المیزان

یہ کیا ۔۔۔۔۔۔ ابھی چند لمحے پہلے تو یہ نظارہ نہ تھا۔ ایکدم سے سب نظارے منظر سے کیوں ہٹ گئے۔ عجیب بھر بھراہٹ ہے اس بے ہنگم بھیڑ میں۔ ماحول و حالات ہی اتنے سخت تھے کہ رویوں کا سخت ہونا غیر معمولی بات نہ تھی۔ عجب طرح کی تشویش میں لوگ مبتلا تھے کہ اب کیا ہوگا؟ اب ہمارا کیا بنے گا؟ ہم دنیا میں ایسے کیوں رہے ویسے رہنا چاہیے تھا۔ دنیا میں؟؟ مطلب یہ دنیا نہ تھی؟ لوگوں کے حالات و منظر اور بربراہٹ نے اشارہ دیا کہ یہ تو میدان محشر تھا۔ وہی میدان محشر جہاں غریبوں کا حشر کرنے والوں کا نشر ہونا طے تھا۔ یہ جاننے کے بعد کچھ لوگوں کو جاننے کی کوشش کی تو کچھ لیڈر و حکمران کو پہچاننے میں آسانی ہوئی۔ مگر یہ کیا جس وزیر کے پروٹوکول کی وجہ سے بچوں نے رکشوں میں جنم لیا وہ یہاں بے حال و بے آسرا لوگوں سے چھپتا ـ’’الامان الامان‘‘پکارتا بھاگ رہا تھا اور چیختے چلاتے اس کے پیچھے بھاگتے پھر رہے تھے کہ ہمارا قرض چکاؤ۔ ابھی اس ہنگامے سے نظر ہٹی ہی تھی کہ ایک اور لیڈر نظر آیا۔ ارے وہی جس کے پروٹو کول میں بسمہ نے اپنی جان سے ہاتھ دھویا۔ وہ بھی علی الاعلان معافی مانگتے ہوئے بھاگتا جارہا تھا۔ حیرانگی اپنے عروج کو اس وقت پہنچی جب وہ لوگ بھی الامان والحفیظ پکارتے نظر آئے جن کو اپنے وطن کا پانی بھی راس نہ آتا تھا۔ اور کچھ تو ایسے تھے کہ ان کے سروں پر ان کے ہی محلوں کا بوجھ تھاجو وہ سنبھالے نہیں سنبھال پارہے تھے۔ اسی خیال میں کھوئی ہوئی تھی کہ اک خیال نے روح کو تڑپا کر رکھ دیا کہ حشر میں مجھ جیسے عام بندے کا حال سوچ و سمجھ سے باہر ہے تو ان غاصیوں ، ٹھیکیداروں اور حکمرانوں کا کیا بنے گا جنہوں نے نجانے کتنے معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نجانے اب کیا بیتے گی دنیا کے حکمرانوں پر اس کائنات کے حکمران کے سامنے۔ ان سوچو سے نکل نہ پائی تھی کہ دو حکمران بھائیوں کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ ایک مجمع جمع تھا۔ عجب کشمکش تھی۔ پر اک آواز ابھری ’’ان کا نامہ اعمال پیش کیا جائے‘‘۔ فرشتوں نے بڑی کرخت آواز میں پوچھا’’اپنی زندگی کو کن کاموں میں خرچ کیا؟‘‘ وہ ہم نے موٹروے اور جو میٹرو بنائی۔ دونوں بھائی یک زبان ہو کر بولے۔ جو پیسہ دیا وہ کہاں خرچ کیا؟
اگلے سوال پر دونوں بھائی ہڑبڑاتے ہوئے گویا ہوئے’’وہ سر ہم نے میٹرو بنائی تھی‘‘۔
اچھا تو یہ بتاؤ وہ عمرہ جاتی سے آگے جاتی ہوئی سڑک صرف اپنی آسانی کے لیے کیوں تعمیر کروائی؟
فرشتو ں نے پوچھا تو دونوں بھائی سوچنے کے بعد بولے
لیکن ہم نے کراچی سے اسلام آباد تک موٹروے تو بنائی نا۔۔۔۔۔
اس کے بعد سوال و جواب کا طویل مرحلہ شروع ہوا۔ مکالمہ حاضر خدمت ہے۔
فرشتے: تمہارے دور میں ہسپتالوں میں بچے چوہوں کو کھا جاتے تھے تم کہاں تھے؟
دو بھائی: وہ تب ہم موٹروے بنا رہے تھے۔
فرشتے: ادویات کی عدم دستیابی سے لوگ ہسپتالوں میں مرتے رہے کیوں؟
دو بھائی: وہ ہم میٹرو پراجیکٹس میں مصروف تھے۔
فرشتے: تھر میں سینکڑوں لوگ حاکم تھے اور تم لوگ حاکم تھے۔
دو بھائی: وہ تو پیدا ہی کمزور ہوئے تھے ہمارا قصور نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
فرشتے: لاکھوں خاندانوں نے غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کیں۔ ان کا گناہ اپنی جگہ کہیں نہ کہیں وجہ تم دونوں بھی تھے کیوں؟
دو نوں بھائی: وہ ہم موٹر وے بنا رہے تھے۔
فرشتے : چھوٹے میاں آپ تو گاتے پھرتے تھے’’اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی‘‘یہ لائن بڑے میاں کو بھی پڑھا دیتے جنہوں نے آپ سے مل کر 18کڑوڑ عوام کو کھربوں کا مقروض بنایا۔ ہاں بھئی بتاؤ کیوں اتنا قرضہ لیا؟
دو بھائی: وہ جو ہم نے موٹر وے اور اورنج ٹرین بنائی تھی اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتے: تم دونوں نے ووٹ لینے کے لیے دہشت گردوں سے بنارکھی تھی۔
دو بھائی: نہیں نہیں بلکہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ انہوں نے پکڑے جانے کے خوف سے ہم سے بنارکھی تھی۔
فرشتے: ماڈل ٹاؤن میں اندھا دھند فائرنگ کے بعد 14لوگ اپنی جان سے گئے اور سینکڑوں کو گولیاں لگی۔ اس سب کا ذمہ دار کون؟
دو بھائی: یہ تو ہمارا قصور نہیں تھا ہم تو سو رہے تھے تب۔
فرشتے: مہنگائی کیوں کر رکھی تھی تم لوگوں نے ؟
دو بھائی: ہاں وہ مہنگائی وہ ہم نے نہیں کر رکھی تھی وہ تو آئی ایم ایف کے کہنے پہ ہوئی تھی۔
فرشتے: اچھا آخری سوال۔ یہ بتاؤ تمہاری حکومت میں پاکستان نے ترقی کی یا تمہارے خاندان کا کاروبار بڑھا؟
دو بھائی: (کافی دیر سوچنے کے بعد) وہ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ہمیں اتنی سی زندگی میں کچھ سمجھ ہی نہیں آئی کہ کرنا کیا ہے؟ تو ہم نے وہ پھر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ موٹروے اور میٹرو۔۔۔۔۔۔
فرشتے: بس تم لوگوں کی صفائی کا وقت گزر گیا۔ یہ سننا تھا کہ مارے خوف کے میری آنکھ کھل گئی۔
Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23533 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More