پاکستان میں کپاس ابتری حالت

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اوردو تہائی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہی ہے پچھلے چند سالوں سے پاکستان کا کسان خسارے میں جا رہا ہے کسان کی اس ابتری حالت میں برسراقتدار طبقہ برابر کا شریک ہےجہنوں نے ایسے منصوبے شروع کئے جو زراعت کو تباہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسان کو کم قیمت پر بیج، کھاد اور ادویات فرہم کی جاتی۔ نہری پانی کی رسائی ہر جگہ پر ہوئی مگر بد قسمتی سے زراعت کے شعبے کو کنارے لگا دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں برآمدات کا حجم نہ ہونے کے برابر ہے ایک عرصہ تھا جب پاکستان میں کپاس کی فصل کا شمار اہم ترین اجناس میں ہوتا تھا مگراب نہیں۔

دنیا میں جو دس ممالک کپاس کی پیداوار میں اس وقت سرِ فہرست ہیں ان میں چین، بھارت اور امریکہ کے بعد چوتھا نمبر پاکستان کا ہے چین اور بھارت کپاس کی نصف عالمی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ برس کی فصل خاصی بہتر رہی اور 14.6 ملین گانٹھیں حاصل اس سال کی فصل کا ٹارگٹ 15 ملین گانٹھوں کا تھا۔ مگر بے وقت بارشوں اور کہرے سمیت متعدد قدرتی و غیر قدرتی وجوہات کے سبب کاٹن اسیسمنٹ کمیٹی کو تین بار پیداواری ہدف پر نظرِ ثانی کرنا پڑ گئی اور اب اندازہ ہے کہ بہت ہی تیر مارا تو 9.6 ملین گانٹھیں حاصل ہو جائیں گی۔یعنی گذشتہ فصل سے بھی پانچ ملین کم۔ 1998 کے بعد پاکستانی کپاس کی پیداوار میں یہ سب سے بڑی کمی بتائی جا رہی ہے۔

مگر بات صرف کپاس کی پیداوار میں 33 تا 35 فیصد کمی کی نہیں۔ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل صنعت کی مانگ پورا کرنے کے لیے چار ملین گانٹھیں درآمد کرنا ہوں گی۔ اگر پانچ ملین کی پیداواری کمی اور چار ملین کی اضافی درآمد کو جوڑا جائے تو اس نو ملین گانٹھ خسارے کی 65 تا 67 سینٹ فی پونڈ کے حساب سے قیمت لگ بھگ دو بلین ڈالر بیٹھتی ہے۔

اس بار پاکستان نے قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف پانچ فیصد سالانہ مقرر کیا ہے۔مگر کپاس کی پیداوار میں ایک تہائی سے زیادہ کمی اور اس کمی کے لوڈ شیڈنگ سے چلنے والی ٹیکسٹائیل انڈسٹری پر مزید منفی اثرات کے سبب کیا پانچ فیصد گروتھ کا ٹارگٹ حاصل ہو پائے گا؟

صرف ایک امید ہے کہ جادوگر اسحاق ڈار اعداد و شمار کو ڈبے میں ڈال کر زور زور سے ہلانے کے بعد شماریاتی خرگوش نکالیں اور معیشت کپاس کے سنگین پیداواری بحران کے باوجود پہلے سے زیادہ بولڈ اینڈ بیوٹی فل نظر آئے۔

اگر ایسا کرنے سے ممکن ہوتا تو صاحب کب کے کر چکے ہوتے مگر باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا اور ایسی منصوبہ بندی بنانی ہوگی جو کسان کی امنگوں کے مطابق ہو-
Abdul Waheed Rabbani
About the Author: Abdul Waheed Rabbani Read More Articles by Abdul Waheed Rabbani: 34 Articles with 35231 views Media Person, From Okara. Now in Lahore... View More