پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل کی منظوری سے قوم تقسیم ہوگئی

پنجاب اسمبلی میں تحفظ خواتین بل کی منظوری کے بعد سیکولر طبقہ، مغربی فکر کے حامی اور نام نہاد سول سوسائٹی کے علمبردار خم ٹھونک کر اس قانون کی طرف داری کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں، جبکہ تقریباً تمام مذہبی حلقے اس قانون کی نہ صرف مخالفت و مذمت کر رہے ہیں، بلکہ مزاحمت کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ خواتین کے تحفظ کا بل منشائے فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت نے اس بل کو مسترد کردیا ہے اور خود پنجاب حکومت کے اہم ارکان نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ ملک میں مغربی سوچ و فکر اور مغربی تہذیب کو پروان چڑھایا جارہا ہے، جس کی لیے وقتاً فوقتاً مغربی طرز کے قوانین بنائے جاتے ہیں، اس سے پہلے بھی ایسے قوانین بنائے گئے ہیں، جو معاشرے کے مزاج سے میل نہیں کھاتے۔ اس قسم کے قوانین سے نہ صرف معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگا، بلکہ خاندانی زندگی بری طرح متاثر ہوگی، کیونکہ شوہر و بیوی کی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے فیصلے بھی تھانے کچہری میں ہوں گے تو یقینا اس سے نفرتیں بڑھیں گی اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا اور خاندان ٹوٹیں گے، جو معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہے۔ مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہماری قومی پارلیمان اورصوبائی اسمبلیوں سے پاس کروائے جانے والے بہت سے ایسے بل بھی ہیں،جن کا پاکستانی معاشرے کے حقیقی مسائل اور عوام کی امنگوں سے کم ہی تعلق بنتا ہے اور ان کے پیچھے مغربی ایجنڈے کا عنصر واضح نظر آتا ہے اور یہ قوانین اسلام کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔ حالیہ قانون بھی اسلام و شریعت سے متصادم ہے، حالانکہ پاکستان کے1973ءکے آئین میں واضح ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کی قانون سازی قرآ ن وسنت کے دائرے کے اندر رہ کر ہوگی اور موجودہ تمام قوانین کا بھی جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور اس کے ساتھ اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے باقاعدہ ایک آئینی دارہ قائم ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے علماءاور قانونی ماہرین کی نمایندگی موجود ہے، لیکن حکومت نے خواتین کے تحفظ کے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل تک لے جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

دوسری جانب یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین پر دنیا بھر میں تشدد کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں، جو قوانین عورت کی آزادی کے نام سے بنائے جاتے ہیں، حقیقت میں یہ قوانین خود عورت کے لیے ہی مزید مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ عورت کو درپیش مسائل کے سدباب کے لیے اسلام اور معاشرے کے مزاج کے مطابق قوانین بنائے جائیں اور جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو قوانین پہلے سے موجود ہیں، ان کے تحت عورتوں کے قتل، ان کے جنسی استحصال، ان پر تشدد، ان پر تیزاب پھینکنے اور ان کے حقوق کو غصب کرنے کے واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں، ان کو سزائیں دی جائیں اور عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے نکال باہر سڑکوں پر لانے کی سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ معاشرے میں اسلامی تعلیم کو عام کیا جائے، تاکہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کامل طور پر ادا کرسکیں، لیکن یہاں ایک جانب دنیا کے غریب اور پسماندہ خطوں میں جہالت،جاہلانہ رسوم و روایات اور مردانگی کے مخصوص منفی تصورات کی بنا پر عورتوں پر جسمانی و نفسیاتی تشدد عام ہے تو دوسری جانب خود کو انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ کہلانے والے مغربی معاشروں نے عورت کو آزادی اور برابری کا جھانسہ دے کر گھروں سے نکالا اور مادی ہوس اور مردانہ خواہشات پر مبنی معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس کے بعد عورت کی حیثیت محض ایک کھلونے اور” جنس بازار“ کی ہوکر رہ گئی ہے۔

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور ہونے والے تحفظ خواتین بل پر گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے دستخط کردیے، جس کے بعد اس بل کو قانونی حیثیت مل گئی۔ پنجاب کے ہر ضلع میں تحفظ خواتین قانون پر مرحلے وار عملدرآمد ہوگا اور پہلے مرحلے میں قانون پر عملدرآمد ملتان میں ہوگا۔ اس قانون کے ذریعے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو تین طرح کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی۔ پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی، تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے، تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکے گا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی، جسے ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے 6 ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔ ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا، اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔ جب کہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی۔ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔ واضح رہے کہ تحفظ خواتین بل گزشتہ برس پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، تاہم اراکین کی جانب سے کئی اعتراضات اٹھائے جانے کے باعث یہ منظور نہ ہوسکا، تاہم 25 فروری کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر اس بل کی منظوری دی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پاس کیے گئے تحفظ خواتین بل کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو جے یو آئی عدالت جانے والے کو سپورٹ کرے گی۔ بل کی منظوری سے خاندان کے ٹوٹنے کا تصو ر ابھرتا ہے، جب خاندان ٹوٹے گا زلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بل کی منظوری سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ بل کو پاس کرانا مغرب کے ایجنڈے کو تقویت دینا ہے۔ بل پر عملدرآمد سے خاندانی نظام تباہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل مرد کی تذلیل ہے، جس کی آئین پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر برطانیہ کا کلچر آگے بڑھانا تھا، آزادی کیوں حاصل کی گئی تھی؟جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب تکبر کی بنیاد پر ایسا قانون نہ لائیں جو ملک میں خاندانی نظام کے انتشار کا باعث بنے۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین کے حقوق کا بل خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی بنیاد بنے گا، شوہر اور بیوی میں احترام ختم ہوجائے گا۔گزشتہ روز سنی اتحاد کونسل کے 20مفتیوں نے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے تحفظ خواتین بل کو قر آن و سنت سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر شرعی بل کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اسلام اور آئین سے متصادم بل واپس لے۔تحفظ خواتین بل پاکستان کو سیکولر لبرل ملک بنانے کی سازش کا حصہ ہے۔ میاں بیوی کے حساس رشتے کو مذاق نہ بنایا جائے۔ مرد کو گھر سے نکالنے اور ٹریکر لگانے جیسے اقدامات مغرب کی بھونڈی نقالی کے سوا کچھ نہیں۔ تحفظ خواتین بل میاں بیوی کے حقو ق و فرائض کے توازن کو متاثر کرے گا۔ تحفظ خواتین بل خواتین کو مادر پدر آزاد کرنے کی کوشش ہے۔ دینی طبقات پاکستان میں مغربی ایجنڈا مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ تحفظ خواتین بل سے خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ یہ بل یورپ سے در آمد کیا گیا ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کو ئی قانون نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے تحفظ خواتین بل آئین سے بھی متصادم ہے۔ حکمران مغربی آقاﺅں کو خوش کرنے کے لیے دینی اقدار وروایات کو پامال نہ کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلام خواتین پر تشدد کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ تحفظ خواتین بل کے نفاذ سے معاشرے میں فساد برپا ہو گا۔ مغرب کا کلچر مشرق میں نہیں چل سکتا۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں غیر اسلامی قوانین ناقابل برداشت ہیں۔ ملک میں تمام مکاتب فکر کے اکثر علمائے کرام نے پنجاب اسمبلی میں پاس کیے گئے بل کی مذمت کی ہے اور اسے اسلام سے متصادم قرار دیا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 645563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.