں ہو سکتی۔ فرمانبرداری کا اظہار عمل کے
سواء کسی طور پر بھی ممکن نہیں اور نہ اﷲ کریم زبانی فرمانبرداری کو کسی
خاطر میں لاتا ہے۔ اسی لئے پورے قرآن میں سب سے زیادہ تکرار ’’امنوا وعملوا
الصالحات‘‘کی ہے یعنی ایمان لاؤ اور اعمال صالح کرو۔
عمل کی ضرورت و اہمیت:
اﷲ کریم کی بنائی ہوئی یہ دنیا ہمہ وقت تغیر پذیر رہتی ہے یہی تغیر و تبدل
جسے ہم ارتقا کہہ سکتے ہیں کبھی بھی کسی تعطل کا شکار نہیں ہوتا۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لہذا یہ طے ہوا کہ یہ عالم بے سکون در حقیقت عالم اسباب ہے۔ یہاں ہر وقوع و
ظہور کسی سبب کا محتاج ہے۔ لہذا اس ہر لمحے بدلتی دنیا میں تغیر کیلئے ہمیں
عمل کرنا پڑے گا۔ قانون فطرت کے تحت اعمال صالح کرنے ہوں گے تو معاشروں کی
اصلاح ہوتی رہے گی اور دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی ۔ ورنہ جہنم تو بن ہی
رہی ہے کیونکہ مخلوق خدا منکرات یعنی بد اعمالیوں پر مصر ہے۔اﷲ تعالی ارشاد
فرماتا ہے: ’’ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا مابانفسھم ‘‘(الرعد:
11)’’بے شک اﷲ نہیں بدلتا حالت کسی قوم کی جب تک کہ وہ خود نہ بدلے ان (اوصاف)
کو جو ان کے نفسوں میں ہیں‘‘۔
اسلام اور تقاضہ عمل :
اس جہانِ فانی میں چھوٹے سے چھوٹا اور معمولی سے معمولی عمل بھی کسی مقصد
کے تحت کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اٹھ کر پانی پینا چاہے تو مقصد پیاس
بجھانا ہوتا ہے ،جب کسی کے دروازے پر پہنچ کر گھنٹی بجائی جائے تو مقصد
اہلِ خانہ کو متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات طے ہو گئی کہ انسان ایک با
مقصد زندگی گزارنے دنیا میں آیا ہے۔ لہذا اس عالم اسباب اور بامقصد حیات کا
تقاضہ ہے کہ ایمان کا اظہار عملاً کیا جائے تا کہ عامل کا مقصد و منشاء
واضح ہو جائے۔
انسان کا تعلق محض حیات ارضی تک محدود نہیں بلکہ اس کی حیثیت عالمینی ہے
یعنی دوسری دنیا سے بھی یہ وابستہ ہے لہذا اس کے پیش نظر کائنات میں عظیم
ترین نصب العین اور مقصد حیات انسان ہی کا ہے اس لیے اس کی زندگی کا ایک
ایک لمحہ انمول ہے۔ لہذا اسلامی نقطہ نظر سے تقاضہ عمل یہ ہے کہ معلوم کو
معمول بناتے جائیں ۔ یعنی جس شے کا علم جس گھڑی نصیب ہو جائے اسی دم اسے
اپنے اوپر لاگو کر لیں۔ اس ضمن میں اﷲ وحدہ لا شریک نے امت مسلمہ کو ترغیب
و تحریک کیلئے خاص قرآنی بصیرت عطا فرمائی تا کہ مومنین نیکی کے کاموں میں
مسابقت کی فضاء قائم کریں۔ اس کے علاوہ نیکی کے کاموں کی طرف بلا تاخیر
لپکیں اس ضمن میں سلطان باہو کے اس حکیمانہ قول کو رہنما اصول بنا لیں جو
انہوں نے پنجابی میں فرمایا ہے۔
جو دم غافل سو دم کافر
یعنی مومن حقیقی کا جو لمحہ غفلت میں گزرتا ہے وہ اس لمحے اپنے آپ کو کافر
شمار کرے۔ لہذا مسلمانوں کیلئے اولاد کی تعمیر سیرت اور کردار سازی میں اس
امر کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ نیکی کی طرف لپکیں دوسروں پر
سبقت حاصل کرنے کی جستجو میں رہیں اور معلوم کو معمول بناتے جائیں۔اﷲ تعالی
ارشاد فرماتا ہے :’’فاستبقوا الخیرات‘‘ (البقرہ : 148) ’’ سو سبقت کی جستجو
کرو بھلائی کے کاموں میں ‘‘ ۔’’ویسارعون فی الخیرات‘‘(آل عمران:114) ’’اور
وہ سرعت دکھاتے ہیں بھلائی کے کاموں میں ‘‘۔
انسان کی ازلی دشمن غفلت:
انسان کے شرف خلافت اور بے پایاں صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن و
حدیث کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہر مرد مومن
درحقیقت فی نفس ایک مکمل انقلابی تحریک کا علمبردار ہوتا ہے۔ لیکن اسی دنیا
میں ایک ایسا عظیم شر بھی ہے جس کا شکار ہو کر انسان ایک تنکے سے بھی زیادہ
حقیر بن جاتا ہے۔ اس نحوست کو غفلت کہتے ہیں جو کرہ ارض پرانسان کی سب سے
بڑی دشمن ہے اور شیطان کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ غفلت ایک قلبی کیفیت کا
نام ہے جس کے تحت ایک انسان اپنے خالق و مالک کے بارے میں ہر طرح کے شعوری
احساس سے قلب کو بیگانہ رکھتا ہے دراصل وہ نفسانی خواہشات کی پیروی میں
اپنے مالک کے علاوہ مقصد حیات سے بھی یکسر غافل ہو جاتا ہے اس مالک کی نظر
میں اب وہ انسان شرف انسانی سے گرتا ہوا جانوروں سے بھی بد تر ہو گیا۔ جس
طرح انسان بے کار اور ردی اشیاء اٹھا کر کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اسی طرح
غافلین کو بھی گھسیٹ کر جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ قرآن مجید اس
بارے رہنمائی کرتا ہے :’’ولقد ذرانا لجہنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب
لا یفقہون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھا اولئک
کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون‘‘(الاعراف: 179)’’اور یقینا پیدا کئے
ہیں ہم نے جہنم کیلئے بہت سے جن اورانسان ان کے دل تو ہیں مگر نہیں لیتے
سوچنے سمجھنے کا کام ان سے اور ان کی آنکھیں تو ہیں مگر نہیں دیکھتے ان سے
اور ان کے کان تو ہیں مگر نہیں سنتے وہ ان سے ،یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں
بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
‘‘۔’’ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ‘‘(الکہف : 28)’’اور مت
اطاعت کرو اس کی کہ غافل کر دیا ہے ہم نے جس کے دل کو اپنے ذکر سے اور وہ
پیروی کر رہا ہے اپنی خواہش نفس کی‘‘۔
نیکی اور بدی اکتسابی ہیں ۔ اﷲ کریم نے قرآنی ہدایت کے مطابق اسلامی فلسفہ
عمل واضح فرما دیا کہ نیکی اور بدی انسان کی اپنی کمائی ہوئی ہوتی ہے جیسا
کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انسان ہر کام کسی مقصد کے تحت کرتا ہے
اور مقصد کا تعین جستجو کی راہ ہموار کر دیتا ہے اس طرح انسان اپنے ارادے
اور نیت سے ایک عمل کماتا ہے اس نیت اور ارادے میں وہ مختارِ کل ہوتا ہے۔
انسان کا بدن ارادوں کے تابع ہے۔
اکتساب عمل کو مزید سمجھنے کیلئے ہرانسان کو اس راز حقیقت سے آگاہ ہونا
چاہیے تھا جسے خصوصاًامام غزالی نے تقریباً ایک ہزار برس پہلے اپنے تدبر
اور وجدان سے تلاش کیا اور خلیفہ ارض کو اس کے اپنے وجود ہستی کے ایک اہم
ترین راز سے مطلع فرمادیا۔ آج بھی توفیق حق سے امت مسلمہ کو صدیوں پہلے
بھولا ہوا سبق یاددلا رہا ہوں۔
حکمت خداوندی سے انسان کے بدن کو اس کے ارادوں کا تابع بنایا گیا یعنی جب
انسان کسی کام کا مکمل ارادہ کر لیتا ہے تو تمام ترجسمانی قوتیں اس کے حصول
کیلئے پورے بدن کو متحرک کر دیتی ہیں ایک شخص جب شراب نوشی کا تہیہ کر لیتا
ہے تو اس کا جسم اس ارادے کی اتباع میں شراب خانے کی طرف چل پڑتا ہے جب
کوئی ادائیگی نماز کا ارادہ کر لے تو قدم جائے نماز یا مسجد کی طرف بڑھنے
لگتے ہیں یہ بھی نیکی اور بدی کے اکتسابی ہونے کی دلیل دیتی ہے۔ اﷲ تعالی
ارشاد فرماتا ہے :’’الیوم تجزی کل نفس بما کسبت‘‘(المومن : 17)’’آج بدلہ
دیا جائے گا ہر متنفس کو اس کی کمائی کا۔‘‘
نیکی اور بدی کا رویہ :
اس کائنات موجودہ کا کوئی علم ایسا نہیں جو اپنی بے کنار وسعتوں کے ساتھ
قرآن حکیم کے صفحات قدسیہ پر رقم نہ ہو۔ ہمارے آئمہ کرام اور اولیاء کرام
کی بصیرت قدس نے آشکار فرمایا ہے کہ قرآن مجید ستر ہزار سے زیادہ علوم کا
مفصل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ آخر اﷲ کریم نے یونہی تو نہیں فرمایا۔ ’’افلا
یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا‘‘(سورۃمحمد: 24)’’سو کیا نہیں غور کرتے
یہ قرآن پر کیا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں۔‘‘
علم نفسیات جتنی وسعت سے قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے اس کے مقابلے میں
تمام تر نفسیاتی کتب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ بے شمار ایسے
انسانی رویے ہیں جن سے مسلمان جاہل اور اہل مغرب غافل ہیں، ان میں سے
دورویوں کا حوالہ قرآن حکیم سے پیش کر رہا ہوں یہ دونوں رویے انسان میں
نیکی اور بدی کے رجحان کی آئینہ داری کر رہے ہیں۔قرآن کہتا ہے :’’قالوا
سمعنا وعصینا‘‘(البقرہ : 93) ’’انہوں نے کہا سن تو لیا ہم نے( مگر مانیں گے
نہیں )اورہم نا فرمانی ہی کریں گے۔‘‘ ،’’ان یقولوا سمعنا
واطعنا‘‘(النور:51)’’تو وہ کہیں گے ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘
اسلامی اور غیراسلامی تصور عمل:
ہدایت انسانی کا حقیقی منبع و معدن قرآن و حدیث ہیں دین اسلام کا یہ زندہ
معجزہ ہے کہ یہ دونوں ذرائع صرف اور صرف اعمال صالحہ کی تعلیم و تحریک
فراہم کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک مومن دوسرے مومن کو اگر السلام علیکم کہتا
ہے تو اس کا یہ چھوٹا سا عمل بھی دور رس تعمیری اور اصلاحی اثرات مرتب کرتا
ہے۔ اس کے برعکس غیراسلامی معاشروں میں ہر وہ عمل مباح و جائز سمجھا جاتا
ہے جسے قرآن و حدیث نے گناہ قرار دیا ہے کاش انسان ظالم نہ ہوتا تو گناہ
اورصالحات کا تقابلی جائزہ ہی اس کی حق شناسی کیلئے کافی ہوتا گناہ کے
محرکات لالچ، خود غرضی ، حسد، جھوٹ، تکبر اور کینہ وغیرہ ہوتے ہیں جبکہ
اعمال صالحات کی بجا آوری رضائے الٰہی کیلئے اور خد اخوفی کے تحت کی جاتی
ہے۔ پوری کائنات مل کر بھی یہ ثابت نہیں کرسکتی اور نہ آئندہ کرسکے گی کہ
جوئے ، شراب، زنا، غصب، سود اور جھوٹ وغیرہ میں اصلاح انسانی کا کوئی
معمولی سا پہلو بھی مضمر ہو۔
نیکی کا حقیقی معیار خدا خوفی:
کسی بھی عمل کو پیہم کرتے رہنے کیلئے مستقل تحریک ترغیب درکار ہوتی ہے ایک
تو اس عمل کا مقصود خود ایک تحریک کا باعث ہوتا ہے دوسرا کسی اور کا اثر و
رسوخ بھی عمل کا محرک ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ان حقائق کے باوجود اسلام نے خدا
خوفی کو حقیقی نیکی کا موثر ترین محرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ صدق و صفا صرف
اسی نیک عمل میں ہوگی۔ جسے خدا خوفی کے تحت کیا جائے۔ لوگوں کے ڈر سے کی
جانے والی نیکی یا معاشرے میں عزت و شہرت کمانے کیلئے کی جانے والی نیکی
میں خلوص نیت کا ہمیشہ فقدان ہوتا ہے اس لیے اس نوعیت کی نیکیاں دنیا میں
اصلاح کی بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے :’’فلا تخشوا
الناس واخشونی‘‘(المائدہ : 44) ’’سو تم مت ڈرو لوگوں سے اور مجھ ہی سے ڈرو
۔‘‘
نتیجہ خیزی عمل سے ہے:
قرآن میں اعمال پر بے پناہ تاکید غماز ہے انسانی زندگی میں ان کی اہمیت
کیوں نہ ہو؟ اعمال ہمیشہ ایک نتیجہ پیدا کرتے ہیں اور ہر نتیجہ انسانی
زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی حکمت خداوندی ہے یہی ازلی ہدایت ہے۔
اسلام اور مقصد حیات :
اسلام کے برعکس تمام ادیان جمہوری فکر کے پروردہ ہیں پوری دنیا کی معاشرت
غماز ہے کہ جمہوری فکر ہر فرد واحد کو یہ آزادی دیتی ہے کہ وہ اپنے مقصد
حیات کا خود تعین کرے اور یوں انسان اپنی ذہنیت کے مطابق اپنا ایک نصب
العین وضع کر لے، اس نظریہ حیات کا اتباع صرف اور صرف خواہشات نفس کی پیروی
تک محدود رہتا ہے انسان واقعی کتنا ظالم ہے کہ اس تصور حیات سے پوری دنیا
آخرت سے محروم ہو گئی مگر اسی شیطنت کا اتباع کرنے والے سینہ ٹھونک کر خود
کو روشن خیال گردانتے ہیں۔ واقعی فتنوں کا دور ہے کہ ظلمتوں کے اسیر روشن
خیال بنے بیٹھے ہیں ۔ اسی طرز حیات کو اسلام اور قرآن نے باطل کی پہچان
قراردیا ہے اور انہیں یوں مخاطب کیا۔’’ان تتبعون الا الظن وان انتم الا
تخرصون‘‘(الانعام : 148) ’’نہیں پیروی کرتے تم مگر گمان کی اور نہیں ہو تم
مگر قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔‘‘
اس کے برعکس انسان کیلئے حقیقی مقصد حیات کا تعین رب کریم نے یوں فرمایا
:’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘(الذاریات:56) ’’اور نہیں پیدا کیا
میں نے جن و انسان کو سوائے اس غرض سے کہ میری بندگی کریں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ واضح طور پربیان فرما رہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان
کو اپنا ماتحت بنایا ہے یہی مقصد تخلیق انسانی ہے انسان اﷲ وحدہ لا شریک کا
خلیفہ ہے۔
اﷲ کریم کی بندگی یا ماتحتی میں ایک دقیق نکتہ ہے جسے انسان سمجھ نہیں پا
رہے وہ یہ کہ اﷲ کریم کی حقیقی غلامی انسان کو ناقابلِ تصور سرفرازی عطا
فرماتی ہے اور یہ انسانوں کی غلامی جیسی غلامی ہر گز نہیں۔ یہاں بہت سے
بندگان خدا کے اسماء کریمہ کے ذکر کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی ایک سید
الشعراء علامہ محمد اقبال ذوق بندگی اور ان کی سرفرازی ہی کافی ہے تائید
کیلئے۔ مختصراً بندگی کا مفہوم یہی ہے کہ اپنی مرضیوں کا ضبط کیا جائے اور
صرف آقا و مولا کے احکامات کی تعمیل کیلئے سر تسلیم خم کر لیا جائے اسی بنا
پر حق و باطل کا امتیاز روزروشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے۔
حق کی تعریف :
حق ہر اس حقیقت کو کہتے ہیں جسے بے شک جمیع مخلوقات یعنی تمام ذی عقل جھٹلا
دیں مگر علم انہیں کسی طورپر بھی نہ جھٹلا سکے باطل یا کفر کی تعریف ، باطل
یا کفر ہر اس ظن و گمان کو کہتے ہیں جسے جمع مخلوقات یعنی تمام ذی عقل بے
شک ایک سچائی تسلیم کریں مگر علم انہیں کبھی بھی اور کسی طور پر بھی حق
ثابت نہ کر سکے۔
قرآن حکیم کا سب سے بڑا چیلنج :
اﷲ کریم نے قرآن حکیم کے ذریعے انسانیت کو جو سب سے بڑا چیلنج پیش کیا ہے
وہ یہی حق و باطل میں امتیاز کرنا ہے۔ یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ حق و باطل
میں تمیز عقلی و حسی علوم سے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اس کیلئے ’’ہدایت‘‘ کو
سمجھنا ہو گا۔
اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آج جن لوگوں کا علم آفاقی وسعتوں کو چھو رہا ہے جن
کی دریافتیں معجزات کے مترادف ہیں مگر یہی لوگ ہدایت سے یکسر بیگانہ ہیں ۔
اس بے پایاں علم کے باوجود بھی ضالین کے زمرے میں شامل ہیں۔ اس کا ایک ہی
سبب ہے کہ وہ فرقانِ مجید سے بیگانگی پر مصر ہیں۔ کاش ہمارے مسلمانوں کو
بھی قرآن مجید کے فرقان ہونے کی سمجھ آ جائے۔
عبادت کی حکمت:
اگرچہ اسلام میں عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن میرا مقصود نماز دعا اور
اذکار مقدسہ کی حکمت کو اجاگر کرنا ہے یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر شے
کو وجود ہستی مادے سے نصیب ہوئی جو کہ خدائی کمال ہنر کی کرشمہ سازی ہے یہی
کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
حلال کا حساب حرام کا عذاب :
ذات سید کائناتﷺ نے جن تعلیمات اور امور پر بہت تاکید فرمائی ان میں سے ایک
موت کو کثرت سے یاد کرنا ہے۔ اس تاکید سے انحراف کا نتیجہ آج ہمارے سامنے
ہے آخرت سے لا علم اور بے خوف ہو کر مغضوب وضالین کی طریقت اپنا لی ہے۔
حقیقی مقصد حیات کو پس پشت ڈال کر مادہ پرستی کو مطمع قلب و نظر بنالیا ہے۔
اعمال صالحہ کی خو چھوڑ کر اعمال خبیثہ شعار کر لئے ہیں۔ عبادات کی جگہ موج
مستیوں نے لے لی ہے۔ اﷲ کو مان رہے ہیں مگر اﷲ کی نہیں مان رہے۔
المیہ یہ ہے کہ آخرت کے حساب کے معاملے میں ہم بے حس و بے پرواہ ہو چکے
ہیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ بارگاہِ خداوندی میں حساب حلال نعمتوں کا دینا
ہے کیونکہ اس دربار قدس میں حرام کا کوئی حساب نہیں بلکہ اس کا عذاب مقرر و
طے شدہ ہے جسے صرف طلب مغفرت ہی محو کر سکتی ہے۔ |