ملاوٹ کرنے والا مافیا اور ہماری آنے والی بیمار نسل

ہم بحیثیت پاکستانی مسلمان انسانوں کے اس بدبو دار معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں انسانوں کا معاشرہ کہتے ہوئے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ۔ ہم وہ شطر بے مہار بد دیانت، خائن، حرام خور، اس بد کردار معاشرے کو وہ ناسور ہیں جو حرام کے پیسے کا ارتکاز کرکے اپنے آنے والی نسلوں کو جسمانی، دماغی اور نفسیاتی طور رپر بیماری اور حرام کاری کی طرف راغب کر رہے ہیں اور انہیں ایک ایسے مستقل عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں جس نے انکی آنے والی نسلیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے متاثر ہو نگی اور اپاہج پیدا ہونگی ۔حرام اور مردہ جانوروں کا گوشت، کیمیکل زدہ دودھ، ا آلودہ پانی سے بھرپور پیپسی ذدہ گوشت، سرخ مرچ میں چوکر کی ملاوٹ، ہلدی میں سفیدی میں ملائے جانے والے پیلے چاک کی ملاوٹ، چائے میں سوکھے ہوئے گوبراور جانوروں کے خون اور چنے کے چھلکے کی ملاوٹ، دہی میں کپڑوں کو لگائے جانے والے کلف کا لگایا جان، مضر صحت مردار جانوروں کی چربی، انتڑیوں اور آلائشوں سے نکالا جانے والا گندہ گھی، مضر صحت کیمیکل سے تیار کردہ کیچپ ،مصالحہ جات میں مضر اشیاء کی ملاوٹ ،انسانوں کو بچانے والی دو نمبر ادویات الاہٰذالقیاس ہر وہ چیز جو ہمارے معاشرے میں کھانے پینے کیلئے استعمال کی جاتی ہے وہ ملاوٹ سے کسی طور بھی پاک نہیں ہوتیں۔ اور ہمارے معاشرے کے ان تمام خوراک اور ادویات تیار کرنے والے اداروں کے وہ تمام تاجر جو الحاج، نمازی، روزہ دار ، چہروں پر لمبی لمبی ڈاڑھیاں، سروں پر عمامے سجائے ہوئے، پیشانیوں پر کالے کالے محراب، ٹخنوں سے اوپر تک شلواریں، جیبوں میں سجائی ہوئی مسواکیں، ہاتھوں کی انگلیوں میں پھرتی ہوئی تسبیحیاں، سر سے لیکر پاؤں تک عبادات میں ڈوبے ہوئے جنکے دہانوں سے الحمدُ ﷲ، ماشاء اﷲ، انشا ء اﷲ اور سبحان اﷲ کے الفاظ اسطرح جھڑ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ قربت الہٰی میں غرق ہو کر اس قوم کیلئے ایک تحفہء خدا وندی ہیں اور قو م کو فائدہ پہنچا کر جنت کی طرف رواں دواں ہیں مگر شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ ملاوٹ کرنے والوں اور کم تولنے والوں کیلئے ہماے نبی کریم کا فرمان ہے کہ جسنے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ آج ہمارے معاشرے کے لوگ جو مختلف متعدی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کی جانب رواں دواں ہیں انہیں جن گناہوں کی سزا مل رہی ہے یہ گنا ہ ترک صلواۃ، ترک صوم اور ترک تہجد نہیں بلکہ حقوق اﷲ میں دھوکہ دہی کا وہ گناہ ہے جسے کرنے سے بار بار منع کیا گیا ہے مگر ہم صرف مدینے اور مکے کی گلیوں کے دیوانے ہیں ، ہم اپنے حرام کے اکھٹے کئے ہوئے پیسوں سے ہر جمعہ حرم پاک اور مسجد نبوی میں ادا کرنے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور ہم نے اپنے آپکو مسجدوں تک محدود کرکے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہی سب کچھ ہے اور یہی انہیں جنت نی نوید دیگا۔ اب حضور کریمﷺ کے اس فرمان سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جو شخص ملاوٹ یا پھر ناپ تول میں کمی کریگا وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو چکا اور ایسے لوگ نہ صرف انسانیت کے دشمن ہیں بلکہ وہ خدا اور رسول کے منکر بھی ہیں کہ وہ ان تمام باتوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے ذاتی لالچ اور منعفت کیلئے انسانوں کو بیمار کرکے موت کی طرف لے جا رہے ہیں اور ان سے بڑا دہشت گرد اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ دہشت گردی صرف خود کش حملوں یا پھر لوگوں پر بم برسانے کا نام ہیں نہیں بلکہ لوگوں کو ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور حرام اجزاء کی آمیزش کرکے لوگوں کو مارنا بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت حکومتی اداروں کے اہلکاروں کی ناک کے نیچے ہوتی ہے اور وہ سرکار ی مشینری جو ملاوٹ کرنے والے ناسوروں کیلئے معرض وجود میں لائی گئی ہے وہ بھی انکے ساتھ میل ملاپ کرکے انتہائی گھناؤنا اور گھٹیا کردا ادا کرتے ہوئے ان ناسوروں سے رشوت لیکر معاشرے میں بیماریاں پھیلانے کے جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔

اسی طرح پاکستان میں باہر سے درآمد شدہ اشیائے خور دو نوش جن میں بڑے بڑے سیاستدان ملوث ہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ان کھانے پینے کی درآمد شدہ 19 اشیاء میں حرام اجزاء شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان اشیاء میں سرخ اور سفید شراب، حرام جیلاٹن اور ان حرام جانوروں سے حاصل شدہ اجزاء شامل ہیں جو ہمارے لئے حرام ہیں اور مضر صحت ہیں ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خوراک کا آئینی معاملہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بن چکا ہے مگر حکام کی جانب سے تا حال ان حرام اشیاء کی درامد جاری ہے اور وہ سر عام مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں مگر ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی جو ہماری حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں مختلف مارکیٹوں مین سینکڑوں ایسی خورد و نوش کی اشیاء فروخت ہو رہی ہیں جنکی نشاندہی عمل میں لائی جا چکی ہے مگر ہمارے ادارے چپ سادھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو بنے ہوئے ستر سال ہونے کو آئے مگر تا حال ان حرام اشیائے کی فروخت پر تا حال پابندی اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ہمارے معاشرے کا یہ گھناؤنا مافیا کتنا طاقت ور ہے اسے حکومتی اور ان اداروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور یہ مافیا بلا خوف کھلے عام اس جرم کو تواتر سے کرتا چلا آرہا ہے۔وفاقی وزارت تجارت کے ایک اہم عہدے دار نے بتایا کہ بیرون ملک سے درآمد ہونے والی اشیائے خوردو نوش کے ڈبوں اور ریپروں پر مختلف کوڈز درج ہوتے ہیں جن سے کسی بھی چیز کا حلال اور حرام کا فرق معلوم کیا جا سکتا ہے مگر یہ کمپناں ان کوڈز کو یا تو مٹا دیتی ہیں یا پھر ان پر یہ کوڈز لکھے ہی نہیں جاتے۔ اسی طرح باہر سے درآمد کیا جانے وال وہ تیل جو صابن بنانے یا پھر جانوروں کو کھلانے کے کام آتا ہے اس سے انسانوں کو کھلایا جانے والا مضر صحت گھی تیار کرکے انسانوں کو بیمار کیا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت کو ان تمام باتوں کا علم ہے مگر وہ انکے سامنے بے بس ہے کیونکہ یاتو اسکے عزیز و اقارب اس دھندے میں ملوث ہیں یا پھر اسمبلیوں میں بیٹھا ہوا وہ طاقت ور طبقہ شامل ہے جو معاشرے کا وہ تعفن زدہ طبقہ ہے جسے اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں اور وہ لوگوں کو بیمار کرنے میں پیش پیش ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار تو پیسے کے بل بوتے پر ملاوٹ سے پاک غذائیں کھائیں اور ایک غریب اور مجبور دو نمبر ادویات ، حرام اور ملاوٹ شدہ اشیائے خورد و نوش کھانے پر مجبور ہو۔ یہ تمام اس شیطانی کھیل میں ملوث اﷲ اور رسول کا نام لیکر اس قوم کو لوٹنے والے ہر اس کام کو شیطان کے نام کر دیتے ہیں جس سے انکی بدنامی کا اندیشہ ہو ۔ اور انہوں نے شیطان سے ایسی ایسی کہانیاں منسوب کر رکھی ہیں جنکے پیچھے در پردہ یہ ان ہی کی کارستانی ہوتی ہے اور ہماری بھولی عوام ہر وقت خاموش نگاہوں اور آسمان کیطرف پھیلائے ہوئے ہاتھوں سے انکو سزا دلوانے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں مگر یہ سزائیں آسمان سے کبھی بھی نہیں اترتیں اور ہمارا انتہائی جابر اور ظالم حکمران جو ہر وقت جمہوریت کے راگ الاپتا نہیں تھکتا جب تک یہ قوم اس جابر اور ظالم حکمران کا احتساب نہیں کرینگے ہمارے معاشرے کے یہ غریب عوام ہمیشہ اس مافیا کا شکار ہو کر مرتا رہیگا۔ہمیں جاگیردارانہ، سرمایا دارانہ اور خورد و نوش مافیاکا خاتمہ کرکے اس معاشرے کو ان شیطانوں سے پاک کرنا ہے اور جب تک ہم اس کلچر کو ختم نہیں کرینگے ہم انکے ہاتھوں یونہی ذلیل و رسوا ہوتے رہینگے۔

پچھلے دنوں حکومت نے ناقص اور ملاوٹ شدہ اشیائے خورد ونوش بیچنے والوں، اور ہوٹل مافیا کی آڑ میں خزانے کو بھرنے کی ایک لولی لنگڑی مہم کا آغاز کیا جو ٹیں ٹیں فش ہو کر رہ گئی اور تا حال ہماری حکومت کا منہ چڑا رہی ہے۔ اس مہم میں چھوٹے چھوٹے دوکانداروں، ٹھیلے بانوں،خوانچہ فروشوں اور کھوکھے والوں کو جرمانے کرکے کروڑوں روپے جمع کئے گئے مگر نہ ہی ملاوٹ ذدہ دودھ بیچنے میں کوئی فرق پڑا ، نہ ہی گندے پانی والے گوشت سے جان چھوٹی، نہ ہی کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ بند ہوئی، نہ ہی ہوٹلوں پر مضر صحت کھانوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ، نہ ہی بیکریوں پر صحت سے کھیلنا بند ہوا، نہ ہی اسکولوں کے باہر اور ہسپتالوں کے اند ر مضر صحت کھانے کھلا کر معصوم بچوں اور مریضوں کی صحت سے کھیلنا بند ہوا تو پھر اتنا بڑا ڈرامہ جسکی تشہیر پر اربوں روپے خرچ کئے گئے اور ہر وقت ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنینے والی وہ عائشہ ممتاز جو انتہائی فعال دکھائی دیتی تھی نہ جانے ایکدم اسکے غبارے سے ہوا کیوں نکل گئی اور وہ ایکدم غائب ہو گئی اور تمام کے تمام قوانین دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ بڑے بڑے گرگے ، صنعت کار، تاجر ،ملاوٹ مافیا اور معاشرے کے ناسور قانون کے مقابلے میں جیت گئے۔اس پروگرام کا چند روز تک بڑا واویلا ہوتا رہا، گلیوں،بازاروں، ہوٹلوں، دفتروں اور گھروں میں کافی چرچا رہا اور سکے چند روز بعد ہی ہر طرف خاموشی طاری ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا جرم کسی بھی جرم پر خاموشی ہے۔بلا شبہ یہ جرائم انتہائی گھناؤنے ہیں اور ہماری خاموشی ان جرائم کو پس پشت ڈال دینے اور انہیں فراموش کر دینے میں انتہائی مجرمانہ کردار ادا کرتی ہے ۔ چھاپے مارنا، اخبارات میں اور ٹی وی میں خبریں نشر کرواکر جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا ایسے جرائم کی بیخ کنی اور انہیں جڑ سے ختم کرنے کیلئے نہ صرف قوانین کو انتہائی سخت ہونا ضروری ہے بلکہ اگر انجمن صارفین، نشریاتی ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوامی اور فلاحی ادارے اگر چاہئں تو اپنا فعال کردار ادا کرتے ہوئے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھا کر ملاوٹ جیسے جرائم پر قابو پا یا جا سکتا ہے اور ان اقدامات میں سب سے ذیادہ عوامی شعور کی بیداری بھی شامل ہے۔ ہمیں جہاں عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرور ت ہے وہیں ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی بھی ازحد ضرورت ہے ہر شخص ان گھناؤنے جرائم کے خاتم کو اگر اپنی اولین ترجیح میں شامل کرکے اسکے لئے کمر بستہ ہو جائے اور ملاوٹ مافیا کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور عوام طور پر ایک ایسی مہم کا آغاز کیا جائے جس سے حکومتی اداروں اور ان جرائم کی پشت پناہی کرنے والے اداروں اور اس جرم کے مرتکب ان افراد کے وہ حواری جو انکے برابر کے شراکت دار ہیں اور وہ لوگ جو ان جرائم کی پردہ پوشی کرنے میں پیش پیش ہیں انہیں ہر فورم پر نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ انکے اس گھناؤنے جرم کی خلاف اکٹھے ہو کر قانانی کارروائی کروائی جائے اور ان اداروں کی فرض شناسی اور بد دیانتی کو بھی سر عام لوگوں کے سامنے لایا جائے تاکہ اس مافیا کو کیفر کردار تک پہنچا کر قوم کو اور آنے والی نسل کو اپاہج ہونے اور لاغر پن سے بچایا جا سکے۔آج تک نہ تو کسی تاجر کی دوکان بند ہوئی نہ ہی کسی مل مالک کی صنعت یا کارخانہ بند ہوا جہاں پر یہ مضر صحت اشیائے خورد و نوش تیار ہوکر ہم تک پہنچتی ہیں۔ آئیں ہم سب مل کریہ عہد کریں کہ ہم اس ملاوٹ مافیا ، انکے حواریوں، انکی پردہ پوشی کرنے والوں اور ان حکومتی اداروں کا احتساب کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال کر اس قوم کو جان لیوا بیماریوں اور ان سے ہونے والی اموات سے بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرینگے۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 140719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.