بارش (Rain) بادلوں سے زمین کی سطح پر پانی کے قطروں کا
علیحدہ علیحدہ گرنے کے عمل کو کہتے ہیں۔بارش کو پاک وہند میں بہت سے نام
ہیں۔ بارش، برکھا، میگھا، مینہ، پونم وغیرہ۔ہند کی ایک ریاست میگھالیہ کا
یہ نام وہاں بہت زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے ہے۔ بنگلہ دیش کے ایک دریا
میگھنا بھی مینہ یا میگھا سے بنا ہے۔
محترم قارئین :کبھی آپ نے غور کیاکہ یہ بارشیں کیسے ہوتی ہیں ؟کیا سائنس ہے
انکی ؟آئیے ہم آپ کو اس عظیم نعمت کے متعلق مفصل بتاتے ہیں ۔
سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کی سطح سے پانی بخارات بن کے اوپر کی طرف اٹھتا
ہے اور بادل بنتا ہے اور یہ بادل پھر بارش کا باعث بنتے ہیں۔ بارش کو مقیاس
المطر سے ناپا جاتا ہے۔ بارش زراعت اور پودوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتی
ہے۔ اوسطا بارش کا ایک قطرہ ایک یا دو ملی میٹر قطر کا ہوتا ہے۔
|
|
اس بات کو سمجھنا کہ بارشی ہوتی کیسی ہے ایک تو یہ امر ربی ہے لیکن اس میں
انسان کی عقل کے اطمینان کے لیے ظاہری پہلو بھی موجود ہیں جن پر انسان غور
کرتا ہے تو بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے سبحان تیری قدرت ۔بارش برسنے کے متعلق
جاننے سے پہلے ہمیں بادلوں کی اقسام کو جاننا ضروری ہے تاکہ قدرت کے اس
عظیم شاہکار کو احسن انداز میں سمجھ سکیں ۔
یہ تو ایک سطحی بات ہے کہ سورج کی نہایت تیز کرنوں کی وجہ سے سمندر کا پانی
نہایت تیزی سے بڑی مقدار میں بھاپ بن کر فضا میں اڑتا رہتا ہے۔گرم بھاپ
اوپر اٹھ جاتی ہے اور پھر ٹھنڈی ہوا سے جاکر ٹکراتی ہے۔ اس عمل سے بھاپ اور
ٹھنڈی ہوا میں زبردست تصادم ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہی بھاپ جو ٹھنڈی
ہوا سے جا ملی تھی ۔بادل میں بدل جاتی ہے۔ اسی بھاپ سے نو قسم کے بادل کی
تخلیق ہوتی ہے۔ ان نو قسم کے بادلوں کی فطرت بالکل الگ الگ ہوتی ہے۔ ان کی
فطرت کی تشکیل، اس میں موجود ٹھنڈک اور پانی برسانے کی صلاحیت پر منحصر
ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بادل کی کچھ اسطرح تقسیم کی گئی ہے ۔(1)سیرس(CIRRUS
):۔۔(2)سیروکومولس(CIRROCUMULUS)
(4)الٹوکومولس(ALTOCUMULUS)
(5)الٹواسٹریٹس(ALTOSTRATUS()۔۔۔۔(6)اسٹریٹوکوملس(STRATOCUMULUS)
(7)کیوملس(CUMULUS)۔۔۔۔(8)نمبواسٹیریٹس(NIMBOSTRATUS)
(9)اسٹیریٹس(ASTRATUS)
ہم نے جو بادلوں کی قسمیں پیش کی ہیں ان کے متعلق ضروری معلومات بھی آپ سے
عرض کرتے چلے جارہے
ہیں ۔
CIRRUS یہ بادل سب سے اونچائی پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے گھنگھریالے
یہ لاطینی لفظ CIRRUS کا ترجمہ ہے۔ اس کی شکل سفید گھنگھریالے پروں جیسی
ہوتی ہے۔ چونکہ یہ اونچائی پر ہے چنانچہ سردی زیادہ ہے۔ اس لیے پانی برف
بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس مقام سے اوپر اٹھنے پر بادل جم کر برف بن
جاتا ہے اور اولے بن کر گرنے لگتا ہے۔ آسمان پر پائے جانے والے یہ بلند
ترین بادل ہیں۔ جو ہواؤں کے رخ پر اڑتے ہیں اور عام طور پر طوفان کی نشان
دہی کرتے ہیں۔
انہی بادلوں میں کچھ بادل ایسے بھی ہیں ۔یہ پھولے پھولے سفید رنگ کے بادل
ہوتے ہیں اور یہ آسمان پر موٹی موٹی تہوں کے ڈھیر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
ان کی شکل گنبد نما ہوتی ہے۔ جو بالائی حصہ سے گول اور نچلے حصے سے چپٹے
ہوتے ہیں۔جب یہ بادل آسمان پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ توآسمان اس طرح دکھائی
دیتا ہے۔ جیسے اس پر روئی کے پہاڑوں کا نہایت ہی خوبصورت سلسلہ پھیلا ہوا
ہے۔ اس طرح کے بادل عام طور پر شدید موسم گرما میں دوپہر کے بعد دکھائی
دیتے ہیں۔ بادل جب پانی سے بھر جاتے ہیں تو گرجنے اور برسنے والے بن جاتے
ہیں۔
آپ نے عموماً آسمان پر بادل چاروں طرف پھیلے ہوئے اور دھندنما دیکھے ہوں گے۔
یہ زیادہ بلندی پر نہیں ہوتے ہیں۔عام طور پر یہ بادل خاموش دکھائی دیتے ہیں۔
مگر یہی بادل موسم خراب ہونے کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔یہ بادل گھنا نہیں
ہوتا ہے۔ اس کی بعض قسموں میں ہلکی ہلکی، رم جھم بارش ہوتی ہے۔ ٹھنڈے ملکوں
میں زیادہ تر رِم جھم رم جھم بارش ہوتی ہے۔ موسلادھار بارش کم ہوتی ہے۔
محترم قارئین :آپ نے ایسے بھی بادل دیکھیں ہوں گے کہ گہرے سلیٹی رنگ بادل
دکھائی دیتے ہیں۔
بادلوں کارنگ گہرا سلیٹی ہوتا ہے۔ ان کی کوئی واضح شکل و صورت نہیں ہوتی ہے۔
انہیں بادلوں کا مشاہدہ کر کے ماہر موسمیات، موسم کے بارے میں پیش گوئی
کرتے ہیں۔یہ بادلٍ بارش کے لحاظ سے سب بادلوں سے اہم ہے۔دور دور تک پھیلا
ہوا ہوتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز سے اوپر جاکر دیکھیں تویہ پہاڑ کی
طرح اونچا دکھائی دیتا ہے۔ گرم ممالک میں گرمی کے زمانہ میں بھاپ بن کر اور
گرم ہو کر اوپر اٹھتا ہے اور ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتاہے تو اور اوپر بھی چلا
جاتا ہے۔ اٹھتا ہوا آگے بڑھتاہے۔ اونچا بنتا جاتا ہے اور کالی گھٹاکی شکل
اختیار کرلیتا ہے۔ اسی سے دھواں دھار تیز موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ ا س سے
وہاں ٹھنڈا ہو کر اولے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اس لیے ایسی حالت میں بڑے
بڑے اولے بھی گرتے ہیں۔ بارش کے لیے یہ سب سے اہم بادل ہے۔
آسمان سے جو (بادل)پہاڑ کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں اولے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اولے
ڈالتا ہے۔ جس پر چاہے اور بچا دیتا ہے جس کو چاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی
بجلی کی کوند آنکھوں کو اچک لے جائے۔
آج کی جدید سائنس نے اس بات کو قبول کرلیا۔آج تسلیم کرلیا ہے کہ یہ حقیقت
ہے کہ آج ہم جو پانی استعمال کرتے ہیں، وہ کروڑوں، اربوں سالوں سے موجود ہے
اور اس کی موجودہ مقدار جو ہمیں میسر ہے۔ اس میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی
نہیں پیدا ہوئی ہے۔ پانی پوری زمین میں مختلف حالتوں میں اور شکلوں میں
استعمال ہورہا ہے۔ اس کو پودے اور جانور بھی استعمال کرتے ہیں۔ مگر حقیقتاً
یہ کبھی بھی غائب نہیں ہوتا ہے، یہ ایک بہت بڑے دائرے کی شکل میں بہتا رہتا
ہے، اسی کو ہم Hydrolgic Cycle کہتے ہیں۔(بحوالہ سائنس خدا کے حضور میں)
محترم قارئین :دیکھاآپ نے کہ ابھی ہم نے صرف بادل کے متعلق بات کی ہے ۔بارش
کے عنوان پر بات نہیں کی تو ضمناً بادل کے متعلق معلومات حاصل کی تو عقل
حیران و خیرہ رہ گئی کہ سبحان تیری قدرت ۔تیری ہرہر تخلیق میں نہ جانے کتنی
حکمتیں ہیں جو ہماری کمزور عقل سے ماوراء ہیں ۔
قارئین کرام :کرہ ارض پر موجود پانی سمندر، دریا، جھیلوں کی کھلی سطح، زمین
کے مسام ، دودھیلے حیوانات (میملز)کی جلد پر موجود مسام اور درختوں اور
پودوں کے پتوں پر ننھے ننھے سوراخوں سے بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی
وجہ کھلا ماحول، اس میں ہوا کی گردش اور ماحول کا درج حرارت ہے اور یہ سورج
کی تپش کا نتیجہ ہے۔ حکمت الہیہ کے تحت بخارات ہوا کے دوش پر عالمِ بالا کی
طرف حرکت کرتے ہیں۔ دراصل یہی بخارات بادل ہیں اور ان کی مقدار بادلوں کو
گہرا یا ہلکا بناتی ہے۔ سمندر کی سطح سے ان بخارات کے ساتھ نمک کے ذرات بھی
بادلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بادل جلد ہی ننھی آبی بوندوں میں تبدیل
ہوجاتے ہیں ۔ بخارات کا پانی کسی بھی ننھے سے نمک کے ذرے کے گرد جمع ہوجاتا
ہے یا پھر کائناتی دھول کے ننھے سے ذرے کے گرد جمع ہوتا ہے۔
|
|
جب بارش برستی ہے تو یہ ننھی آبی بوندیں یعنی ایک مرکز کے گرد جمع شدہ پانی،
عالمِ بالا سے زمین کی طرف جیسے جیسے گرتی ہیں تو ہر بوند پھیلتی ہے اور اس
کی سطح کا رقبہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باعث آبی بوند کے گرنے کی رفتار ہوا کی
رکاوٹ کے باعث کم ہوجاتی ہے اور بوند نہایت آہستگی سے زمین پر اس طرح گرتی
ہے ۔جیسے کسی پیراشوٹ کے ذریعے اتری ہو، ورنہ بغیر رکاوٹ کے عالمِ بالا سے
برسنے والی بوندیں زمینی مخلوق کا زندہ رہنا مشکل بنا دیں ۔ یہ سب اﷲ کی
قدرت کا کرشمہ ہے۔
محترم قارئین :اﷲ عزوجل قران مجید میں بارش کے متعلق ارشاد فرماتا ہے جس
میں غور فکر کی دعوت دی جاتی ہے ۔
’’وَ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ
نَبَاتَ کُلِّ شَیْء ٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ
حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ
وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا
وَّ غَیْرَ مُتَشٰبِہٍ اُنْظُرُوْٓا اِلٰی ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ
یَنْعِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
()‘‘(پ۷،سورۃ الانعام،آیت:۹۹)
ترجمۂ کنزالایمان :’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے
ہر اگنے والی چیز نکالی ۔تو ہم نے اس سے نکالی سبزی جس میں سے دانے نکالتے
ہیں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گابھے سے پاس پاس گچھے اور انگور
کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اورکسی بات میں الگ اس کاپھل
دیکھوجب پھلے اور اس کا پکنا بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں
کیلئے‘‘۔
سُبْحَانَ اللّٰہ !کس قدر اس فوائد ہیں بارش کے کہ اسی کی بدولت ربّ
عَزَّوَجَلَّ ہمیں زمین کے سینہ سے پھل اور سبزیاں عطا فرماتا ہے۔ ایک اور
مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اَفَرَء َیْتُمُ الْمَآء َ الَّذِیْ
تَشْرَبُوْنَ()ء َاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ
الْمُنْزِلُوْنَ()(پ27،سورۃ الواقعہ ،آیت:69)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :تو بَھلا بتاؤ تو وہ پانی جو پیتے ہو ۔کیا تم نے اسے
بادل سے اتارا یا ہم ہیں اتارنے والے۔
قارئین ذی قدر!سبحان اﷲ !کتنے خوبصورت انداز میں پانی کے برسنے کا معاملہ
بیان کردیاگیا۔سبحان تیری قدرت ۔
یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ جب بھی بادلوں کی آواز سنیں تو
یہ دعا پڑھ لیاکریں ۔
’’ (سُبْحَانَ الَّذِیْ َیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلاَئِکَۃُ
مِنْ خِیفَتِہِ‘‘)پاک ہے۔ وہ ذات کہ رعد (کڑک )حمد وثنا کے ساتھ اسکی تسبیح
کرتی ہے اور فرشتے بھی اسکے خوف سے ۔ (موطاامام لک )!!!!!
محترم قارئین !کافی حد تک تو ہم یہ بات آپ کو باور کروانے میں کامیاب ہوگئے
کہ اس بارش کے پیچھے کیا کیا سائنسی محرکات ہوتے ہیں قدرت کا کس قدر انمول
تحفہ ہے کبھی پانی کے متعلق آپ نے غور فرمایا اس میں کیا کیا سائنسی باریک
بینی موجود ہے ۔آئیے ہم بتاتے ہیں ۔
پانی تخلیق کائنات کا عظیم شاہکار ہے!کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی اﷲ تبارک
و تعالی نے کر ارض ر وافر مقدار میں پانی پیدا فرمایا۔ کائنات کے دوسرے
کروں پر پانی موجود ہے یا نہیں ۔ اس پر تحقیق جاری ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور
آکسیجن گیسوں کا مجموعہ ہے۔ ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور آکسیجن کا ایک
مالیکیول باہم مل کر پانی بناتے ہیں ۔ اگر پانی میں برقی رو گزاری جائے تو
وہ آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم ہو جائے گا۔آکسیجن آگ بھڑکانے والی گیس
ہے، جب کہ ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے مگر خدا کی قدرت کہ جب یہ دونوں
گیسیں باہم مل کر پانی بن جائیں تو یہی آگ بجھانے والا پانی بن جاتا ہے۔
سُبْحَانَ اللّٰہ !ہے نا حیرت کی بات ۔تو پھر ایک مرتبہ بلند آواز میں
کہیے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ!!
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی پانی کے بغیر پرورش نہیں پاسکتی۔ ایک پودے کی ہی
مثال لے لیتے ہیں۔ کسی بھی پودے کے بیج کے اندر موجود جنین میں اﷲ عزوجل نے
پانی کی ایک مخصوص مقدار پیدا فرمائی ہے۔ جو جنین کو نہ صرف بڑے عرصے تک
زندہ رکھتی ہے۔بلکہ آہستہ آہستہ نشوونما بھی دیتی ہے۔جب یہ بیج زمین میں
بویا جاتاہے اور پانی سے سینچا جاتا ہے تو بیج نشوونما پاکر جلد ہی پودے کی
شکل میں پھوٹ نکلتا ہے۔ اگر بیج میں پانی مفقود ہوجائے تو اس کے اندر کا
جنین مردہ ہوجائے گااور کسی صورت بھی نشوونما نہ پاسکے گا۔
سُبْحَانَ اللّٰہ !!بات بارش سے شروع ہوئی تھی لیکن تخلیقِ کائنات کے مظاہر
پر غور کریں تو بات سے بات نکلتی ہے ایک سے ایک بات ایسی معلوم ہوتی ہے کہ
عقل حیران رہ جاتی ہے اور بندہ کہہ اُٹھتا ہے سبحان تیری قدرت ۔
قران مجید تو علم و حکمت کا منبع ہے ۔جس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود
ہے۔کلام مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
’’اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًاثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہ
ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ وَ
یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء ِ مِنْ جِبَالٍ فِیْہَا مِنْ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ
بِہٖ مَنْ یَّشَآء ُ وَ یَصْرِفُہ عَنْ مَّنْ یَّشَآء ُ ِ()(پ ،سورۃ
النور،آیت:۴۳)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللّٰہ نرم نرم چَلاتا ہے
بادل کوپھر انہیں آپس میں مِلاتا ہے پھر انہیں تہہ پر تہہ کردیتا ہے تو تُو
دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو
برف کے پہاڑ ہیں ان میں سے کچھ اولے پھر ڈالتا ہے انہیں جس پر چاہے اور
پھیردیتا ہے انہیں جس سے چاہے قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھ لے جائے
‘‘۔
قارئین ۔کلام مجید فرقانِ حمید میں ایک اور مقام پر بارش کے متعلق ارشادِ
باری تعالیٰ ہے :’’فَفَتَحْنَآ اَبْوٰبَ السَّمَآء ِ بِمَآء ٍ
مُّنْہَمِرٍ()وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآء ُ
عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ()(پ ۲۷،سورۃ القمر،آیت:۱۱تا۱۲)
ترجمہ کنزالایمان :’’تو ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے زور کے بہتے پانی
سے اور زمین چشمے کرکے بہا دی تو دونوں پانی مل گئے اس مقدار پر جو مقدّر
تھی ۔‘‘
قارئین دیکھیں کہ بارش تخلیق کائنات کا کتنا پیارا شاہکار ہے ۔سبحان تیری
قدرت ۔میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ آج کے اس سائنسی دور میں اسلام کی تعلیمات
کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ اسلام کی حقانیت کا ادراک بھی ہوجائے اور
دور کہ پہیہ کے ساتھ ہم بھی چلتے رہیں ۔میں کس حد تک اپنی زعم میں کامیاب
ہوا یہ سب آپ کی آراء ہی سے معلوم ہوسکے گا۔اپنی دعاؤں میں احقرالحقیر پر
تقصیر ڈاکٹر ظہوراحمد کو ضرور اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھئے گا۔۔۔آپ دینی
مسائل ،تعلیمی میدان میں پیش آنے والے معاملات وکیرئیر پلاننگ کے حوالے سے
ہم سے مشاورت کرسکتے ہیں ۔ہماری کوشش ہوگی کہ ہم بھرپور انداز میں آپ کے
ساتھ تعاون کرسکیں ۔۔۔
|